میں دیکھتی رہ گئی

رومانوی مکمل کہانیاں

میں دیکھتی رہ گئی

کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔

مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔
ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔

میں دیکھتی رہ گئی

میں دیکھتی رہ گئی

ملتان کے بارے میں تو آپ سب جانتے ھی ھوں گے ۔ پاکستان کا سب سے قدیمی شہر اور میں اسی شہر کے پوش علاقے گلگشت کی رہائشی ھوں ۔ بینک میں جاب ھے اور اچھی زندگی گزار رہی ھوں ۔میرا نام انیلا، عمر 25، جسم سمارٹ، فگر دوست کہتی ھیں “نیلی۔۔۔ تو قیامت ھے قیامت” سینہ 34 ،کمر27، کولہے 32، یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں شانی کی وجہ سے بہت پریشان تھی ۔ شانی میرا بوائے فرینڈ اور سب کچھ ھے۔ شانی میرا پڑوسی ھے۔ وہ 19 سال کا معصوم صورت جوان انتہائی خوبصورت آنکھیں مناسب قد اور گورا چٹا پٹھان ھے۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب کشش ھے۔ جو دیکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ھے۔ میری سب فرینڈز کی رال بہتی تھی اُسے دیکھتے ھی وہ گیلی ھو جاتی تھیں۔ اور جب وہ ھاتھ ملاتا یا پھر قریب بیٹھتا تو۔۔۔۔اُس کے بدن سے عجیب لہریں نکلتی محسوس ھوتیں اور بے اختیار اُسکی بانہوں میں جانے اور اُس سے لپٹنے کو دل کرتا ۔ میں شانی کے سارے بدن سے واقف تھی ۔ اُسے ھر جگہ سے کئی بار پیار کر چکی تھی مگر جی کبھی نہیں بھرا تھا اُس سے ۔ میں جانتی تھی وہ میرے علاوہ کسی کو نہیں چاھتا اور نہ ھی قریب جاتا ھے ۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا یہ میری خوش فہمی ھے۔

کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ شانی مجھ سے دور رہنے کی کوشش کر رہا ھے ۔میں پوچھتی تو وہ ٹال جاتا ۔ مگر مجھے لگ رہا تھا کہیں کوئی چکر ضرور ھے ۔

کیونکہ وہ اب مجھ سے کترا تا تھا اور جب بھی میرے سامنے آتا تو اسکی نظریں جھک جاتی تھیں۔ اب ناں ھی وہ مجھ سے پیار کرتا اور نہ ھی کوئی کس وغیرہ۔ میں اسی وجہ سے کافی پریشان تھی۔ کیونکہ میری خواھش پوری نہیں ھو رھی تھی ۔ میں اُس کیساتھ مزہ لینے کی عادی ھو چکی تھی۔ او اب مجھے مزہ کی طلب تھی مگر شانی تھا کہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ خیر اسی دوران مجھے جاب کے سلسلے میں راجن پور جانا پڑا ۔راجن پور میں میری رھائش کا انتظام ایک بنگلے میں کیا گیا تھا ۔۔ 4 گھنٹے کے سفر کے بعد میں تھک گئی جب میں راجن پور پہنچھی تو اس وقت شام کے 7 بجے تھے گرمیوں کے دن تھے ۔ بنگلے میں میرے علاوہ ایک 16 سالہ لڑکا تھا ۔ گیٹ اُس نے کھولا اور بتایا وہ چوکیدار کا بیٹا ھے اور اپنے باپ کی جگہ رات کیلئے آیا ۔کیونکہ اُس کا باپ بیمار ھو گیا گرمی لگ گئی جبھی وہ یہاں آیا ھے۔لڑکا دکھنے میں کم عمر لگتا تھا ۔

اُس نے مجھے روم دکھایا میں اندر گئی تو اندر کافی حبس تھی۔ میں نے لڑکے سے پوچھا اےسی کیوں نہیں چلایا ؟

وہ بولا باجی “بجلی نہیں ھے اور جنریٹر بھی خراب ھے” 8 بجے بجلی آجا ئے گی۔

میں نے اسے کہا چلو تم کچھ ٹھنڈا لے آؤ۔

وہ مڑ کر چلا گیا ۔ تو میں نے اپنا بیگ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور واش روم گئی جب باھر نکلی تو پسینے سے مکمل بھیگ چکی تھی ۔ روم میں لڑکا کولڈ ڈرنک لئے کھڑا تھا ۔ میں کمرے سے باھر آتے ھوئے بولی اندت بہت گرمی ھے ۔ باھر آجاؤ سامنے لان میں لوھے کی کرسیاں تھیں میں وھاں بیٹھی ۔ اور اسے کہا لاؤ مجھے دو ۔ یہ کہتے ھی جب میں لڑکے کی جانب دیکھا تو ۔۔ مجھے حیرت ھوئی اُس کی نظریں میرے سینے کا ابھاروں پر مرکوز تھیں۔ میں نے اپنی آنکھیں جھکا کر اپنے سینے کی جانب دیکھا تو ۔۔ وھاں کا نظارہ ھی پر کشش تھا ۔ صورتحال یوں تھی کہ پسینے سے میری سفید لان کی شرٹ میرے بدن پر چپک گئی تھی اور بلیک بریزئر صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ بلکہ میرے سینے کے سڈول ابھاروں کی گولائیاں بھی دکھ رہی تھیں۔ میں نے پھر نظریں اُٹھا کر لڑکے کو دیکھا تو وہ اب بھی میرے اپھاروں کو دیکھے جا رھا تھا ۔ میں مسکرا دی ۔ اور میرے ذھن میں اپنی پیاس بجھانے کی ترکیب آگئی ۔ میں پہلے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اب میں سیدھی ھو کر آگے کی طرف جھک گئی ۔ ایسا کرنے سے میرے گلے میں سے میرے گورے ممے صاف دکھنے لگے ۔ لڑکا بس میرے مموں کو گھورے جا رھا تھا ۔ اُسے آس پاس کا کچھ ھوش نہیں تھا لگتا تھا اُس نے زندگی میں پہلی بار یہ نظارہ دیکھا ھے ۔ میں نے اُسکی ٹانگوں کے بیچ دیکھا تو مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا ۔ وھا ں سے اُس کی قمیض تمبو بنی ھوئی تھی۔ میں یہ دیکھتے ھی گرم ھو گئی ۔ میں نے اُ س کی طرف دیکھا اور کہا کیا دیکھ رہے ھو ۔ وہ ھڑ بڑا گیا ۔ اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا آسکا حلق خشک ھو گیا تھا شاید وہ کچھ ناں بولا ۔ میں نے اُسے کہا بیٹھو وہ میرے سامنے بیٹھ گیا میں نے نام پوچھا تو اُس نے گلو بتایا ۔

میں نے کہا ” گلو تم کیا کرتے ھو ؟

وہ بولا ” باجی میں زمینو ں پر کام کرتا ھوں”

میں نے پوچھا ” تمہاری شادی ھو گئی ؟”

وہ کچھ شرماتے ھوئے بولا ناں باجی ابھی کہاں”

مین نے کہا ” گلو تمہارے یہاں تو جلدی شادی کر دیتے ھیں ناں سب کی ؟”

وہ بولا ” ھاں باجی پر بابا کہتے ھیں ابھی تو چھوٹا ھے۔ مگر میری امی کہتی ھیں اسکی شادی کردو مگر بابا نہیں مانتا”

میں نے پوچھا ۔ کبھی کسی لڑکی سے پیار کیا ھے ؟

وہ بولا ” یہ کیا ھوتا ھے جی ؟”

میں نے کہا ” کوئی لڑکی اچھی لگی ھو اور اُسے چومنے کادل کیا ھو کبھی ؟”

وہ بولا ” نا ں باجی ناں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ھے “۔

میں سمجھ گئی یہ زیرو میٹر ھے ۔۔۔ اسکے گھوڑے پر سواری کرنے کا الگ ھی سواد آئے گا ۔ کچھ دیر ھم وھیں بیٹھے رھے پھر بجلی آگئی تو میں اندر کمرے میں آگئی اور اے سی آن کیا دوپٹہ اتارا اور بیڈ پر لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد گلو آیا اور کھانے کا پوچھا میں نے کہا تم کھانا لے آؤ مگر میں کھاؤن گی دیر سے ۔ وہ کھانا لینے چلا گیا ۔ تو میں نے باتھ لیا اور ٹراؤزر اور ڈھیلی شرٹ بغیر پرریزئر کے پہن لی ۔ لیپ ٹاپ نکالا کچھ کام وغیرہ کرنے لگی تو گلو کھانے لے کر آچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی تو میں نے اندر بلایا اس نے بتا کھانا لگا دوں باجی ؟ میں نے کہا نہیں تم پہلے مجھے دبادو کچھ دیر میں بہت تھک گئی ھوں ۔

اور میں یہ کہتی ھوئی اُٹھ کر بیڈ پر ٹانگیں سامنے کی طرف کرکے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔

اور اُسے ھاتھ سے اشارہ کیا یہاں آؤ

وہ پاس آیا تو میں نے پاؤں کی جانب اسے بیٹھنے کو کہا

جیسے ھی وہ ٹانگیں لٹکا کر بیڈ پر میرے قریب بیٹھا میں نے اپنا پاؤں اُٹھا کر اسکی گود میں رکھ دیا اور کہا گلو۔ ذرا دھیرے سے دبا دو۔

اسنے میرے پاؤں کو اپنے کھردرے ھاتھوں میں پکڑا اور دبانے لگا ۔ آسکے ھاتھ بہت سخت تھے ۔

وہ کبھی میری انگلیاں دباتا اور کبھی ایڑھی ۔ میں نے کہا

گلو پنڈلی اور گٹھنا بھی دباؤ نا “

اس نے بنا کچھ کہے میری نرم ملائم پنڈلی کو دبانے لگا اور پھر وہ گھٹنے کی طرف اپنا ھاتھ بڑھانے لگا ۔اسکے ھاتھ بہت سخت تھے مجھے سکون مل رہا تھا مگر میری گرمی بڑھتی جا رھی تھی ۔ مجھے شانی یاد آنے لگا ۔ شانی میری جان مجھے بہت مسلتا تھا ۔ اسکے ھاتھ بہت نرم تھے ۔ مگر آج پہلی بار میرے بدن کو کھردرے ھاتھوں کا لمس مل رھا تھا ۔ کچھ دیر بعد میں نیچھے کی جانب کھسک گئی اور میری رانوں کے بلکل بیچ گلو آگیا ۔ میں اپنی دوسری ٹانگ گلو کی گود میں رکھی تو نیچے سے اُسکا ہتھیار میزائل کی طرح اوپر کی جانب منہ کیئے کھڑا تھا میری ٹانگ اسکے لوڑے پر رکھ دی ۔ ٹانگ ٹچ ھوتے ھی آسکے لوڑے نے جھٹکا مارا میرے منہ سے سسکاری نکل گئی ” آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ گلو۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ھے سخت سا تمہاری گود میں “؟

گلو نے جلدی سے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے لنڈ کو پکڑا اور اپنی ٹانگوں کے ببیچ دبایا جیسے ھی ھاتھ چھوڑا وہ پھر سر اٹھا کر کھڑا ھو گیا ۔

اس نے دوبارہ دبانے کی کوشش کی مگر لنڈ پھر سے لوھا ھو گیا ۔

میں اُٹھ بیٹھی اور اس کے لنڈ کو اپنے ھاتھ میں لیتے ھوئے بولی لاؤ میں دیکھتی ھوں کیا ھے اسیے۔

میں نے جیسے ھی اسکا لنڈ پکڑا مجھے ایک دم جھر جھری آگئی ۔اُف وہ بہت لمبا موٹا اور بہت زیادہ سخت تھا کسی ڈنڈے کی طرح ۔

میں نے گلو کو بیڈ پر لٹایا اور لپٹ گئی اُس سے ۔ اور بے تحاشا آسے چومنے لگی وہ ۔ چپ چاپ پڑا رھا ۔ میں کبھی اسکا ماتھا چومتی اور کبھی اسکے گال پھر میں نے اسکے خشک ھونٹ اپنے لبوں یں لیئے اور چوسنے لگی ۔ اب وہ بھی چوسنے لگا تھا ۔ میں ایک ھاتھ سے مسلسل اس کے تنے ھوئے لوڑے کو مسلے جا رھی تھی ۔ کافی دیر چوسنے کے بعد میں اُٹھی اور اپنی شرٹ اور ٹراؤزر دونوں اتار دئے ۔ میں نے گلو سے کہا

تم بھی اپنے کپڑے اتارو “

وہ بولا ” باجی مجھے شرم آتی ھے “

میں اسکے لنڈ کو پکڑتے ھوئے بولی ” تمہیں شرم آتی ھے ناں اس بیچارے کو تو نہیں آتی۔”

پھر میں نے خود ھی گلو کی شرٹ اوپر کی ار گلے سے نکال دی ۔ اور اُس کی شلوار کا ازاربند کھولا اور شلوار ڈھیلی کر دی ۔ پھر میں نے پاؤن کی طرف جا کر اسکی شلوار کھینچ کر اتار دی ۔ گلو ننگا ھوتے ھی سمٹ گیا اور اپنے لںڈ کو ٹانگوں میں چھپانے لگا ۔

میں نے قریب جا کر اس کی ٹانگیں کھولیں تو ۔۔ اسکے لںڈ کو دیکھتی ھی رھ گئی ۔ ٹیوب لوئٹ کی مرکری روشنی میں اسکا سانولا لنڈ۔ اُف ۔۔۔ کوئی 8 انچ لمبا اور ڈھائی انچ موٹا ۔۔۔۔ جھٹکے مارتا مجھے اپنی طرف بلا رہا تھا ۔ میں حیران اس لیئے تھی کہ بظاھر بچہ دکھنے والا یہ لڑکا کتنا پاور فل لنڈ کا مالک ھے۔۔۔واھ۔۔۔۔۔ میں نے اسے لٹایا اور اسکے گھوڑے جتنے لنڈ کو اپنے دونوں ھاتھوں سے دبانے اور سہلانے لگی ۔ چند لمحوں بعد میں اسکی ٹوپی منہ میں لی اور چوسنے لگی ۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ کیا ٹیسٹ تھا اسکا ۔

کافی دیر اسے چوسنے کے بعد میں نے اس سے کہا گلو اب میں تھک گئی ھوں تم مجھے چومو اور اپنی زبان سے میرے پورے بدن کا مساج کرو ۔

وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھا اور مجھے چومنے لگا ۔۔وہ بلکل اناڑی تھا ۔۔ مگر اسکی بے تابی مجھے مست کر رہی تھی ۔۔۔ وہ بے صبروں کی طر ح اور بھوکوں کی طرح مجھے چوس رھا تھا نچوڑ رہا تھا ۔ اپنی زبان سے میرے ممے چوسے ۔۔۔میرے اکڑے ھوئے گلابی رنگ کے نپلز کو چوسا ۔۔ میرے دودھ دبا دبا کر بہت سا جوس پیا ۔ پھر وہ میرے پیٹ کو چومتا ھوا ٹانگو کے عین بیچ ۔۔۔ میری خوبصورت جھیل پر آکر ٹہر گیا اور اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ پھر اپنی زبان نکالی اور میری کشتی کے بادبان کو سہلانے لگا اپنی زبان سے ۔۔ میری سسکاریا نکلنے لگیں ۔ آہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف اوھ ۔۔۔ گلو ۔۔۔۔۔

چوس لو اسکا سارا پانی پی جاؤ ۔۔۔ یار۔۔۔ میری چوت اب پانی سے چکنی ھو چکی تھی ۔۔ گلو نے وہ سارا پانی اپنی زبان سے چوس لیا ۔۔۔ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رھا تھا میں بے قابو ھو رہی تھی ۔ میں نے گلو سے کہا اپنے لوڑے کو اس میں ڈال دو وہ بولا “باجی مجھے نہیں آتا “

اھو میں بولی پاگل اسے کھول اور اپنے لنڈ کا ٹوپا اس میں پھنسا کر اندر ڈال دے ۔۔

اس نے ایسے ھی کیا مگر اسکا لوڑا بہت موٹا تھا اندر ھی نہیں گھس رہا تھا ۔۔ میں جلدی سے اٹھی اور پرس میں سے کریم نکالی اور اسکے ٹوپے پر لگا دی اسکے آدھے لنڈ تک اور اسے کہا اب ڈالو۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں اور اپنی چوت کے لپس کو اپنی انگلیوں سے کھول دیا گلو نے ۔۔ اپنے لنڈ کا ٹوپا سوراخ پر رکھ کر سارا وزن مجھ پر ڈال دیا ۔۔۔ مجھے اپنی چوت میں شدید تکلیف ھوءی مگر میں برداشت کرتی رھی وہ بس اندر ھی دھکیلتا رہا ۔۔ بڑی مشکل سے ٹوپا اندر گھسا ۔۔ میں سانس روکے پڑی تھی ۔ میں نے سانس لیا اور اسے کہا پیچھے ھو کر دھکا مارو ۔ گلو پیچھے ھوا اور پھر اس نے زور سے دھکا مارا تو میری چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔۔ آہ

مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ گلو ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ رک جاؤ ۔۔۔ کچھ دیر رکنے کے بعد گلو کو کہا کہ اب وہ آگے پیچھے ہو ۔۔ وہ دھکے لگانے لگا تو مجھے پھر سے مزہ آنے لگا ۔۔ درد ختم ھو کر مزہ آنے لگا ۔۔ گلو کا آدھا لنڈ میری چوت میں پھنس پھنس کر جا رہا تھا ۔۔ اسکے لنڈ کی رگڑ سے مجھے بہت سکون مل رہا تھا مگر تشنگی بڑھتی جا رھی تھی گلو نان سٹاپ دھکے لگائے جا رہا تھا ۔

مجھے مزہ آنے لگا ۔۔۔ اہ اوہ ۔۔ گلو ۔۔۔ میری جان ۔۔۔ زرا زور سے ۔۔ گلو نے میری آواز سنتے ھی اپنی رفتار بڑھائی ۔۔۔ مسلسل 20 منٹ کی چدائی کے بعد میں چھوٹ گئی مگر ۔۔ گلو کا لنڈ اب بھی ویسا تنا ھوا تھا ۔۔ کچھ دیر ریست کے بعد ۔۔ گلو ایک بار پھر مجھ پر سوار ھو گیا اب کی بار مجھے بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ گلو کا لںڈ بھی کافی اندر تک جا رہا تھا اور میری اندر کی دیواروں کو چوٹ مرتے ھوئے مجھے پاگل کر رہا تھا آخر کا ر گلو نے ایک زوردار دھکا مارا اوور مجھے مموں سے پکڑ کر زور سے جکڑ لیا اور اسکے لنڈ نے لاوا اگل دیا جو میری چوت کو ٹھنڈا کرتا ھوا باھر تک بہہ آیا ۔۔ ھم کافی دیر یونہی پڑے رہے ۔۔پھر میں وہاں جتنے دن رہی ھم روز 4 سے 5 بار سیکس کرتے۔۔۔ میری چوت کافی کھل چکی تھی ۔ اور شانی بھی بھول چکا تھا ۔۔ پھر وھاں سے واپسی پر میں نے گلو کو موبائل سیٹ اور کچھ رقم دی اور کہا میں جب بھی بلاؤں تم ملتان آجانا ۔

 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page