پٹھان ڈرائیور — یاسمین
کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔
جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔
ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
پٹھان ڈرائیور -- یاسمین
پٹھان ڈرائیور — یاسمین
میرا نام یاسمین ہے اور میں بہت عرصے بعد اپنے بھائی کے گھر کراچی گئی تھی۔ جب سے بھائی کی شادی ہوئی تھی، بھابھی سے صرف ایک بار ملاقات ہوئی تھی۔ بھائی کے بچے بڑے ہو گئے تھے، دو لڑکوں کی شادی ہو چکی تھی اور ایک غیر شادی شدہ تھا۔ دو بیٹیوں میں سے ایک کی شادی ہوئی تھی اور وہ کینیڈا جا کر سیٹل ہو گئی، جبکہ دوسری بیٹی غیر شادی شدہ تھی اور میڈیکل کی پڑھائی کر رہی تھی۔
جب میں بھائی کے گھر گئی تو سب بہت خوش تھے۔ وہ میری بہت زیادہ خدمت کرتے تھے۔ سب کا ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ “پھوپھو، آپ خاندان میں اتنی پیاری اور خوبصورت کیوں ہیں؟ باقی بھی خوبصورت ہیں لیکن آپ جیسی نہیں، اتنا خوبصورت جسم اور لمبے لمبے پیارے بال اور نیلی آنکھیں۔”
ڈرائیور سے پہلی ملاقات
بھائی کے گھر آئے ہوئے مجھے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ ان کے گھر میں ایک ذاتی ڈرائیور تھا جو کہ پٹھان تھا۔ اس کی عمر تقریباً 30 سال ہو گی اور وہ چھ سال سے ان کے گھر میں کام کر رہا تھا۔ وہ خوبصورت اور بھرے بھرے جسم کا مالک تھا۔ بہت چست بدن کا لڑکا تھا جو مجھے اچھا لگتا تھا۔ وہ خوش اخلاقی سے بھی پیش آتا تھا۔ اکثر میں اس کے ساتھ مارکیٹ جایا کرتی تھی۔ ایک دن میں اکیلی مارکیٹ گئی۔ جب میں گاڑی میں بیٹھ کر اس نے سلام کیا، میں پچھلی سیٹ پر، بالکل ڈرائیور سیٹ کے پیچھے بیٹھ گئی۔
راستے میں میں نے پوچھا، “کیا آپ کی شادی ہوئی ہے؟” جواب میں اس نے کہا، “جی باجی۔” میں نے پھر پوچھا، “کتنے بچے ہیں؟” اس نے کہا، “کوئی بچہ نہیں۔” میں نے پوچھا، “کیوں؟” کہا، “اللہ کی مرضی۔” میں نے پوچھا، “شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟” کہا، “سات سال۔” میں نے پوچھا، “ابھی تک بچہ نہیں ہوا یا کوئی بچے لانے کا پروگرام نہیں؟” کہا، “باجی، بس اللہ کی مرضی ہے۔ پروگرام تو ہے لیکن ابھی تک بچہ نہیں ہوا۔”
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد میں نے پھر پوچھا، “کوئی علاج وغیرہ کروایا ہے؟” کہا، “بہت علاج کروایا ہے۔” میں نے پوچھا، “دونوں ٹھیک ہو؟” کہا، “جی باجی۔” میں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پھر پوچھا، “اب بھی ٹھیک اور صحت مند ہو؟” کہا، “باجی، کیا مطلب؟” میں نے کہا، “اکثر مردوں میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن اپنی انا کی وجہ سے ٹیسٹ نہیں کرواتے ہیں۔” کہا، “باجی، میں بالکل اے ون ہوں۔” اس نے شیشے میں مجھے پیچھے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن خاموش رہا۔ اتنے میں ہم مارکیٹ پہنچ گئے اور اس نے گاڑی پارک کی۔ میں نے کہا، “آؤ میرے ساتھ۔”
مارکیٹ میں خریداری
ہم کپڑوں کی مارکیٹ میں شاپنگ کر رہے تھے اور میں نے اس کی بیوی کے لیے بھی ایک سوٹ خریدا۔ پھر ہم دوسری مارکیٹ میں ساتھ ساتھ رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس کی جھجک دور کروں۔ جب ہم انڈرگارمنٹ کی دکان پر گئے تو وہ باہر رُک گیا۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ اندر آگیا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ کھڑا کر لیا اور ساتھ میں اسے ہلکا سا چھونے کی کوشش بھی کی۔ میں نے دکان دار سے اپنے سائز کے انڈرگارمنٹس، برا اور پینٹی، مختلف برانڈز، مختلف رنگ اور سائز میں مانگے۔
جیسے ہی دکان دار کا منہ دوسری طرف ہوا، میں نے آہستہ سے پوچھا، “کون سا رنگ میرے لیے ٹھیک ہو گا؟” وہ میری طرف دیکھ کر خاموش رہا۔ تو میں نے اپنی کہنی سے اسے ہلکا سا چھوا تاکہ وہ مشورہ دے۔ وہ حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔ آہستہ سے مسکرا کر اس نے فوم والی برا کی طرف اشارہ کیا کہ یہ فٹ ہو گی۔ اس نے آہستہ سے پوچھا، “باجی، سائز کیا ہے؟” میں نے کہا، “23، 40 کے درمیان۔” اس نے ہاتھ کے اشارے سے 👍 کیا اور پھر سرخ رنگ کے نیٹ والے کی طرف بھی اشارہ کیا۔ میں نے وہ دونوں لے لیے اور راستے میں جوس پی کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔
میں نے گاڑی میں بیٹھ کر پوچھا، “یہ برا آپ کو پسند ہے؟” کہا، “جی۔” میں نے پوچھا، “آپ کی بیوی بھی یہیں سے لیتی ہے؟” کہنے لگا، “باجی، اس کے ممے نہیں ہیں، بہت چھوٹے چھوٹے ہیں۔” میں نے کہا، “اسے بڑا کرو۔” کہا، “کیسے؟” میں نے کہا، “اس پر خوب ہاتھ مارو اور چوسو، سکنگ کرو۔” کہا، “باجی، وہ اس میں بہت ٹھنڈی ہے۔” میں نے پوچھا، “آپ کو کیسے ممے اور گانڈ پسند ہیں؟” کہا، “باجی، بڑے بڑے ممے اور بڑی گانڈ۔”
میں نے کہا، “اچھا، کتنے بڑے؟” اس نے شیشے میں مجھے پیچھے دیکھا لیکن کچھ نہیں کہا۔ میں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سر سے دوپٹہ نیچے کیا اور سینے سے بھی دوپٹہ ہٹا دیا۔ جس سے میرے بڑے بڑے ممے خوب واضح نظر آنے لگے۔ میرا دل بہت کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کے ساتھ صرف گپ شپ لگائی۔ وہ بھی ایک کلاس کا لڑکا تھا۔ خوبصورت تھا اور بھرا بھرا جسم تھا۔ اتنے میں گھر قریب آیا تو میں نے کہا، “یہ باتیں کسی کو نہیں بتانا، پھر ملاقات کریں گے۔” ہنس کر کہا، “ٹھیک ہے باجی۔” اور ہم گھر پہنچ گئے۔
میرا پلان اور اس کا نتیجہ
جمعہ کی رات سب کا پروگرام پارک جانے کا بنا۔ جس وقت جانے کا پروگرام بن رہا تھا، میں نے بھرپور شرکت کی لیکن عین وقت پر اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر گھر پر رکنے کا کہا۔ میں نے کہا کہ میری طبیعت خراب ہے، باہر نہیں جا سکتی۔ سب نے کہا، “ٹھیک ہے، پروگرام کینسل کر دیتے ہیں، کوئی نہیں جاتا۔” بڑی مشکل سے میں نے سب کو راضی کیا اور کہا، “ڈرائیور کو واپس بھیج دو گھر پر، پھر جب آنا ہو تو کال کر دینا، وہ آجائے گا۔” سب راضی ہو گئے۔ بہت مشکل سے منت سماجت کر کے میں نے سب کو بھیج دیا۔
گھر خالی ہو چکا تھا۔ میرے دل و دماغ پر ڈرائیور سے چدوانے کی خواہش سوار تھی، اسی لیے میں نے یہ منصوبہ بندی کی تھی اور جھوٹ موٹ کی بیماری کا بہانہ بنایا تھا۔ سب کے جاتے ہی میں خوب تیار ہوئی اور ہلکے پھلکے کپڑے پہنے اور ڈرائیور کا انتظار کرنے لگی، جبکہ ڈرائیور کو اس بات کا علم نہیں تھا اور نہ ہی میں نے اس کے ساتھ کوئی پروگرام طے کیا تھا۔ تقریباً 50 منٹ بعد ڈرائیور آگیا۔ وہ سیدھا اپنے نوکروں کے کوارٹر میں جانے لگا تو میں نے آواز دی اور وہ اندر آگیا۔ میں صوفے پر بغیر دوپٹے کے بیٹھی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا، کہا، “جی باجی۔” میں نے کہا، “یار، ایک کپ چائے میرے لیے اور ایک اپنے لیے بناؤ اور ساتھ کچھ بسکٹ بھی لے آؤ۔” کہا، “ٹھیک ہے باجی۔”
جب وہ کچن گیا تو میں صوفے پر ایسے نیم دراز ہو گئی کہ ایک پاؤں نیچے اور ایک صوفے پر تھا۔ میں مووی دیکھ رہی تھی۔ تقریباً 15 منٹ بعد وہ چائے اور بسکٹ لایا۔ مجھے اس طرح بیٹھے دیکھ کر اس نے آنکھیں نیچے کر لیں۔ میں نے کہا، “جا کر گیٹ کو کنڈی لگا دو۔” کہا، “جی باجی۔” کنڈی لگانے کے بعد آ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا، “آؤ صوفے پر بیٹھو۔” اس نے کہا، “باجی، میں اپنے کوارٹر پر جاتا ہوں۔” میں نے پوچھا، “کیوں، ادھر کون ہے؟” کہا، “کوئی بھی نہیں۔” میں نے کہا، “چائے پیو۔ میری اس ٹانگ میں سخت درد ہو رہا ہے جو صوفے کے نیچے لٹک رہی ہے۔ اس کو ذرا دبا دو۔ اسی درد کی وجہ سے میں ان کے ساتھ نہیں گئی۔”
اس نے فرمانبرداری کے انداز میں کہا، “ٹھیک ہے باجی۔” اس نے چائے پی لی تو میرے قریب آ کر زمین پر بیٹھ گیا اور ٹانگ دبانے لگا۔ میں نے کہا، “نہیں، صوفے پر بیٹھو۔ میرا ٹانگ اپنی گود میں رکھو اور دباؤ۔” کہا، “ٹھیک ہے۔”
جیسے ہی اس نے میری پنڈلی کو دبانا شروع کیا، ایک کرنٹ میرے بدن میں تیزی سے دوڑ گیا اور خون کی گردش تیز ہو گئی۔ چونکہ وہ شادی شدہ تھا، جوان تھا، عورت کے بدن کی گرمی کو فوراً محسوس کر لیا تو آہستہ سے اس نے شلوار کا ایک پائنچا تھوڑا سا اوپر کیا اور پنڈلی کو ننگا کر کے دبانے لگا۔ جب اس نے میرا پاؤں اپنی گود میں رکھا تو اس کا لن فوراً سخت اور کھڑا ہو گیا جو میں نے محسوس کیا اور وہ خاص اسی لن پر میری پنڈلی کو رگڑ رہا تھا۔ اور وہ میرے چہرے کا غور سے جائزہ لے رہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ پنڈلی سے اوپر آنے لگا اور میرے منہ سے ہلکی ہلکی سسکیاں نکلنے لگیں۔
لڑکا سمجھدار تھا۔ میری صورت حال کو دیکھ کر سمجھ گیا اگرچہ میں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور میرے منہ سے ہلکی ہلکی “اف اف اف اف، آہ آہ آہ آہ، ممم” کی آوازیں نکلنے لگیں تو وہ کہنے لگا، “باجی، بس کروں؟” میں نے “نہیں” میں سر ہلایا۔ اس نے ہاتھ اور اوپر تک لے آیا اور انگلیوں سے میری چوت کو چھونے لگا۔ جب میرا کنٹرول سے باہر ہونے لگی تو اس نے کہا، “باجی، شلوار نیچے کروں؟” میں نے “ہاں” میں سر ہلایا۔ بس اشارے کی دیر تھی، اس نے فوراً میری شلوار نیچے کی تو میری چوت کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا، “واؤ، کیا زبردست چوت ہے۔” فوراً بلا اجازت تیزی سے چاٹنے لگا اور اس کے منہ سے “ہم ہم ہم ہم” کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے بھی بھرپور ردعمل دیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ میں سکس کی مکمل گرم حالت میں تھی۔
وہ سمجھ گیا کہ میں ساتھ دینے لگی ہوں۔ فوراً اٹھا اور اپنے کپڑے اتارے۔ میں نے آنکھوں کی نظروں سے دیکھا تو بہت سخت اور موٹا لن مکمل موڈ میں ایک راڈ کی طرح سیدھا کھڑا تھا۔ پھر اس نے میری قمیض اتاری، جبکہ شلوار پہلے اتار چکا تھا۔ میری قمیض اتارتے ہی وہ پاگلوں کی طرح میرے مموں پر ٹوٹ پڑا، جیسے کسی بھوکے کو کھانا ملے۔ اتنے میں میں فارغ ہو گئی۔ وہ سمجھ گیا لیکن مموں کے ساتھ ساتھ گردن، کانوں اور گالوں پر بھی آگیا اور پھر ہونٹ اور زبان پر۔ اب میں اس کے سامنے مکمل ننگی تھی اور وہ میرے سامنے مکمل ننگا تھا۔
پھر ہونٹوں کے بوسے کے ساتھ وہ میری چوت پر ہاتھ آہستہ سے پھیرنے لگا اور پھر دونوں انگلیوں سے چوت کے اندر ڈال کر سہلانے لگا۔ اف اف اف اف اف اف! بہت زبردست کر رہا تھا۔ پھر اس نے اپنا سخت لن میرے منہ کے قریب لایا اور میری زبان پر پھیرنے لگا۔ میں نے خود لن کو ہاتھ سے پکڑا اور چوسنے لگی۔ لن بہت سخت اور موٹا تھا، اگرچہ لمبائی میں کم تھا۔ میں لن چوسنے کے ساتھ ساتھ بار بار اسے دیکھ بھی رہی تھی۔ 10، 12 منٹ کے چوسنے کے بعد اس نے لن میری چوت پر رکھا، جس کے لیے میں تڑپ رہی تھی۔ وہ بہت تجربہ کار تھا۔ پہلے لن کو چوت اور گانڈ کے سوراخ پر پھراتے پھراتے آرام سے چوت پر رکھ کر بہت آہستہ اندر ڈالا۔ میرے اندر لن جاتے ہی میں تڑپ اٹھی، اس لیے کہ وہ بہت مزے کی چدائی کر رہا تھا۔
10 منٹ تک چدائی کرتے کرتے وہ رُک گیا اور پوچھا، “مزا آ رہا ہے؟” چدائی کی کارروائی میں یہ پہلی دفعہ اس نے بات کی تھی۔ میں نے کہا، “بہت زیادہ مزا آ رہا ہے۔” اس نے کہا، “مزے لو میرے لن کے۔” میں نے کہا، “اور تم میری چوت کے۔” اس لڑکے نے چدائی میں کوئی 40 سے 45 منٹ سے زیادہ وقت لیا لیکن جو مزا آیا، اس کا بیان یہاں نہیں ہو سکتا ہے۔ جس وقت وہ فارغ ہونے کے قریب تھا تو کہنے لگا، “باجی، اب تھوڑا زور سے جھٹکے ماروں؟” میں نے پیار سے کہا، “جس طرح جھٹکے مارتے ہو، مارو۔ بس مزے لو اور مجھے مزے دو۔”
پانچ، چھ منٹ خوب جھٹکے مارے اور پانی میرے اندر چھوڑ دیا۔ پورا لن خالی کر دیا۔ آف! جو مزہ اس لڑکے نے چدائی کا دیا، یہاں بیان نہیں ہو سکتا ہے۔ کافی دیر تک وہ میرے اوپر تھا اور میری ٹانگیں اوپر تھیں۔ کہنے لگا، “باجی، دل تو نہیں چاہتا کہ لن کو تمہاری چوت سے نکالوں لیکن مجبوری ہے۔” اس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور لن نکالتے ہوئے میری چوت کو بھی ٹشو پیپر سے صاف کیا اور اپنا لن بھی۔ میں نے کہا کہ “زیادہ صاف نہ کرو تاکہ تمہارے لن کا گرم پانی جو میرے اندر ہے، میں اس کے مزے لوں۔” کہنے لگا، “کہیں بچہ نہ بن جائے؟” تو میں نے کہا، “اچھی بات ہے، بچہ بن جائے۔” پھر اس نے میرے مموں، گالوں، کانوں اور گردن پر خوب بوسے دیے اور میرا شکریہ ادا کیا اور وعدہ لیا کہ دوبارہ موقع دوں گی۔ میں نے حامی بھر لی۔
وہ پھر ان لوگوں کو پارک سے لینے کے لیے چلا گیا اور میں کافی دیر بعد صوفے سے اٹھ کر نہائی۔ اس کے بعد میں تین ماہ تک بھائی کے گھر رہی اور کوئی 10 یا 12 دفعہ اس سے چدائی کی۔ وہ چدائی یادگار تھی۔
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
سارہ کا ریپ
August 12, 2025 -
فوجی فوج میں نند کا شوہر موج میں
August 12, 2025 -
قسمت کی مہربانی
August 12, 2025 -
پھپھو کے ساتھ
August 12, 2025 -
اُستانی باجی سہانہ
August 12, 2025 -
ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
August 11, 2025