رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔
ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رشتوں کی چاشنی قسط نمبر 02
ثمرین کے چھوتے ہی میرے جسم میں جھرجری سی دوڑ گئی ۔۔یہ ایک الگ اور منفرد احساس تھا اس کی مٹھاس کی الگ ہی چاشنی تھی ۔۔۔۔
پہلی بار کسی نے مجھے اس طرح چھوا تھا ۔۔ ایک عورت کا لمس ایک عورت کا ہاتھ اور وہ بھی اپنے لن سے تھوڑا سا نیچے میں تو خود کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کر رہا تھا ۔۔
جبکہ دوسری جانب ثمرین کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی اس کی بھی پہلی بار تھی اس طرح کسی مرد کے گھٹنوں کے اوپر اس کے پٹ پر ہاتھ رکھ کر چھونے کی ۔۔۔
ثمرین کی سانسیں تیز ہو گئی تھیں ۔۔اس کے سینے کے ابھار اوپر نیچے ہوتے ہوۓ اس کی حالت کا پتا بتا رہا تھے۔۔۔
اس کے چہرے کی رنگت لال سرخ ٹماٹر کی طرح ہو گئی تھی ۔۔ خود پر جبر کر کے بہت مشکلوں سے وہ خود کو سنبھال رہی تھی ۔۔۔ وہ مجھ سے بڑی تھی اور جوان تھی۔۔ اور اوپر سے ڈاکٹر بھی جہاں سب باتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔۔
جیسے تیسے کر اس نے مجھ کو دوائی لگائی۔ اور باقی دوائی لے کر میرے کمرے سے بنا کوئی بات کئے ہی چلی گئی ۔۔
ثمرین میرے کمرے سے باہر نکل آئی تھی کیونکہ اس کو اپنے آپ کو نارمل کرنا تھا۔ اس کا دل جو اس سے بغاوت کر رہا تھا اسے سمجھانا تھا۔ اگر وہ کچھ دیر اور اسی طرح میرے پاس رہتی تو ہو سکتا تھا وہ اپنا ضبط کھو دیتی۔۔اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی ۔۔
اس احساس کے چلتے اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھی۔اگر وہ مزید کچھ دیر کھڑی رہتی تو وہیں زمین پر گر جاتی اس لئے اس نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر دی اور وہاں سے نکل گئی۔۔
وہ اپنے آپ کو میرے سامنے ظاھر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کہ وہ کمزور پڑ رہی ہے۔۔
وہیں دوسری طرف ثمرین کے جانے کے بعد کچھ دیر تک میں اسی سوچ میں ڈوبا رہا کہ آخر میرے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔ میرے دل کی حالت کیوں عجیب ہو رہی ہے مجھے کچھ سمجھ کیوں نہیں آرہا اور جو جواب میرا دل دے رہا تھا وہ جواب ماننے کے لئے میں تیار نہیں تھا ۔۔
اپنے دل اور دماغ کو اس سوچ سے نکالنے کے لئے میں نے اپنا سکول بیگ کھولا اور پڑھائی میں مصروف ہوگیا۔۔
میں چار بجے تک بیٹھ کر پڑھتا رہا۔۔۔ روم میں فریال چاچی چائے دینے آئی تو میں انھیں دیکھ کر بولا۔۔
میں : چاچی آپ مجھے کہ دیتی میں خود آ جاتا چاۓ لینے کےلیے۔
فريال چاچی :
اس میں تکلیف کی کیا بات ہے میرا بھی تو حق بنتا ہے کہ اپنے بیٹے کی خدمت کروں جب تک میری بہو نہیں آجاتی۔۔
فریال چاچی نے مجھے چھیڑتے ہوئے یہ بہو والی بات کی تو شرم سے لال ہوتے ہوۓ میرا سر نیچے جھک گیا ۔۔
میں معصوم سی شکل بنا کر بولا : چاچی آپ بھی نہ ایسے ہی تنگ کرتی رہتی ہیں جاؤ میں آپ سے بات نہیں کرتا۔۔۔
فریال چاچی ہنستے ہوئے:
آلے آلے میلے منے کو غصہ آ گیا اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔۔
میں نے بھی چاچی کو اپنی بانہوں میں کس لیا۔ ہر بار فریال چاچی اسی طرح مجھے گلے لگا لیتی اور میری ساری ناراضگی سارا غصہ پھر سے ختم ہوجاتا۔۔۔
پر اس سب کے باوجود ایک بات تھی گلے لگاتے وقت ہم دونوں کے بیچ کوئی بھی شہوت نہیں ہوتی تھی نہ ہی ہمارے دل میں کوئی گندے جذبات ہوتے ۔۔
چند لمحوں بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوۓ تو فریال نے میرے گالوں کو کھینچتے ہوے کہا : مجھ سے ناراض ناں ہوا کرو ایک تم ہی تو ہو میرا سب کچھ۔ میرا پیارا بیٹا میری جند میری جان میری زندگی۔
میں بولا : ۔ میں تو مذاق کر رہا تھا میں بھلا آپ سے ناراض ہو سکتا ہوں کیا ؟
میں اور فریال چاچی بہت دیر تک اپس میں باتیں کرتے رہے۔ باہر سے امی نے فریال چاچی کو آواز دی تو ہماری باتیں ختم ہوئی اور وہ اٹھ کر باہر چلی گئی ۔۔
میں بھی چائے ختم کر تھوڑا آرام کرنے کےلئے لیٹ گیا تاکہ تھوڑا دماغ فریش ہو جائے کیونکہ بارہ بجے سے لگاتار پڑھ رہا تھا۔ باہر تو ابھی میں جا نہیں سکتا تھا ۔۔میری ٹانگ میں ابھی بھی تھوڑا تھوڑا درد تھا۔۔
شام کے قریب جب میں سو کر اٹھا تو فریش ہونے کے بعد جب گھر کے آنگن میں پہنچا تو سب گھر والے آنگن میں بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔۔۔ میں بھی سیدھا اپنے بڑے چاچا منظور کے پاس بیٹھ گیا ۔۔ وہ پڑھائی کے بارے میں پوچھنے لگے۔ ساتھ عذرا اور رمشاء بھی بیٹھیں ہوئیں تھیں۔۔
منظور چاچا۔۔ تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے
میں۔۔ بہت اچھی چل رہی ہے ابھی پڑھ ہی رہا تھا کہ پھر تھکان سے نیند آ گئی
منظور چاچا۔۔۔ بہت اچھے بیٹا اسی طرح دل لگا کر پڑھو تم سے مجھے بہت امیدیں ہیں کہ تم میرا نام روشن کرو گے۔۔
میں۔۔۔۔ اپ بے فکر رہیں بابا میں اپ کی امیدوں پر پورا اتروں گا۔
میری باتیں سن کر سب کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا خاص کر میری امی رمشا کا وہ بہت خوش تھیں۔۔
اسی طرح سب گپ شپ میں مصروف ہوگئے باتوں باتوں میں پتہ ہی نہیں چلا کب نو بج گئے۔۔
پھر فریال چاچی نے سب سے کھانے کا پوچھا تو اتنے میں منصور اور نواز بھی باہر سے گھر آ گئے۔۔
سب نے کھانے کے لیے ہاں بولا تو کچھ ہی دیر بعد گھر کی عورتوں نے کھانا لگا دیا تھا ۔۔
سبھی کھانا کھانے لگے۔۔گھر میں کھانے کی روٹین تھی سبھی نو سے لے کر دس بجے تک کھانا کھا لیتے تھے زیادہ تر کوشش ہوتی کے سبھی ساتھ میں کھانے کی میز پر اکٹھے ہوتے کبھی کبھی کوئی لیٹ ہو جاتا تھا پر دس بجے آخری ٹائم ہوتا تھا ۔۔
یہ بھی منظور صاحب کا بنایا ہوا ایک اصول تھا کہ گھر کے سارے افراد ایک جگہ بیٹھ کر ہی کھانا کھائیں۔ تاکہ دن بھر کی جتنی بھی پریشانیاں ہوں وہ وہاں ایک ٹیبل پر ڈسکس ہو سکیں اور ان کا لائے عمل سوچا جا سکے۔۔۔
کھانے کے دوران ثمرین باربار مجھے دیکھ رہی تھی ادھر میں بھی سب سے نظر بچا کر ثمرین کو دیکھ رہا تھا۔ جب بھی ہم دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملتی تو دونوں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی۔۔
جب سب کھانا کھا کر وہیں بیٹھے تھے تو اتنے میں نواز نے بات شروع کی
نواز۔۔۔ بھائی جان مجھے کل صبح مال لینے xxx جانا ہے تو ہو سکتا ہے مجھے واپس آنے میں دو دن لگ جائیں تو میں زینت باجی کے گھر رک جاؤں گا۔۔
یہ سن کر فریال اداس ہوگئی کیونکہ اسے اکیلے سونے میں ڈر لگتا تھا پہلے جب نواز کہیں جاتے تھے تو رمشاء اس کے پاس سوتی تھی لیکن کل رمشاء کو بھی اپنے میکے جانا تھا کسی کام کے سلسلے میں۔۔
منظور ۔۔۔ . کوئی بات نہیں تم تسلی سے جاؤ دکان پر میں چلا جاؤں گا۔ ویسے بھی ایک دو دن کی بات ہے۔۔
پہلے بھی جب کبھی نواز کہیں جاتا تھا تو منظور صاحب ہی دکان سنبھال تھے۔۔۔
پھر سب نے کھانا کھایا اور اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔۔۔
میں بھی اپنے کمرے میں جا کر پڑھائی میں لگ گیا۔۔
میری ایک عادت تھی۔ جیسے ہی میرے امتحان قریب اتے تو میں اپنی محنت کو دگنا بڑھا دیتا۔ سبھی گھر والے بھی مجھ کو سپورٹ کرتے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ میں جاگ رہا ہوں اور کوئی نہ کوئی میرے کمرے میں ا کر مجھ سے کچھ دیر باتیں کرتا ہے یا پھر کچھ نہ کچھ کھانے کو دینے اتا رہتا ہے۔۔
قریب گیارہ بجے ثمرین مجھ کو دودھ دینے آئی تو چوٹ کے بارے میں مجھ سے پوچھا۔۔
میں۔۔۔ اب ٹھیک ہے اپ نے دوائی لگائی تھی جس کی وجہ سے اب کافی بہتر ہوں۔
ثمرین چوٹ کو دیکھنا تو چاہتی تھی لیکن اس نے کچھ کہا نہیں کیونکہ چوٹ کافی اوپر لگی ہوئی تھی۔۔
اس وقت تو اس نے وکی کو بلیک میل کرنے کے چکر میں ثمرین نے چوٹ کو دیکھ لیا تھا۔۔ اور نہ اس وقت وکی کو یہ سوچ آئی تھی کہ چوٹ کافی اوپر لگی ہے یہ ثمرین کو نہیں دکھانی چاہیے۔۔
وکی نے بھی بغیر سوچے سمجھے پینٹ نیچے کر دی تھی اس لئے اس بار ثمرین نے دیکھنے کی زد نہیں کی اور چلی گئی اپنے کمرے میں سونے۔ ایک بار جب اس کا وکی سے آمنا سامنا ہوا تھا تو اس کے دل میں بھی ہلچل تو بہت ہوئی تھی۔۔
میں دیر رات تک پڑھتا رہا اور قریب دو بجے جب مجھ کو نیند نے آ گھیرا تو میں سوگیا۔۔
کیونکہ صبح سکول تو جانا نہیں تھا۔ اس لیے میں صبح دیر تک سوتا رہا۔
مجھ کو جگانے فریال چاچی میرے کمرے میں آئی۔۔
فریال ۔۔۔۔۔ وکی اٹھ جاؤ دیکھو دس بج گئے ہیں سب نے کب کا ناشتہ کر لیا ہے اور تمھارے بڑے چاچا بھی تمہارا دو بار پوچھ چکے ہیں۔۔
میں ۔۔۔ . سونے دو نہ چاچی بہت نیند آ رہی ہے
فریال۔۔۔۔ چاچی کے بچے اٹھتا ہے یا ڈالوں پانی
میں ۔۔۔۔ کیا چاچی آپ بھی تنگ کرتی رہتی ہیں سونے بھی نہیں دیتی
پھر میں اپنے بیڈ سے اٹھا اور فریال کے گالوں پر ایک پپی کرتے ہوے نہانے چلا گیا۔۔
فریال چاچی میرے لیے ناشتہ تیار کرنے چلی گی۔۔
میں نہا کر آیا تو فریال چاچی میرے کمرے میں دودھ لے کر کھڑی تھی میں نے دودھ ختم کیا
پھر ناشتہ کرنے کےلیے نیچے کچن میں آ گیا۔۔ امی نے مکھن کے پراٹھے کھلائے ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا پڑھنے کے لئے۔۔۔
آج سارا دن میں اپنے کمرے میں ہی رہا۔ ایک دو بار فریال مجھ سے ملنے ائی اور ایک دفعہ میں اپنے منظور چاچا کی بات سننے گیا لیکن اس کے علاوہ میں صرف اپنے کمرے میں ہی موجود رہا۔۔
نواز تو صبح ہوتے ہی مال لینے چلا گیا تھا اور وکی کی امی بھی وکی کو ناشتہ کروا کر اپنے میکےچلی گئی تھی کسی ضروری کام سے۔۔۔ آج ثمرین بھی کالج سے لیٹ آئی اور کھانا کھا کر اپنے کمرے میں جا کر سو گئی۔۔
رات کو کھانے کے بعد فریال نے عذرا سے کہا کہ مجھے تو اکیلے سونے میں ڈر لگتا ہے پہلے باجی ساتھ سو جاتی تھیں۔۔ آج تو وہ بھی نہیں ہیں تو میں وکی کے کمرے میں سو جاؤں۔۔۔
وکی کو سبھی بچہ سمجھتے تھے تو فریال کی بات عذرا نے فوراً مان لی۔۔
عذرا ۔۔۔ سو جاؤ وہاں لیکن تمہیں نیند کیسے آئے گی وہاں تو سنگل بیڈ لگا ہوا ہے۔
فریال۔۔۔وہ میں دیکھ لوں گی
عذرا ۔۔ جیسے تمہاری مرضی
فریال کام ختم کر کے وکی کے کمرے میں چلی گئی۔۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی کر رہا تھا کہ اتنے میں فریال چاچی وہاں اگئی
میں۔۔۔۔ چاچی کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیتی۔
فریال۔۔۔۔ نہیں میں تو یہاں پر اپنے بیٹے کے پاس سونے آئ ہوں۔
میں ہنستے ہوئے۔۔۔۔ آپ کو اپنے کمرے میں کیا ڈر لگتا ہے
فریال۔۔۔۔ ہاں ڈرہی تو لگتا ہے اسی لیئے تو یہاں آئی ہوں۔۔
میں۔۔۔۔ آپ کوئی چھوٹی بچی ہو جو آپ کو ڈر لگتا ہے۔ خیر یہ بھی آپ کا اپنا کمرہ ہے سوجاؤ میں وہاں صوفے پر سو جاؤں گا آپ یہاں آجاؤ۔
فریال۔۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں وہاں سونے کی چپ چاپ یہاں بیڈ پر سوجاؤ نہیں تو میں چلی جاؤں گی اگر تمہیں برا لگ رہا ہے تو۔
میں . . . . نہیں نہیں چاچی ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو ویسے ہی کہ رہا تھا
فریال ہنستے ہوئے۔۔۔۔ تو آکر سوجاؤ میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گی۔
میں بھی ہنستے ہوئے اپنی کتابیں سمیٹنے لگ گیا اور فریال چچی کے ساتھ آ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔
فریال۔۔۔ اچھا ایک بات پوچھوں
میں۔۔۔ ہاں پوچھو
فريال۔۔۔ تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے سچ سچ بتانا
میں ۔۔۔۔۔ آپ کو کوئی سر پر چوٹ تو نہیں لگی جو ایسے سوال پوچھ رہی ہیں۔
فریال۔۔۔۔ نہیں میں بلکل ٹھیک ٹھاک ہوں تم نخرے نہیں کرو اور مجھے سیدھی طرح بتاؤ۔۔۔۔۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
The essence of relationships –07– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 25, 2025 -
The essence of relationships –06– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 16, 2025 -
The essence of relationships –05– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 12, 2025 -
The essence of relationships –04– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 25, 2024 -
The essence of relationships –03– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 25, 2024 -
The essence of relationships –02– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 16, 2024

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
