Unique Gangster–196– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -196

گھر پہنچتے پہنچتے کافی رات بیت گئی تھی ۔۔سبھی  اپنے اپنے کمروں میں لیٹے  آرام کر رہے تھے۔۔

ہر طرف ہو کا عالم تھا میں  نے بھی کسی کو اس وقت پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے روم میں جا کر سو گیا ۔۔

صبح نو بجے میری آنکھ کھل گئی ۔۔آج خلاف معمول میں تھوڑا لیٹ ہو گیا تھا ۔۔جلدی سے بستر سے اٹھ کر واش روم میں گھس کر  فریش ہوا اور فریش ہونے کے بعد میں روم سے  باہر نکلا اور ڈرائنگ ہال آ گیا جہاں سبھی لڑکیاں بیٹھی ہوئی آپس میں گپ شپ لگا رہی تھیں ۔۔ جبکہ لبنیٰ بھی ان کے بیچ میں بیٹھی ہوئی ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ گفتگو میں حصہ لے رہی تھی ۔۔

سب کو اونچی آواز میں ہیلو کہنے کے بعد میں نے لبنیٰ کو مخاطب کرتے ہوۓ اس سے اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھا تو وہ جواب دیتے ہوۓ بولی کے وہ پہلے سے کافی بہتر ہے ۔۔

لبنیٰ کی بات ختم ہوتے ہی علیزے  بولی : ہاں یہ آپ کو بتا نہیں رہی پوری بات  رات کو انہیں اپنے جسم میں تھوڑا بہت درد ہو رہا تھا پر اب یہ  کافی زیادہ بہتر ہے رات کی نسبت ۔

میں بولا : لبنیٰ ! غلط بات تمہیں بتانا چاہئے تھا باقی یہ  بھی اچھا ہے کے اب تمہاری طبیعت بہتر ہے ۔۔ویسے میرا خیال ہے آپ سب نے ناشتہ کر لیا ہوگا تو میرے لیے بھی ناشتہ لا دو  پھر ایک ضروری کام سے  جانا ہے مجھے ۔۔۔

میری بات سن کر ثمینہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اندر سے ناشتہ لا کر سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی :  آپ آ جائیں آ کر ناشتہ کر لیں ہم سب ناشتہ کر چکے ہیں۔۔

میں صوفے پر سے اٹھ کر ناشتے کی ٹیبل پر جا کر بیٹھتے ہوۓ ناشتہ کرنے لگ پڑا ۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم پھر اردگرد کی گپوں میں مصروف ہو گئے تھے کہ گپ شپ کے دوران اچانک ثمینہ بولی : اگر آپ برا نہ مانے تو ہمارے باہر کافی لان خالی پڑا ہوا ہے ۔۔ہم اس کو کاشت کر کے اس میں  سبزیاں اور پودے نہ  اگا لیں ۔۔

اس کی بات سن کر میں اسے سرہاتے ہوۓ بولا۔۔۔ واہ یہ تو کمال ہو جائے گا  ہمیں  گھر کی تازی سبزی کھانے کو مل جائے گی۔۔ ویسے بھی باہر سے  روز سبزی لانی کافی  مشکل ہو جاتی ہے۔۔

لبنیٰ نے بھی اس بات کی حامی بھری کہ اپنے گھر میں ہی سبزی وغیرہ اگا لیتے ہیں۔۔۔

صبح سے مجھے مشال اور شینا کہیں نظر نہیں آئی تھی میں نے سبھی پر ایک نظر ڈالتے ہوۓ ان سے مشال اور شینا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیتے ہوۓ کہا کے وہ دونوں نیچے کمپیوٹر روم میں موجود  ہیں۔۔

ان کی بات سن کر میں اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے اٹھ کر سبھی کو بتا کر اپنی بائیک کے پاس آیا اور اسے گھر سے باہر نکال کر سیدھا خواجہ صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔جہاں کل ناصرہ کی شادی تھی۔۔۔

راستے میں ایک چوک سے مڑ کر ابھی تھوڑا ہی آگے گیا تھا کے وہاں  پولیس کی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں ۔ میں ابھی انہیں کراس کر آگے بڑھ پاتا کے اس سے پہلے ہی ایک پولیس والے نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا بول دیا۔۔اس کا اشارہ ملتے ہی مجھے مجبورا رکنا پڑا۔۔

میرے رکتے ہی اس نے قریب آکر  مجھ سے کچھ پوچھ تاچھ کرتے ہوۓ مجھ سے لائسنس کا دریافت کیا جس کا جواب میں میری گردن نہ میں ہل گئی کے میرے پاس نہیں ہے۔ ۔میری بات سن کر وہ مجھے اپنے ساتھ انہی پولیس والوں کی گاڑیوں میں موجود ایک گاڑی کے پاس  لے گیا۔۔

میں جب گاڑی کے قریب پہنچا تو وہ اندر کسی کو مخاطب کرتے ہوئے بولا: لے میڈم ایک اور آ گیا اس کے پاس بھی لائسنس وغیرہ نہیں ہے۔۔سپاہی کی بات سن کر اس  میڈم نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئی وہ پولیس آفیسر کوئی اور نہیں بلک زویا تھی وہ مجھے دیکھتے ہی بولی :ہاں تو مسٹر اب تمہارا کیا کرنا ہے

میں بولا۔: جو آپ کا حکم ہو میڈم بس کچھ رعایت  کر دینا میڈم جی غریب بندہ ہوں ۔۔

میری بات سن کر زویا نے ساتھ کھڑے پولیس والے کو اشارہ کرتے ہوۓ کہا” تم چلو میں دیکھ لیتی ہوں اسے ” پولیس والے کے رخصت ہوتے ہی وہ میری جناب دیکھتے ہوئے بولی۔” میں پچھلے چار دن سے تمہارا نمبر ملانے کے بارے میں سوچ رہی تھی  لیکن جب بھی تمہیں کال کرنے لگتی  تو کسی نہ کسی کام میں پھنس جاتی  مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے

میں بولا: جی بولیں میں سن رہا ہو  ۔۔

زویا اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل کر سائیڈ پر پڑی ہوئی دو کرسیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی میں بھی ان کی تقلید کرتے ہوۓ دوسری کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو دوسری جانب بھیج دیا تھا ۔۔۔ اب وہاں ہم دونوں اکیلے ہی  موجود تھے چند لمحے خاموشی کے نظر ہونے کے بعد اس خاموشی کو توڑتے ہوۓ وہ بولی  :۔ سلطان میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں کیا جو میں پوچھوں گی تم اس کا سچ سچ جواب دو گے ؟

ان کی بات سن کر میں ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا۔: میرا خیال ہے آپ مجھے اچھے سے جانتی ہیں کہ میں جھوٹ نہیں بولتا اور خاص کر آپ کے  سامنے تو بالکل بھی نہیں ۔۔

میری بات سن کر ایک لمحے کے لئے زویا کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی تھی پر اگلے ہی لمحے وہ خود کے تاثرات کو چھپاتے ہوۓ  بولی۔: اس دن جس لڑکی کو تم نے میرا گھر رہنے کے لیے بھیجا تھا۔۔ اس سے اگلے دن ہی اسکی لاش ہمیں تمھارے کالج کے قریب ہی ملی۔ اور جس طرح اس کی لاش کے ساتھ کیا گیا تھا وہ کوئی عام قتل نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی ایسی سازش کوئی دشمن ہی سوچ سکتا ہے ۔۔وہ بھی ایسا دشمن جس کی دشمنی کافی گہری ہو ۔۔

میں بولا : ۔ ہاں مجھے یاد ہے اور میں بھلا  کیسے بھول سکتا ہوں اسے ۔۔میں نے ہی اسے تمھارے گھر میں لے گیا تھا پناہ کے لئے اور اسے سختی سے ہدایت دی تھی کے وہ گھر سے باہر نہ نکلے  پر پتہ نہیں اسے کیا ہوا کہ وہ تمھارے گھر سے باہر نکل گئی تھی اور ان کتوں کے ہاتھوں میں پھنس گئی ۔۔

وہ  بولی : کیا مجھے تم ان کے بارے میں بتا سکتے  ہو میں ان کے خلاف کڑی سے کڑی کاروائی کروں گی۔۔۔

یہ بات بولتے ہوۓ زویا کے لہجے میں ایک عزم تھا جس سے پتا چلتا تھا کے وہ ظلم سے کتنی نفرت کرتی ہے ۔

میں بولا :میرے خیال  میں اب اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔۔

وہ  بولی۔۔۔ کیا مطلب۔؟

میں بولا : کیونکہ میں نے ان کتوں کو  اسی کے پاس پہنچا دیا ہے ۔۔

میری بات سن کر زویا نے چونک کر میری جانب دیکھا اور پھر ایک گہری سانس لے کر خود کو نارمل کرتے ہوۓ بولی: ۔ تم کیوں بار بار قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہو ۔۔۔ تمہیں اتنا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے تمہارے کندھوں پر کافی ذمہ داریاں ہیں اگر تمہیں اسی بیچ کچھ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا کیا سوچا ہے تم نے اس بارے میں ؟۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page