A Dance of Sparks–113–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 113

کمپاؤنڈ کے پڑے گیٹ کے سامنے ہزاروں لوگ جمع تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں، مرد بھی اور بچے بھی۔ پھولوں کے گلدستے تقریباً ہر ایک کے ہاتھ میں نظر آرہے تھے۔ گیٹ کے اندر اور باہر بھی مسلح پولیس والے موجود تھے،  جو لوگوں کو گیٹ سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کرونگ کے کہنے پر میں ذیلی دروازے سے نکل کر گیٹ کے سامنے پتھر کے ایک چبوترے پر کھڑا ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر لوگوں کا جوش و خروش بڑھ گیا۔ ان کے نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔ میرے ساتھ تھائی وانگ بھی تھی اور پولیس والوں نے ہمیں گھیرے میں لے رکھا تھا۔ لیکن لوگ آگے بڑھے چلے آرہے تھے۔ وہ قریب سے مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی نظروں میں عقیدت تھی۔ اپنے لیے لوگوں کی یہ عقیدت اور یہ جوش و خروش دیکھتا رہا میرے دماغ میں سنسنی سی ہو رہی تھی۔ میں جیسے چوری کی ایک معمولی سی واردات سمجھتا رہا تھا۔ وہ دراصل کوئی معمولی واردات  نہیں تھی۔ وہ معمولی سی واردات در اصل لارڈ بدھا پر حملہ تھا جسے  ناکام بنا کر میں نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔

 اس وقت  میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ میں کوئی بہت بڑا  کارنامہ انجام دے رہا ہوں لیکن اب اپنے سانے یہ جم غفیر دیکھ کر مجھے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ میں نے واقعی کوئی بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا تھا،  مگر میں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ اپنا ایک  چھوٹا سا فرض ادا کیا تھا اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا تھا، اس کا ذمے دار میں تھا۔ نہ میں اس خانقاہ میں موجود ہوتا،  نہ رانا وغیرہ مجسمے کے سونے کی چوری کا منصوبہ بناتے۔

 میرے سامنے چبوترے پر اور اس کے ارد گرد گلدستوں کاٹیلاسا بلند ہوتا جا رہا تھا۔ لوگ مجھ پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے تھے۔ صرف پھول ہی نہیں قیمتی چیزیں بھی میرے قدموں میں ڈال  رہے تھے۔ عورتوں نے اپنے زیور اتار کر میرے قدموں لاکر  ڈال دیے تھے۔ مرد اپنی کلائیوں پر بندھی ہوئی گھڑیاں ڈالتےاور سونے  کی  انگوٹھیاں نذرانے کے طور پر مجھے پیش کر رہے تھے۔

یہ صورت حال میرے لیے دلچسپ بھی تھی اور سنسنی خیز  بھی۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک معمول سا کام سر انجام دے کر لاکھوں دلوں کا محبوب بن جاؤں گا۔ خانقاہ کے مہتمم شوفانگ نے مجھے صرف دو منٹ کا وقت دیا تھا،  لیکن مجھے اس چبوترے پر کھڑے ہوئے ایک گھنٹا ہوچکا تھا۔ لوگوں  کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ تین چار بھکشو چبوترے کے آس پاس اکھٹی  ہونے والی قیمتی چیزیں سمیٹ رہے تھے۔ میں نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو شو فانگ دو اور بھکشووں کے ساتھ بدھا کے مجسمے والے جنگلے کے قریب کھڑا ہماری طرف ہی دیکھ  رہا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے میں اس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ میری اس سے کوئی پر خاش نہیں  تھی۔میں اسے کوئی دکھ نہیں پہنچانا چاہتا تھا اس لیئے میں نے وہاں سے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا اور تھائی وانگ کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔

شو فانگ نے مجھے صرف دو منٹ دیے تھے۔ اب ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چکا ہے۔ میرا خیال ہے اب ہمیں واپس چلنا چاہئے۔

میں بھی دیکھ رہی ہوں۔۔۔ تھائی وانگ مسکرائی ۔۔۔اگروہ اپنا  خون جلا رہا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ کھڑے رہنے دواسے۔

میرا خیال ہے یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میں نے کہا۔۔۔میں شو فانگ کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں  بلاوجہ اپنے  دشمنوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔

اس میں دشمنی کی کیا بات ہے؟۔۔۔ تھائی وانگ بولی۔

 تم نے اس کی باتوں سے اندازہ نہیں لگایا۔ ۔۔میں نے جواب دیا ۔۔۔  وہ اس واٹ کا مہتمم ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہاں اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا مقبولیت حاصل کرے۔ اسے یہ بھی اندیشہ ہے کہ شاید میں اس کے اختیارات چھینا چاہتا ہوں۔ جبکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مجھے تو یہاں صرف بھکشوؤں کو مارشل آرٹ کی ٹریننگ دینے کے لیے بھیجا گیا تھا،  لیکن مہاراج نے کچھ اضافی ذمے داریاں سونپ دیں۔ یہی بات غالباً شوفانگ کو ناگوار گزری ہے لیکن میں بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا اور واقعی مجھے ہیرو بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

ٹھیک ہے۔۔۔ تھائی وانگ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا ۔۔۔  اگرتم اس طرح پیچھے ہٹنا چاہتے ہو تو میں کیا کہہ سکتی ہوں۔

 میں چبوترے سے اترنا ہی چاہتا تھا کہ ایک جوان اور خوب صورت لڑکی لوگوں کے ہجوم کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں ایک بڑا گلدستہ اٹھا رکھا تھا۔ لوگ گلدستے چبوترے پر اور اس کے آس پاس رکھتے ہوئے چلے جارہے تھے لیکن وہ لڑکی شاید گلدستہ میرے ہاتھ میں دینا چاہتی تھی۔ میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے نیلے رنگ کا منی اسکرٹ اور بلاؤز پہن رکھا تھا۔ عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ میں تھائی وانگ کے ساتھ چبوترے کی سیڑھی کی طرف بڑھ گیا۔

کھور تھاڈ !۔۔۔ وہ لڑکی چیخی ۔۔۔ایکسکیو زمی۔

 میں رک گیا۔ وہ لڑکی لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتی ہوئی آگے آگئی اور گلدستہ میری طرف بڑھا دیا ۔

 خوب کھن۔۔( شکریہ)۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے گلدستہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔

 اس لڑکی کے چہرے پر اس طرح طمانیت آگئی جیسے سرسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ وہ چند لمحے وہاں کھڑی میری طرف دیکھتی رہی اور پھر لوگوں کے ہجوم میں راستہ بناتی ہوئی واپس چلی گئی۔ میں تھائی وانگ کے ساتھ چبوترے سے اتر آیا۔ تین چار بھکشو اب بھی وہ چیزیں سمیٹنے میں مصروف تھے جو لوگوں نے میری خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کی تھیں اور ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی۔

گیٹ کے ذیلی دروازے کے دائیں بائیں دو مسلح پولیس والے کھڑے تھے۔ قریب سے گزرتے ہوئے میں نے وہ گلدستہ ایک پولیس والے کے ہاتھ میں دے دیا جسے اس نے اہنی جنگلے کی سلاخوں میں پھنسا کر اٹکا دیا۔ گیٹ کے سامنے اب بھی سیکڑوں لوگ جمع تھے۔

میں سونے کے مجسمے والے جنگلے کے قریب سے گزرا تو وہاں کھڑا ہوا شو فانگ بڑی ناگوار سی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ تھائی وانگ تو اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی تھی مگر میں نےچہرے سے کوئی تاثر نہیں دیا تھا۔

ہم دونوں خانقاہ والے حصے سے نکل کر رہائشی حصے کی طرف آگئے اور پھر اسی وقت وہ کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور  میرے قدم لڑکھڑا گئے۔

اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش نہیں  کر سکا اور نیچے گرا ۔ تھائی وانگ بھی گر چکی تھی۔ دھماکے کے فورا ہی بعد آہ وبکا اور چیخوں کا شور سنائی دینے  لگا۔ میرے حو اس معتل ہو گئے تھے۔ کانوں میں سائیں سائیں کی  آوازیں گونج رہی تھیں جیسے تیز آندھی چل رہی ہو۔ ذہن ماوف  ہو گیا تھا۔ چند لمحوں تک تو میں سمجھ ہی نہیں سکا کہ ہوا کیا؟ میں نے فوراً خود کو سنبھالا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ تھائی وانگ زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ خوف و دہشت سے اس کی آنکھیں پھٹی پڑ رہی تھیں۔

 تم اپنے کمرے میں جاؤ۔ میرے پیچھے مت آنا۔۔۔ میں چیختا ہوا  خانقاہ کی طرف دوڑا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page