A Dance of Sparks–114–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 114

ایک عجیب قیامت صغرا کا منظر میرے سامنے تھا۔ کمپاؤنڈ میں تین چار بھکشو فرش پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ گیٹ کے پاس  تین  پولیس والوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور ذیلی دروازے کے قریب جو دو پولیس والے کھڑے تھے ان کے جسموں کے ٹکڑے  اڑ گئے تھے۔ جسمانی اعضا اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے۔ گیٹ کے باہر بھی کچھ لاشیں پڑی تھیں۔ ان میں دو بھکشوؤں اور ایک  گیارہ سال کے ایک بچے کی لاش بھی تھی۔

کچھ دیر پہلے یہاں بڑا روح پرور منظر تھا۔ بدھا کے عقیدت مند  اپنے محسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پرجوش نعرے لگارہے تھے۔ مذہبی گیت گا رہے تھے مگر اب چیخم دھاڑ مچی ہوئی تھی۔ آہ و بکا کی آوازیں تھیں۔ عجیب افرا تفری تھی۔ سیکڑوں لوگ بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے اوپر گرے پڑ رہے تھے ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔ گوشت کے لو تڑے  دیواروں سے چپکے ہوئے تھے جن سے خون ٹپک رہا تھا۔ گیٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ سونے کے مجسمے والے جنگلے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ شو فانگ جنگلے کے قریب فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے ایک بازو سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ روح فرسا منظر دیکھ کر میں کانپ اٹھا۔

 جو محافظ اور پولیس والے زخمی ہونے سے بچ گئے تھے ، انہیں اس خوف ناک منظر نے  ذہنی طور پر مفلوج کر دیا تھا۔ میری طرح شاید ان کی سمجھ میں بھی  نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا تھا اور پھر اچانک ایک محافظ چیخ اٹھا۔ یہ کرونگ تھا۔

 لوگوں کو یہاں سے ہٹاؤ۔ زخمیوں کو اٹھاؤ۔ وہ مررہے ہیں ۔

کرونگ بھی زخمی تھا، لیکن اس نے اپنے حواس بحال رکے،  دوسرے محافظ اور پولیس والے بھی حرکت میں آگئے۔ میں بھی متحرک ہو گیا اور ہم زخمیوں کو اٹھانے لگے اور پھر کچھ ہی دیر بعد چاروں طرف سے سائرن کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ لگتا تھا جیسے پورے شہر کی پولیس  کاروں اور ایمبولینسوں نے اس طرف کا رخ کیا ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے واٹ کے ارد گرد کے علاقے کو انہوں نے گیرے میں لے لیا۔ امدادی پارٹیوں نے کام شروع یا۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر ایمبولینسوں میں ڈالا جانے لگا۔

ایک بار پھر شہر کی تمام خانقاہوں کے راہب اور پولیس کے اعلی افسران پہنچ گئے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ مجھے بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ماہرین نے یہ بھی اندازہ لگا لیا کہ وہ بم کس جگہ پر پھٹا تھا۔ میری نظروں کے سامنے نیلے لباس والی اس خوب صورت لڑکی کا چہرہ  گھوم گیا جس نے سب سے آخر میں مجھے گلدستہ دیا تھا اور وہ گلدستہ میں نے  گزرتے ہوئے ذیلی دروازے کے قریب کھڑے ہوئے ایک پولیس  کا سٹیل کو تھما دیا تھا جسے اس نے جنگلے کی سلاخوں میں پھنسا یاتھا۔ بم اس گلدستے میں تھا۔ سب سے زیادہ وہی جگہ متاثر ہوئی تھی اور اس ذیلی دروازے کے قریب کھڑے ہوئے دونوں پولیس والوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ ایک ایک لمحہ میری نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ نیلے لباس والی وہ خوب صورت لڑکی کس طرح ہجوم کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اس نے مجھے آواز دے کر روکا تھا اور گلدستہ میرے اتھ میں دینے کے بعد اس کے چہرے پر طمانیت سی آگئی تھی۔ وہ گلدستہ پلاسٹک کے ایک خوب صورت گلدان میں تھا۔ مجھے وہ  گلدستہ دو سرے گلدستوں کی نسبت قدرے وزنی محسوس ہوا تھا لیکن اس وقت میں نے خیال نہیں کیا تھا اور اب بات سمجھ میں آرہی تھی کہ اس لڑکی نے وہ گلدستہ خاص طور پر میرے ہاتھ ہی میں کیوں دیا تھا۔ اس گلدستے میں حجم میں چھوٹا مگر نہایت طاقت ور بم تھا، اگر وہ  گلدستہ چند منٹ اور میرے ہاتھ میں رہتا تو میرے جسم کے ٹکڑے  اڑ جاتے۔ لیکن قسمت نے ایک بار پھر میرا ساتھ دیا تھا۔ میں تو بچ گیا تھا مگر کئی بے گناہ مارے گئے تھے۔ مہاراج بھی صورت حال کو سمجھ گئے تھے۔ اس وقت وہاں بڑے  بڑے راہبوں میں یہ بحث بھی چھڑ گئی تھی کہ یہ مذہبی جنگ ہے پہلے  بُدھا کے مجسمے سے سونا چرایا گیا اور پھر واٹ میں یہ خون ریزی، لیکن  مہاراج وانگ ونگ پائے بڑی مشکل سے ان راہبوں کو  قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ یہ کوئی مذہبی جنگ نہیں ایک جرائم پیشہ گروہ کی مجرمانہ سرگرمیاں ہیں۔ جو صرف اور صرف مجھے موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں۔ وہ گلدستہ خاص طور پر میرے ہاتھ میں دیا گیا تھا کہ میری زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔

اس واٹ کو دور دور تک پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ واٹ کے نیچے نالے میں بھی پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ شام تک وہاں سے ملبا  ہٹا دیا گیا اور خون میں لت پت دیواریں اور فرش بھی دھو دیا گیا۔ شام کو میں تھوڑی دیر کے لیے تھائی وانگ کے پاس آگیا۔ وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور بڑی نڈھال سی لگ رہی تھی۔ مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ آئی تھی جس سے اس کی طبیعت مزید خراب ہو گئی تھی ۔ شینو نام کی وہ نرس اپنے کام کے سلسلے میں بڑی فرض شناس واقع ہوئی تھی۔ اس نے بڑی مہارت سے تھائی وانگ کو سنبھال رکھا تھا۔ صبح ناشتے کے بعد سے اب تک میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس صورتِ حال میں کھانے پینے کا ہوش ہی کسے رہا تھا۔ تھائی وانگ اور شینو بھی بھوکی بیٹھی رہی تھیں۔ اس وقت شینو نے عقل مندی یہ کی کہ کچن سے چائے بنوانے کے علاوہ کھانے پینے کی کچھ چیزیں بھی لے آئی تھی۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد میں دوبارہ واٹ میں آگیا جہاں مہاراج کے علاوہ چند اور راہب بھی موجود تھے۔ بم دھماکے سے خانقاہ کی بجلی اور ٹیلی فون کی لائنیں بھی متاثر ہوئی تھیں جنہیں درست کر دیا گیا تھا اور اس وقت کچھ ایسے ماہرین بھی موجود تھے جو اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ مہاتما بدھ کے سونے کے مجسمے کو کھلی جگہ سے ہٹا کر مرکزی ہال میں کسی جگہ رکھا جائے۔ رات دس بجے کے قریب میں کمرے میں آیا تو مہاراج بھی میرے ساتھ تھا۔ تھائی وانگ مہاراج کو دیکھ کر بیٹھ گئی۔ مہاراج کے کھانے کا بندوبست بھی وہیں کر دیا گیا تھا۔ ہم تینوں بلکہ چاروں نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ نرس شینو بھی ہمارے ساتھ تھی کھانے کے بعد شینو کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور مہاراج مجھ سے وہ باتیں کرنے لگا جو دوسروں کے سامنے نہیں کرنا چاہتا تھا۔

 تمام صورت حال تمہارے سامنے ہے۔ ۔۔ مہاراج کہہ رہا تھا ۔۔۔ تم نے ان کا سونے کی چوری والا منصوبہ ناکام بنا دیا تھا۔ یہ اس کا رد عمل ہے کہ آج تمہیں بم سے اڑا دینے کی کوشش کی گئی لیکن ہمیشہ کی طرح تم اس مرتبہ بھی بچ گئے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ تم سچائی پر ہو اور سچائی کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی لیکن اس کے ساتھ ہی تمہارے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ تم پر پہلے سے زیادہ شدت سے حملے ہوں گے اور کل رات سے اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس سے میں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ اندرونی طور پر بھی تمہارے خلاف کچھ سازش ہو رہی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ یہاں تمہیں کوئی نقصان پہنچے اس لیے میں نے فوری طور پر تمہیں یہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page