Smuggler –221–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 221

سالار بازار سب سے زیادہ قریب تھا۔ اس علاقے میں بڑی رونق تھی بڑی تعداد میں سیاح بھی آرہے تھے۔ اروی اور دیوی ادھر ادھر گھومتی رہیں اور میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ کبھی وہ رک جاتیں تو میں بھی قریب ہی رک جاتا اور آس پاس موجود لوگوں سے باتیں کرنے لگتا۔

ہمیں مختلف شاپنگ ایریاز میں گھومتے ہوئے دو گھنٹے گزر گئے۔ اروی نے ایک حلوائی کی دکان سے کچھ مٹھائی اور پکوڑے وغیرہ خریدے اور دور ہٹ کرفٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھانے لگیں۔ میں بھی ان کے قریب رک گیا اور بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلا دیا۔ ان دونوں نے ناگواری نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ اروی نے دو جلیبیاں اور تین چار پکوڑے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے اور میں اسے دعائیں دیتا ہوا قریب ہی بیٹھ گیا۔

“کوئی زیادہ گڑ بڑا نہیں ہے۔” اروی نے سرگوشیانہ لہجے میں اس طرح کہا جیسے وہ دیوی سے کچھ کہہ رہی ہو ۔ ” لوگوں کو منی لال اور اس کے ساتھیوں کے قتل کا پتہ چل گیا ہے۔ لوگ اس راکھشس سے نجات مل جانے پر بہت خوش ہیں۔ اس لیے شہر میں رونق بھی نظر آرہی ہے۔

” اور ٹھاکر ونود سنگھ کو اب کرشمہ کی تلاش ہے۔ میں نے منہ چلاتے ہوئے اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔ ” میرا خیال ہے اب ہمیں واپس چلنا چاہئے۔ شہر میں گھومنا بیکار ہے۔

یہ کھا لیں تو چلتے ہیں ۔ اروی نے جواب دیا۔

ہم تقریباً آدھا گھنٹہ وہاں بیٹے رہے اس کے بعد میں نے ان سے بات نہیں کی تھی اور الگ تھلگ کھا پی رہا تھا۔  وہاں سے روانہ ہونے سے پہلے اروی نے کچھ اور مٹھائی لے لی تھی۔ اس مرتبہ میں ان سے آگے تھا۔ بازار کے اگلے موڑ پر  اکا  دکا  لوگ ہی تھے۔ میں موڑ گھوم ہی تھا کہ عقب سے دیوی کی چیخ سن کر چونک گیا اور تیزی سے پیچھے مڑا ۔ وہ دو ہٹے کٹے غنڈے تھے جو دیوی کو پکڑ کر زبر دستی قریب کھڑی ہوئی جیپ میں بٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دیوی چیختے  ہوئے مزاحمت کر رہی تھی اور اروی بھی اسے غنڈوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں تھی۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ غنڈے حلوائی کی دکان سے ہی ان کے پیچھے لگے تھے۔ یوں تو اروی کے بھی حسین ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا مگر دیوی  کی بات ہی کچھ اور تھی۔ لمبا قد، گداز جسم اور موٹی موٹی سیاہ آنکھیں راجستھانی لباس میں تو اس کا سینہ کچھ اور بھی تن گیا تھا اور وہ واقعی دلوں پر قیامت ڈھا رہی تھی۔

میں یہ بھی سمجھ گیا کہ وہ غنڈے محض اس کے حسین ہونے کی وجہ سے اسے اٹھا لے جانے کے چکر میں تھے اگر کوئی اور بات ہوتی تو وہ اروی کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے اور انہیں اغوا کرنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرتے تا کہ اس طرح ہنگامہ نہ ہوتا۔

وہ دونوں چیخ رہی تھیں اور لوگ دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے ۔ کوئی آگے آنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ میں پلٹ کر فورا ہی اس طرف دوڑا  اور جاتے ہی ایک غنڈے سے لپٹ کر گرگیا اس غنڈے کو پیچھے سے گرفت میں لیا تھا اس نے میرےپیٹ میں کہنی ماری مگر میری گرفت اتنی کمزور تو نہیں تھی کہ وہ آسانی سے چھوٹ جاتا۔ میں چیخ چیخ کرلوگوں کو بھی غیرت دلا رہا تھا کہ اگر ان کے گھر کی کسی عورت کو اس طرح اٹھانے کی کوشش کی جائے تو کیا اس وقت بھی وہ خاموش کھڑے تماشا د یکھتے رہیں گئے۔ میری یہ چیخ و پکار نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور پانچ چھ آدمی آگے آگئے ایک غنڈے نے چا قو نکال لیا مگر میں نے اسے ہاتھ ہلانے کا موقع بھی نہیں دیا اور اس کا بازو پکڑ کر پیچھے کی طرف موڑتا گیا۔ چاقو اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ اب دس بارہ آدمیوں نے ان غنڈوں کو گھیر لیا تھا اور ان کی پٹائی کر رہے تھے ۔میں نے اروی  اور دیوی کو اشارہ کیا۔ وہ دونوں وہاں سے کھسک گئیں اور میں بھی غنڈوں کی پٹائی میں لوگوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔

دو پولیس والے بھی شور سن کر وہاں پہنچ گئے انہیں پوری بات بتائی گئی اور غنڈوں کو ان کی تحویل میں دے دیا گیا۔

وہ لونڈیاں کہاں ہیں ؟ ایک پولیس والا ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

شریف ناریاں تھیں اپنی اِجت بچا کر ادھر کو چلی گئی ہیں حوالدار ۔” میں نے مخالف سمت کی ایک گلی کی طرف اشارہ کر دیا۔

کوئی بات نہیں تم ہمارے ساتھ چلو سادھو مہاراج ۔“ ایک پولیس والے نے کہا۔ ان کے خلاف رپٹ لکھوانے کے لیے کسی کی ضرورت تو  ہو گی ۔

ہم کو ان دنگا فساد سے الگ رکھیو مہاراج۔ میں نے ہاتھ جوڑ دئیے۔  

ہم سادھو سنت لوگ ان جھگڑوں میں نہ پڑتے انہوں نے عورتن کو نہ چھیڑا ہوتا تو ہم یہاں کبھی نہ رکتے اپنی راہ چلتے رہتے ۔”

ہاں سوامی جی کو بھی ساتھ لے جاؤ حوالدار جی ۔ ایک آدمی نے کہا۔ دوسرے لوگوں نے بھی ان کی تائید کی اور میرے دیوتا کوچ کر گئے لیکن بہر حال اس آدمی کو بھی ساتھ لے لیا گیا جس نے مجھے ساتھ لے جانے کو کہا تھا۔

میں پہلی بار تھانے میں آیاتھایہاں ایک سے ایک گھاگ پولیس والا تھا مجھے اندیشہ تھا کہ اوٹ پٹانگ قسم کے سوالات نہ شروع کر دئیے جائیں یا کسی کو مجھ پر کوئی شبہ نہ ہو جائے۔

 تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ان غنڈوں کے خلاف رپورٹ لکھی گئی مجھ سے نام پتہ پوچھا گیا تو میں نے بڑے اطمینان سے ایک آشرم کا پتہ لکھوا دیا اور پھر تھانے کے گیٹ سے نکلتے ہوئے میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اروی اور دیوی گھر پہنچ گئی ہوں گی اور مجھے دیر ہو جانے پر پریشان ہو رہی ہوں گی، لیکن تھانے سے نکل کر دوسری گلی کا موڑ گھوما ہی تھا کہ دو ہیولے اچانک ہی تاریکی سے نکل کر میرے سامنے آگئے اور میں اچھل پڑا۔ وہ اروی اور دیوی  تھیں۔

تت،،، تم ،،، مارے حیرت کے میرے منہ سے بات بھی ٹھیک سے نہیں نکل رہی تھی۔

تمہیں چھوڑ کر ہم کیسے جاسکتی تھیں ۔ دیوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اب جلدی سے یہاں سے نکل چلو۔ اگر کوئی پولیس والا اس طرف آ گیا تو گڑ بڑ ہو جائے گی، میں نے کہا۔

ہم تیزی سے گلی میں چلتے رہے دو تین گلیاں گھوم کر ہم سڑک پر نکل آئے اور پھر آدھے گھنٹے بعدہم اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے تھے۔

کم بخت نے ایسی چٹکی کاٹی تھی کہ بوٹی بچ گئی ۔ دیوی کہتے ہوئے اپنے بائیں بازو کو دیکھنے لگی۔ اس کے بازو پر نیل پڑ گیا تھا اس نے گھاگھرا اور بغیر آستین کی چولی پہن رکھی تھی نہ صرف بازو بلکہ کمر بھی برہنہ تھی۔ کپڑا صرف چولی کے اگلے حصہ پر تھا کمر پر صرف آدھا انچ چوڑے دو فیتے تھے۔

گھر پہنچ کر بھی ان دونوں میں سے کسی نے لباس نہیں بدلا۔۔۔ البتہ چنریاں بھی اتار کر پھینک دی تھیں۔ میں کبھی ایک کی طرف دیکھتا اور کبھی دوسری کی طرف۔ بعض اوقات تو میرے دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہو جاتی کہ مجھے سانس لینا دشوار ہو جاتا ۔

اس وقت گیارہ بج چکے تھے۔ اروی میرے ساتھ بیٹھی رہی اور دیوی کچن میں گھس گئی۔ اروی نے جو مٹھائی خریدی تھی وہ غنڈوں سے ہاتھا پائی کے دوران بھی محفوظ رہی تھی جسے اب اروی نے ایک پلیٹ میں ڈال لیا تھا۔

بارہ بجے کے قریب ہم نے کھانا کھایا اور پھر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تازہ ہوا اچھی لگ رہی تھی۔ ہم شہر کے حالات پر ہی تبصرے کرتے رہے۔ منی لال کی موت کے بعد لوگوں نے واقعی سکھ کا سانس لیا تھا۔ لوگ تو یہی سمجھتے رہے تھے کہ وہ ایک غنڈہ اور بدمعاش تھا، جس نے شہر والوں کا جیون دوبھر کر دیا تھا اور اس کی موت پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن اندر کی کہانی انہیں معلوم نہیں تھی۔ انہیں کیا معلوم کہ  منی لال کی موت سے ان کی سرکار کو کتنا نا قابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ سرکار کے کیسے کیسے منصوبے خاک میں مل گئے تھے۔

 کرشمہ کی گمشدگی ہمارے لیے حیرت انگیز تھی،  اب مجھے یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ وہ زخمی تھی ہی، اس رات بھاگ دوڑ کی وجہ سےاس کی طبیعت زیادہ خرا ب ہوگئی تھی اور وہ کہیں دبک کر بیٹھی ہوئی تھی۔

ہم تقریباً ایک گھنٹے تک برآمدے میں بیٹھے رہے اور پھر اندر آگئے ۔ اروی نے دروازہ لاک کر دیا اور ہم ماسٹر بیڈ روم میں آگئے۔ کمرے میں آتے ہی اروی نے ویڈیو فلم لگا دی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اُُن دونوں کا سونے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔

فلم میں وہی بے ہودگی اور بے حیائی کے مناظر تھے بعض مناظر دیکھ کر اروی اور دیوی ایک دوسرے کو چٹکیاں کاٹنے لگیں، انڈین فلموں میں کوئی کہانی نہیں ہوتی محض بے حیائی کی وجہ سے ہی یہ فلمیں چلتی ہیں۔

دو بجے کے قریب  بِپ بِپ کی آواز سن کر ہم تینوں اچھل پڑے اور تینوں نے بیک وقت گھوم کر مانیٹرنگ سیٹ کی طرف دیکھا۔ پینل پر ایک سرخ بتی اسپارک کر رہی تھی۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page