Perishing legend king-140-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 140

درشن کر لینے كے بعد سبھی کھانا کھانے میں لگے ہوئے تھے جب ویویک اور پرانجال آپس میں بیٹھ کر نا جانے کیا باتیں کر رہے تھے۔

پرانجالسارا پلان ریڈی ہے بھئیا . . . بس دیر ہے تو اسے انجام دینے کی . . .

ویویک : نہیں چھوٹے . . . آج نہیں . . . ! ہمیں ویسے بھی کل نکلنا ہے۔ آج رسکی ہے۔ کل کرنا . . . ویسے بھی یہاں سے ناشتہ کرنے كے بعد ہی نکلیں گے ہم۔

پرانجال : ٹھیک ہے بھئیا ! کل سہی پھر۔۔۔

نا جانے دونوں کس پلان کو انجام دینے کی بات کر رہے تھے۔ یہ تو سمے آنے پر ہی پتہ چلے گا۔

٭٭٭٭٭٭
ادھر ویر دن میں اپنے پریوار كے ساتھ ہورہی باتوں سے انجان راگنی  اور باقی سبھی كے ساتھ آج گھومنے  نکلا  ہوا تھا۔

پر اچانک ہی راستے میں اسے نظر آیا کہ کچھ لیڈیز کسی کپڑے کی سیل پر ہنگامہ کر رہی تھیں۔

ویر : کیا ہو رہا ہے اُدھر ! ؟

راگنی : اختجاج !
ویر : اختجاج ! ؟ کیسا اختجاج ! ؟

راگنی : امم . . . وہ دیکھو  نا . . . جم غفیر جمع  ہوگیا پُورا اُدھر۔۔۔ کسی سیل کی پیچھے لڑائی ہو گئی ہے۔ شاید کچھ گھپلہ کیا ہے سیل والے نے۔ اسلئے عورتیں اتنی آوازیں  لگا  رہی  ہیں۔

اور واقعی ! جب ویر نے دھیان سے دیکھا تو اسے سمجھ آیا کہ نئے سال کی سیل كے بہانے کپڑوں کا بزنس کرنے والا آدمی کچھ پھٹے اور بیکار پیسز کو نکالنے كے لیے یہ سیل رکھا ہوا تھا۔ اور وہ کپڑوں کی ریپینگ کو کھولنے نہیں دے  رہا  تھا۔

جب کچھ عورتوں نے کھول كے کپڑوں کی جانچ کی تو انہوں نے دھاوا بول دیا۔ اتفاق سے ایک بڑا عورتوں کا  گروہ وہاں سے کہیں اور جا رہا تھا  اور اس احتجاج کو دیکھ کر وہ بھی ان کے ساتھ ہو گئی اور اس دکاندار پر مکمل حملہ کر دیا۔

راگنی ( کندھے اچکائے ) :  ہر سیل میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی ہے۔

ویر بڑے ہی دھیان سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اچانک ہی جیسے اس کے دماغ کی گھنٹی بجی اور اگلے ہی پل اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان بکھر گئی۔

ویر :  بھابھی !
راگنی :  ہممم ! ؟

ویر :  میری آپ سے ایک ریکویسٹ ہے۔ آپ پوری کروگی ! ؟

راگنی :  ہممم ؟ اوکے ! کیا بات ہے ! ؟

ویر :  کیا آپ۔۔۔ کیا آپ آنیسہ جی کو شہر كے پورے طور طریقے سکھا سکتی ہو ؟میرا مطلب ہے سارے قانون قاعدے، خریدداری سے لے کے ڈیوائسس  کو آپریٹ کرنا سب کچھ۔ ایک ماڈرن  شخصیت کا پُورا  نالج جتنا  آپ دے سکتی ہو۔۔۔کیا آپ کر سکتی ہو؟؟؟ ؟

راگنی  (سرپرائزڈ ) :  ہو ! ؟ پپ پر یہ ایکدم سے ایسے کیوں ! ؟
ویر :  آنیسہ جی نے مجھ سے ہی خود کہا تھا ۔کیوں ہے نا ! ؟ آنیسہ جی ! ؟

آنیسہہہہاا ہاں! ؟ اُوں ! ہاں ہاں ! میں نے کہا تھا ۔

آنیسہ بات کو سمجھ کر فوراََ ہی ہاں میں سرہلائی۔ اور اپنی  رضامندی  دی۔ پر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے مالک كے دماغ میں آخر چل کیا رہا تھا۔

راگنیو،وواقعی ! میں اپنی پوری کوشش کروں گی انہیں سب کچھ بتانے میں۔۔۔۔

ویر ( اسمائیلز ) :  تھینک یو  بھابھی!

راگنی :  اممم . . . اٹس  اوکے!

نچ كے سمے، راگنی اور ویر ایک ساتھ دائیں بائیں ہی بیٹھے تھے جب ویر نے راگنی كے چہرے پر مایوسی کوفوراً  ہی بھانپ لیا۔

ویر :  آپ پریشان لگ رہی ہو  بھابھی! ؟؟؟

راگنی :  ہو ! ؟  نن-نہیں تو ! ؟ میں بھلا کیوں پریشان  ہونے لگی ! ؟

ویر :  جھوٹ مت بولئے !مجھ سے تو بالکل بھی نہیں !ویویک بھئیا کا  کال آیا تھا نا ! ؟

ویر کی بات سن کر راگنی اِس بار دھیرے سے ہاں میں سر ہلائی اور اپنے نگاہیں نیچے کرکے بیٹھ گئی۔

ویر :  کیا کہا انہوں نے ! ؟

راگنی :  وہ ۔۔۔ وہ سبھی آج ہماری کول دیوی كے مندر گئے ہیں۔

ویر :  انہوں نے آپ کو بھی بلایا ہو گا ! ؟

راگنی: (مایوس ہوکر )   اممم،۔۔۔

ویر :  تو ! ؟ ؟

راگنی نے اپنی نگاہیں اوپر کرکے ایک پل كے لیے اسے دیکھا ۔۔۔ان آنکھوں میں نمی جو  پنپ  رہی تھی وہ  ویر آسانی سے دیکھ پا رہا  تھا ۔

راگنی :  آئی ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں کبھی بھی مندر كے نام پر دیوی کا بےعزتی نہیں کرتی منع کرکے۔۔۔ پر ۔۔۔

ویر : . . . .

راگنی :  پر . . .

ویر :  آپ کا من نہیں کیا  ذرا بھی . . .

یہ بات سن کر راگنی چونکی اور ویر کو گھورنے لگی۔ بھلا اس کے من کی بات ویر نے کیسے بھانپ لی تھی ! ؟

ویر :  اتنے دنوں سے آپ كے ساتھ رہ رہا ہو ں۔ تھوڑا بہت تو میں بھی آپ کو سمجھنے لگا ہوں۔
کہتے ہوئے اس نے جیسے ہی اپنا ہاتھ راگنی كے ہاتھ كے اوپر رکھا تو بیچاری راگنی کی ادھر حالت ہی بگڑنے لگی۔ وہ پھٹی آنکھوں سے ویر کو گھوری جا رہی تھی۔ اس کے گلابی ہونٹ کھلے . . . پر صرف ہلکی سی ہوا ہی باہر نکلی ، کوئی لفظ نہیں اور نظریں ابھی تک ویر پر جمی ہوئی تھیں۔

ویر :  آئی  ڈونٹ نو کہ آپ کیا فیصلہ لو گی ۔ بٹ آپ جو بھی فیصلہ لو گی۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔ بٹ اف۔۔۔۔اگر آپ نے ویویک بھئیا سے سچ میں الگ ہونے کا فیصلہ لیا ۔۔۔ دین . . . آئی واز ونڈرنگ کہ۔۔۔کیا ہم ایسے ہی رہ پائیں گے پھر! ؟ آئی مِین /میرا مطلب ہے۔ پھر آپ ہمارے گھر نہیں رہیں گے اور میں اور آنیسہ جی آپ کے گھر رہیں گے کیا؟؟؟

وہ مزید اپنی بات آگے رکھ پاتا کہ اس سے پہلے ہی راگنی نے اپنا ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھ کر اسے روک دیا۔

راگنی :  ویر ! میں اس خاندان کی ممبر رہو یا  نہ رہو۔۔۔ تم اور آنیسہ جی میرے اپنے  گھر کے ممبرہو۔ یہ گھر میرا اکیلے کا نہیں ہے۔ تم سبھی کا بھی ہے   اور کیا کروں گی میں اتنے بڑے گھر میں اکیلے رہ كر ! ؟ بھولو مت ویر. . . تم بھی . . . اس خاندان سے الگ ہو چکے ہو ۔۔۔ تو ایسے میں اگر میں بھی ہوتی ہوں . . . تو . . . کیا ہم ایک جیسے نہیں ہیں؟!

اس نے مسکراتے ہوئے کہا پر ویر جانتا تھا۔ کہ اس سمائل كے پیچھے کافی کچھ چھپا  ہوا تھا ۔ جسے شاید  اظہارکرنا ابھی راگنی كے بس میں نہیں تھا۔

اور بالکل ویسا ہی ہوا۔۔۔ راگنی نے جذباتی ہوکر۔۔۔   فوراََ ہی اپنا چہرہ پھیر لیا اور جب اس نے دیکھا کہ آنیسہ سمیت سبھی کاؤنٹر سے واپس اس کی اور ویر کی طرف آرہی ہیں تو فوراََ ہی اپنی آنکھیں مل کرسیدھی  ہوکر بیٹھ گئی۔

آخر میں ان سبھی نے تھوڑا انجوائے کیا جس کے چلتے راگنی کا موڈ  کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا۔

پر  اب مسلہ تھا  رات  کی . . .

ویر کو نندنی کا جو فیس/سامنا کرنا تھا۔ ویسے تو نندنی نے اسے معاف کر دیا تھا۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔۔

پر اب آمنے سامنے ملنا ایک الگ بات تھی۔
اور ظاہر ہے کہ دونوں كے بیچ بےتکلفی  برقرار  رہنے  والی تھی ۔

31ست دسمبر۔۔۔۔

ایٹ  نائٹ۔۔۔۔

ویر اپنی بائیک پر تھا اور وہ ٹھیک نندنی کی سوسائٹی میں ہی نیچے کھڑا ہوا تھا جب نندنی سمیت جوہی اور شریا نیچے اترتی ہوئی آئی۔

شریا :  ارے کیا کوئی مہمان ہو تم  ہاں ! ؟ جو ایک منٹ كے لیے بھی اوپر نہیں آئے۔۔۔

مگر اس کے الفاظ  وہی تھم گئے جب اس نے پاس آتے ہوئے ویر کو دیکھا۔

اپیرنس میں 10 پوائنٹس ڈالنے  کا  اثر تھا یہ! ؟

شریا: (شرماتی ہوئی)  یو . . .یو  لک  گڈ !

ویر ( اسمائیلز ) :  تھینکس !
شریا :  (شرماتی ہوئی)  ایسا . . . ایسا کیا لگا رہے ہو آج کل ہو ! ؟ ہمیں بھی بتا  دو . . .

ویر ( اسمائیلز ) :  اٹس آ سیکریٹ !

” ماااموووو ! ! ! ” اور بے شک ! ویر کو دیکھتے ہی اس کی پیاری پھولجھڑی بولے تو جوہی سرپٹ دوڑتی ہوئی آئی اور اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔ ویر نے فوراََ ہی اسے گُڈی میں اٹھائی اور اس کا گال چوم لیا ۔

ویر :  آ گئی جوہی ! ؟ کیا پہنی ہو آپ ! ؟ اوھ ! نیو جاکٹ ! ؟ ؟

جوہی :  ہممم ! ماسی نے دلائی !

ویر :  کیا بات ہے ! ؟ بہت خرچے ہو رہے ہیں!؟
شریا :  کیوں نہ ہونگے ! ؟ اب میں کمانے جو لگی ہوں۔

ویر ( اسمائیلز ) :  ہممم !
شریا:  (شرماتی  ہوئی)   ویسے بھی ۔۔۔ سب تمہاری ہی وجہ سے تو ہے۔

ویر آگے کچھ کہہ پاتا کہ تبھی۔۔۔۔۔

* ٹک * * ٹاک * * ٹک* *ٹاک*

اسے ہیلز کی آواز سنائی دی اور اس نے دیکھا کہ نندنی ایک خوبصورت سی ساڑھی پہنے اور ایک شال اوپر ڈالے نیچے آ رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page