Perishing legend king-150-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 150

مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ ان کا صحت مند رہنا ضروری ہے۔

تو وہیں  کار میں آگے بیٹھا پرانجل من ہی من مسکرا رہا تھا۔

سب کچھ سہی سے ہوا ۔ کیا کہنے ہے میرے بھی ! ہا ہا ~ ’

سوچتے ہوئے اس نے اپنی جیب میں ہاتھ سہلایا جس میں وہیل چیئر کا وہی ٹوٹا ہوا پہیہ  رکھا ہوا تھا۔

یہ وہی پہیہ تھا جو اس نے وہیل چیئر کو پٹکتے وقت نکال كے الگ کر دیا تھا۔  مگر کیوں!؟ ؟

کیونکہ یہی تو سارے راز چھپائے ہوئے تھا۔

‘روبوٹکس کلب کے لڑکے نے کس قسم کی تبدیلی کی ہے یہ؟ ہاہاہا ~ کمینے نے ان گندے  چھوٹےگیئرز کو اندر کیسے فٹ کر دیا!؟  لیکن کچھ بھی ہو، میں نے عین وقت پر ریموٹ کا بٹن دبایا  اور ہاہاہا ~ مندر کے پجاری کے سامنے ہاتھ میں پھیلا ہوا پرشاد پکڑا ہوا تھا۔ مندر كے پجاری كے سامنے تب میں نے اپنے ہاتھ پھیلائیں تھے اورپراشاد لے رہا تھا۔

لیکن اسے کیا معلوم کہ اس سے پہلے میں نے جیب کے اوپر کا بٹن دبایا تھا۔ ہاہاہا ~

اب بس ساری جائیداد ہماری۔۔۔ اب آگے کا پلان آرام سے کرنا ہے

سب کی نظروں سے اوجھل پرانجل ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے اپنا چہرہ چھپا رہا تھا۔

اور ادھر ہسپتال میں صرف ویویک، اروحی ،  بریجیش اور کرونیش ہی  رہ گئے تھے دادا جی کی دیکھ بال كے لیے۔۔۔

کھانے کی کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ مندر میں تقسیم کرنے والا کچھ کھانا لنچ باکس میں رکھا تھا اس لیے رات آرام سے گزرنے والی تھی۔
آروحی وہیں بیٹھی پرانا واقعہ یاد کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی۔ پھر اچانک اسے وہ واقعہ یاد آیا جب پرانجل نے اپنے غصے میں وہیل چیئر توڑ دی تھی۔

میں نے کبھی اس کو اتنا غصے میں نہیں دیکھا دادا جی كے لیے۔۔۔ اور کرسی پر کیوں غصہ نکال رہا تھا  وہ ! ؟ اٹس ناٹ لائک دیٹ کہ کرسی . . . ! ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

پتہ نہیں اسے کیا سوجھا پر اروحی اٹھی اور فوراََ ہی نیچے کار کی طرف گئی جو ان کے لیے رکی ہوئی تھی اور کار میں گھوستے ہی اس نے سب سے پہلے وہیل چیئر کو دیکھا جسکی حالت بہت ہی بگڑی ہوئی نظر آ رہی تھی۔

اس میں سے ایک چکا بھی غائب تھا۔ ہر جگہ اس نے بڑے ہی غور سے چیک کیا پر اسے کچھ بھی نظر نہ آیا

ویٹ ! اس کا ایک پہیہ کہا گیا ! ؟

اروحی : بھئیا ! یہ وہیل چیئر کا پہیہ کہا گیا ایک ! ؟

ڈرائیوراروحی میم ! ؟ یہ وہیل چیئر تو پرانجل بھئیا جب سے رکھ كے گئے ہیں، یہاں اس کے بعد کسی نے اسے نہیں چھیڑا ہے۔ جو کچھ بھی ہو گا اُدھر ہی ہو گا۔  باقی مجھے کوئی جانکاری نہیں ہے۔

اروحی : اچھا !
نا جانے کہا ں گیا ہو گا ! ؟ پرانجل نے تو مندر كے اُدھر ہی اسے پٹکا تھا ، کہیں وہیں تو نہیں گر گیا ! ؟ اُدھر جاکے ڈھونڈنا  تو اب پوسیبل نہیں ۔۔۔ آخر دادا جی کی چیئر اپنے آپ کیسے نیچے آ سکتی ہے ! ؟ مجھے دادا جی كے ہوش میں آنے کا ویٹ کرنا چاہیے۔ وہی کچھ بتا پائیں گے

 من میں انہی سوالوں کو لیے اروحی خالی ہاتھ ہی واپس سے وارڈ كے باہر آ کر بیٹھ گئی۔

اور قسمت سے ، کچھ دیر بعد ہی دادا جی کو ہوش آ چکا تھا۔

ڈاکٹر : دیکھیے ! دادا جی کو ہوش آ چکا ہے۔  پر آپ سبھی 5 منٹ بعد ہی ملنے جائیے  اندر ۔۔۔ اور ہاں ،،، ایک بار میں دو سے زیادہ  افراد نہیں۔۔۔ انہیں بولوانا بھی مت زیادہ۔ ہی نیڈز  ریسٹ۔۔۔۔

بریجیش : جججی ڈاکٹر ۔۔۔۔

اور سب سے پہلے دونوں کرونیش  اور بریجیش  منورتھ جی سے اندر مل كے کچھ دیر بعد باہر آئے۔

جب ویویک اور اروحی کی باری آئی تو وہ بھی اندر گئے۔

اروحی : د-دادا جی ! ؟

منورتھ : اروحی . . . ویویک . . . بیٹا !

ویویک : بولئے مت دادا جی ! ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ آپ بس لیٹے رہیے۔ آپ کو ہوش آ گیا یہی بہت بڑی خوشی کی بات ہے ہمارے لیے۔۔۔

اروحی : دادا جیآ-ااآپ جب مندر میں اوپر تھے۔ تو آپ کی چیئر اچانک اپنے آپ نیچے کیسے آ گئی ! ؟

اروحی کا سوال سن کرجہاں منورتھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے تو وہی ویویک اچانک ہی ایکدم الرٹ ہو گیا

منورتھ :بیٹا ! جہاں تک مجھے یاد ہے ، میں نے پیچھے مڑ كے دیکھا تھا تو کوئی نہیں نظر آیا تھا۔

اروحی : کیا ! ؟ ؟ پپ،، پر ایسا کیسے ہو سکتا ہے ! ؟ بھلا آپکی چیئر ایسے کیسے اپنے آپ . . . ! ؟

ویویک : ارے میری بہن ! آرام سے ! دادا جی کو زیادہ زور مت لینے دے دماغ  پہ۔۔۔

اروحی : وہ . . . آئی . . . پر ایسا کیسے آخر ! ؟

منورتھ : شاید آج دیوی ماتا کی یہی خواہش تھی ۔ !؟  میں اتنے سالوں سے ان کے درشن کرنے نہ گیا نا  تو دیکھو دیوی ماں نے مجھے سزا دی ہے۔

وہ مسکراتے ہوئے بولا لیکن ایسا لگا جیسے اس کی باتوں سے وویک کی آنکھوں میں چمک آگئی۔

ویویک :  ہاں ! ارے ہاں ! ایسا ہو سکتا ہے دادا جی ! آج مجھے بھی صبح پیر میں چوٹ لگ گئی تھی مندر میں ہی۔۔۔ شاید دیوی ماں بتلانا چھا  رہی تھی کہ بھلے ہی ہمارا گھر پنپ رہا ہے پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انہیں بھول جائیں۔ہمیں یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ یہ سب ان کے اشیرواد كے کارن ہی ہوتا آ رہا ہے ۔اور شاید دیوی ماتا کو پسند نہیں آیا کہ اب جب ہمیں پھرسے ان کے آشیرواد کی ضرورت پڑی تو ہم انہیں یاد کرنے پہنچ گئے۔

منورتھ:مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے بیٹا ۔۔۔ کیونکہ  میرے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ ایکدم جھٹکا سا لگا تھا کرسی کو ،  مانو جیسے کسی نے دھکا دیا  ہو۔ اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں آ رہا ۔ جتنا یاد کر رہا ہوں اتنا بھولتا جا رہا ہوں۔

ویویک : آپ دماغ پر زور بالکل مت ڈالئیے دادا جی۔ آرام کرئیے اور کچھ بھی چیز کی ضرورت ہو تو ہم سب باہر ہی ہیں۔اسے دیوی ماتا  کی سزا سمجھ كے بھول جائیے اور آگے ہم کیسے ان کی شرن میں ہمیشہ بنے رہے اِس بارے میں سوچ  کرآگے بڑھیئے۔

منورتھ : شاید . . . شاید تم سہی کہہ رہے ہو بیٹا .

ویویک ( اسمائیلز ) : ہمممم دادا جی !

اروحی : پر۔۔۔۔۔۔۔

ویویک : چلو اروحی باہر۔۔۔ دادا جی کو آرام کرنے دو

اور بےمن سےاروحی ویویک كے ساتھ باہر آ گئی۔

“ہ ہ-ہاؤ ! ؟ ؟ دِس  ڈزنٹ میکس اینی سینس۔ (کککیسے!؟؟ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ )کشش ثقل کی وجہ سے کرسی اس طرح ہل نہیں سکتی تھی۔ دادا جی نے کہا کہ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے دھکا دیا ہو! مگر اس کے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ کہیں دادا جی سے دیکھنے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی ! ؟ ؟  کیا کروں ؟ میرا دل مان ہی نہیں رہا کہ چیئر اپنے آپ نیچے آئی ہوگی

اس کے سوالوں کا جواب شاید آج تو نہیں ملنے والا تھا اسے۔پر دیکھنا یہ تھا کہ کیا ہوگا جب اروحی واقعی میں معمہ کو سلجھا پائے گی   بھی یا نہیں ! ؟ تو کیا ہوگا ہے ؟ یا اس کے دونوں بھائیوں کا یہ فعل ہمیشہ راز رہے گا؟

٭٭٭٭٭٭٭

ممبئی
11 : 00
پی ایم

اروند ٹاکرز ہیڈآؤٹ/ارونڈ ٹاکر کا ٹھکانہ

ویر اور ماہرہ دونوں ہی باندھے ہوئے تھے۔ ایکدم نڈر آنکھیں لیے ویر  اروند ٹاکر کو گھور رہا تھا تو وہیں اروند ٹاکر اس لیڈ کی روشنی سے دور اندھیرے میں کرسی پر بیٹھا ہوا چاؤ سے ویر کو دیکھ رہا تھا۔

ویر صرف  اس کے پیر ہی دیکھ پا رہا تھا ۔ کیونکہ اُدھر تک روشنی نہیں جا رہی تھی۔

تبھی راجا اروند ٹاکر كے بغل میں آیا اور بولا۔

راجا : وہ ڈیل پوری ہو گئی اور نیکسٹ ڈیل كے لیے ابھی ڈیلر كے آدمی سے ملنے جانا ہے دادا!

کہتے ہوئے اس نے ایک سوٹ کیس کھولا جس میں پیسوں کی بنڈل ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔

اروند ٹاکر : میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے راجا کہ ان چھوٹی موٹی ڈیلز كے بارے میں مجھے بار بار نہیں بتایا کرو۔ سیدھے ایک رپورٹ تیار کر بعد میں دکھا دیا کرو۔

راجا : مجھے پتہ ہے۔ پھر بھی یہ میری تسلّی كے لیے۔۔۔۔

اروند ٹاکر : ہممم ~ ٹھیک ہے۔۔۔ جاؤ اور نیکسٹ ڈیل كے لیے جس سے بھی ملنا ہے مل آؤ۔

راجا : جی دادا !
اور اتنا بول کر راجا وہاں سے نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی اروند ٹاکر نے ایک بار تالی بجائی اور ایک آدمی پیچھے سے آیا اور اس کے پاس آکے جھک گیا۔

اروند ٹاکر : راجا  پر نظر رکھو۔۔۔اگر ذرا بھی تمہیں لگتا ہے کہ پیسوں کی کوئی ہیر پھیر ہوئی ہے اور اگر وہ کسی سے ملا ہوا ہے۔ فوراََ مجھے  بتانا۔

آدمی : جی دادا !

اور وہ آدمی بھی نکل گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page