Perishing legend king-153-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 153

راگنی کا ہاتھ اس کے ہاتھ پر تھا۔

ویر : ! ؟ ؟

راگنی : کیوں کرتے ہو ایسا ! ؟

اِس بار راگنی کی آواز میں ایک کپکپاہٹ تھی۔ ڈر کی وجہ سے نہیں پر اداسی کی وجہ سے۔۔۔

ویر نے جیسے ہی اس کی آنکھوں میں دیکھا تو اور حیران رہ گیا وہ۔۔۔ راگنی کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

ویر : بھابھی ! ؟؟؟

راگنی : میں کچھ پوچھ رہی ہوں ویررر۔۔۔ بولو ! جواب دو ! کیوں کرتے ہو  ایسا ! ؟

ویرمممیں۔۔۔۔۔
راگنی :

گھر پر فون لگا كے کہتے ہو کہ کچھ کام آ گیا ہے جا رہا ہوں، آنیسہ جی سے کہتے ہو، کہ سامان وہ لے آئے اور پھر رات کو مجھے کوئی انجان آدمی تمہارے فون سے کال کركے یہ  بتاتا ہے کہ تم اسپتال میں ہو اور بری طرح زخمی ہو۔  یہ سب کیا ہے ویر ! ؟

میں تو سمجھتی تھی کہ تم مجھ سے اپنی باتیں شیئر کرتے ہو۔ میں ایک دوست کی طرح ہوں، تمہاری۔۔۔ پر تم تو جیسے مجھے اپنا کچھ مانتے ہی نہیں۔

ویرنن-نہیں ! بھابھی ! ایسا بالکل بھی نہیں۔ آپ جو سوچ رہی ہے وہ ایکدم۔۔۔۔

راگنی : غلط ہے ۔۔۔ ہے نا ! ؟ سہی کہا تم نے ۔ میں ہی تو غلط ہوتی ہوں ہر بار ویر ہے ناااا۔۔۔ میں ہی غلط ہوں۔۔۔ تبھی تو دیکھو نا ۔۔۔آج شادی شدہ ہوکے بھی اپنے شوہر كے ساتھ نہیں ہوں۔ کیوں کہ میں غلط جو ہوں  ناااا۔۔۔

ویر : بھابھی ! میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ آپ کہاں کی بات کہا ں لے جا رہی ہو ! ؟ ایک منٹ !!! میری بائیک ! ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

راگنیتتتمہاری بائیک نیچے ہی  پارکنگ میں کھڑی ہے۔

ویر : ہو ! ؟ و-ووہ کیسے ! ؟ اُوں ! آئی سی !

وہ راگھو . . . شاید اسی نے میری پاکٹ سے چابی  نکال كے اپنے کسی آدمی کے زریعے بائیک کو یہاں لانے كے لیے کہا ہوگا ۔ واؤ ! پریزنس آف مائنڈ(دماغ کی موجودگی) بڑھیا ہے اس بندے کا۔۔۔ہی ایون تھوٹ آف دیٹ. . . ! ؟( یہاں تک کہ اس نے سوچا۔)  آئی مین اوبیسلی، تبھی تو وہ مس ماہرہ کا باڈی گارْڈ ہے’

راگنی : تمہارے ساتھ اتنا سب کچھ ہو گیا اور تمہیں بائیک کی پڑی ہے ویر!؟

ویرہ-ہوہ  ہ ہ ! ؟ نہیں . . . آئی مین ، وہ آپ نے دی تھی نا مجھے۔ کیا آپ کو ٹینشن نہیں ہورہی۔۔!؟

ویر کی اِس بات پر جیسے راگنی ایکدم بھڑک اٹھی۔

راگنی :  ویر پاگل ہو گئے ہو کیا  ! ؟ تمہیں بائیک کی پڑی ہے ! ؟ اپنی حالت تو دیکھو تم۔ ارے ایسی 100  بائکس آجائیں گے۔ بائیک ضروری  ہے یا  تم  ویر ! ؟ ؟ ؟

وہ اونچی آواز میں بولی تو ویر ایکدم خاموش ہوکے رہ گیا  اور  ساتھ ہی حیران بھی۔

راگنی اس کے ایکدم قریب آ چکی تھی۔ اتنے قریب کہ اسے راگنی کی گرم سانسیں تک اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں۔  اور  ہونٹ جو تھرتھرا رہے تھے۔

اور جیسے راگنی کو بھی اسی وقت اِس بات کا اندازہ ہوا تو اس نے فوراََ ہی اپنی نظریں ویر پر سےپھیر لیں اور تھوڑا پیچھےکھسک گئی۔

شاید ، ان گورے گالوں  پہ لالی بھی چائی ہوئی تھی اِس وقت۔۔۔

ویر : امممم . . . تو ! ؟ نندنی میم یہاں . . . ! ؟

راگنی : میں نے بلایا تھا صبح انہیں۔ کل وہ گھر آئی تھی۔

ویر : کل ! ؟ کب ! ؟ میرے جانے كے بَعْد ؟ ؟ اتنی لیٹ ! ؟

راگنی : وہ کہیں سے لوٹ رہی تھی۔ میں نے پوچھا تھا تو کچھ بتایا نہیں انہوں نے۔۔۔ کل انہوں نے مجھے تو ایسے سنایا تھا کہ میں تمہارا ٹھیک سے دھیان نہیں رکھتی ، کچھ خبر نہیں لیتی تمہاری ، تم کالج چھوڑ رہے ہو ، وغیرہ وغیرہ  اور واقعی،  شاید انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اب سے تمہارے اوپر دھیان دینا پڑیگا مجھے ۔

میم  رات میں گھر پر ! ؟ شی . . . ! ؟ آہ ! رائٹ ! وہ شاید وہیں گئی ہونگی۔اپنے ہسبنڈ كے یہاں،  دیٹ باسٹرڈ، ہی مائٹ ہیو  کالڈ  ہر(وہ کمینہ۔ اس نے شاید اسے بلایا تھا۔)’

ویر : ہممم ! انہوں نے ایسا کہا ! ؟

راگنی : ہاں بالکل ! اور یہ کالج کا کیا سین ہے ہاں ! ؟

ویر : ڈونٹ وری میں انہیں۔۔۔۔

ویر اپنی بات پوری رکھ پاتا کہ تبھی گیٹ کھلا اور ڈاکٹر اندر آیا نرس كے ساتھ۔۔۔

ڈاکٹر : واقعی ! میں حیران ہو انہیں اتنی جلدی ہوش آ گیا۔ نرس ! ؟

نرس : یس  ڈاکٹر !

اور نرس ہاں میں سرہلاتے ہوئے ویر كے چیک اپ میں لگ گئی۔

راگنی : پلیز ڈاکٹر ! ویر ٹھیک ہے نا ! ؟ اسے کوئی اندرونی چوٹ کا ڈر تو نہیں ! ؟ کہی کچھ ایسا تو نہیں جو آپ چھپا رہے ہو ! ؟

ڈاکٹر ( ہنستے ہوئے ) : نو نو . . . ! ہاہاہا ~ ایسا بھلا کیوں کرونگا  میں !؟  ہی لوکس فائن۔۔۔مور دین فائن ایکچولی۔ (وہ ٹھیک لگ رہا ہے۔ اصل میں ٹھیک سے بھی زیادہ)  میں واقعی . . . مجھے تعجب ہے اِس بات کو لیکر۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ زخم ایک چاقو گھونپنے والا زخم تھا۔ دو جگہ۔۔۔اور دونوں ہی جگہ آپس میں کافی نزدیک ہے۔ خاص کار پہلا زخم وہ کافی گہرا ہے۔  اور مجھے لگا تھا آپ کو ابھی تو بالکل بھی ہوش نہیں آنے والا۔۔۔اینڈ آئی  ایم ریلی ریلی سرپرائزڈ!

ویر صرف مسکرا ہی پایا۔

اب وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ بھئیا اس کے اندر پری ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ری کوری سپیڈ پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔۔ تو بس چُپ رہنا ہی بہتر تھا یہاں پہ تو۔۔۔

راگنی ( آہ بھرتے ہوئے) : تھینک یو ڈاکٹر!

ڈاکٹر : لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو نرمی برتنی ہوگی۔پراپر  ریسٹ اوکے ! ؟ اور ابھی کیسا محسوس ہو رہا اور آپ اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہیں؟!

ویر : آئی فیل فائن !

ڈاکٹر : میرا مطلب ہاتھ سے تھا . . . !

ویر : اُوں !!! ہاتھ میں کچھ بے حسی ہے۔

ڈاکٹر : ہممم ! وہ رہیگی ابھی۔۔۔ اور دَرْد ہے کیا ! ؟

ویر : ہلکا پھولکا !
ڈاکٹر : ہمممبے حسی کم ہوتے ہی بڑھے گادَرْد تھوڑا، باقی تو سب ٹھیک ہے ۔۔۔گڈ ! گڈ ! اسٹرونگ بوائے ہو ! ؟ اینی ویز ! کچھ بھی ہو تو نرس کو بول دینا۔ اگر کچھ زیادہ لگے گا تو نرس مجھے خود انفارم کر دے گی۔

راگنی : تھینک یو  ڈاکٹر!

ڈاکٹر ( اسمائیلز ) : ویلکم !
اور نرس اور ڈاکٹر دونوں ہی وہاں سے چلے گئے۔

راگنی اور باتیں کرتی پر جیسے سمے ابھی كے لیے گزر چکا تھا ، کیوں کے ڈاکٹر كے جاتے ہی آنیسہ نےدروازہ کھولا اور ان دونوں کو دیکھا اور اشارہ سمجھتے ہوئے راگنی اٹھی ، اور باہر جانے لگی۔

پر جاتے جاتے وہ پلٹ کو ویر کو دیکھنا نہ بھولی ۔ اور ویر بھی تھوڑا  اپنے کیے پر شرمندہ  ہوتے ہوئے راگنی کو دیکھتا رہا جب تک کہ وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔ پر ویر جانتا تھا۔ اس کی اور راگنی کی باتیں ادھوری تھی۔  وہ ضرور بَعْد میں آکر اِس حادثے کی پوری جانکاری لے گی اس سے۔ اور سوالوں پر سوال پوچھے گی ۔ لگتا ہے ویر کو اس کے لیے خود کو پریپیئر/تیار کرنا پڑیگا ۔

خیر ! راگنی كے جاتے ہی آنیسہ  تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی  ویر كے پاس آئی ،

آنیسہ : مممالک ! ! ! ! آآآآپ ۔۔۔۔

ویر ( اسمائیلز ) : میں ٹھیک ہوں۔ بس تھوڑی سی چوٹ آئی ہے۔

آنیسہ نے بڑی نرمی سے ویر کے ہاتھ پر بندھی پٹیوں پر انگلیاں پھیریں۔ جیسے وہ کسی بہت نازک چیز کو چھو رہی ہو۔

آنیسہ : اتنا سب کچھ . . . ؟ ؟ کیسے ہوا ! ؟ کس نے کیا!؟ ککیسے آپ . . . ممممپہح ! ! ؟ ؟ ؟

پر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی اس کے ہونٹ ویر كے ہونٹوں کی گرفت میں تھے۔

سلورپ *
مممم . . . ! ! ! ؟ ؟ ؟ ؟ وممپہہح ! ! ! ! ؟

اور کچھ پل كے بَعْد جب دونوں كے ہونٹ آپس میں الگ ہوئے تو ایک تھوک کی پتلی سی ڈور ان دونوں كے منہ كے بیچ رہ گئی۔

اِس اچانک ہوئے حملے سے آنیسہ تو حیران تھی  ہی پر ساتھ ہی ساتھ وہ شرما بھی رہی تھی۔ کیونکہ ویر نے اسے کھلی جگہ کس کیا تھا۔

آنیسہمممالک ! ؟ ؟

ویر : آہ !  آئی  ریلی مسڈ دس۔۔۔

کہتے ہوئے ویر نے اسے اپنے پاس کھینچا اور اس کے ان نرم نرم گول خربوزے جیسی مموں پر اپنا سررکھ  کروہ آنکھیں بند کرکے آرام فرمانے لگا۔

آنیسہ : مممالک ! ؟

بیچاری آنیسہ ! اس کی کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا یہ آخر!؟ بے شک ! اس کے ہونٹ اس کے مالک تو چُوسنے ہی تھے مگر ایسے اچانک سے ! ؟ یہ کچھ نیا سا تھا اس کے لیے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page