Perishing legend king-164-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 164

مممجھے معاف کرنا ۔۔۔ اس طرح میرے گھر پر۔۔۔۔ گرو جی کو . . . “

ارے ! ؟ نہیں نہیں ! اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے ۔یہ تو زندگی ہے۔ کب کہاں  پہ  نا جانے کس كے ساتھ کیا ہو جائے۔ اچھا ! اب میں چلتا ہوں

 ” ارے ؟ پر گرو جی کی شکرانہ؟
شکرانہ؟   گرو جی تو اپنے نام پر آج تک ایک روپیہ بھی نہیں لیے۔۔۔ وہ تو ویسے ہی قدرت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ہاں ! پر کبھی کبھی کچھ ڈیلر لوگ ان کے شاگردوں  کو تھوڑا بہت تھما دیتے ہیں اور بدلے میں گرو جی اس شکرانہ کو سماج كے کاموں میں لگا دیتے ہیں یہی ہے بس ہمارا تو . . . “
ہاں ! تو ، روکیے نا آپ ۔۔۔ ” کہتے ہوئے کمال فوراََ ہی اندر گیا اور اس نے پیسوں کی کچھ گڈی الماری سے نکال لئے اور لا کر رتن كے ہاتھوں میں تھما دیئے۔

اررییے ! ؟ ی ی ی . . . یہ کیا کر رہے ہے آپ ؟ اتنے سارے پیسے ؟

دیکھیے ! یہ میری طرف سے ہے۔ گرو جی کو دھنےواد کہئیے گا۔ اور آپ ان پیسوں کا مجھے پتہ ہے نیک کام كے لیے ہی استعمال کرینگے

 ” پپ پر . . . ! ؟ ! “

دیکھیے ! نا مت کہئیے گا ! اور معافی چاہتا ہوں میں تھوڑا جلدی میں ہوں۔ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا گھر میں۔۔۔ گھر کا مکھیا ہونے كے ناتے مجھے ہی سب دیکھنا ہوگا

اور کہتے ہوئے کمال وہاں سے نکل گیا۔ پولیس آچکی تھی اور ساری جانچ پڑتال ہورہی تھی۔

پر اس سے پہلے ہی رتن وہاں سے اپنی تھیلی میں وہ پیسے لیے نکل چکا تھا۔

ہا ہا ہا ہا ~ مان گئے گرو جی کو۔۔۔ یہ تو لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ باپ رے ! ! ! یہ اتنا رئیس آدمی کہاں سے مل گیا گرو جی کو ؟
وہ سوچتے سوچتے بس اسٹینڈ پہنچا اور ایک بس میں سوار ہو گیا۔۔۔ اور اندر ہی ایک سیٹ پر اس کے گرو جی بیٹھے ہوئے تھے۔ جیسے مانو وہ اس کا ہی انتظار کر رہے تھے۔

وہ پیسے ۔۔۔  ظاہر ہے کہ کسی نیک کام میں استعمال نہیں ہونے والے تھے۔ بلکہ ان پیسوں کا استعمال تو  دارو ،  اور باقی عیش وآرام كے لیے استعمال ہونے والا تھا۔گرو جی اور ان کے شیشیا/شاگرد  مل کر کتنا بڑا ڈھونگ رچا رہے تھے دُنیا كے لوگوں كے ساتھ یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا۔

شاید ، ابھی تک کسی نے بھی گرو جی کو نہیں پکڑا تھا۔ اور ایسے ہی ان کی زندگی عیش و آرام سے بھر چکی تھی۔

پر۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں گرو جی  لوگ مستی میں لگے تھے وہیں دوسری طرف بیچاری ننھی ماہرہ کی زندگی جیسے اجاڑ كے رکھ دی تھی گرو جی نے۔

کمال نے اس کا اسکول جانا سخت بند کر دیا تھا۔
پہلے تو ماہرہ کو بات سمجھ نہیں آئی۔ کیونکہ وہ کافی چھوٹی تھی۔ پر جیسے جیسے وہ بَڑی ہوئی ، اور اسے پتہ چلا کہ اس کی سہیلیاںسبھی  باہر نکل كے گھومنے پھیرنے اسکول جاتی تھیں تو جیسے اسے سمجھ میں آیا۔

وہ ضد کرتی ، اور کمال اس کی باتیں اگنور کر دیتا ۔۔۔وہ روتی ، بیلکتی ، کہ اسے بھی باہر جانا ہے۔۔۔ پر کوئی فائدہ نہیں۔

وہ ایک بند پنجرے میں کسی چڑیا کی طرح بن كے رہ گئی تھی۔ بے شک ! اسے تعلیم گھر پر ہی دی جا رہی تھی۔ ہر ایک شہر  کا  ہونہار پروفیسر آکے اسے پڑھاتا تھا۔

پر۔۔۔۔
کیا فائدہ تھا ایسی تعلیم کا ؟ جہاں اسے کوئی آزادی تک نہیں تھی۔ وہ بس اس عالیشان سے بنگلے میں قید رہ کے کھڑکی سے باہر باقی بچوں کو راستے میں  ہستے کھیلتے ہوئے گزرتے دیکھا کرتی تھی۔

اس کی سہیلیاں ضرور کبھی کبھی آتی تھی۔ سونو اور آروی۔

پر جیسے دھیرے دھیرے ان سے بھی اس کا ٹچ ختم ہو رہا تھا۔

دوست کیا ہوتے ہیں ، شاید یہ بھی وہ اب بھولنے لگی تھی۔

ایک سمے ایسا بھی آیا جب اس کی ماں کا ڈیتھ ہوگیا۔۔۔ اور تب سے وہ جیسے اور شانت سی ہو گئی۔

باپ ، جو اس کی بات سنتا ہی نہیں تھا۔ صرف اس کی پڑھائی کی بات کرتا تھا۔ ماں ، جو وقت سے پہلے چل بسی۔

اور ایک چھوٹا بھائی ، جو ابھی کافی چھوٹا تھا ان سب باتوں کو سمجھنے كے لیے۔۔۔

جب ماہرہ آٹھویں میں تھی تب اس کی پڑوسی سہیلی آروی ، وہاں سے چلی گئی  ویدیش۔۔۔ ہمیشہ كے لیے۔۔۔

اور جانے سے پہلے بھی ، وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے صرف ایک بار ہی مل پائے۔
آروی : آئی ’ ایم گوئنگ ماہرہ!

ماہرہ : ہمممم ~
آرویتتتم۔۔۔تم کب تک ایسے رہوگی ؟ گھر میں ؟
ماہرہ : جب تک ڈیڈ الاؤ نہیں کرتے۔

آروی : تمہیں اپنے ڈیڈ سے بات کرنی چاہیے۔ ریلی !
ماہرہ : آئی وِل!

آروی آگے بڑھی اور اس نے ماہرہ كے ہاتھ میں ایک بریسلیٹ پہنایا اور اس کے گلے سے لگ گئی۔

آروی ( روتی ہوتی ) : آئی ول نیور فارگیٹ یو۔۔۔ گڈبائے !
پر ماہرہ کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ اسے رونا چاہیے یا نہیں۔۔۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کچھ۔ کیونکہ وہ بچپن سے ہی ان سب فیلنگز سے جیسے دور  رہ گئی تھی۔

ایک چھوٹے بچے کو آپ بچپن میں جو سکھاوگے ، بڑے ہونے كے بَعْد وہ اسی کو فالو کرتا ہے۔۔۔ اور اس کے علامات بھی دیکھنے کو ملتے ہے ۔

ماہرہ كے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اسے فیلنگز كے بارے میں کچھ سکھایا ہی نہیں گیا تھا۔

اس کا دن شروع ہوتا تھا صبح  5 بجے۔ نوکر آکے اس کے کپڑے بدلتے تھے۔ ناشتہ ہوتا تھا  ڈائیننگ ٹیبل پر۔۔۔ صبح صبح اس کے حسن اخلاق کی ایک کلاس لگتی۔۔۔ اس کے بَعْد صبح سے رات تک الگ الگ مضامین كے ٹیچرز آکے اسے پرسنلی پڑھاتے تھے۔

بیچ بیچ میں اٹھ کر وہ اپنا لنچ کرتی اور رات میں ڈنر اور بس پھر اس کا دن ختم ہو جاتا۔ اور اگلے دن سے پھر وہی روٹین شروع۔۔۔

اس کے دوست نہیں تھے۔۔۔ جو تھے وہ بھی اب نہیں آتے تھے۔ آروی جا چکی تھی۔ سونو ہی ہمیشہ بیچ بیچ میں ضد کر كے آجاتی تھی اور اس سے بات کرتی۔

کبھی کبھی تو سونو اس کے ڈیڈ سے بھی لڑتی تھی۔

وہ ماہرہ سے سوال کرتی کہ کیوں وہ اپنے آپ کو یوں قید کرکے رکھے ہوئے ہیں۔

تو ماہرہ بس ایک ہی جواب دیتی ،

” ڈیڈ مجھے کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں

اور بس ، وہی ڈسکشن ختم ہو جایا کرتا تھا۔

وہ ایک روبوٹ کی طرح بن چکی تھی۔ جسے بس کام کروانے كے لیے بنایا جا رہا تھا۔

جب اس کا جنم دن آتا تو بس ایک کیک کاٹا جاتا تھا اور بس ہو گیا اس کا جنم دن۔

اپنے بھائی شمائل سے کبھی کبھی ماہرہ کو جلن ہوتی تھی۔۔۔ کیونکہ اس کا بھائی اسکول بھی جاتا تھا اور دوستوں كے ساتھ کھیلنے بھی۔ اسے  پرایسی کوئی پابندی  ہی نہیں تھی۔

پر جیسے اس کا یہ اِیموشن بھی غائب ہو گیا۔ایک طرح سے اسے بس اب بزنس کرنا آتا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ بزنس  سنبھالنے كے لیے ہی پڑھ رہی تھی اب تک۔

باقی ساری چیزیں جیسے وہ بھولتی جا رہی تھی

جب اس نے اس کول سے گریجویٹ کیا تو کمال نے اسے پہلی بار ویدیش بھیجا یونیورسٹی  جوائن کرنے كے لیے۔۔۔ پر وہاں بھی ،  وہ ایک بنگلے میں رہتی تھی۔ یونیورسٹی نہیں جاتی تھی۔ اور وہی سے اس نے یونیورسٹی  میں ٹاپ بھی کیا تھا۔

سونیا عرف سونو ، اس کی بچپن کی دوست اس سے جلتی تھی۔ کیونکہ ہمیشہ ہی ماہرہ اس سے آگے رہتی تھی۔ آخر اتنا نالج کوئی شخص لے گا تو ظاہر ہے کہ وہ باقی لوگوں سے آگے ہی رہیگا۔

پر سونیا کو جب یہ بات سمجھ آئی کہ اس کی دوست اس پر ذرا بھی دھیان نہیں دیتی۔ تو سونیا نے جیسے یہ مقصد بنا لیا تھا  اپنا۔۔۔

وہ بھی سیم یونیورسٹی جائیگی۔۔۔ وہ بھی ماہرہ کے نقش قدم پر  بھاگ لے گی اور ماہرہ  کو ہرائے گی۔ تاکہ اس کی دوست اس پر دھیان دے۔

کبھی کبھی ماہرہ کچھ مقابلےمیں حصہ لیتی تھی۔  پر مقابلے ختم ہوتے ہی  وہ  غائب۔

اور اسی طرح اس کی زندگی جہنم بن گئی تھی۔ایک کھلا ہوا گلاب ایسے ہی مرجھا کر رہ گیا۔

٭٭٭٭٭

شمائل : اور یہ ہے۔۔۔ دیدی کی سچائی۔

جب شمائل نے ساری باتیں بتا کر اپنی بات ختم کی تو  ویر کی مٹھی غصے میں کس گئی۔

ڈیم اٹٹٹٹٹ ! ! ! ! “

تھوڑ*

اس نے زور سے اپنا مٹھی بینچ پر ماری تو  لوہے کی وہ بینچ پہ ایک DENT پڑ گیا۔

شمائل اس کے غصے کو دیکھ کر تعجب تھا۔

ویر : سو  دیٹس د  ریزن ۔۔۔۔ دیٹس د  ریزن وائے شی۔۔۔ڈیم اٹ! ! ! !

ویر کو یاد آیا کہ ماہرہ کی ملاقات اس سے پہلی بار کب ہوئی تھی۔۔۔ کلب میں۔۔۔

اور اسے جیسے سمجھ آچکا تھا کہ کیوں ماہرہ وہاں آئی تھی۔۔۔ شی جسٹ وانٹڈ ٹو نو تھنگس آؤٹ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page