کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،
ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا، اور پھر ۔۔۔۔۔
چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Smuggler –240–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025 -
Smuggler –239–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025 -
Smuggler –238–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025 -
Smuggler –237–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025 -
Smuggler –236–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025 -
Smuggler –235–سمگلر قسط نمبر
August 2, 2025
ہوس کا جنون قسط -- 16
جب منی دماغ سے اتری تو ایک ڈر پیدا ہوا کہ کہیں صبح ثمینہ نے گانڈ پہ گری منی دیکھ لی تو اچھا نہیں ہو گا۔ میں نے ٹراؤزر سے اورہاتھ کی مدد سے منی صاف کر دی پھر نیچے آ کر سو گیا۔
پورے دن میں کافی دیر تک سویا رہا… ثمینہ نے مجھے جگایا تو مجھے کل رات والا سین یاد آ گیا۔ ثمینہ بالکل نارمل تھی جس کا مطلب اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ آج مجھے ثوبی سے بھی ملنے جانا تھا۔ میں نے یہ خیال کیا تھا کہ آج اس کی پھدی مار کر رہوں گا۔ صبح 12 بجے چمچماتی دھوپ میں ثوبی کے کھیتوں کی طرف چل پڑا۔
راستے میں، میں نے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لیا۔ ثوبی نے مجھے اپنے کھیتوں کی لوکیشن سمجھا دی تھی۔ گاؤں سے کافی دور جانے کے بعد مکئی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ مکئی ثوبی لوگوں نے لگا رکھی تھی۔ ان کھیتوں کے درمیان ایک پانی والا نالہ تھا جو اس وقت خشک تھا۔ میں اس پر چل کر آگے گیا تو یہ نالہ ایک ٹیوب ویل کے پاس جا کر رکا۔
وہاں ٹیوب ویل کے ساتھ ایک کمرہ تھا جس میں یقیناً ٹیوب ویل کی مشینری وغیرہ ہو گی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا اور اس پر تالا لگا ہوا تھا۔ ٹیوب ویل کا حوضی والا حصہ باقی جگہ سے قدرے اونچا تھا۔ میں حوض سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ثوبی کا انتظار کرنے لگا۔ ارد گرد اونچی مکئی کی فصل تھی اور گرمی زیادہ تھی جس کی وجہ سے میں پسینے میں بھیگ گیا اور کپڑے بھیگ گئے۔ میری نظریں ثوبی کے گاؤں جانے والے راستے پر جمی تھیں۔ کچھ دیر بعد اس راستے پر دو حسینائیں آتی نظر آئیں، میں دور سے ہی سمجھ گیا کہ یہ ثوبی اور عائزہ ہی ہوں گی۔
ان کی ہلتی بھاری چھاتیاں دور سے ہی نظر آ رہی تھیں۔ ان کو دیکھ کر میرے جسم میں ہلچل ہونے لگی۔ ان کے خوبصورت جسم اور اس پر پہنا ہوا باریک فٹنگ والا سوٹ میرے لیے شارٹ سرکٹ کا کام کر گیا۔ ثوبی نے کالے رنگ کا باریک سا سوٹ پہنا تھا اور عائزہ پیچھے تھی۔ ثوبی کی بازو کی مچھلیاں بھی دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ باریک نیٹ والا دوپٹہ گلے میں تھا اور لمبے کھلے بال اس کے چلنے سے لہرا رہے تھے۔ میں نے اس کو ایسے ڈریس میں پہلی بار دیکھا تھا، وہ پوری شہزادی لگ رہی تھی۔
ثوبی کے پیچھے عائزہ تھی، اس کا قد ثوبی سے چھوٹا تھا لیکن وہ بھی پوری سیکس بمب لگ رہی تھی۔ اس نے سفید اور پنک کلر کی شرٹ اور لیگی پہنی ہوئی تھی۔ لیگی سے جھانکتے چوتڑ اور پیٹ کے اوپر بڑے ممے ہیجان پیدا کر رہے تھے۔ اس کی ٹائٹ شرٹ میں سے بڑے ممے کچھ زیادہ ہی ہل رہے تھے۔ اس نے نیٹ کا پنک کلر کا دوپٹہ لیا ہوا تھا جسے اس نے ناک پر چڑھا کر نقاب کیا ہوا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ عائزہ بھی اس قدر بھرپور جسم کی مالک ہے۔ یہ نظارہ میرا لَن کھڑا کرنے کے لیے کافی تھا۔ اتنے میں وہ میرے پاس آ گئیں اور ثوبی نے مجھے ہلا کر “ہیلو جان” کہا۔
میں: “ہائے… میں کہیں بے ہوش نہ ہو جاؤں تمہیں دیکھ کر۔ ہائے عائزہ…”
عائزہ: “ہائے…”
ثوبی: “ابھی دیکھا ہی کیا ہے جو بے ہوش ہو جاؤ گے…”
ثوبی کی قمیض پسینے کی وجہ سے جسم سے چپکی ہوئی تھی۔ نیچے سے اس کا سکن کلر کا برا نظر آ رہا تھا… اس کے ممے بھی پسینے سے بھیگے ہوئے تھے۔ عائزہ نے جس کلر کا ڈریس پہنا تھا پسینے نے تو اسے برباد کر دیا تھا۔ پنک قمیض نم ہو کر جسم سے چپکی ہوئی تھی، اس کا پیٹ اور ناف (دھنی) صاف نظر آ رہے تھے، اور بلیک برا جس نے 2 تربوز چھپا کھے تھے… نیچے سے اس کی تھائیز دکھ رہی تھیں۔
عائزہ کو دیکھ کر موڈ ہوا کہ پہلی فرصت میں اسے چود ڈالوں جو ننگی ہوئی پھر رہی ہے۔ کالج میں کیسے کھلا گاؤن پہنتی ہے اور یہاں کیسے ننگی ہوئی پھر رہی ہے۔
میں: “یہ بجلی کس پر گرنے والی ہے عائزہ؟”
عائزہ: (ہنس کر) “تم پے ۔”
میں: “تم اپنی کزن سے مار کھاؤگی ۔”
یہ کہتے ساتھ ہی میں نے عائزہ کے سامنے ثوبی کے ہونٹوں پر کس کر دی۔
ثوبی: “او پاگل! کتنے بے چین ہو رہے ہو، کچھ تو خیال کرو…”
میں: “کتنے دنوں بعد ملی ہو میرا تو دل ہے کہ ابھی چھپی ڈال لوں۔”
ثوبی :” رکو بابا رکو۔۔کہیں تم مجھ سے مار نہ کھالینا”
پھر میں نے اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان سے جوس اور جو چیزیں لائی تھی وہ نکال کر کھانے پینے لگے۔
ثوبی: (اپنی چھاتیاں اچھال کر) “تمہارا جوس تو بہت مزے کا ہے عامر…”
میں: “ابھی تو اور بھی مزہ آئے گا جوس پینے کا ڈارلنگ…”
ثوبی : “تم بھی اور جوس لو گی عائزہ ؟”
عائزہ: (ہنس کر) “نہیں میرے لیے اتنا ہی بہت ہے۔”
میں: (عائزہ کے ممے تاڑتے ہوئے) “ہاں تمہارے پاس تو خود کی جوس بنانے والی مشین ہے۔”
عائزہ: “نہیں میری مشین ابھی ورکنگ میں نہیں ہے۔”
اور ہم تینوں ہنسنے لگے۔ میری نظر بار بار ثوبی کے مموں کی طرف جا رہی تھی جو اس کے سینے پر ہل رہے تھے… اس کے مموں کے نپلز صاف نظر آ رہے تھے۔ وہ گلے سے دوپٹہ اتار کر چہرے سے پسینہ صاف کر رہی تھی۔ اس کے مموں کا اوپر والا حصہ ننگا ہو کر بڑی سیکسی کلیویج بنا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میرا سانس گلے میں اٹک گیا۔ قمیض کے گلے میں سے جھانکتے دودھ جیسے سفید ممے غضب ڈھا رہے تھے۔ میرے لَن نے انگڑائی لی اور میں نے غیر محسوس انداز میں ثوبی کی تھائیز پر ہاتھ رکھ دیا۔ اب ثوبی دوپٹے سے مموں کے اوپر والے حصے کو صاف کرنے لگی تو میں نے اس کے ہاتھ سے دوپٹہ لے لیا…
میں:”یہ تو میرا کام ہے”
کہہ کر میں اس کے مموں سے پسینہ صاف کرنے لگا اور ہلکا سا اس کا مما دبا دیا۔ عائزہ یہ دیکھ کر ہنس رہی تھی۔
ثوبی: “عامر شرم کرو عائزہ سامنے ہے۔”
عائزہ: “میں ذرا فصل دیکھ لوں گی۔”
پھر عائزہ اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی میں نے ثوبی کو پکڑ لیا۔ اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ممے زور زور سے دبانے لگا… اور ساتھ ہی اپنے ہونٹ ثوبی کے ہونٹوں سے جوڑ دیے… میرے سارے جسم میں سرور کی لہریں دوڑ گئیں۔ عائزہ نے مڑ کر ہماری طرف دیکھا اور ہنس کر اس کمرے کے پیچھے غائب ہو گئی۔
اتنی خوبصورت جوانی میری باہوں میں تھی تو میں وحشی ہو گیا۔ میں کس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی قمیض کے اندر لے گیا۔ پہلے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہا پھر اوپر لے جا کر برا کے اوپر سے اس کے ممے دبانے لگا۔
ثوبی: “اپنا سانپ کہاں چھپایا ہوا ہے؟”
پھر خود ہی ہاتھ بڑھا کر ٹراؤزر کے اوپر سے میرا کھڑا لَن پکڑ لیا۔ ثوبی کا ہاتھ جیسے ہی میرے لَن سے لگا تو میرے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگا۔ میں مزے کی بلندیوں کو چھونے لگا… میرے ہونٹ بے اختیار نیچے آئے اور اس کے مرمریں ممے سے پسینے کی دھار صاف کرنے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے