Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 226

میں نے اروی کی کمر بیڈ کے کنارے تک کھینچ کر گھٹنے موڑتے ہوئے۔ان کی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر ۔۔۔ اپنا لن ایک دھکے میں ہی اندر تک گھسا دیا۔ اروی نے مدہوشی میں آہ بھری ۔  اور میں نے  دھکے پہ دھکے مارنے شروع کر دئیے۔۔۔ اپنا پانی نکلنے تک اروی کی اسی پوزیشن میں چدائی کرتا رہا ۔ ہم دونوں کا پانی اِس بار ایک ساتھ نکلا۔۔۔اور میں اروی کے اوپر ہی ڈھیرہو گیا۔

آاااہہہہ ۔۔۔ سسس ۔۔۔ اُممم۔۔۔

کیوں تڑپتی ہوں میں اتنا  تمہارے لئے۔۔۔ کیا تمہیں میری یاد نہیں آئے گی جب تم چلے جاؤگے ؟  کیسے میں رہونگی اکیلے ماانے۔اگر ممکن ہو آپ کیلئے۔۔۔ تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ  مااانے۔ اروی کی باتوں سے میں چونک گیا۔  

آپ کو تو پتہ ہے اروی۔ کہ میں  کس حالات سے گزر رہا ہوں۔ میں کون ہوں؟  کیا ہوں؟ ایسے حالات میں۔۔۔۔۔ مگر جتنے دن  بھی میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔  باقی کل کس نے دیکھا۔ میں نے اروی کو سمجھایا۔

سچ کہتی ہوں۔۔۔ تم سے دور رہنا،مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ہے۔جیسے جیسے دن قریب ہو رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں  پر مجھے ہر وقت تمہاری یاد  ستانے لگتی ہے۔

میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔  آپ کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات میں بھی کبھی بھول نہیں سکوں گا۔ آپ نے ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا۔ آپ بہت اچھی اور صاف دل  کی ہو۔

ہمارے درمیان کافی باتیں ہوئیں اس دن۔ 

رات کو اروی اور دیوی کے ساتھ تھرسم سکس بھی کیا۔  دیوی اور اروی ایک دوسرے کے ساتھ اب بہت زیادہ بے تکلف ہوچکی تھی۔

دو دن اور گزر گئے۔ روہن والے بنگلے میں کوئی نہیں آیا۔ البتہ بنگلے کے پچھلی طرف پہاڑی پر میں نے گدھوں کو منڈلاتے نیچے اترتے اور پرواز کرتے دیکھا تھا۔ کونال اور  کالیا کی لاشیں اسی رات کرشمہ نے باہر پھینکوا دی تھیں اور اب گدھ دو  دن سے دعوت اڑا ر ہے تھے۔ میں کونال  کیلئے اپنے آپ میں بے حد افسوس کر رہا تھا۔ اس نے ہمارے لیے جان دیدی تھی۔ ہم نہ تو اسے بچانے کی کوشش کر سکے تھے اور نہ ہی اس کے انتم سنسکار کا کوئی بند و بست۔ اگر اس رات کرشمہ وغیرہ کے جانے کے بعد ہم تہہ خانے کے راستے اس کی لاش اٹھا بھی لاتے تو اسے ٹھکانے لگانا ہمارے لیے مسئلہ بن جاتا۔ بہر حال اب تو میں اس کی روح کیلئے دعا کر سکتا تھا۔

تیسرا دن بھی گزر رہا تھا۔ روہن والے بنگلے کی طرف کسی نے رخ نہیں کیا تھا۔ میں اپنے آپ میں کچھ بےچینی سی محسوس کرنے لگا۔ یہ خاموشی مجھے کھل رہی تھی اسے نہ صرف یہ علم تھا کہ اتنے عرصہ تک ہم روہن کے اس بنگلے میں رہے تھے بلکہ وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ اس بنگلے کے تہہ خانے میں ایک بہت بڑا خزانہ موجود ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکی تھی۔ وہ اس رات  اروند اور دو تین آدمیوں کو لے کر آئی تھی۔ اس نے اروند کو بھی اس خزانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس لیے اس نے روہن والے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ کرشمہ کو تہہ خانے میں خزانہ نہیں ملا تھا ۔ وہ کنفیوز ہو گئی تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ کسی وقت واپس آئے گی اور اکیلی آئے گی۔ اس خزانے کے بارے میں سوچتے ہوئے دفعتا میرے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔

“اروی ۔” میں نے اروی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”  کیایہ اچھا نہ ہو گا کہ آج رات روہن کا وہ خزانہ بھی یہاں لے آئیں۔

مجھے اس کی ضرورت نہیں”۔ اروی نے جواب دیا۔ ” تم لوگ تو جانے کا پروگرام بنا رہے ہو ۔ میں اکیلی سب کچھ کیسے سنبھالوں گی ۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوئی پھر بولی۔ ” میں نے بھی طے کر رکھا ہے کہ تم لوگوں کے جانے کے ایک دو روز بعد میں بھی کسی طرح یہاں سے نکل جاؤں گی۔ جو کچھ بھی اس تہہ خانے سے لے آئے ہیں اسے تو میں کسی نہ کسی طرح سمیٹ ہی لوں گی لیکن زیادہ مال میرے لیے بھی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے”۔

تو پھر کیا وہ خزانہ اس طرح زمین کے سینے میں چھپا رہے گا۔ میں نے کہا۔

یہاں سے جانے کے بعد میں کسی آشرم کو اس خزانے کے بارے میں گمنام اطلاع دے دوں گی۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے ۔ اروی نے جواب دیا۔

میرے خیال میں اروی ٹھیک ہی کہتی تھی۔ ہمیں اس خزانے کی زیادہ فکر نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ اس سے اگلے روز میں نے ایک بار پھر گھر سے باہر نکلنے کا پروگرام بنایا لیکن اس مرتبہ میں اکیلا ہی جانا چاہتا تھا اور اس کیلئے میں نے ایک نیا گیٹ اپ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

کئی ہفتوں سے ایک خاص مقصد کے تحت میں نے اپنی داڑھی مونچھوں کو نہیں چھیڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں داڑھی اور مونچھیں بے تحاشا بڑھ گئی تھیں۔ میں قینچی اور ریزر لے کر آئینے کے سامنے بیٹھ کیا ۔ داڑھی اور مونچھیں تھوڑی بہت تراش کر انہیں سلیقے سے سیٹ کیا اور سر کے بال سمیٹ کر سکھوں کی طرح پگڑی باندھنے لگا۔ اس سلسلے میں دیوی نے بھی میری تھوڑی بہت مدد کی تھی۔ بالکل تیار ہو کر میں آئینے میں اپنے آپ کا جائزہ لینے لگا۔ سیاہ پینٹ سفید شرٹ سر پر پگڑی اور داڑھی مونچھوں میں، میں بالکل سیکھ لگ رہا تھا۔

سردار جی”۔  دیوی میری طرف دیکھ کر مسکرائی ۔ ” اس وقت تو میرا بھی دل چاہنے لگا ہے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں۔

تمہیں میں اپنی سردارنی بنا کر لمبے سفر پر ساتھ لے کر جاؤں گا لیکن اس وقت تو میں اکیلا ہی جارہا ہوں۔ ذرا موج میلا کرنے کیلئے”۔ میں نے جواب دیا۔

اپنے ہوش قابو میں رکھنا ” دیوی نے مجھے گھورا۔ ” موج میلے میں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھنا جوتمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دے۔

 مصیبتیں تو اب خود میرے پاس آ کر پھنس جاتی ہیں۔ مجھے کیا پھنسا ئیں گی۔ میں نے کوٹ پہنتے ہوئے کہا۔

کالی پتلون اور سفید شرٹ پر کوٹ گہر ے پیلے رنگ کا تھا جو کچھ عجیب بھی لگ رہا تھا اور جچ بھی رہا تھا۔ میں نے ایک معقول رقم کے علاوہ پستول بھی کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔

 اس وقت شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں بنگلے سے نکل کر پیدل ہی ایک طرف چلتا رہا اور پھر مجھے ایک آٹو رکشہ مل گیا جس پر بیٹھ کر میں بس اسٹاپ کے علاقے میں پہنچ گیا۔ میں نے آٹو والے کو کرایہ ادا کیا اور پیدل ٹہلتا ہوا ایک طرف چلنے لگا۔ خاصی رونق تھی ۔ اندازہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں پر منی لال اور اس کے غنڈوں کا جو خوف تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور لوگ آزادی سے گھوم پھر رہے تھے۔

دراصل میرایہاں آنے کا مقصد کچھ اور تھا۔ میں یہ جائزہ لینا چاہتا تھا کہ شہر سے نکلنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ یہاں میں نے پورا گینگ ختم کیا تھا۔ منی لال  کو ختم کر دیا تھا۔ عام لوگوں نے تو سکھ کا سانس لیا تھا مگر پولیس اور سرکاری ایجنسیوں، خصوصاً “را” کے ایجنٹ اب بھی صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ انہیں اب بھی میری تلاش تھی شہر میں پکڑ دھکڑ تو بہت کم ہو گئی تھی لیکن میری معلومات کے مطابق شہر سے باہر جانے والوں کو چیک کیا جا رہا تھا۔ بعض مشتبہ افراد کو پکڑ بھی لیا جاتا تھا۔ جنہیں اپنی تسلی کرنے کے بعد ہی چھوڑا جاتا تھا اور میں یہاں سے نکلنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتا تھا کہ مجھ سے کسی قسم کا شبہ بھی نہ ہوسکے۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page