Keeper of the house-118-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 118

میں ۔۔۔ تجھے ابھی بھی  مستی سوج رہی ہے۔

کومل ۔۔۔ بھائی آپ نا۔۔ یار اتنے بڑے بڑے کام کر لیے لیکن  جہاں  دل کی بات آتی  ہے وہاں پھوس ہوجاتے ہو۔۔ار ے اب تو آپ آگئے ہونا ۔تو ہم بُلالیں گے اُن دونوں کو واپس ، جو ہوچکا ہے اُس کو تو اب نہیں بدلا جاسکتا۔جو ہوا سوہوا۔ اب لڑکیوں کی طرح رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔یہ کام  ہم لڑکیوں کو زیب دیتا ہے ۔۔تیرے جیسے لڑکوں  کو نہیں۔

میں اسے پکڑکر بستر پر گرا دیا پھر بولا۔۔۔ میرا مذاق اُڑتی ہی رک تجھے بتاتا ہوں۔

اوراُس کو گدگدی کرنے لگا

کومل۔۔۔ وہ  بھائی غلطی  ہو گئی۔۔ وہ وہ  ۔۔معاف کردو،  اب نہیں کروں گی۔

 میں۔۔۔ میں لڑکیوں کی طرح روتا ہوں اور مجھے لڑکیوں کی طرح سمجھتی ہے ۔اب تجھے پتہ لگے گا۔

 اور وو بولتی رہی۔۔۔ بس بھائی اب نہیں بولنگی پلیز گدگدی مت  کرو

دادا جی جو پیچھے  کھڑے سب دیکھ رہے تھے ،  وہ مسکرنے لگے

دادا جی ۔۔۔ ابھی تم دونوں  آرام کرو اور بیٹی آپکا کمرہ حِنا اور سینا والا ہے ، مطلب کہ یہ  پاس والا کمرا،  کیونکہ اپنے بھائی سے  دور تم رہوگی نہیں۔

کومل۔۔۔ نا بلکل نہیں۔۔میں تو آپ کے ساتھ رہونگی پورا گاؤں گھومونگی۔۔کیا شان بھان میرے دادا جی کی واہ زندگی ہو تو ایسی داداجی۔

دادا جی مسکرا کر۔۔۔اگر ایسی بات ہے تو ضرور ہم گھمائیں گے تمہیں۔۔شام کو آس پاس  کے 50 گاوں کے لوگ دعوت پہ آئیں گے تمہیں  تیّار رہنا ہوگا۔۔اور تمہارے لیے بھی لباس منگوا دیے ہیں ،  تم  یہاں کے روائتی لباس میں ہی تیار رہنا۔۔

کومل۔۔۔ میں تو ہمیشہ  تیار رہتی ہوں،  بس اس کو ہی  لڑکیوں  جیسے نخرے آتے ہیں ہمیشہ  دیر کرتے ہیں۔۔پتا نہیں کس کے لیے سجنا سورنا ہوتا ہے۔

دادا جی مسکرنے لگے۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ اب آرام کرو

شام کو 5 بجے میں جب تیّار ہونے کے بعد کومل کے پاس گیا تو کومل کپڑوں  کو اپنے سامنے رکھے ، اپنا سر پکڑے ہوے بیٹھی تھی۔

میں ۔۔۔ارے ۔۔یہ ۔۔ کیا ہوا

کومل منہ  لٹکا کے۔۔۔ بھائی دیکھو نا میں نے  آج تک ایسے کپڑے نہیں پہنے ہیں۔۔ میں کیا کروں،  کچھ سمجھ نہیں آرہا

میں گلے لگا کر ۔۔۔ایسے اُداس  نہیں ہوتے ہیں ۔۔چلو میں کچھ کرتا ہوں

پھر میں نیچے  گیا تو چھوٹی چاچی چائے لا رہی تھی۔۔میں نے انہیں دیکھا اور انہوں نے مجھے ۔

میں۔۔۔ مجھے ایک مدد  چاہیئے آپ سے

چھوٹی چاچی میری طرف  دھیان سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ مجھے پتاہے ،  تم چائے پیو میں دیکھتی ہوں۔

 پھر وہ کومل کے کمرے کی طرف  چلی گئی

چھوٹی  چاچی۔۔۔ چلو کھڑی ہو جاؤ

کومل۔۔۔ چاچی

چھوٹی  چاچی۔۔۔ آپ کھڑی تو ہو جاؤ

اور پھر ایک گھنٹے بعد کومل جب کمرے سے باہر نکلی تو ایسی نظرآرہی تھی کہ اُس پر نظر ہی نہیں ٹہر رہی تھی۔میں نے جب اسے دیکھا  تو بس دیکھتا ہی  رہ گیا ۔۔ وو دونوں  ہاتھوں  سے گھونگھٹ  سا بناکے پورے سونے کے زیورات  پہنے ہوئے مسکرارتی ہوئی کھڑی تھی۔

میں ۔۔۔ یہ تو کومل ہے ہی نہیں۔۔ ہممم اب لگ رہی ہے شہزادی ۔۔بہت سندر۔۔ شکریہ چاچی میری دونوں  بہنیں  بھی ایسی ہی لگیں گی۔

چھوٹی  چاچی اُداسی سے بولی۔۔۔کاش وہ مجھ سے بات کرتی۔۔ میں نے انکے پیار کو سمجھا ہوتا۔

کومل ۔۔۔آپ دُکھی مت ہوئیں،  یہ لائیں  گے نا اُنہیں یہاں واپس۔

پھر ہم سب نیچے  آگئے جہاں فنکشن شروع ہو گیا تھا۔۔ بس گاؤں  والوں کو پتہ تھا ، کہ پوتا اور پوتی آئے ہے۔ کیونکہ یہ سب وفادار تھے۔اور دادا جی کے لیے جان دے بھی سکتے تھے اور جان لے بھی سکتے تھے۔۔فنکشن بڑے ہی  دھوم دھام سے ہوا۔ کومل تو سچ میں ہی کسی ریاست کی شہزادی  کی طرح  گھوم رہی تھی۔۔ شکیل اور سنبل کی جلی ہوئی تھی۔یہی  حال بڑے چاچا رانا مشتاق اور بڑی چاچی پروین کا بھی تھا۔ لیکن  وہ کچھ کر نہیں سکتےتھے۔۔ کیونکہ کومل کو خصوصی پروٹوکول مل رہا تھا۔

رات کو کومل میرے پاس  ہی سو گئی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلی صبح 5 بجے میں اٹھا اور جاگنگ کے لیے نکل گیا۔ مجھے جاتا ہوا دادا جی دیکھ  رہے تھے  اور انکے چہرے پر مسکراہٹ  تھی۔ میں آدھے گھنٹے بعد ہی واپس  آ گیا

دادا جی۔۔۔ جاؤ نہا کر واپس آؤ۔۔پھر دُعا کے لیئے چلتے ہیں ،بابا جی انتظار کر رہے ہیں۔

میں۔۔۔ٹھیک ہے دادا جی۔

بج گئے تھے میں دُعا میں بیٹا اور پھر ختم خیرات دے   دیا  گیا اس میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔

ماسٹر ساقی  بھی آئے ہو ئے تھے ۔اور وہ بابا جی بھی آیا تھا جومیرے  بچپن میں آیا کرتے تھے ،  جنہوں نے میرا ہاتھ دیکھ کے کہا تھا۔۔کہ  یہ گھر  کا رکھوالا ہے اور پورے خاندان کو  ایک کرے گا۔۔سب کے دکھ درد ختم  کرے گا۔

ہمارے  فارغ ہونے کے بعد ہم سب ایک ہی جگہ بیٹھ گئے ماسٹر ساقی بولے۔

ماسٹر ساقی ۔۔۔ رانا صاحب ہم سب نے تیاری کر  لی ہے اور راحیل کی شروعات کے لیئے ہم تیار ہیں۔

دادا جی مسکرا کر بولے۔۔۔اب ہمارا “گھر کا رکھوالا”   شکار گاہ جائے  گا،  یہ ہماری دلی خواہش  تھی،  اور اب آپ کا کچھ سچ جانے کا وقت آیا ہے تو سنیے۔

آج سے 15 سال پہلے آپکی ماں شمائلہ  اور تمہاری سب سے چھوٹی پھوپو نادیہ اور ان سے بڑی بوا اور تمہارے چھوٹے چاچا رانا مساحق۔۔ اور تمہارے ماں کے بھائی سلیم،  باڈی گارڈ علی اور ان کے بھائی گھومنے گئے ہوئے تھے۔۔تمہارے والد اگلے  دن جانے والے تھے،  وہاں  سب ہنسی خوشی گئے  تھے اور انجوائے کر رہے تھےسب ٹھیک تھا۔۔کیونکہ علی اور اس کے بھائی طاقت ور اور ہمت والے تھےاور وہ اکیلے دس پر بھاری تھے۔ تم اُس وقت 3 سال کے تھے اپنی  ماں کی گودھ میں،  تمہاری بوا جو 17 سال کی تھی وہ تمہیں  کبھی اپنے آپ سے دور نہیں کرتی تھی تم اس کے کھلونے تھے۔۔ باقی ہم سب اُس  وقت ادھر ہی تھے۔۔ تم سب کے گھومنے  جانے کے 5 دن بعد ہمیں خبر ملی کہ  علی اوراس کے بھائی کو ٹکڑو تکڑو میں کاٹ دیا گیاہے ۔۔تمہاری ماں لاپتہ ہو گئی تمہاری بواؤ کی لاشیں  کہیں نہیں ملی۔۔تمہارے چاچا مساحق نے بعد میں اُنہیں  ڈھونڈنے کی، تو ان کی بھی سر کٹی لاش ملی، اُن کا سر  بیدردی کے ساتھ کاٹ دیا گیا تھا، اُس کے جس پر خنجروں کے 50 سے زائد وار تھے جو مختلف جگہوں پر تشدد کرنے کے عرض سے کیئے گئے تھے۔ ۔

یہ سب سنتے ہوئے میری  آنکھیں  نم ہوچکی تھیں، اور دادا جی کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔دادا جی رکے خود کو سنبھال کرپھر تھوڑی دیر  بعد بولے۔

دادا جی — علی کا پانچوا  بھائی تمہیں میرے پاس لے کر آیا لیکن وہ بھی بہت زخمی حالت میں تھا ۔ اُس کی سانسیں اٹک اٹک کر چل رہی  تھی، پتہ نہیں وہ کس طرح تمہیں میرے پاس لے کر آیا تھا ، اُس نے شاید اپنی زندگی کی آخری ہمتیں  تمہیں بچانے میں اکھٹی کی تھی ، تمہیں میری گود میں ڈالتے ساتھ ہی جیسے ہی اُس کو محسوس ہوا کہ اب تم محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گئے ہو تو اُس کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ لیکن وہ ہمیں کچھ بھی نہ بتا سکاسوائے اس کے،  جو اُس کے آخری الفاظ تھے۔

علی کا پانچوا بھائی۔۔۔دھوکہ بابوجی ، دھوکہ ، سب مارے گئے ہیں بابوجی ۔۔سب ۔۔میرے گھر والوں کا خیال۔۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page