Perishing legend king-203-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 203

پر اس سے بھی زیادہ ابھی یہ ضروری تھا کہ یہ اس کی ہتھیلی پر سر رکھ كے کون لیٹی ہوئی تھی ؟

جب ویر نے اپنا ہاتھ نکالا تو اسکے ہاتھوں کی ہلچل سے اس لڑکی کا چہرہ سامنے آیا۔

’ ا-اروحی دیدی ! ؟ ؟ ؟

 معلوم پڑا کہ اروحی اسکی  ہتھیلی پر سررکھے ہوئے تھی اتنی دیر سے۔۔۔

اور شاید پری بھی اِس وقت سلیپ موڈ میں تھی۔۔۔ ورنہ اس کے من میں سوچتے ہی وہ تو پہلے ہی اپنی چپڑچپڑ شروع کر چکی ہوتی۔

ویر كے اپنے ہاتھ کھینچتے ہی اروحی  کی  بھوئیں سکیڑے اور اس کی پلکیں جھپکی۔ وہ  اٹھی اور ویر کی طرف دیکھا تو ۔۔۔

اس نے پایا کہ ویر ہوش میں تھا اور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اروحی :  ویییررر ! ! !

وہ حیرت میں آگے بڑھی ۔۔۔ اور آگے آتے ہوئے پھر اچانک ہی رک گئی۔

ویراروحی دیدی ! ؟

اروحی :فائنلی ! تمہیں ہوش آ گیا۔۔۔ تتمہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟ کہیں دَرْد ہے ؟ اور ۔۔۔ اور تم نے گھر میں کیوں نہیں بتایا تھا ؟ ہاں ؟

ویر : کام ڈاؤن ! کام ڈاؤن ! ایک ساتھ اتنے سوال ؟ میں . . . میں ٹھیک ہوں اب

اروحی : ہم سب کتنی ٹینشن میں تھے تمہیں پتہ بھی ہے ؟

ویر : سوری دیدی ! ام . . . ویسے ، میں کہاں پر ہوں ؟

ویر نے جب یہ پوچھا تب ہی اس کے سائڈ میں لگا پردہ کھلا اور ایک عورت کی آواز آئی ،

تم میرے گھر میں ہو

 ویر كے سامنے ایک دوشیزہ کھڑی ہوئی تھی ۔ ہونٹوں پہ مسکان ، بھورے کھلے بال ، اور وہ اپنے ٹوپ كے اوپر ہی ایک ڈاکٹر والی وائٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی۔

ویر : ہو ؟ آپ کون ؟

اروحی : یہ ہے ڈاکٹر مرینا میم ! انہوں نے ہی تمہارا ٹریٹمنٹ کیا ہے۔

ویر نے پھر زیادہ کچھ نہیں سوچا۔ مرینا میم كے بارے میں جاننا ہی تھا تو اس میں پوچھنے کی کیا ضرورت تھی بھلا ؟

چیک ! ’

ناممرینا

ایج؛  37

بائیومریناایک قابل ڈاکٹر ہے۔ اپنے پتی اور ایک بچے كے ساتھ رہتی ہے۔ پتی نیوی میں ہے۔ اور بچے کی دیکھ بال كے لیے انہوں نے اپنی جاب ایز آ  ڈاکٹر چھوڑ دی ۔ اب صرف گھر پہ ہی کلینک کھول كے رکھی ہوئی ہے۔

پسندیدگی: 11
رلیشن شپ : اسٹرینجرز

اُوں! ’

 مرینا میم کو چیک کرنے كے بَعْد ، ویر کو کچھ نا کچھ آئیڈیا تو لگ ہی گیا تھا ان کے بارے میں۔

ویر : آپ ! ؟

مرینا ( اسمائیلز ) : میں مرینا ! پر اس سے پہلے یہ بتاؤ کہ کیسا محسوس کر رہے ہو ؟

ویر : تھوڑا دَرْد ہے سینے میں۔۔۔ باقی آئی ایم فائن!
مرینا :واؤ ! میں نے اِس سے پہلے کبھی کسی کی اتنی اسپیڈی ری کوری نہیں دیکھی۔ واؤنڈ کو دیکھ كے لگا تھا کہ 12 گھنٹے سے بھی زیادہ پہلے کا گھاؤ ہے ۔پر جب بتایا گیا کہ یہ کچھ دیر پہلے کا ہی تھا تو میری بولتی ہی بند ہو گئی تھی۔ تمہاری امیونٹی بہت تیز ہے۔ اتنی کہ . . . آئی  ایم ہیونگ ڈاؤٹس۔

مرینا اپنی آنکھیں سکیڑے ویر کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھی تو ویر چنتا میں پڑ گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مرینا میم اس سے اس کی اتنی تیز ہیلنگ كے بارے میں پوچھنے لگے اب وہ یہ تھوڑی کہہ سکتا تھا کہ بی اولفس بلیسنگ نے اسکی ہیلنگ 50 % بڑھا دی تھی۔

اس نے کھانستے ہوئے تھوڑا ناٹک کیا اور پھر پوچھا ،

ویر : ویسے . . . کیا ٹائم ہو گیا ؟ اور میں یہاں کیسے آیا ؟

مرینا(اسمائیلز ) : ٹائم ؟ تم کل دیر رات میں یہاں لائے گئے تھے  اور آج نیکسٹ ڈے کی رات كے 8 : 30 بج رہے ہیں۔

ویر : کیا ؟

مرینا ( اسمائیلز ) : جی ہاں ! یو ہیو آ اسٹرونگ بلڈ ! !

بولتے ہوئے مرینا نے اس کے ننگے سینے پر اپنی انگلی پھیرائی جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی اور اسکے گال تھپ-تھپاتے ہوئے پھرسے بولی ، ” میں باقیوں کو انفارم کر دیتی ہوں۔ دے وانٹ ٹو میٹ یو ! “

اور بس وہ مسکراتے ہوئے چلی گئی

ادھر جب ویر نے پلٹ كے اروحی کو دیکھا تو اروحی مرینا کو جاتے ہوئے گھور كے دیکھ رہی تھی۔

ویر : کیا ہوا ؟

اروحی : کچھ نہیں !

ویر : اب آپ بتاینگی کہ کیا ہوا تھا ؟ میں یہاں کیسے ؟

اروحی : ہممم ~
ویر : کہیے !
اروحی :کل رات میں . . . قریب 1 : 45 بجے تھے تب راگنی بھابھی کو تمہارے فرینڈ شمائل نے فون لگایا تھا اور انہیں سب کچھ بتایا۔ پھر راگنی بھابھی سبھی كے ساتھ یہاں آئی ۔ وہ  شمائل  ہی تمہیں یہاں لے کے آیا تھا ۔ تمہاری حالت دیکھ کرسب پریشانی میں تھے۔ بھابھی رَو رہی تھی۔ پھر صبح جب ہو گئی تو انہوں نے مجھے اور تمہاری نندنی میم کو بتایا ۔ ہم صبح ہی آئے تھے تم سے ملنے پر تم بے ہوش تھے ۔ پھر ابھی شام کو آئے ہیں سبھی۔

ویر : ویٹ ! شمائل ؟ میرا دوست ؟ سبھی ؟ کون کون آیا ہے ؟

اروحی : میں ، کاویہ ، دادا جی ، پرانجل ، بھابھی ، آنیسہ آنٹی ، ان کی بہو پریت اور بیٹی کائنات،  وہ نندنی میم اور ان کی بیٹی جوہی اور کچھ دیر میں وہ شمائل بھی آنے والا ہے۔

جیسے جیسے اروحی نام گنتی جا رہی تھی ، ویر کا منہ حیرت كے مارے کھلتا جا رہا تھا اور آنکھیں بھی پھیلتی جا رہی تھیں۔

’ پرانجل ! ؟ واٹ د ہیل ہیز ڈوئنگ ہیئر ؟

ویر : اتنے لوگ آئے ہیں ! ؟

اروحی:   ہممم ~
گیا میں ! بھابھی . . . شیٹٹٹ ! نندنی میم بھی . . . کیا جواب دونگا انہیں ؟ ضرور غصہ کریں گی وہ ۔۔۔

 وہ اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جب اسے اپنی ہتھیلی پر پھرسے کچھ محسوس ہوا۔

اروحی کا ہاتھ !

نگاہیں اوپر کر اس نے اروحی کو دیکھا جسکی آنکھیں تھوڑی نم تھی۔

اروحی : میں . . . میں . . .

’ ! ؟ ؟

 بیچاری سے شاید کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ گلا بھی خشک ہو گیا تھا اس کا۔

اروحی :ہمیشہ ایسا کیوں ؟

ویر سمجھ چکا تھا اروحی کس بارے میں بات کرنا چا ہ رہی تھی۔۔۔پر اس کے پاس اِس وقت سننے كے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کبھی دوبارہ مشکل میں نہیں پڑیگا۔۔۔ اور بے شک، اروحی  اس سے یہی چاہتی تھی کہ ویر دوبارہ ان مسلوں میں نہ پڑے ۔ پر ایسا تو ناممکن تھا۔ ویر اب اس ڈگر پر تھا جہاں سے لوٹنا ناممکن تھا۔

ویر : آئی۔۔۔۔۔

اروحی : یو آلویز میک می سیڈ !

وہ سرجھکائے خود کی آنکھیں چھپاتے ہوئے اپنے آنسو پوچھنے لگی۔۔۔ پر۔۔۔

ویراروحیی !
اروحی :! ؟ ؟ ؟

بس ! بس ، ایک بار اس کا نام ڈائریکٹ اپنے منہ سے پکارنے پر اروحی كے پورے بدن میں رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پتہ نہیں کیا تھا ایسا کہ ہر بار جب بھی ویر اس کا نام پکارتا تھا تو بیچاری اروحی كے شریر میں سرسراہٹ سا پھیل جاتا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page