Keeper of the house-130-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی نئی سلسلہ وار کہانی ۔۔گھر کا رکھوالا۔ ۔ رومانس ایکشن اور سسپنس سے بھرپور کہانی۔

گھر کا رکھوالا۔ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔اور اُس کو مارنے کے لیئے اُسے ڈھونڈھنے لگے ۔۔ دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی  اور اُس کو سہارا دیا ۔۔لیکن اُس کے اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔

گھر کا رکھوالا  کو  جب اس کے دادا جی نے اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے کہ وہ اپنا نام واپس لے سکے اُس کو خود سے سالوں دور کر دیا ۔ لیکن وہاں بھی قدم قدم پر اُس کو نفرت اور حقارت کے ساتھ ساتھ موت کے ہرکاروں سے بھی لڑنا پڑا۔۔اور وہاں سے وہ ایک طوفان کی طرح اُبھرا ۔ جہاں اسے اِس کا پیار ملا۔۔لیکن اُس پیار نے بھی اسے اسے ٹکرا  دیا۔ کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

چلو چلتے ہیں کہانی کی طرف   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کا رکھوالا قسط نمبر - 130

انسپکٹر ۔۔۔ میم۔۔ بیس سال سے ڈیوٹی کر رہا ہوں۔۔بہت کچھ دیکھ چکا ہوں۔۔ آپ بھی کوشش کر لو، مگر بغیر ثبوت کے ہاتھ مت ڈالنا۔۔ ورنہ بہت برا ہوگا

٭٭٭٭٭٭٭

ادھر دہلی میں نسرین جلال اور نسرین باجی پریشان ہو کر دفتر میں دو گھنٹے پہلے ہی اطلاع دے کر منداوا کے لیئے نکل گئیں۔ کار پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی،  250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ گاڑی کے اوپر نیلی بتی گھوم رہی تھی اور وہ گاڑی کو فل سپیڈ  سے بھگائے لے جا رہی تھیں، مگر ٹریفک پریشان کر رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

ادھرکومل کمرے میں آئی، نہا دھو کر نارمل ہوئی تو  اپنا فون چیک کیا۔

کومل۔۔۔ شٹ شٹ! باجی  کی اتنی ساری مس کالز۔۔ اب باجی نہیں چھوڑے گی۔۔ ایک کام کرتی ہوں، کال کر ہی لیتی ہوں،  ورنہ ڈبل سنائے گی۔

کال کنیکٹ ہوتے ہی

کومل۔۔۔سوری سوری باجی ۔۔ فون۔۔۔

وہ پوری بات بھی نہ بول پائی تھی

نسرین باجی۔۔۔ سب چھوڑیہ بتا  راحیل کہاں ہے؟ اس سے بات کرا

کومل (دل  میں سوچتے ہوئے)۔۔۔اب کیا بتاؤں انہیں۔۔ جھوٹ بول دیتی ہوں

کومل۔۔۔باجی۔۔ راحیل تو باہر گیا ہے۔۔ مجھے نہیں پتا کہاں گیا ہے

نسرین باجی۔۔۔مجھ سے جھوٹ مت بول۔۔ میں تیری رگ رگ سے واقف ہوں، تجھے نہیں پتا، یہ ہو نہیں سکتا۔۔ سچ بتا فوراً۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔

کومل (سوچ کر)۔۔۔باجی ۔۔ وہ راحیل۔۔(پھر اس نے پوری بات بتا دی) ابھی وہ سب ڈونگرپور گئے ہیں

نسرین باجی۔۔۔ٹھیک ہے۔۔ میں آ رہی ہوں۔۔ ایک گھنٹے میں پہنچ جاؤں گی

کال کٹ

٭٭٭٭٭٭

ادھرہم ڈونگرپور پہنچ گئے تھے۔ ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگا، کیونکہ ٹریکٹر ٹرالیاں بھی تھیں۔ ہمارا قافلہ گاؤں میں گھومتا ہوا جا رہا تھا، اور لوگ گھروں کی چھتوں سے وڈیرہ شاکر اور گاؤں والوں کو دیکھ رہے تھے، جو ٹوٹی پھوٹی حالت میں ٹریکٹر ٹرالیوں میں پڑے تھے۔

تو ادھر ایس پی رانی شگفتہ بھی اپنی پوری پولیس فورس کے ساتھ آ رہی تھی۔

ہمارا قافلہ وڈیرہ شاکر کی حویلی کے آگے پہنچا۔ وڈیرہ شاکر اور اس کے بیٹے کو گھسیٹ کر حویلی کے سامنے پھینک دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ڈونگرپور حویلی کے آس پاس جمع ہونے لگا۔ میں نے وڈیرہ شاکر اور وڈیرہ ناصر  کو رسی سے باندھ کر اپنی بائیک کے پیچھے باندھ دیا۔ وڈیرہ شاکر کا خاندان اور گاؤں والے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ پھر میں نے انہیں بائیک سے گھسیٹتے ہوئے گاؤں کی چوپال پر لے جا کر لٹکا دیا اور باقی گاؤں والوں کو بھی وہیں پھینک دیا، جو درد سے کراہ رہے تھے۔

میں نے ایک مائیک اٹھایا اور زور سے چیخ کر بولا۔۔۔ یہ سبق ہے تم سب کے لیے کہ اگر میرے داداجی کے خلاف کسی نے نظر اٹھائی تو اس کا انجام کیا ہوگا۔۔ یاد رکھنا، وہ زندہ رہے گا، مگر اس کی حالت مُردہ سے بھی بدتر ہوگی۔۔ آج سے یہ ڈونگرپور رانا اشفاق  جی کے زیرِ حکم ہو گا۔ جس نے بھی کوئی غلط حرکت کی، اس کا حال ان باپ بیٹوں جیسا ہوگا۔ اگلی بڑی پنچایت میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔۔ اگر کسی نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو ان دونوں کا حال دیکھ لو اور باقی گاؤں والوں کو بھی بتا دینا۔

تبھی پولیس کی گاڑیوں کے سائرن بجنے لگے۔ایس پی رانی شگفتہ اپنی فورس کے ساتھ پہنچ گئی تھی۔

ایس پی رانی شگفتہ  ۔۔۔ خبردار۔۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا

خانی چاچا (مسکرا کر) ۔۔۔ ہم بھی یہی سمجھا رہے تھے۔۔  خبردار۔۔ کوئی ہوشیاری نہیں کرے گا۔

سب لوگ  ہنسنے لگے۔

ایس پی رانی شگفتہ ۔۔۔ٹھاکر صاحب۔۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔ قانون کو ہاتھ میں لے کر۔

داداجی (مسکراتے ہوئے) ۔۔۔ ایس پی صاحبہ۔۔ آپ پھر بیچ میں آ رہی ہیں؟

ایس پی رانی شگفتہ ۔۔۔قانون ہمیشہ بیچ میں ہوتا ہے۔۔ انصاف کے ساتھ۔۔ظلم کے خلاف۔۔اور قانون سے بالا کوئی نہیں ہے۔۔ میں آپ سب کو گرفتار کرتی ہوں۔۔  امن خراب کرنے اور مار پیٹ کے جرم میں۔

خانی چاچا۔۔۔ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟ اور تمہاری یہ ہمت؟

خانی چاچا نے کلہاڑی نکالی تو ساتھ ہی گاؤں والوں نے بھی اپنے ہتھیار نکال لیے۔ پولیس والوں نے بھی فوراً اپنی بندوقیں تان لیں۔

داداجی (مسکرا کر) ۔۔۔ایس پی صاحبہ۔۔ آپ ہمیں لے تو جا سکتی ہیں، مگر آپ یہ ثابت نہیں کر پائیں گی۔۔ دوسری بات، مان لیا کہ آپ کسی کے دباؤ میں نہیں آتیں، لیکن جب ثبوت ہی نہیں ہوگا تو کیا ہوگا آپ کا؟ آپ کی یہ عزت، رُتبہ سب ختم ہو جائے گا۔۔ کبھی کبھی صحیح کرنے کے لیے کچھ غلط قدم بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔۔ آپ ایماندار ہیں، اس لیے اتنا سمجھایا۔۔ ورنہ ہم نے کبھی کسی سے اتنی بات نہیں کی۔

ایس پی رانی شگفتہ (اعتماد سے) ۔۔۔ وہ میں دیکھ لوں گی۔۔ ثبوت مل جائے گا۔۔ اتنے گاؤں والوں میں کوئی تو گواہی دے گا

میں ۔۔۔ یہ جو دو لوگ ٹنگے ہوئے دیکھ رہی ہو نا، ایسا ہی حال میں اب تیرا کروں گا، ایس پی۔۔ بہت سن لی تیری بڑبڑ۔۔ گواہ، گواہ۔۔ یہ ان دونوں کی حالت دیکھ۔۔ کوئی نہیں آئے گا۔۔ اب تیسری تُو بچے گی۔۔ تجھے بھی لٹکاؤں گا۔

جیسے ہی میں آگے بڑھا

داداجی۔۔۔ راحیل۔۔ یہ تیری  یہی تربیت ہے؟ ہم نے یہی سکھایا ہے؟ فوراً معافی مانگو۔۔ وہ ایک عورت ہے، تُو اچھا بھلا جانتا ہے۔

میں۔۔۔لیکن  داداجی۔۔ پہلے

داداجی (غصے سے)۔۔۔ معافی مانگو

میں نے ہاتھ جوڑ کر معافی تو مانگ لی، مگر میرا غصہ حد سے زیادہ بڑھ چکا تھا۔ میں بس اُس ایس پی کو ہی غصے میں گھور رہا تھا۔۔ اور وہ مجھے۔

 پھر میں بولا۔۔۔گرفتار کرنا ہے تو مجھے کر۔۔ داداجی، اب آپ مجھے روکیں گے نہیں۔۔ میں نے ہی کیا ہے یہ سب

داداجی۔۔۔ آج کی یہ حرکت میں زندگی بھر یاد رکھوں گا۔۔ ایس پی صاحبہ، ہم نے آپ کا عورت ہونے کی بہت عزت کی، لیکن آج کی اس حرکت کا جواب دینا ہوگا۔۔ اور آج کے بعد منڈاوا میں کوئی بڑی افسر عورت نہیں آئے گی۔

ایس پی رانی شگفتہ ۔۔۔گرفتار کر لو اسے۔

پورا گاؤں غصے میں پولیس والوں کو دیکھ رہا تھا، اور خانی چاچا کا چہرہ دیکھ کر سب کے اندر ایک عجیب سی دہشت پھیل گئی تھی۔ کوئی بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔

ایس پی رانی شگفتہ۔۔۔اتنا ہی ڈرتے ہو تو پولیس کی نوکری چھوڑ دو

پھر وہ خود ہاتھ میں ہتھکڑی لے کر میری طرف بڑھنے لگی۔ داداجی کے چہرے پر ناراضگی تھی، وہ رانی شگفتہ کو غصے سے گھور رہے تھے۔۔ اور گاؤں والے بھی۔ پولیس والوں کے اندر خوف کی لہر دوڑ چکی تھی۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ صبح کیا ہوگا۔۔ کیونکہ شیر بوڑھا ضرور ہوا تھا، مگر ہے تو وہ آج بھی شیر۔۔ اور رانا صاحب کی پہنچ کہاں تک ہے، یہ سب جانتے تھے۔

رانی شگفتہ نے ہتھکڑی کھولی، مجھے گھورا، پھر ہتھکڑی لگانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔

تبھی پولیس گاڑی کا سائرن بجنے لگا

رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی گاڑی کی آواز گونج رہی تھی۔ وہ سیدھی پوری رفتار سے میری طرف آئی اور بریک مارا۔۔ جس سے ٹائروں کے گھسٹنے کی وجہ سے دھواں اٹھنے لگا۔

سب کی نظریں بس اُس گاڑی پر جم گئی  تھیں۔ پھر اُس میں سے ایک لڑکی اُتری پانچ فٹ سات انچ قد، سفید شرٹ اور نیلی جینز میں

یہ منظر دیکھ کر میرے چہرے پر ایک گہری  سی مسکراہٹ آ گئی۔ باقی سب لوگ بھی بس آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ پھر دوسری طرف کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ہمیشہ کی طرح خوبصورت، معصوم اور دلکش، میری بہن نسرین باجی اتری۔ وہ بھاگتی ہوئی آئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page