Strenghtman -08- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر

شکتی مان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔ شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر۔۔ ہندو دیومالئی کہانیوں کے شوقین حضرات کے لیئے جس میں  ماروائی طاقتوں کے ٹکراؤ اور زیادہ شکتی شالی بننے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا،  جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

ایک ایسے لڑکے کی کہانی جسے  ایک معجزاتی پتھر نے اپنا وارث مقرر کردیا ، اور وہ اُس پتھر کی رکھوالی کرنے کے لیئے زمین کے ہر پرت تک گیا ۔وہ معجزاتی پتھر کیاتھا جس کی رکھوالی ہندو دیومال کی طاقت ور ترین ہستیاں تری شکتی کراتی  تھی ، لیکن وہ پتھر خود اپنا وارث چنتا تھا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ لڑکا  جس کے چاہنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ، اور جس کے ساتھ وہ جنسی کھیل کھیلتا وہ پھر اُس کی ہی دیوانی ہوجاتی ،لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد اُس کو خود معلوم نہیں تھی،اور اُس کی اتنی بیویاں تھی کہ اُس کے لیئے یاد رکھنا مشکل تھا ، تو بچے کتنے ہونگے (لاتعدا)، جس کی ماروائی قوتوں کا دائرہ لامحدود تھا ، لیکن وہ کسی بھی قوت کو اپنی ذات کے لیئے استعمال نہیں کرتا تھا، وہ بُرائی کے خلاف صف آرا تھا۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شکتی مان پراسرار قوتوں کاماہر -- 08

سیما اور شانتی دونوں اب چپ چاپ بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ لیٹی ہوئی  تھیں۔ سیما اپنے دل میں یہی سوچ رہی تھی کہ اگر مجھ میں کوئی کمی  ہوتی، تو ملند مجھے کبھی نہیں چھوڑتے۔ وہ تو خود سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ صرف بچے پیدا نہ کرنے کی کمی سے میں کیسےاُس کو چھوڑ دوں؟ شانتی دیدی جیسی بہن، اپنے بھائی کے لیے نہ سوچ کر میرے بارے میں سوچنے والا دیور، ماں باپ جیسے  ساس  سُسرمجھے کہاں ملیں گے؟ میں تو کبھی کسی دوسرے کے ساتھ شادی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ شانتی دیدی تو کتنی خوبصورت ہیں، لیکن انہوں نے تو اپنے بارے میں نہ سوچ کر اپنے پتی کو بچانے کے لیے منو سے ماں بن گئیں۔ میں اتنی خود غرض نہیں بن سکتی۔ میں ملند کے بغیر نہیں جی سکتی، میں ملند سے ہی شادی کروں گی، آگے میری قسمت۔ 

یہی سوچ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی ملند سے ہی کرے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭

دہلی کے ایک ہوٹل میں ملند اور سیما کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہو رہی تھی۔ اس پورے ہوٹل کو کسی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ دہلی کی تمام بڑی ہستیاں وہاں شادی میں موجود تھیں۔ ملند اور سیما دونوں شادی کے جوڑوں میں بہت جچ رہے تھے۔ آج ان دونوں کی آنکھوں میں ایک الگ ہی خوشی تھی، جسے بیان کرنا مشکل تھا۔ سیما تو کسی پری کی طرح دکھ رہی تھی۔ ہر کوئی ملند کی قسمت کی تعریف کر رہا تھا۔ سیما ایسی قیامت تھی،کہ اس کی  30-27-32 فگر کسی کا بھی دل ڈولنے کے لیے کافی تھی۔ سب سے حسین تو اس کی آنکھیں تھیں، نیلی، کسی سمندر کی طرح، اور اس کا چہرہ ایسا کہ کسی کا بھی دل موہ لے۔ 

منوج شادی میں اپنے بڑے بھائی اور بھابی کے ساتھ کھڑا تھا۔ شادی سے پہلے شانتی نے اسے بتا دیا تھا کہ سیما ملند کے بارے میں سب جانتے ہوئے بھی شادی کے لیے راضی ہو گئی ہے۔ وہ کبھی ملند کو اس کی کمی نہیں بتائے گی۔ شانتی نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس نے سیما کو اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کے باپ کا سچ بھی بتا دیا ہے، اور وہ یہ بات کبھی کسی کو نہیں بولے گی۔ منوج کے نزدیک سیما کی عزت اور بڑھ گئی تھی، جو اُس کے  بھائی سے اتنا پیار کرتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچے بغیر یہ فیصلہ لیا تھا۔ 

شادی ہونے کے بعد ان کے گاؤں میں بھی پوجا رکھی گئی تھی۔ اس پوجا کے بعد ہزاروں لوگوں کو کھانا دیا گیا تھا۔ آس پاس کے 50 گاؤں کے لوگ وہاں موجود تھے۔ ان کے گھر میں تو جیسے خوشیوں کا ہی دور آیا تھا۔ پہلے شانتی کے ماں بننے کی خبر اور اب نئی بہو کا آنا۔ وجے جی اور کامنی کی خوشیوں  کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ 

منوج کے کالج کا ایڈمیشن ہو گیا تھا۔ وہ اب انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے جانے والا تھا۔ اب شانتی کے ساتھ سیما بھابی کے آنے سے کامنی جی کو بھی آرام مل گیا تھا۔ منوج نے ممبئی جانے سے پہلے سب سے آشیرواد لیا۔ اسے ممبئی چھوڑنے سیما بھابی اور ملند ساتھ گئے تھے۔ وہاں منوج کا ایڈمیشن اور رہنے کا انتظام کالج کے ہی ہاسٹل میں کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ممبئی چھوڑ کر سیما اور ملند گاؤں واپس آ گئے ۔ منوج گھر میں سب کا لاڈلا تھا، اس کے ممبئی جانے کا سب کو دکھ تھا، لیکن منوج کا بچپن سے ممبئی میں پڑھنے کا خواب تھا، اس لیے سب یہ بات مان گئے تھے۔ کچھ دن بعد شانتی نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ وجے جی نے پورے گاؤں کو مٹھائی بانٹ کر اس کی خوشی منائی تھی۔ منوج بھی ممبئی سے آ کر اپنے خاندان کی خوشی میں شامل ہوا تھا۔ اس کا نام پونم رکھا گیا۔ بچی دکھنے میں بہت خوبصورت تھی۔ وجے جی کو تو گھر میں نیا کھلونا مل گیا تھا۔ کامنی اور وجے جی تو پونم کو اپنے پاس ہی رکھتے تھے۔ ایسی ہی ہنسی خوشی میں دو مہینے نکل گئے۔ 

وجے جی کے خاندان پر قسمت مہربان تھی، ان کے گھر میں سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ لیکن ایک دن وجے جی اور کامنی جی اپنی گاڑی سے کسی کام کے سلسلے میں جا رہے تھے کہ ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ان کی کار کو تیل کے ٹینکر نے اتنی بری طرح کچلا تھا کہ ان کی لاشیں پہچاننا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ ان کے خاندان کو جب یہ خبر ملی تو سب پر دکھوں کا پہاڑ گر گیا تھا۔ سب سے بری حالت تو منوج کی ہوئی تھی۔ اسے تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے ماں باپ نہیں رہے۔ لیکن کسی کو تو اس مشکل گھڑی میں مضبوطی سے خاندان کو سنبھالنا تھا۔ یہ کام مکیش اور شانتی نے کیا۔ اپنے دکھ اپنے اندر سمیٹ کر دونوں نے پورے خاندان کو سنبھال لیا۔ ملند اور سیما کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا، وہ بھی مکیش بھیا کا اس مشکل گھڑی میں ساتھ دے رہے تھے۔ منوج تو پورا ٹوٹ گیا تھا، لیکن شانتی نے اسے اپنے پیار سے اس غم سے باہر نکال لیا۔ مکیش اور ملند تو منوج کو واپس ممبئی بھیجنے کو تیار نہیں تھے، لیکن شانتی کے کہنے پر وہ یہ بات مان گئے۔ لیکن منوج کو انہوں نے ممبئی اکیلے نہیں جانے دیا۔ ایک مہینہ ملند اور سیما اس کے ساتھ ممبئی میں ہی رہے، اور بعد میں شانتی اور مکیش اس کے ساتھ رہے۔ جب انہیں لگا کہ منوج اب پہلے سے بہتر ہے، وہ واپس گاؤں آ گئے، لیکن ہر ہفتے شنبہ اور اتوار کوئی نہ کوئی منوج کے پاس جا کر ہی رہتا تھا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جنگل کے اندر ایک عالیشان گھر بنا ہوا تھا۔ اس گھر کے آس پاس 10 فٹ کی چار دیواری بنی ہوئی تھی اور چار دیواری میں کسی قلعے کے دروازے کی طرح مضبوط گیٹ بنا ہوا تھا۔ اس مکان میں رہنے والا کوئی خاص ہی تھا، کیونکہ گیٹ پر بندوق لیے پہریدار تھے۔ وہ سب پہریدار لمبے، تگڑے، کسی کو بھی مارنے کے لیے ان کے ہاتھ ہی کافی تھے، بندوق کا استعمال کرنے کی بھی انہیں ضرورت نہ پڑے، ایسے تگڑے اور مظبوط  قد کاٹھی کے  تھے۔ 

اس گھر میں بنے ایک بیڈ روم میں پلنگ پر ایک بہت ہی گدرائی بدن کی عورت، پوری ننگی، اپنی بڑی گانڈ مروا رہی تھی۔ اس کی 42 سائز کی موٹی  گول گانڈ میں 9 انچ لمبا اور 3 انچ سے زیادہ موٹا لنڈ کسی مشین کی طرح گھس کر اندر تک کدائی کرتاجا رہا تھا۔ جب جب اس کی گانڈ میں پورا لنڈ گھستا، تب کسی آلو کی طرح مضبوط اس آدمی کے ٹٹے اس  کی پھدی سے ٹکراتے تھے۔ اس کی لٹک رہی بڑی چھاتیاں پکڑ کر وہ آدمی انہیں اپنے پنجوں سے مسل کر لال کر رہا تھا۔ اس عورت کی پھدی سے پانی رس کر اس کی رانوں کو پورا گیلا کر رہا تھا۔ اس عورت کے منہ سے نکل رہی شہوت بھری آہیں اور سسکیوں کی  آوازیں یہ بتا رہی تھیں کہ اسے گانڈ مرواتے ہوئے کتنا مزہ  مل رہا ہے۔ جانے کب سے وہ اپنی گانڈ میں اس موٹے تگڑے لنڈ  کو جھیل رہی تھی، اس کا اندازہ دونوں کے پسینے سے لتھ پت بدن سے چل رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page