Strenghtman -19- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر

شکتی مان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔ شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر۔۔ ہندو دیومالئی کہانیوں کے شوقین حضرات کے لیئے جس میں  ماروائی طاقتوں کے ٹکراؤ اور زیادہ شکتی شالی بننے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا،  جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

ایک ایسے لڑکے کی کہانی جسے  ایک معجزاتی پتھر نے اپنا وارث مقرر کردیا ، اور وہ اُس پتھر کی رکھوالی کرنے کے لیئے زمین کے ہر پرت تک گیا ۔وہ معجزاتی پتھر کیاتھا جس کی رکھوالی ہندو دیومال کی طاقت ور ترین ہستیاں تری شکتی کراتی  تھی ، لیکن وہ پتھر خود اپنا وارث چنتا تھا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ لڑکا  جس کے چاہنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ، اور جس کے ساتھ وہ جنسی کھیل کھیلتا وہ پھر اُس کی ہی دیوانی ہوجاتی ،لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد اُس کو خود معلوم نہیں تھی،اور اُس کی اتنی بیویاں تھی کہ اُس کے لیئے یاد رکھنا مشکل تھا ، تو بچے کتنے ہونگے (لاتعدا)، جس کی ماروائی قوتوں کا دائرہ لامحدود تھا ، لیکن وہ کسی بھی قوت کو اپنی ذات کے لیئے استعمال نہیں کرتا تھا، وہ بُرائی کے خلاف صف آرا تھا۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شکتی مان پراسرار قوتوں کاماہر -- 19

ونود: “بولو شیوا، کیا بات ہے؟ تم دو گھنٹے میں واپس آ گئے، کچھ اور پوچھنا تھا کیا؟” 

شیوا: “نہیں سر، میں یہ بتانے آیا تھا کہ میں لڑنے اور دبئی جانے کے لیے تیار ہوں۔” 

ونود: “شیوا، جلد بازی مت کرو، تمہارے پاس سات دن ہیں۔” 

شیوا: “میرا فیصلہ نہیں بدلے گا سر۔” 

ونود نے پھر بھی اسے تھوڑا سمجھایا، لیکن شیوا نہ مانا۔ پھر اس نے اپنے ایک آدمی کو پاس بلا کر شیوا کو دبئی جانے کے لیے درکار کاغذات کی لسٹ دینے کو کہا اور اپنے ایک آدمی کو شیوا کے یہاں سے جانے کے بعد یہ پتا کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگا دیا۔  کہ شیوا کیا کرتا ہے،اور  اُسے پیسوں کی کیوں ضرورت ہے۔

شیوا وہاں سے نکل کر سب سے پہلے بینک گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنے اکاؤنٹ سے 1 لاکھ 90 ہزار روپے نکال لیے۔ سب سے پہلے اس نے ان پیسوں سے دو فون خریدے: ایک اینڈرائیڈ اور ایک سستا کی پیڈ والا۔ دونوں میں سم کارڈ ڈال کر اپنے آدھار کارڈ سے انہیں چالو کر لیا۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر شفی چاچا کے گھر پہنچ گیا۔ گھر جا کر اس نے کھانے پینے کا سامان زینت کے ہاتھ میں دے دیا۔ سب نے مل کر پھر کھانا کھایا۔ شیوا نے اپنی جیب سے ڈیڑھ لاکھ روپے نکال کر زینت کے ہاتھ میں دیے۔ زینت اس سے پیسے لینے کو تیار ہی نہ تھی، اسے اپنی قسم دے کر اس نے پیسے لینے پر مجبور کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ پیسے اس کی اپنی محنت کے ہیں، کوئی غلط کام کر کے اس نے یہ پیسے نہیں کمائے۔ شیوا نے پھر اینڈرائیڈ فون صنم کے ہاتھ میں دے دیا۔ صنم پڑھی لکھی تھی، اس نے بی اے تک پڑھائی کی تھی۔ اسے فون چلانا آتا تھا۔

شیوا نے کہا: “ابھی آپ سب مل کر یہ فون استعمال کرو، بعد میں سب کو ایک ایک فون لے کر دوں گا۔” 

شیوا نے صبح چاروں بہنوں کو اپنے ساتھ لے جاکر کپڑوں کی دکان پر لے گیا اور سب کو اپنی پسند کے دو دو جوڑے کپڑے لے کر دیے۔ زینت اور شفی چاچا کو بھی اس نے دو جوڑی ساڑھیاں اور کپڑے لے کر دیے۔ پھر سب کو باہر ہی کھانا کھلا کر گھر واپس آ گئے۔ نئے کپڑے لینے سے سب لڑکیاں بہت خوش تھیں۔ شیوا نے ونود نے جو کاغذات مانگے تھے، وہ اپنے گھر سے لے کر اس کے دفتر میں جمع کروا دیے۔ ونود نے شیوا کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس کے دبئی کا پورا خرچہ وہ خود کرے گا۔ 

شیوا نے ہوٹل جا کر مینیجر سے بھی ملاقات کی۔ اسے اپنے کام پر جوائن کرنے کے لیے ابھی 20 دن باقی تھے۔ اس نے کہا کہ اگر وہ ہوٹل میں ابھی 6 دن اکاؤنٹ کا کام کیسے چلتا ہے، یہ آ کر دیکھنا چاہتاہے، اس سے اسے بعد میں کام کرنے میں آسانی ہوگی۔ مینیجر نے بھی اس بات کو مان لیا۔

شیوا گزشتہ 4 دنوں سے ہوٹل میں صبح 9 بجے جاتا اور شام 6 بجے گھر لوٹ آتا تھا۔ شیوا تیز دماغ کا تھا۔ اپنی بارہویں کی تعلیم کے دوران ہی اس نے کمپیوٹر کا کورس بھی کر لیا تھا، جس کی وجہ سے اسے ہوٹل میں اکاؤنٹنگ کا کام ایک ہی دن میں آسانی سے سمجھ آ گیا تھا۔ 

شیوا کو صبح ہوٹل کی طرف سے کھانا دے دیا جاتا تھا اور شام کو وہ شفی چاچا کے گھر کھانا کھاتا تھا۔ آج جب وہ شام کو گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ شفی چاچا کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے۔ گھر پر صرف زینت ہی تھی، چاروں بہنیں اپنے رشتہ داروں کے گھر شادی میں گئی ہوئی تھیں۔ پھر وہ قریبی ایک ڈاکٹر کو بلا کر لایا۔

 ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا اور بتایا کہ ان کا بی پی بڑھ گیا ہے۔ “آپ انہیں ہسپتال لے جائیں، زیادہ فکر کی بات نہیں ہے، ایک دن انہیں وہاں رکھنا ہوگا۔ میں فی الحال ایک انجکشن دے دیتا ہوں، باقی دوائی انہیں سلائن سے دینی ہوگی۔”

 ڈاکٹر نے ہی ایک ایمبولینس کا انتظام کر دیا۔ شفی چاچا کو لے کر وہ دونوں ہسپتال چلے گئے۔ ہسپتال میں ان کا چیک اپ کر کے ڈاکٹر نے ایک سلائن لگا دی۔ ایک گھنٹے کے اندر ہی شفی چاچا کو آرام مل گیا تھا۔ شفی چاچا نے دونوں سے کچھ دیر باتیں بھی کیں۔ زینت اور شیوا نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ شیوا باہر سے کچھ کھانا لانے جا رہا تھا تو شفی چاچا نے کہا:

“فضول میں پیسے خرچ مت کرو، مجھے تو آج کچھ بھی کھانے سے منع کیا ہے اور 9 بجے کے بعد تم دونوں کو یہاں رکنے بھی نہیں دیں گے۔ اس سے اچھا ہے کہ تم دونوں گھر چلے جاؤ، گھر پر ہی کھانا بنا کر کھا لینا۔ رات کو گھر پر ہی آرام کر کے صبح جلدی آ جانا، ابھی میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔”

 زینت کو بھی یہ بات درست لگی۔ وہاں سے جانے سے پہلے شیوا نے اپنا فون نمبر نائٹ ڈیوٹی والی نرس کو دے کر گیا اور بتایا کہ اگر رات کو چاچا کو کوئی تکلیف ہوئی تو اسے فون کرنا، وہ یہاں پہنچ جائے گا۔ 

زینت اور شیوا گھر جانے کے لیے ایک سٹی بس میں سوار ہو گئے۔ بس میں اچھا خاصا رش تھا۔ یہاں سے گھر تک کا سفر ایک گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔ بس میں چڑھتے وقت پہلے شیوا نے زینت کو چڑھایا، پھر وہ خود بس میں سوار ہوا۔ بس میں بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ زینت شیوا کے آگے ہی کھڑی تھی۔ دونوں کو ممبئی کے رش میں اس طرح سفر کرنے کی عادت تھی۔ اگلے اسٹاپ پر رش اور بڑھ گیا، جس سے لوگ ایک دوسرے سے اب چپک کر کھڑے ہوگئے تھے۔ زینت اب شیوا سے اس طرح چپک گئی تھی کہ دونوں کے درمیان ہوا بھی نہ گزر سکے۔ سگنل پر ڈرائیور نے بریک لگائی، جس کی وجہ سے زینت کی بڑی گانڈ اچانک شیوا کے لنڈ سے چپک گئی۔ زینت ایک چلتی پھرتی قیامت تھی، 38-32-42 کی اس کی فگر تھی، خوبصورت چہرہ، کمر تک لمبے بال، دودھ سی گوری۔ جب وہ سڑک پر چلتی تھی تو اس کی بڑی گانڈ کی تھرک ایسی تھی کے  کسی کے بھی لنڈ پانی چھوڑوا دے ۔ لیکن وہ بہت تیز مزاج تھی، جس کی وجہ سے کوئی اسے چھیڑتا نہیں تھا۔ چار لڑکیاں، ایک سے ایک کوہ نور، اس نے پیدا کی تھیں۔ شفی ایک دبلا پتلا انسان تھا، اس نے بس چار بیٹیاں ہونے تک زینت کو چودا تھا۔ اس کے بعد وہ مہینے میں ایک آدھ بار زینت کو چودتا تھا۔ جب لڑکیاں بڑی ہونے لگیں تو وہ سال میں کبھی موقع ملنے پر اسے چودتا تھا۔ زینت کو گزشتہ 8 سال سے شفی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ 

زینت اپنی پھدی کی آگ اپنی انگلیوں سے بجھاتی تھی۔ زینت جن گھروں میں کھانا بنانے جاتی تھی، وہاں اس نے ان عورتوں کے ساتھ کئی بار سیکسی فلمیں دیکھی تھیں۔ ان میں پھدی چوسنا، لنڈ منہ میں لینا، گانڈ مروا لینا، گھوڑی بن کر چدائی، یہ سب کبھی اس کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اسے وہ سب کرنے کی بہت خواہش تھی، لیکن شفی کو یہ سب پسند نہیں تھا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page