Strenghtman -20- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر

شکتی مان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔ شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر۔۔ ہندو دیومالئی کہانیوں کے شوقین حضرات کے لیئے جس میں  ماروائی طاقتوں کے ٹکراؤ اور زیادہ شکتی شالی بننے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا،  جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

ایک ایسے لڑکے کی کہانی جسے  ایک معجزاتی پتھر نے اپنا وارث مقرر کردیا ، اور وہ اُس پتھر کی رکھوالی کرنے کے لیئے زمین کے ہر پرت تک گیا ۔وہ معجزاتی پتھر کیاتھا جس کی رکھوالی ہندو دیومال کی طاقت ور ترین ہستیاں تری شکتی کراتی  تھی ، لیکن وہ پتھر خود اپنا وارث چنتا تھا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ لڑکا  جس کے چاہنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ، اور جس کے ساتھ وہ جنسی کھیل کھیلتا وہ پھر اُس کی ہی دیوانی ہوجاتی ،لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد اُس کو خود معلوم نہیں تھی،اور اُس کی اتنی بیویاں تھی کہ اُس کے لیئے یاد رکھنا مشکل تھا ، تو بچے کتنے ہونگے (لاتعدا)، جس کی ماروائی قوتوں کا دائرہ لامحدود تھا ، لیکن وہ کسی بھی قوت کو اپنی ذات کے لیئے استعمال نہیں کرتا تھا، وہ بُرائی کے خلاف صف آرا تھا۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شکتی مان پراسرار قوتوں کاماہر -- 20

جب بس میں زینت کی گانڈ اس کے لنڈ سے ٹکرائی تو شیوا کو پہلے کچھ نہ لگا، لیکن جب زینت کی گرم گانڈ اس کے لنڈ کو اپنی گرمی دیتی رہی، تب شیوا کا لنڈ بھی دھیرے دھیرے اپنا سائز بڑھانے لگا اور اکڑ کر زینت کی گانڈ کو اپنی موجودگی بتانے لگا۔ زینت کو بھی اپنی گانڈ پر کسی مضبوط گرم سلاخ کی چبھن کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہے، اس لیے زینت نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے لے جا کر اسے اپنے ہاتھ سے ٹٹولنا شروع کیا۔ وہ اس کے ہاتھ کی گرفت سے بھی بڑا تھا۔ اس نے اوپر سے نیچے کی طرف ایک دو بار اپنے ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑی گردن پیچھے کی طرف کر کے دیکھا تو اس کی آنکھیں چھوڑی  ہو گئیں اور اس نے جھٹ سے اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ شیوا کے لنڈ کا سائز دیکھ کر اسے پسینہ آنے لگا تھا، سب سے زیادہ پسینہ اس کی پھدی کو آ رہا تھا۔ اس کا دل  اسے کوس رہا تھا کہ اس نے شیوا کا لنڈ کیوں پکڑا، تو جسم گالیاں دے رہا تھا کہ کیوں چھوڑا۔ اسے خیال آ رہا تھا کہ ایسا ہی لنڈ اس کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ اس کی پھدی اور گانڈ کی گہرائی کتنی ہے، اس کا احساس یہی کروا سکتا ہے۔ زینت کو لگ رہا تھا کہ واپس ہاتھ پیچھے لے جا کر لنڈ اپنی پھدی یا گانڈ میں گھسا لے۔ 

شیوا کو بھی زینت کی نرم گرم گانڈ اپنے لنڈ سے چپکی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ لیکن جب زینت کے ہاتھ نے اس کے لنڈ کو چھو کر چھوڑ دیا، تب شیوا کو بھی احساس ہوا کہ یہ کیا ہوگیا ،اُس کا لنڈ کیوں کھڑا ہوگیا، اور اُسے تھوڑا برا بھی لگا تھا کہ اس کی سوچ کتنی گندی ہے، اسے ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ “زینت چاچی مجھے کتنا آوارہ  سمجھے گی، وہ تو مجھے اپنے بیٹے جیسا مانتی ہے۔” اس لیے شیوا تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تھا۔ دو منٹ کے بعد پھر بس کی بریک لگی اور اس کے ساتھ زینت کی گانڈ اس کے لنڈ پر چپک گئی۔ شیوا فوراً تھوڑا پیچھے ہٹا، لیکن زینت کی گانڈ پر شیوا کے لنڈ کے لگنے سے زینت تو خوشی سے جھوم اٹھی اور جب شیوا تھوڑا پیچھے ہٹا تو زینت نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے شیوا کی کمر پکڑ کر اپنی طرف دبانے لگی۔ شیوا یہ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ زینت نے شیوا کی کمر کو اپنی گانڈ پر دبانے سے شیوا کا لنڈ اس کی بڑی گانڈ کے پھاٹوں کو چیر کر اس کی گانڈ کے چھید سے جا بھڑا۔ 

زینت نے ایک دم پتلی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور شیوا کام سے آ کر ایک نائٹ پینٹ ہی میں زینت کے گھر کھانے پر آیا تھا۔ زینت کو اپنی گانڈ کے چھید پر شیوا کے لنڈ کی گرمی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس کی گانڈ میں یہ لنڈ پورا گھسے گا تو کتنا مزہ دے گا، یہ سوچ کر وہ اپنی گانڈ شیوا کے لنڈ پر گھسنے لگی۔ شیوا بھی پہلے تھوڑا ہچکچا رہا تھا، لیکن زینت کی پہل سے اس کی سوچ بھی بند ہو گئی تھی۔ اب وہ اپنے دماغ سے نہیں، اپنے لنڈ سے سوچ رہا تھا۔ زینت، شیوا کے لنڈ پر اپنی گانڈ گھسنے سے اتنی گرم ہو گئی کہ اسے پتا ہی نہ چلا کہ اس نے کب شیوا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بڑی چھاتیوں پر رکھ کر اس کے ہاتھ سے اپنی چھاتیاں دبوانا شروع کر دیں۔ شیوا بھی دھیرے دھیرے چھاتیاں دبا رہا تھا۔ اسے بھی کسی سپنج جیسے مموں کو دبانے میں مزہ آ رہا تھا۔ بعد میں اپنے بڑے پنجوں میں ایک ایک کر کے دونوں گیندوں کو زور سے مسلنے لگا۔ زینت کو تو اس طرح کسی نے کبھی نہیں رگڑا تھا۔ چلتی بس میں دونوں کا کھیل شروع تھا، لیکن بس میں رش اتنا تھا کہ کوئی دھیان بھی دیتا تو بھی کچھ اُس کی سمجھ میں آنے والا نہیں تھا۔ زینت اپنے آپ کو ان حملوں سے زیادہ دیر تک نہ بچا سکی اور اس کی پھدی نے اپنا پانی چھوڑ کر اس کی خوشی ظاہر کر دی۔ زینت کی پھدی سے بہتا پانی شیوا کے لنڈ کے ٹوپے کو بھی بھگو گیا جس سے شیوا بھی زینت کی پھدی کے گرم پانی  کا ٹکور اپنے لنڈ پر برداشت نہ کرسکا اور شیوا نے زینت کو اپنی طرف کھینچ کر اپنا لنڈ زور سے اس کی گانڈ کے چھید پر دبا دیا اور لمبی لمبی پچکاریاں چھوڑنے لگا۔ اس کے لنڈ سے نکلنے والا وہ گرم پانی اس کے شلوار سے ہوتا ہوا اس کی گانڈ کے چھید کو لگ کر زینت کو سکون دے رہا تھا۔ دونوں نے اپنی ہوس شانت کر کے کچھ دیر ایک دوسرے سے چپک کر کھڑے رہے، پھر الگ ہو گئے اور اپنے آپ کو درست کر کے اپنا اسٹاپ آنے تک چپ رہے۔ اپنا اسٹاپ آنے پر دونوں اتر گئے اور گھر کی طرف چلنے لگے۔ دونوں یہی سوچ رہے تھے کہ کیا بولوں، کیسے بولوں؟ 

شیوا اپنی جھونپڑی کی طرف جانے لگا تو زینت بولی: “چپ چاپ گھر چلو، پہلے کھانا کھا لو، اس کے بعد بات کریں گے۔”

زینت نے گھر آ کر اپنے آپ کو صاف کیا، کپڑے بدل کر کھانا بنانے لگی۔ شیوا بھی تب تک باتھ روم جا کر پیشاب کر کے لنڈ دھو کر آ گیا۔ زینت نے کھانا بنانے کے بعد دونوں کے لیے کھانا لگادیا۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھا لیا۔  شیوا کا سر جھکا ہوا تھا اور شرمندگی کے مارے زینت کی طرف دیکھ بھی نہیں رہاتھا۔ اور اُس کو بہت شرم بھی آرہی تھی کہ یہ اُس نے کیا کردیا ، لیکن یہ سوچ کر اُس کا بھی دل اُس کو تھوڑی تسلی دیتا تھا کہ اس سارے کھیل میں زینت چاچی نے بھی اُس کا برابر کا ساتھ دیا تھا اور خود اُس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ کر دبائے تھے۔خیر شیوا نے جیسے تیسے کھانا کھا کراُٹھا اوراپنے ہاتھ دھو کر پانی پیا اورپھر سر جھکائے ہی  بولا: “چاچی، میں سونے جا رہا ہوں، آپ بھی آرام کریں۔” 

زینت: “شیوا، رُکو، میرا تھوڑا باورچی خانے کا کام باقی ہے۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اگر آج نہ کہہ سکی تو ساری زندگی مجھے افسوس رہے گا۔” 

شیوا: “ٹھیک ہےچاچی ، جیسے آپ کی مرضی۔”

زینت نے دس منٹ میں باورچی خانے کا کام مکمل کر لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کپڑے بدل کر خود کو تیار کرنا شروع کیا۔ اسے تو صرف شیوا سے بات کرنی تھی، لیکن وہ آج اس طرح سنور رہی تھی جیسے کوئی نئی دلہن ہو۔ شیوا دوسرے کمرے میں بیٹھا زینت کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ بس میں جو کچھ ہوا، اسی کی بات ہوگی۔ اس کے دل میں یہی چل رہا تھا کہ زینت چاچی کو کیا جواب دینا ہے۔ 

جب زینت شیوا کے سامنے آئی تو شیوا اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ زینت نے ایسے کپڑے پہنے تھے جیسے وہ کسی شادی یا تقریب میں جا رہی ہو۔ اس نے جان بوجھ کر ایسے کپڑے چنے تھے کہ اس کے جسم کا ہر خم صاف نظر آئے۔ شیوا اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ زینت اسے اس نگاہ سے دیکھتے ہوئے شرما رہی تھی، جیسے وہ اپنے شوہر کے سامنے کھڑی ہو۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page