Passionate Commitment–25–جذبہ وابستگی قسط نمبر

جذبہ وابستگی ۔ محبت کی کہانی۔۔

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ، سسپنس اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  محبت بھری کہانی، ۔۔ جذبہ وابستگی ۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی محبت بھری کہانی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جذبہ وابستگی قسط نمبر - 25

تھوڑے دنوں میں ہی آکریتی کے جسم کے زخم بھر گئے۔ اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ سب نے اس سے بہت پوچھا، لیکن اس نے سب کو یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ اگر کسی نے اس سے زبردستی پوچھنے کی کوشش کی تو وہ پھر سے وہی کرے گی۔ اس کی بات سے سب ڈر گئے اور پوچھنا بند کر دیا۔ اس نے اپنے سینے میں ہی سارا درد چھپا لیا۔ وہ صرف سُنتی  اور  آنکھوں سے دیکھتی رہتی۔ کھلاؤ تو کھا لیتی، کچھ بولو تو کر دیتی۔ اس کے اندر کی جان جیسے کسی نے چھین لی تھی۔ 

ایسے ہی ایک دن رات کو وہ اپنے کمرے میں بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں سے خود بخود ہی آنسو نکل رہے تھے۔ اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب ادیتی آ کر اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ آکریتی کی حالت دیکھ کر ادیتی کو بھی رونا آ گیا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اسے آواز دی۔ 

ادیتی: دیدی۔ 

لیکن آکریتی پر اس کے بلانے کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ادیتی نے ہاتھ بڑھا کر اس کے گالوں سے آنسو پونچھے تو اسے ہوش آیا۔ 

آکریتی: تم کب آئی؟ کچھ چاہیے تمہیں؟ 

ادیتی نے ناں میں سر ہلایا۔ 

آکریتی: کیا سب کی طرح تم بھی مجھ سے وہی سوال پوچھنے آئی ہو؟ تم لوگ مجھے اکیلا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ 

ہر لفظ کے ساتھ آکریتی کا غصہ اور آواز تیز ہو گئی۔ اور آخری لفظ کہتے ہی اس نے بیڈ کے پاس والی ٹیبل پر رکھا کانچ کا شو پیس اٹھایا اور زور سے پٹک دیا۔ لیکن ادیتی ذرا بھی بے چین نہ ہوئی۔ چپ چاپ بیٹھی اس کی آنکھوں کے اندر جھانکتے ہوئے اس کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ 

ادیتی: نہیں دیدی۔ میں تو تمہیں بس یہ واپس کرنے آئی تھی۔ 

ادیتی کے ہاتھ میں آکریتی کا موبائل تھا۔ ادیتی نے جیسے ہی اسے آن کیا تو وال پیپر پر دیپک اور آکریتی کی ایک فوٹو تھی۔ جسے دیکھتے ہی آکریتی کے آنسوؤں کی دھار تیز ہو گئی۔ وہ زور زور سے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ادیتی نے جب اسے روتا دیکھا تو جھٹ سے گلے لگا لیا۔ 

ادیتی: آپ مت روئیں دیدی۔ آپ مت روئیں۔ آپ جب روتی ہو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ 

اس کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے۔ 

آکریتی: میری کیا غلطی تھی کہ مجھے یہ سزا ملی؟ میں نے تو صرف پیار کیا تھا، بھروسہ کیا تھا اس پر، میں نے اپنا سب کچھ اسے سونپ دیا بغیر سوچے بغیر سمجھے۔ لیکن اس نے میرا دل کیوں توڑ دیا؟ 

اور وہ پاگلوں کی طرح رونے لگی۔ ادیتی اس کے ماتھے کو سہلاتی تسلی دینے لگی۔ 

ادیتی: آپ کی کوئی غلطی نہیں دیدی، کوئی غلطی نہیں۔ غلطی تو اس انسان کی ہے جس نے آپ سے اور ہم سب سے ایسا دھوکہ کیا۔ آپ کو اتنا دکھ پہنچا کر وہ خوشیاں نہیں منا سکتا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں سب کو اس کی اصلیت بتا دوں گی۔ 

یہ کہتے ہی ادیتی اٹھ کر جانے لگی۔ آکریتی اس کی اس بات سے چونک گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔ 

آکریتی: ادیتی، تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔ تمہیں میری قسم ہے۔ 

ادیتی: لیکن دیدی۔۔۔

آکریتی: میرے اور دیپک کے بیچ میں جو بھی تھا وہ اب ماضی ہے۔ اب اس کی شادی ہو چکی ہے، وہ بھی ہماری بہن کے ساتھ۔ تمہیں نہیں لگتا کہ یہ سچ بتانے سے ان کی شادی شدہ زندگی پر بہت برا اثر پڑے گا؟ کیا ہماری بہن کبھی خوش رہ پائے گی؟ بتاؤ مجھے۔ کیا چاہتی ہو تم؟ میری طرح اس کی بھی زندگی برباد ہو جائے؟ بتاؤ مجھے۔ 

آکریتی کی بات سن کر ادیتی کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر کہا

ادیتی: ٹھیک ہے، میں نہیں بتاؤں گی کسی کو۔ وعدہ۔ لیکن آپ کو بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ 

آکریتی: کیا؟ 

ادیتی: آپ کو پھر سے جینا سیکھنا ہوگا دیدی۔ 

آکریتی: جس کی دنیا ہی لٹ گئی، اسے تم جینے کو کہہ رہی ہو؟ 

اس کے چہرے پر ایک اُداس  سی مسکراہٹ تھی۔ 

ادیتی: کچھ نہیں لٹا آپ کا۔ ہم سب ہیں، اب بھی  ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ خود کے لیے نہ سہی، ہمارے لیے۔ چاچی جی کے لیے۔ چاچا جی کے لیے۔ یش بھیا کے لیے۔ ہم سب کے لیے۔ جانتی ہو آپ، جب سے یہ سب ہوا ہے، کوئی گھر میں نہیں ہنستا۔ چاچی جی تو ہر پل روتی ہیں۔ سب آپ کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں۔ ہم سب تو آپ کے ساتھ کتنے دنوں سے ہیں۔ کیا ہمارے پیار کے لیے آپ اس دھوکے باز کے پیار کو نہیں بھلا سکتیں؟ پلیز دیدی، ہمارے لیے۔ 

ادیتی کا چہرہ اس وقت کسی بچی کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ بڑی اُمید سے آکریتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اور اُمید دونوں تھے۔ آکریتی کو اس وقت بہت حیرانی ہوئی۔ جس لڑکی کو آج تک اس نے منحوس کہہ کہہ کر چھیڑا، اتنا دکھ دیا، کبھی پیار سے بات تک نہیں کی، وہ لڑکی آج اس کے لیے اتنی فکر مند ہے۔ گھر کے باقی سب لوگوں نے بھی اس کے لیے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ اور وہ۔۔ صرف  ایک خود غرض کی طرح اپنے بارے میں سوچ رہی تھی۔ یہ یاد آتے ہی اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آ گئے، لیکن یہ آنسو پچھتاوے کے تھے۔ اس نے ادیتی کو پھر سے گلے لگا لیا۔ 

آکریتی: میں وعدہ کرتی ہوں تجھ سے، میں پھر سے جیؤں گی۔

ادیتی اور باقیوں کی مدد سے آکریتی دھیرے دھیرے پھر سے زندگی میں گھلنے ملنے لگی تھی۔ کچھ دنوں بعد جب ادیتی واپس شہر چلی گئی، تب پونم نے بھی مشکل وقت میں اس کا خوب ساتھ دیا۔ آکریتی سے  اپنی ماں کا دکھ دیکھا نہ جاتا۔ ان کے بارے میں سوچ کر اس نے پھر سے ہنسنا بولنا شروع کیا۔ ارمان کی شرارتوں کی وجہ سے وہ جس دن پہلی بار تھوڑا مسکرائی، سارے گھر والوں کو لگا جیسے ایک اندھیری رات میں کسی نے ایک چھوٹا سا دیا جلایا ہو۔ سب کی آنکھوں میں جو پیار آکریتی کے لیے تھا، وہ اس سے بھی نہ چھپ پایا۔ اسے دھیرے دھیرے احساس ہونے لگا کہ اس نے خود کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سب کے ساتھ کتنا غلط کیا تھا۔

یش ایک پل کے لیے بھی آکریتی کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ آخر وہ صرف اس کی بہن ہی نہیں تھی، بچپن سے ایک باپ کی طرح ہی اسے سنبھالا تھا۔ اسی لیے یش نے آکریتی کو آفس جوائن کرنے کو کہا۔ آکریتی اب بڑوں کی کوئی بھی بات نہ ٹالتی۔ اس نے بھی ہاں کر دی۔ وہ اب آفس بھی جاتی اور شام کو گھر آ کر اپنا سارا وقت گھر والوں کو دیتی۔ سب اسے دھیرے دھیرے ٹھیک ہوتا دیکھ کر خوش ہونے لگے۔لیکن  یہ سوال اب بھی سب کے دل  میں تھا کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا؟ 

یہ دل، یہ نازک  دل۔ جب ایک بار ٹوٹتا ہے تو پھر جڑ نہیں پاتا۔ کتنا ہی کوئی بہلا لے، کتنا ہی کوئی ساتھ دے، کیونکہ  ہم جس سے پیار کرتے ہیں اس کے بغیر ہم اپنوں کے بیچ بھی اکیلے ہوتے ہیں۔ آکریتی نے آنسو گرانا تو بند کر دیے تھے،لیکن  وہ سارا دکھ اس کے دل میں سمایا ہوا تھا۔ اس دکھ کو بھلانے کے لیے وہ کیا کچھ نہ کرتی۔

اگلی قسط بہت جلد ۔۔مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page