Gaji Khan–99– گاجی خان قسط نمبر

گاجی خان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاجی خان قسط نمبر -99

بہار پورے یقین سے اٹھا اور عامل صاحب سے کتابچی لیکر ان سے جانے کی اجازت لیتے ہوئے بولا۔

 یقین رکھئیے  عامل صاحب ، ، ، ، آپ کے یقین کو میں ٹوٹنے نہیں دونگا اور میرے قدم کوئی روک نہیں پائیگا ،  تقدیر میرے ساتھ ہے ‘ اتنا کہہ کر بہار پٹھان چل پڑا منزل کی طرف جو  نا صرف بہت دور تھی بلکہ راستہ مشکلوں سے بھرا ہونے والا تھا ۔ 

عامل صاحب نے فخر سے جاتے ہوئے بہار کو دیکھا اور پھر اوپر نگاہ کر کے اپنے مسیحا کو یاد کرتے ہوئے کچھ التجا ئی نظروں سے دیکھنے لگے شیرا اور بہار پٹھان کی سلامتی کے لیے نیک تمنائیں مانگنے لگے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

آج  شیرا کی آنکھ ذرا دیر سے کھلی تھی ،  رات دیر سے سونے اور تھکن کی وجہ سے جسم میں درد  سا محسوس ہو رہا تھا ۔ مگر جیسے ہی آنکھ کھلی تو فِضا، کومل نظروں کے سامنے کھڑی تھی۔

آپ کی طبیعت درست تو ہے صاحب جی ؟ آنكھوں کی رنگت کچھ بدلی سی نظر آ رہی ہے ، آپ کہیں تو حکیم صاحب کو بولوا لیتی  ہوں ‘

کومل نے  شیرا کو غور سے دیکھ  کر یہ سب کہا اور جانے ہی لگی تھی کہ شیرانے جلدی سے اسے روکا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے ، آپ رہنے دیں، رات کو نیند دیر سے آئی تو شاید اسی کی وجہ سے ایسا لگ رہا ہے آپ کو ، ویسے آپ کوئی پیغام لائی تھی کیا ؟ ‘

شیرانے جواب دیتے ہوئے سوال بھی کر دیا تو کومل کو یاد آیا وہ جس وجہ سے یہاں آئی تھی۔

 اہوووو۔۔۔۔ وہ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ کس وجہ سے یہاں آئی تھی ،  بیگم جی نے آپ کو یاد فرمایا ہے اور کہلوایا ہے کہ آج کا ناشتہ آپ لازمی ان کے ساتھ ہی کریں گے،  وہ آپ کی راہ دیکھ رہی ہیں ، ، ، اور ، ، ، ایک اور التجا  بھی تھی اگر ہوسکے تو آپ آج یہ لباس پہن کر آئیں،  بیگم جی آپ کو اِس لباس میں دیکھنا چاہتی ہیں ‘آداب ‘

سامنے ایک ٹیبل پر ایک سفید لباس پڑا تھا جس کے ساتھ اور بھی کچھ سامان پڑا ۔

شیرا کو جھک کرآداب  کرتی ہوئی کومل چلی گئی۔ شیرا کومل کے جاتے ہی بستر سے اٹھا اور اپنی حالت دیکھی تو خود پر شرم آ گئی ۔

ابھی تک وہ بنا لباس کے ہی تھا اور اس کا لن کھڑا  ہوا پھولتا، ہلکے جھٹکے لے رہا تھا۔ شیرا کو پھر رات کی باتیں یاد آتے ہی اسے پھر سے کچھ محسوس ہونے لگا مگر سب بھلا کر اس نے جلدی سے ایک گاؤن شاہی لباس پہن لیا خود کو ڈھکنے کے لیے ۔

شیرا چل کر اس لباس کے قریب آیا  جو کومل ابھی رکھ کر گئی تھی۔۔۔دیکھتے ہی شیرا کو اِس لباس میں ایک کھنچاؤ سا محسوس ہوا اور ہاتھ بڑھا کر شیرا نےاسے اٹھا لیا۔ ایک دم مخملی سا اور اتنا سفید کہ۔۔۔دودھ کی رنگت بھی اس کے آگے کم ہی لگے۔  مانو جیسے سفید رنگ میں دودھ برس  رہا ہو اور اس کے اوپر سے کاریگری بھی لاجواب، کیسے ؟ یہ کیا ہوگا کہ رنگت بھی نہ بدلی۔۔۔ یہ سوال ہر کسی کے من میں خود ہی آ جائے۔ ساتھ سفید موتیوں کی مالا اور پاس میں ہی بند شیشی جس کی مہک بند ہونے کے بعد بھی اتنی تیز آ رہی تھی۔

 لباس کو ایک طرف رکھ کر شیرا نے شیشی کو اٹھایا جو بےحد ہی نایاب تھی مانو یہ صدیوں پرانی کسی بادشاہ کی ہو ۔شیرانے شیشی کا ڈھکن جیسے ہی ہٹایا تو اس کی مہک سے مانو پُورا کمرہ بھر سا گیا۔ اتنی لاجواب اور اتنی تیز مہک مانو ایسی مہک کسی نے کبھی سونگھی ہی نہ ہو ۔ شیرانے اک لمبی سانس بھری اس مہک کو اپنے اندر بھرنے کے لیے اور آنکھیں ایسے بند ہوئی مانو وہ جنت میں پہنچ گیا ہو۔۔۔شیرا پر خوشبو کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اپنے آپ میں کھویا جھومتا ہوا کب واشروم  گیا اور کب نہایا اسے کچھ پتہ ہی نہیں بس وہ بار بار اس خوشبو کو سونگھتا ہی رہا۔ ایسا لگ رہا تھا مانو   اِس عطر کی مہک ایک طلسم ہے اور شیرا  اس میں قید سا ہو کر رہ گیا ہو۔

شیرا نے کسی اور دُنیا میں کھوئے ہوئے وہ سفید لباس بھی پہن لیا اور جیسے ہی وہ آئینے کے سامنے آیا ایک دم سے ہِل گیا۔

شیرا کو لگا جیسے اس نے آئینے میں کسی اور کا عکس دیکھا ہے۔ مگر جب دوبارہ سے دیکھا تو وہاں خود کو ہی پایا۔ عطر کی خوشبو اور بھی زیادہ مہکانے لگی مانو شیشی سے عطر باہر گر گیا ہو۔

شیرا نے ایک نظر ٹیبل پر ابھی رکھی شیشی کو دیکھا تو ڈھکن بند تھا۔

 کیا زبردست مہک ہے ‘ شیشی کو دیکھ کر اتنا بول کر جیسے ہی  شیراکی نظر پھر سے آئینے پر گئی تو پھر سے اُسے کسی دوسرے ہی انسان کی جھلک نظر آئی۔ شیرا   اک دم سے دو قدم پیچھے ہٹا  اور لڑکھرا گیا۔

 شیرا گرتے گرتے بچا اور جب دوبارہ سے آئینےکے سامنے گیا تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ خود کو ہی دیکھ رہا تھا مگر اسے اپنی آنكھوں پر یقین تھا کہ اس نے کسی اور کو ابھی دیکھا ہے اپنی جگہ پر۔۔۔ اور سفید لباس میں یہ انسان قدکاٹھی میں اس سے کہیں زیادہ لمبا تھا ۔ 

شیرا اِس بارے میں سوچ جی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور کومل اِجازَت لیکر اندر آئی۔ شیرا  کو سفید لباس میں دیکھ کر کومل کی نظریں شیرا پر ہی ٹھہر گئی ،  مانو آج وہ پہلی بار دیکھ رہی ہوشیراکو۔  کومل کی زُبان سے کچھ نکلا ہی نہیں مگر  شیرا  کی نظر پہلی دفعہ کومل کے جسم پر پڑی 40 کے آس پاس کی عمر تھی کومل کی اور رنگ بے حد گورا اس کے ساتھ ہی جسم ایک دم کسا ہوا جس میں خاص تھا اس کی آگے کو اٹھی ہوئی چھاتیاں  اور پتلی کمر۔۔۔ پیچھے کا حصہ ابھی یہاں سے نظر نہیں آ رہا تھا مگر  شیرا کو اتنے میں ہی سرور سا  چانے لگا ۔

یہ کل رات کے کھیل کا اثر تھا یا کچھ اور۔۔۔ مگر  شیرا جیسے کسی اور ہی دُنیا میں تھا۔اس کی آنکھیں ایک دم سے لال ہونے لگی اور چہرے پر خوشی آ گئی۔

شیرا کو ایسے خود کو گھورتا دیکھ  کرکومل ہوش میں آئی اور پیغام سنایا جس کے لیے وہ یہاں آئی تھی۔

 بیگم جی آپ کا  میز  پر انتظار کر رہی ہیں حضور ، آپ کی پسند کا ناشتہ تیار ہے‘ 

 اتنا کہہ کر کومل نے دروازہ کھولا باہر نکلنے کے لیے کہ اچانک اسے اپنے پچھلے حصے پر کسی کے ہاتھ سے چُھونے  کا احساس ہوا ۔ کومل ایک دم سے ہِل گئی کیونکہ شیرا  اس سے کم سے کم 10-12 قدم دور تھا مگر اتنی جلدی وہ کیسے اس کے اتنے قریب آ گیا اور اس کے پیچھے کولہوں پر ہاتھ بھی لگا دیا ۔ایک تو  شیرا سے اِس بات کی توقع نہ تھی دوسرا اتنی تیزی،  شیرا  کی یہ حرکت اسے نہ سمجھ آ رہی تھی اور نہ وہ کچھ کہہ سکتی تھی اسے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page