Raas Leela–09– راس لیلا

Raas Leela

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ سسپنس رومانس جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر  ۔۔راس لیلا۔

راس لیلا۔۔ 2011-12 کی کہانی ہے جو موجودہ وقت سے تقریباً 12-13 سال پہلے کی ہے، انڈیا کے شہر  سورت میں  سال 2011-12 میں شروع ہوئی تھی۔آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے شہر سورت میں بہت  گھنی آبادی ہے اور لوگ شہد کی مکھیوں کے غول کی طرح رہتے ہیں۔ زیادہ تر متوسط ​​طبقے کے خاندان بھیڑ والے علاقوں میں کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس میں دو بیڈ روم والے چھوٹے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ یہ کہانی ایک نوجوان کی کہانی ہے جس نے اپنی پڑوسیوں اور دیگر عورتوں کے ساتھ رنگ رلیوں ،  جنسی جذبات  اور جنسی کھیل کی  لازوال داستانیں رقم کی اور جب اُسے پتہ چلا کہ وہ ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے پھر تو اُس کی راس لیلا کی داستان کو ایک نیا رنگ مل گیا۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

راس لیلا قسط نمبر -09

اسی رات میں نے دونوں سیکسی بھابھیوں  کو بلایا اور کہا کہ مانوی بھابھی اور روپالی بھابھی میں اکیلا ہوں لیکن میں 3 کمروں کا فلیٹ استعمال کر رہا ہوں جب کہ مجھے صرف ایک ہی کمرہ چاہیے۔  میرے لیے دفتر سے آنے کے بعد شام کواکیلے  وقت گزارنا بہت مشکل  ہوجاتا ہے، تو  آپ دونوں اپنے بچوں کو میرے پاس فلیٹ  پر بھیج دیا کرو ۔۔ میں بچوں  کو ان کے ہوم ورک کرنے میں بھی مدد کروں گا اور اس سے میرا وقت بھی گزر جائے گا۔ چونکہ آپ کے فلیٹس پر بھیڑ رہتی ہے، بچوں کو میرے   فلیٹ میں اے سی ساتھ پڑھائی کا اچھا ماحول ملے گا اور وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دیں گے۔ تفریح ​​کے لیے بچے تھوڑی دیر کے لیے ایل سی ڈی ٹی وی دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب میں دفتر میں ہوتا ہوں تو میرا فلیٹ سارا دن بند رہتا ہے، اس لیے جب تک میں واپس نہیں آتا، آپ دونوں بھی سارا دن اس فلور پر اکیلے رہتی ہیں کیونکہ آپ کے بچے بھی اپنے اپنے اسکول یا کالج جاتے ہیں۔ آپ دونوں بور محسوس کر رتی  ہوں گی، اور باہر گرمی  بھی ناقابل برداشت ہے۔ اب آشا سارا دن یہاں رہے گی اور فلیٹ کی چابیاں اس کے پاس ہوں گی، اس لیے میں آپ سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ دن کے وقت اے سی روم میں آرام سے ایل سی ڈی ٹی وی دیکھ کر اپنے روزانہ کے ٹی وی سیریل دیکھو اور مزے کرو۔ ۔

اس کے بعد میں نے یہ بھی کہہ دیا  کہ میں نے آشا کے شوہر سونو کو بطور ڈرائیور اور آشا کو ان کی غیر موجودگی میں کل وقتی ملازمہ کے طور پر ملازم رکھا ہے۔ اور میں نے سب کو یہ بھی کہا کہ میں انہیں اپنے خاندان کی طرح سمجھتا ہوں اور وہ گاڑی یا گھر اور اس کی تمام سہولیات استعمال کرنے میں آزاد ہیں۔ اور وہ جہاں جانا چاہیں گے، سونو انہیں گاڑی میں لے جائے گا۔ اور اب سے بچے گاڑی سے سکول بھی جائیں گے۔ یہ سن کر بچے خوشی سے اچھل پڑے۔

دونوں مست بھابھیاں  میری بات سُن کر خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھی اور اپنی قسمت پررشک کررہی تھی،اور خوشی سے راضی ہو گئیں۔

اسی طرح کمپنی کے تمام ملازمین بھی مجھ سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے مجھ میں ایک اچھا لیڈر اور منیجر دیکھا کیونکہ میں  ایک شفیق دل والا، مددگار، تعاون کرنے والا، اچھا منتظم، اور کمپنی کے حوالے تجربہ کار تھا ، مجھ میں کوئی فخر و غرور والا مادہ  تو تھا نہیں ، سب سے میں بہترین انداز میں فرینکلی پیش آتا تھا۔ ایک مینیجر کے طور پر، میں نے اپنے ملازمین کو کچھ مراعات اور آزادیاں بھی دیں جن سے وہ پہلے محروم تھے۔ کویتا، ایک نئی لڑکی تھی اور میری اسسٹنٹ افسر کے طور پر کام کرتی تھی تو وہ بھی  کمپنی کے تمام معاملات میں ہمیشہ میرے مشورے کو اہمیت دیتی تھی اور  کوشش کرتی اس پر عمل کرتی۔ میرے اس رویے کی وجہ سے کمپنی کے ملازمین کے معاملات میں بہتری آئی اور کمپنی کے کاروباری تعلقات بھی مزید بہتر  ہو گئے، اور ہمارے کلائٹس کو  اچھا سامان مناسب قیمت پر ملنے  لگا جس کی وجہ سے ہیڈ آفس سورت برانچ سے بھی خوش تھا ، اور وہاں سے بھی سب کو مراعات ملنے لگیں۔

ایک ہفتے کے بعد، آشا کو اپنی ماں کو دیکھنے کے لیے بڑودہ جانا پڑا کیونکہ وہ بیمار ہو گئی تھیں اور پھر آشا اپنی ماں کی دیکھ بھال کے لیے وہیں رکی وہ  کچھ مہینے وہیں رہنے والی تھی۔ آشا کی جگہ سونو نے میرے گھر کی پوری دیکھ بھال کی اس لیےمجھے دوسری  ملازمہ کی ضرورت نہیں پڑی تھی لیکن میرے لیے ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا، سونو کھانا پکانا نہیں جانتا تھا اس لیے میں نے ریستوراں سے کھانا شروع کیا اور جلد ہی مسالے دار کھانوں کی وجہ سے پیٹ سے متعلق مسائل کا شکار ہونے لگا اور بیمار پڑ گیا۔

اس پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے دونوں بھابھیوں  نے اکٹھے ہوکر  میری مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے اس طرح  میری مدد کرنے کے ساتھ ساتھ  اپنے لیے کچھ اضافی رقم کمانے کے لیئے آپس میں تفصیل سے بات کی کیونکہ دونوں کو پتہ تھا کہ وہ  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور فائدہ اُٹھانے میں  پیش پیش ہی رہتی تھی اور دونوں ایک دوسرے کی نیت  کو اچھی طرح سے جانتی بھی تھی ۔ تو انہوں نے اپنی باہمی رقابت کو سائیڈ پر کرتے ہوئے آپس میں  مل بانٹ کر کھانے کا سمجھوتہ کیا۔ میری اس پریشانی سے ان دونوں کو فائدہ ہونے والا تھا لیکن وہ دونوں زیادہ سے زیادہ  فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کیونکہ دونوں بہت خود غرض اورموقع  پرست تھیں ،  جب کہ سب کچھ جاننے  کے بعد بھی میں انہیں اپنے خاندان  کی طرح سمجھتا تھا اور وہ دونوں مجھ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ کیونکہ وہ میرے رہن سہن اور میری شاہ خرچی  سے سمجھ چکی  تھی  کہ وہ مجھ سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

شام کو جب میں دفتر سے واپس آیا تو دونوں نے مجھ سے ملنے آئی ۔ مانوی بڑی ہونے کی وجہ سے کہنے لگی

مانوی۔۔۔ کاکا، ہم دونوں آپ کی صحت کے لیے بہت پریشان ہیں۔ اس لیے اب آپ باہر کا کھانا نہیں کھائیں  گے، ہم آپ کو گھر کا پکا ہوا کھانا دیا  کریں گے۔ ایک مہینے کے لیے میں آپ کو صبح اٹھتے ہی بیڈ ٹی دینے سے لے کر دفتر جانے سے پہلے آپ کو ناشتہ کرانے اور دوپہر کے کھانے کے لیے ٹفن پیک کرنے تک سب کچھ کروں گی۔ جب تم آفس سے واپس آؤ گے تو میں تمہیں شام کی چائے اور رات کا کھانا دیا  کروں گی،  اگلے مہینے سے یہ سب روپالی کرے گی۔

میں نے کہا ۔۔۔مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، میں مانتا ہوں لیکن اس کے لیے آپ دونوں کو مناسب خرچہ کرنا پڑے گا اور وہ میں دیا کروں گا۔

 وہ دونوں دل ہی دل میں خوش ہوگئی ،  کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ میری طرف سے انہیں ان کی توقعات سے کہیں زیادہ ملے گا۔ چنانچہ دونوں نے ہچکچاہٹ کا بہانہ کرنے کے بعد رضامندی ظاہر کی اور میں نے بھی بخوشی اس تجویز کو مان لیا۔

شروع شروع میں ہر روز صبح سویرے مانوی ایک ڈپلیکیٹ چابی سے اپنا فلیٹ کھولتی اور میرے بستر پر صبح کی گرم چائے کا کپ پیش کرتی اور اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں گڈ مارننگ کہہ کر مجھے جگاتی۔

جب تک آشا میرے ساتھ تھی وہ روزانہ صبح ایک ڈپلیکیٹ چابی سے میرا فلیٹ کھولتی اور مجھے بستر پر بوسہ دیتی اور اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں گڈ مارننگ کہہ کر مجھے جگاتی۔ میں عام طور پر رات کو لنگی پہن کر سوتا تھا اور کبھی انڈرویئر نہیں پہنتا تھا اور آشا کے بوسے میرے لنڈ کو جگاتے تھے اور پھر میں تقریباً ہر روز چائے سے پہلے آشا کے ساتھ سیکس کرتا تھا۔ اور اس کے جانے کے بعد بھی وہ روز رات کو  میرے خوابوں میں آتی تھی اور میں اسے خوب چودتا تھا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page