Magical Lamp – 07 – جادو کا چراغ

جادو کا چراغ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے سٹوری “جادوں کا چراغ”   رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان  سہتا  رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے  تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔

قسط نمبر 07

جب باہر سے کمرے میں  چاچا شفیق کا بیٹا طارق داخل ہوا اور اس کی نظر سب سے پہلے اپنے باپ پر پڑی جو کافی عرصے کا بستر سے ہل بھی نہ پایا تھا۔۔ اج وہ کھڑا اچھل کود رہا تھا اپنی صحت پر ۔۔۔وہ تیزی سے اگے بڑھ کر اپنے باب کے پاس پہنچ کر اس کو گلے لگاتے ہوۓ بولا :

طارق ۔ ابا یہ کیسے ہو گیا۔۔۔ااااپپ ۔۔۔ اپ کیسے ٹھیک ہو گئے ؟

چاچا شفیق ۔ :

بیٹا یہ لمبی کہانی ہے میں تمہیں سب بتاؤں گا یہ جو عورت اس لڑکے کے قدموں میں بیٹھی ہے یہ سب اسی کا کیا دھرا تھا ۔۔۔

چاچا شفیق کے منہ سے یہ بات نکلی تو میں نے افشاں کی طرف دیکھا جو اس وقت شرمندہ میری طرف ترس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی

میں نے ان کی بات کو بیچ میں ٹوکتے ہوۓ کہا

 میں :ایک منٹ! میں  اس خاتون سے اکیلے میں بات کرنا چاہوں گا تاکہ میں جان سکوں کہ جو ہوا اس کے پیچھے وجہ کیا تھی ۔۔۔

میری بات سن کر چاچا شفیق ایک لمحے کے لئے ہچکچائے پر اگلے ہی لمحے حامی بھرتے ہوۓ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر کمرہ سے باہر چلے گئے ۔۔وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کے میں ان کا محسن تھا ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان کی حالت سدھار کر یہ بات سچ بھی ہوتی ہے ۔۔البتہ باہر جاتے ہوۓ وہ یہ  لازمی بول کر گئے کہ”  بیٹا جب بات کر لو تو باہر ڈائننگ ٹیبل پر ا جانا ہم وہاں بیٹھ کے چائے پییں گے اور باقی کی باتیں کریں گے “

اتنا بول کر وہ کمرہ میں سے باہر نکل گئے۔۔ان کہ جاتے ہی کمرے میں افشاں اور میں رہ گئی تھے جبکہ میرے ساتھ میری جنی بھی تھی ۔۔۔وہ میرے  کندھے پر بیٹھی ہوئی تھی جس کو میں نے حکم دے رکھا تھا کہ “اب یہ جو بھی بولے وہ چیک کرنا اور اس کو پرکھنا کہ کہیں یہ مجھ سے جھوٹ تو نہیں بول رہی “

میں ۔ تو کیا اب سے تم میری غلام بن کے رہنا چاہتی ہو

افشاں ۔ جی مالک میں اج سے اپ کی غلام اور اپ کی داسی ہوں

اس کا یہ کہنا تھا کہ میں نے شرارتی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور اسے کہا 

میں ۔ ثابت کرو

اس نے بغیر کسی چون چراغ کے اپنے ہاتھ اگے بڑھائے اور اس کا ہاتھ میری شلوار تک پہنچا وہ میرا ناڑا کھولنے ہی والی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ روک دیا اور اس سے کہا

میں۔   نہیں بس مجھے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے

اس نے حیرانی بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور اس کی انکھوں میں بہت سارے سوال تھے جن کو میں نے نظر انداز کیا اور میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے کہا

میں ۔ اؤ یہاں بیٹھو

وہ خاموشی سے چلتی ہوئی ائی اور میرے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئی اور مزید بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا اب میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے یہ جو کیا اس کے پیچھے کیا وجہ تھی

افشاں ۔ مالک  میں جب چھوٹی تھی تو اپنے مامو کو دیکھا کرتی تھی کہ اکثر لوگ ان کے پاس اتے ہیں اور اپنا علاج کر کے جاتے ہیں اس وقت میں نہیں سمجھ پاتی تھی کہ یہ کیا ہے لیکن پھر کچھ عرصہ بعد وہ معنی کی طبیعت خراب ہو گئی اور میری امی نے مجھے مامو کے پاس رہنے کے لیے دوسرے شہر بھیج دیا دوسرے شہر میں ممانی تو اپنی بیماری کی وجہ سے بستر پر رہی تھی لیکن میرا مامو کے ساتھ زیادہ وقت گزرتا تھا اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اس وقت مجھے پہلی دفعہ علم ہوا کہ ماموں سلفی علم کے ماہر ہیں مجھے اپنے ماموں سے شدید کوفت ہوئی کیونکہ میں جانتی تھی کہ یہ علم کرنے والوں کی بخشش نہیں ہوتی وقت گزرتا گیا اور مامو بھی اب عمر کے اس حصے میں تھے جسے بڑھاپا کہنا غلط نہیں ہوگا مامو سے اب یہ علم برداشت نہیں ہو رہا تھا اور وہ روز بروز کمزور اور مشکلوں میں پھنستے جا رہے تھے کیونکہ جیسا کہ مالک سب جانتے ہیں کہ سیلفی علم کرنے والے تمام لوگ اپنے بڑھاپے میں شدید تکلیف میں ا جاتے ہیں وہی کچھ میرے ماموں کے ساتھ بھی ہوا کیونکہ مامو کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی میرا کوئی بھائی تھا اور میرے ماموں اور میری امی یہ دونوں بھی اکیلے تھے اس لیے میری امی نے میرے اگے اپنی جھولی پلائی کہ اگر تو اپنے ماموں سے اپنا یہ علم لے لے تو میں تجھے اپنے دودھ کا قرض معاف کر دوں گی میں کافی روئی تڑپی چارہ نہ چارہ مجھے اپنے مامو سے یہ علم لینا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنوں میں ماموں کی طبیعت میں سدھار انا شروع ہو گیا مجھے علم لیے ہوئے اٹھ مہینے ہو گئے تھے اور ان اٹھ مہینوں میں مامو نے مجھے بھرپور طریقے سے اس علم کا ماہر بنا دیا تھا اور اس وقت میرا درجہ تین ہو چکا تھا

پھر اچانک ایک دن اماموں کی وفات ہوگئی اور جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے دس دن بعد ہی امی بھی چل بسی میں اس پوری دنیا میں اکیلی بے یار و مددگار رہ گئی میرے مامو نے مجھے کہا تھا کہ اگر اپنا درجہ بلند کرنا چاہتی ہو تو چلا کاٹو اور وہ بھی قبرستان میں جا کر کسی بچے کی بلی دینے کے بعد

میرے ذہن میں یہ بات تھی لیکن میں بے رحم نہیں تھی لیکن وہ طاقتیں مجھ پر حاوی ہونا شروع ہو گئیں اور اہستہ اہستہ وہ مجھے تنگ کرتی تھیں میں نے اپنے ماموں کی پرانی کتابیں کھولیں اور ان کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو اس میں مجھے یہ پتہ چلا کہ میرا درجہ کم ہے اور درجہ کم ہونے کی وجہ سے وہ طاقتیں مجھ پر حاوی ہیں اگر میں اپنا درجہ بڑھا لیتی ہوں تو میں ان طاقتوں پر حاوی ہو جاؤں گی اور چوتھے درجے کا جادوگر بننا بہت ہی بڑا کارنامہ ہوگا اپنی پریشانیوں سے اور اپنی تنہائی کو مٹانے کے لیے میں نے یہ بات تھان لی کہ ٹھیک ہے اب میں اپنے اپ کو ایک ایک اونچے درجے کا سلفی علم کا ماہر بنا کے ہی چھوڑوں گی پھر میں نے تلاش کر دی ایک ایسے پائل بچے کی جس کی میں بلی چڑھا سکوں

میں نے اس کی بات کو یہاں پہ بیچ میں ٹوکا اور اس سے پوچھا

میں ۔ یہ پائل بچہ کیا ہوتا ہے

اس پر افشاں مسکرائی اور اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا

افشاں ۔ پائل بچہ وہ بچہ ہوتا ہے مالک جو الٹا پیدا ہوا ہوتا ہے یہ بچے بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ اج کل کے دور میں زیادہ تر بچے اپریشن سے پیدا ہوتے ہیں تو پاہل بچہ ڈھونڈنا ناممکن ہوتا ہے اس کے بعد میری تلاش اس وقت ختم ہوئی جب میں کوئٹہ سے کراچی کی طرف ا رہی تھی مجھے ٹرین میں ایک بچہ ملا جو بچہ پائل تھا یہ بات مجھے اس کی ماں سے گفتگو کے دوران پتہ چلی اور میں نے اس کے ساتھ دوستی کی اور اس کا مکمل پتہ لے لیا کہ کراچی میں اس سے ملنے اؤں گی چند ہی دنوں بعد میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی میں نے اس بچے کو اٹھا لیا اور وہ بچہ میری زندگی کا پہلا قتل تھا میں نے اس بچے کی بلی چڑھائی اور اس کے خون سے اپنے گرد ایک دائرہ بنایا اور اس دائرے میں بیٹھ کر میں نے اپنا علم شروع کیا مسلسل 40 راتوں تک ایک سنسان قبرستان میں میں نے یہ علم کیا تو مجھے یہ جنات ملے تھے جن کو اج اپ نے ازاد کر دیا

جو وہ جن مجھے ملے تو میں نے اپنے اپ کو بہت طاقتور محسوس کیا اب میری راتیں سکون سے گزرنے شروع ہو گئی تھیں اور میں لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر رہی تھی لیکن اچانک ہی میرے اندر ایک عجیب سی طاقت کی بھوک نے جنم لیا اور میں اپنے اپ کو طاقتور بنانا چاہتی تھی اور طاقت کے لیے پیسے کی ضرورت تھی اس کے لیے میں نے بہت سے اور بچوں کی اور لڑکیوں کی بلیاں چڑھانا شروع کر دیں اور بہت سارے اور منتر اور جنات کو قابو کرنا شروع کر دیا میں بہت طاقتور ہو چکی تھی لیکن اصلی طاقت اج کل کے زمانے میں پیسہ تھی وہ پیسہ مجھے صرف اور صرف کسی امیر ادمی کو مار کے ہی مل سکتا تھا

پھر ایک دن میرا سامنا طارق سے ہوا اور طارق مجھے اچھا لگا اور طارق کو جان کر مجھے پتہ چلا کہ وہ انتہائی امیر ادمی ہیں اور کراچی شہر میں پراپرٹی کا کام کرتا ہے اور کراچی شہر میں 80 پرسنٹ پراپرٹی یہی ڈیل کرتا ہے میری تلاش مجھے اس وقت ختم ہوتی نظر ائی اور میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اسے پھنسا کر اسے اہستہ اہستہ مار دوں گی اور اس کی جائیداد کی مالک بن جاؤں گی لیکن جب میری شادی ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ اس راستے کا اصلی کانٹا طارق نہیں بلکہ اس کا باپ شفیق ہے میں نے اپنے جنات کے ذریعے سے اسے اپاہج بنا دیا اور طارق کو بالکل سوچنے سمجھنے کہ قابل نہ چھوڑا اگر میرا علم واپس نہ پلٹتا تو اج سے ٹھیک پانچ دنوں بعد شفیق اور پورے 20 دنوں بعد طارق کا انتقال ہو جاتا اور میں اس پورے کاروبار کی اکیلی مالک ہوتی لیکن اپ نے بیچ میں ا کر ان کی زندگی بھی بچا لی اور میری انکھیں بھی کھول دیں

وہ اپنی کہانی سنا کر خاموش ہوئی تو میں نے جنی سے پوچھا

میں ۔ بتاؤ کیا اس نے جو جو بولا وہ سچ ہے یا اس میں جھوٹ بھی شامل ہے

جنی ۔ میرے اقا اس کا ایک ایک لفظ سچا ہے اور یہ سچ بول رہی ہے

میں ۔ کیا اس کا دل واقع ہی بدل چکا ہے اور کیا یہ سچ میں میری سچی غلام بن کے رہنا چاہتی ہے

جنی ۔ جی میرے اقا یہ بدل چکی ہے اور اس کی انکھیں کھل چکی ہیں یہ اپ کو اپنا مالک تسلیم کر چکی ہے روس جسم سے ہر طرح سے اپ اسے جیسے چاہیں ویسے استعمال کر سکتے ہیں چاہیں تو یہ اپ کی رکھیل بن کے رہے گی چاہے تو یہ اپ کی ساتھی بن کے رہے گی

جنہیں کی یہ باتیں سن کے مجھے خوشی ہوئی کہ ایک انسان کی زندگی میری وجہ سے تبدیل ہو چکی ہے میں نے افشاں  کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا

میں ۔ ٹھیک ہے اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم چاہتی کیا ہو

افشاں ۔ مالک اب کیونکہ میرے راز ان لوگوں کے سامنے کھل چکے ہیں میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی اور میں اپنے لیے کوئی چھت تلاش کروں گی اور ہمیشہ اپ کی داسی بن کے رہوں گی کیونکہ اب ان کے تانے مجھے جیتے جی مار دیں گے اور پھر سے میری زندگی میں وہی تکلیفیں شروع ہو جائیں گی جن تکلیفوں کی وجہ سے میں نے یہ علم شروع کیا تھا

مجھے اس کی بات سن کر ترس ایا ہر انسان اپنے ماں کے پیٹ سے برا نہیں ہوتا برا اس سے بناتے ہیں اس دنیا کے حالات اور یہ بھی حالاتوں کی ماری تھی میں اس کے قریب ہوا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر  اس کو سہلاتے ہوئےبہت پیار سے کہا

میں ۔ افشاں اگر تم سچے دل سے میری وفادار ہو تو میں بھی اپنے پورے دل کے ساتھ تمہارا ساتھ دوں گا۔۔۔ ان لوگوں کی فکر نہ کرو ان کے ذہن سے یہ باتیں کیسے نکالنی ہیں یہ میں بہت اچھے سے جانتا ہوں

اس نے رحم دلی سے میری طرف دیکھا اور وہ تیزی سے میری طرف ائی اور اس نے میرے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی لیکن میں نے ان سے بیچ میں ہی روک دیا اور کہا

میں۔  یہ مناسب وقت نہیں ہے میں تمہیں پیار کروں گا اور ٹوٹ کر کروں گا لیکن مناسب وقت پر اس وقت تمہارے گھر والوں کے کان اسی دروازے پر لگے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ میرے یا تمہارے متعلق اور کچھ برا سوچیں میں یہ باتیں کہہ ہی رہا تھا کہ جنی نے میرے کان میں ایک بات کہی جس نے مجھے چونکا دیا جنہیں نے کہا

جنی۔ میرے اقا یہ عورت ایک سیکس کی بھی ماہر عورت ہے اور یہ اپ کو سیکس کرنے کا وہ ہنر سکھا سکتی ہے کہ بغیر میری مدد کے اپ کسی بھی عورت یا لڑکی کو ایسا قابو کر لو گے کہ وہ ایک دفعہ اپ کے ساتھ بستر پر لیٹنے کے بعد پھر کبھی دوسرے مرد کی طرف جانے کا سوچے گی بھی نہیں اور اگر جائے گی بھی تو اس کے ذہن میں صرف اور صرف اپ ہی ہوں گے

مجھے یہ بات سن کر انتہائی خوشی ہوئی اور میں نے سوچ لیا کہ اب میں کیسے اس سے وہ سب سیکھوں گا جس چیز کا میں دنیا میں سب سے زیادہ شوقین ہوں

(یہاں پر ایک بات میں اپ سب کو بتانا چاہتا ہوں جو سٹوری سے تھوڑی ہٹ کر ہے میری ایک فین میرے پاس ان باکس میں ائیں اور انہوں نے مجھ سے اسپیشلی ریکویسٹ کی کہ ان کا نام اسٹوری میں شامل کیا جائے اور وہ شانی کی سیکس ٹیچر ہوں اور وہ ان کی پارٹنر بھی ہوں اور شانی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے تو اس لیے اپ سے افشاں کا نام بدل کر میں اپنے اسی فین کا نام استعمال کروں گا اب سے افشا کا نام عذرا ہوگا )

اس کے بعد میں نے عذرا کا ہاتھ پکڑا اور اس سے اپنے ساتھ لے کر باہر اگیا باہر ڈائننگ ٹیبل پر چائے کے لوازمات اور چائے تیار پڑی تھی اور ان دونوں نے شدید نفرت سے ازرا کی طرف دیکھا لیکن میں نے عذرا کو اپنے ساتھ بٹھایا اور ان سے کہا

میں ۔ چاچا اور طارق بھائی میں اپ دونوں سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں

چاچا شفیق ۔ بیٹا تم پر تو میں اپنی جان بھی قربان کر دوں کیونکہ تم نے ہمیں وہ خوشی دی ہے جس کی ہم امید ہی چھوڑ چکے تھے

میں ۔ اپ اور طارق بھائی دونوں اج کے بعد اس بات کا ذکر نہیں کریں گے اور اپنے سچے دل سے ازرا کو معاف کر دیں گے

دونوں باپ بیٹے نے میری طرف حیرت سے دیکھا لیکن اگے کچھ کہا نہیں اور ان کی خاموشی کو دیکھ کر میں نے اپنی بات کو جاری رکھا

اصل میں اس میں ازرا کا کوئی بھی قصور نہیں تھا یہ جنات کے اثر میں تھی جو جنات میں نے قابو کر لیے ہیں ان جنات کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا تھا یہ تو صرف کٹھپتلی تھی اصلی گنہگار تو وہ تھے جو میں اس کے جسم سے نکال چکا ہوں اور اب یہ ایک پاک اور نیک خاتون ہیں یہ اپ کی ویسے ہی خدمت کرے گی جیسے یہ کرتی ائی تھی اور ائندہ بھی کرے گی اس بات کی میں اپ کو گارنٹی دیتا ہوں عذرا ساتھ بیٹھے مسلسل روئے جا رہی تھی میری بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ طارق تیزی سے ازرا کی طرف ایا اور اس سے اپنے گلے لگا لیا اور عذرا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

چاچا شفیق کی انکھیں بھی نم تھی اور وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور انہوں نے کہا

چاچا شفیق ۔ بیٹا مجھے تمہاری ہر ایک بات منظور ہے صرف مجھے ہی نہیں میرے بیٹے کو بھی منظور ہے ازرا میری بہو نہیں بلکہ میری بیٹی ہے میں جب فیصل اباد سے یہاں ایا تھا تو اس اس شہر میں میرا کوئی نہیں تھا یہ دونوں ہی میرے سب کچھ ہیں تم نے دوبارہ سے میرے خاندان کو ایک کر کے  مجھے دل کی وہ خوشی دی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا

طارق نے نے عذرا کے بہتے ہوئے انسوؤں کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور اس کے ماتھے سے بوسہ لیا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھا جس سے وہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ تم اب بھی میری ہو اور میں تم سے محبت کرتا ہوں عذرا نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا

جب میں اپنی چائے ختم کر چکا تو میں وہاں سے جانے لگا اور ان سے اجازت چاہی کہ اب انہیں کسی کام کرنے والے کی ضرورت نہیں تھی

میں ۔ چاچا اب مجھے اجازت دیں میں چلتا ہوں

چاچا شفیق ۔ ارے بیٹا کہاں جا رہے ہو تم تو یہاں نوکری کے غرض سے ائے تھے کیونکہ تمہارے حالات تمہیں اس عمر میں نوکری کرنے پہ مجبور کر رہے تھے اور بغیر نوکری کی بات کیے ہوئے جا رہے ہو

میں ۔ چاچا جس نوکری پر اپ مجھے رکھنا چاہتے تھے وہ نوکری تو اب ختم ہو چکی اب اپ ٹھیک ہیں اور اپنا ہر کام خود کر سکتے ہیں اس لیے مجھے اجازت دیں میں جانا چاہتا ہوں

چاچا شفیق ۔ ہم تمہیں ایسے جانے نہیں دے سکتے تم نے ہمیں اپنا مقروض کر لیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے مانگو بے شک مجھ سے میری ساری دولت مانگ لو میں تمہیں دے دوں گا لیکن میں تمہیں خالی ہاتھ یہاں سے جانے نہیں دوں گا

میں ۔ چاچا میں کچھ بھی اپ سے نہیں لوں گا کیونکہ کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتا

طارق ۔ میرے پاس ابھی ایک نوکری ہے اگر اپ کرنا چاہتے ہیں شانی صاحب تو میں اپ کو افر دے سکتا ہوں

تاریخ کی بات سن کر میں حیران ہو گیا اور دوبارہ سے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا

میں ۔ اپ بولیں میں سن رہا ہوں

طارق ۔ جیسا کہ اپ جانتے ہیں کہ کراچی کا 80 پرسنٹ پراپرٹی کا کام میں سنبھالتا ہوں پہلے ابو میرے ساتھ ہوا کرتے تھے لیکن اب میں اکیلا پڑ گیا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ اپ میرے ساتھ میرا یہ کام سنبھالنے میں مدد کریں میں اپ کو کوئی نوکری نہیں دے رہا بلکہ میں اپ کو اپنے بزنس کا 20 پرسنٹ کا شریک بنانا چاہتا ہوں

میں اس کی بات سن کر حیران رہ گیا کہ 20 پرسنٹ یہ کوئی چھوٹی رقم نہ تھی یہ میری اوقات سے بہت بڑھ کر تھی اور میں اسے قبول نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پراپرٹی کا کام مجھے بالکل بھی نہیں اتا تھا ایسا نہ ہو کہ میری ذات سے ان کے کاروبار کو کوئی نقصان پہنچے اس لیے میں نے انہیں منع کرنا ہی مناسب سمجھا اور کہا

میں ۔ اپ کی محبت اور خلوص کا میں انتہائی مشکور ہوں لیکن میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اپ کو یا اپ کے کاروبار کو کوئی نقصان پہنچے اس لیے میں یہ افر قبول نہیں کر سکتا کیونکہ پراپرٹی کا کوئی تجربہ میرے پاس نہیں ہے تو یقینا میں اپ کے لیے نقصان کا باعث بنوں گا

چاچا شفیق ۔ کوئی نقصان نقصان نہیں ہوگا جو ہم نے کہہ دیا وہی ہوگا تم ہمارے بیٹے ہو اور بیٹے کبھی بھی اپنے باپ کا حکم ٹھکرایا نہیں کرتے ہم تم سے پوچھ نہیں رہے ہم تمہیں بتا رہے ہیں کہ اب سے تم ہمارے بزنس پارٹنر ہو اور ہمارے کام میں 20 پرسنٹ کے شریک بھی

طارق ۔ میں اپ کو 20 کی جگہ 50 پرسنٹ کا شریک بنانا چاہتا تھا لیکن میں نے اس لیے 20 پرسنٹ رکھا کہ اپ کام سیکھ جائیں اور اس کے بعد اپ 50 پرسنٹ کے شریک ہو جائیں گے

میں ۔ اپ جانتے ہیں کہ میں وہ انسان ہوں جس کے لیے دفتر میں بیٹھنا انتہائی مشکل ہے اپ کی طرح میں سارا دن دفتر میں بیٹھا نہیں رہ سکتا کیونکہ جو طاقتیں میرے پاس ہیں ان سے میں لوگوں کی خدمت اور مدد کرنا چاہتا ہوں جیسے اج میں نے اپ کی مدد کی کسی اور کو بھی اسی طرح میری مدد کی ضرورت ہوگی

عذرا ۔ میں کچھ بول سکتی ہوں

شفیق چاچا نے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا

عذرا ۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ اپ اپنے کام اسی طرح جاری رکھیں اور بیچ بیچ میں کبھی کبھی دفتر کا بھی چکر لگاتے رہیں اور اس سے ہلکا پھلکا کام اپ سیکھ جائیں گے اور اپ کو ایسا بھی نہیں لگے گا کہ اپ مفت کے پیسے لے رہے ہیں۔۔۔ دن میں کم از کم ایک دفعہ دفتر جائیں اور حالات کا جائزہ لے لیا کریں ۔۔۔اپ کو وہاں پر طارق ہر چیز سمجھا دیا کریں گے ایسے اپ کام بھی سیکھ جائیں گے اور اپ کی پارٹنرشپ بھی ہمارے ساتھ بحال رہے گی

چاچا شفیق ۔ شاباش واہ یہی تو تمہارے گن ہیں جن کی وجہ سے میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا تھا اور شکریہ شانی بیٹے کا کہ جس کی وجہ سے ہم نے تمہیں صحیح سلامت واپس پا لیا

بیٹھے بٹھائے میری داسی نے میرا کام اسان کر دیا تھا اب کچھ نہ کرتے ہوئے بھی میں ایک امیر ادمی بن گیا تھا اور میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور میں نے اپنی انکھوں سے ہی عزرا کی طرف پیار سے دیکھا اور عزرا نے شرم سے اپنی انکھیں جھکا لیں

چاچا شفیق ۔ تو طے رہا کل سے تم صبح نو بجے سے رات 10 بجے کے بیچ میں کسی بھی وقت دفتر کا چکر لگایا کرو گے اور طارق سے کام سیکھو گے اور بدلے میں تم اپنا 20 پرسنٹ مہینے کے اخر میں لیا کرو گے جب تک کہ تمہاری عمر 18 سال نہیں ہو جاتی اور تمہارا بینک اکاؤنٹ نہیں بن جاتا تب تک تم سارے پیسے طارق سے لیا کرو گے

اور طارق تم نے ہر مہینے ایمانداری کے ساتھ اپنا سارا حساب شانی کے سامنے رکھنا ہے تاکہ تم دونوں بھائیوں میں پیسے کو لے کے کبھی کوئی ان بن نہ ہو

میں ۔ یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی لیکن ان کے علاوہ میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہوں

چاچا شفیق ۔ بولو بیٹا

میں ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ عذرا  کا نام مشہور ہو اور لوگ یہ جانیں کہ عذرا سلفی علم کی ماہر ہے اس کے پیچھے تو کام میں ہی کرتا رہوں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اب عذرا بھی میرے ساتھ شامل ہو اور وہ لوگوں کی خدمت کرے اپنے اس ہنر سے

چاچا شفیق ۔ تم نے کہہ دیا سمجھو ہو گیا میرے پاس بہت لوگ اتے ہیں عیادت کے لیے اب جو بھی میرے پاس ائے گا ان کو میں یہی بتاؤں گا کہ عذرا کی مہربانی سے میں دوبارہ سے ٹھیک ہوا ہوں تاکہ عذرا سامنے رہے اور تم پس پردہ یہ سارے کام کرتے رہو

ان تمام باتوں کے بعد میں چاچا شفیق گھر سے نکلا گھر سے نکلتے وقت انہوں نے زبردستی میری جیب میں پانچ ہزار کے دو نوٹ ڈال دیے

رشتے بھی کیا چیز ہوتے ہیں پیسے ملتے ہی سب سے پہلے میرے ذہن میں میری ماں اور میری بہنیں اور میرا باپ ایا اور میں بازار کی طرف روانہ ہو گیا اپنی تینوں بہنوں کے لیے سوٹ اور باپ کے لیے شراب اور ماں کے لیے ایک خوبصورت سی شال خریدی اور کچھ ہلکا پھلکا کھانے کا سامان لیا اور سیدھا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اس بیچ میں کب رات کے نو بج گئے مجھے پتہ ہی نہیں چلا جب میں گھر پہ ہوں جب میں گھر پہنچا تو میرے ہاتھ میں اتنا سامان دیکھ کر میرے گھر والے شدید حیران ہو گئے وہ سب ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور میں نے کھانے کا شاپر ان کے سامنے رکھا اور ان سے کہا کہ یہ لیں یہ بھی کھائیں دال چاول کھاتے ہوئے جب کسی غریب کو مرغ مسلم اور سجی جیسی چیزیں مل جائیں تو وہ کس قدر خوش ہوتا ہے یہ خوشی میں نے اپنی بہنوں اور اپنے باپ اور اپنی ماں کے چہرے پر دیکھی لیکن جیسا کہ میری ماں کی عادت تھی اس نے پھر بھی مجھے ایک کڑوی بات کر ہی دی

ماں ۔ کہاں سے چوری کر کے لایا ہے یہ سب کچھ

خلاف توقع اج میرا جواب کسی اور نے دیا جو سن کر پہلی دفعہ میرا دل رشتوں کی کشش کو سمجھا وہ جواب دینے والی کوئی اور نہیں میری چھوٹی بہن تھی

نیہا ۔ امی بس کریں بھائی محنت سے ہی لائے ہوں گے اپ تو ہر وقت ان کے پیچھے پڑی رہتی ہیں

میں انتہائی خوش ہوا اور جلدی سے اپنا شاپر کھولا اور اپنی بہنوں کو ان کے سوٹ امی کو شال اور باپ کو بوتل تھما دی

وہ سب انتہائی خوش ہوئے اور اج پتہ نہیں کتنے سالوں کے بعد میں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک دسترخوان پر کھانا کھایا۔۔

کھانا کھاتے ہوۓ میری نظریں بار بار انم کی جانب اٹھ رہی تھیں ۔۔آج کافی عرصے بعد گھر میں سبھی خوش تھے جو کے ان کے چہرے پر بھی نظر آرہی تھی اور دوستوں سچ کہوں تو خوش تو میں بھی بہت تھا چاہے میں جتنا بھی بڑا چوتیا کیوں نہ ہو پر گھر اور فیملی کی ضرور سب کو ہوتی ہے اور ہم جیسے مڈل کلاس لوگوں کی تو پوری دنیا ہی یہی ہوتی اور یہی سوچتے ہیں کے اپنے گھر والوں کے لئے کیا کریں خیر بات موضوع سے ہٹ گئے اس کے لئے معذرت خوا ہوں تو میں کہ رہا تھا کے ۔۔گھر میں سبھی خوش تھے اور اس خوشی کو  آج میرا انم کو چود کر منانے کا دل تھا ۔۔اور مجھے یقین تھا کے آج اس کے جسم کا ذائقہ ہی کچھ الگ ہو گا۔۔۔ کیونکہ خوشی اس کے گریبان سے باہر نکلنے کو بے تاب تھیں۔۔ اپ شائد سمجھے نہیں اس کے مست آموں کی طرح تھوڑے لٹکے ہوۓ گورے ممے میرے لن میں ابھار بنا گئے تھے  ۔۔اور میں بے چینی سے رات کا انتظار کر رہا تھا ۔۔خیر اس نظارے کو دیکھ اوکھا سوکھا میں کھانا کھایا ۔۔اوکھا سوکھا اس لئے کہ رہا ہوں کیونکہ ایسے نظارے کو دیکھ کر انسان کے دو ہی من ہوتے ہیں یا اس کو منہ میں لے لو یا پھر اس کو دیکھ کر مٹھ مار لو ۔۔بمشکل پیٹ بھر کر میں کھانا ختم کیا اور اپنے کمرے میں چلے گیا باقی سبھی نے اپنا کھانا ختم کیا اور برتن کچن میں رکھ کر اپنے کمرے میں گئے تو میں اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کے انم کو کیسے لے کر اؤ اپنے کمرے میں پر اگلے ہی پل جو ہوا اس نے میرے چودہ طبق روشن کر دئے ۔۔۔۔

جاری ہے

مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page