منحوس سے بادشاہ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس سے بھرپور ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 20
وکاس نے جو کچھ بھی حرکتیں نندنی كے ساتھ کی تھی ، ویر ان حرکتوں كے بارے میں جاننے كے بَعْد بہت ہی غصے میں تھا ۔
ویر اس وکاس کو بہت اچھے سے جانتا تھا ۔ آخر وکاس اسی كے ڈیپارٹمنٹ میں جو تھا۔ مگر وکاس ویر کو نہیں جانتا تھا۔ ویر ایک جو ناپسند لڑکا تھا ۔اکیلے بیٹھنا لوگوں سے دور رہنا ، بات چیت نہ کرنا اور اس کا اتنا عام سا چہرہ جیسے لوگوں کو اس پر نظر ڈالنے سے روکتا تھا ۔
وہیں دوسری طرف وکاس کی بناوٹی دلکشی، پرسنیلیٹی جو میڈم سے لیکر کالج کی لڑکیوں تک مشہور تھی، وہ بھلا کہاں ویر جیسوں پر دھیان دینے والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس نے ویر کو نندنی كے ساتھ دیکھا تو وہ اسے پہچان نہ سکا ۔ اوپر سے ویر نے اپنے اپیرنس میں بھی کچھ پوائنٹس ایڈ کیے ہوئے تھے ، جسکے چلتے اس کے چہرے پر اب ہلکا نکھار سا جھلکتا تھا ۔
اس کے بعد گھر پرنندنی اور ویر میں کئی ساری باتیں ہوئی۔ اب دونوں ہی پہلے سے بہتر محسوس کر رہے تھے اور بات کرنے میں کمپھرٹیبل تھے۔
مگر باتوں ہی باتوں میں نندنی نے ویر کو ایک حکم دے ڈالا ۔ اور وہ یہ تھا کہ ویر اپنی پڑھائی نہ چھوڑیں اور کل سے ہی وہ کالج میں اس کے ساتھ جائے ۔
اب پریشانی یہ تھی کہ گاڑی تھی ایک اور جانے والے دو۔۔۔ فیس کی ٹینشن تھی نہیں ویر کو کیوں کہ اس کے باپ بریجیش نے سیشن کی اسٹارٹنگ میں ہی اکٹھی فیس بھر دی تھی اس کے کالج کی ۔ تو یہ سال تو وہ بنا پیسوں کی ٹینشن لیے کالج جاسکتا تھا۔
مگر پریشانی تھی اس کا اور نندنی کا ایک ساتھ گاڑی میں جانا۔۔۔ اوپر سے تب جب یہ سبھی جانتے تھے کہ نندنی کی میرڈ لائف خراب چل رہی ہے اور اس کا ڈائیوورس پینڈنگ پر ہے۔
ایسے میں نجانے کیسی کیسی باتیں کرینگے لوگ ان کو دیکھ كے اور کیسے وہ باتیں نندنی کو ذہنی اذیت سے دوچار کرسکتی ہے، انہی باتوں کو لیکر آج صبح ویر اور نندنی میں بحث ہو رہی تھی۔
نندنی:
میں نے کہا نااا۔۔۔۔ تم چلو ۔۔۔اور لوگ کیا سوچیں گے اس کی فکر مت کرو۔
ویر :
میم ! آپ خوامخواہ تکلیف اٹھا رہی ہو۔کل اس وکاس کی حرکت میں دیکھ ہی چکا ہوں۔
اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتا نندنی اس کے ہونٹوں پہ اپنے نازک ہاتھ رکھ دیتی ہے۔اور وہ نازک سپرش کا احساس کرتے ہی اس کی بولتی اپنے آپ بند ہو گئی۔
نندنی :
شششش ! شریا واشروم میں ہے۔ اس کے سامنے یہ سب باتیں مت کرنا پلیز۔ ورنہ وہ دنگا کھڑا کر دے گی۔ اور مجھے خود وہ وکاس کی گھٹیا حرکتوں سے چھیڑہے۔ مگر ویر۔۔۔۔۔۔تم سمجھو ۔اس کی ایک پہچان ہے الگ ہی پورے ڈیپارٹمنٹ میں اگر میں مزاحمت کروں گی نااا تو بہت ساری مشکلیں آئیں گی۔۔۔جنہیں بَعْد میں مجھے ہی بُھگَتنا ہوگا ۔
ویر :
تو وہ آپ کو ایسے ٹچ کرتا ہے تو آپ کو پروبلم نہیں ہوتی ؟ ؟ ؟
نندنی :
کیا تم مجھے ایسا سمجھتے ہو ویر ؟ ؟
اس نے ناراضگی بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ویر :
نہیں ! میرا مطلب وہ نہیں تھا ۔
نندنی :
میں ہی جانتی ہوں، کہ جب وہ مجھے اپنے گھٹیا ہاتھوں سے چھوتا ہے تو مجھے کیسا فِیل ہوتا ہے۔ من تو کرتا ہے کہ وہیں اسے سِر عام تھپڑمار دوں۔۔۔ مگر میری مجبوری ہے ویر۔۔۔ میں یہ نوکری ۔۔۔ بالکل بھی نہیں کھو سکتی ویر ۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔
اس نے نظریںں اٹھائیں اور ویر کی آنکھوں میں دیکھا۔ ان آنکھوں میں صرف سچائی جھلک رہی تھی اِس وقت۔۔ ساتھ ہی ساتھ پریشانی اور ایک مجبوری۔۔۔۔۔
نندنی :
اب چلو ! ریڈی ہو جاؤ۔۔۔ میں ناشتہ بنا دیتی ہوں۔
نندنی اس کے کاندھے کو تھپتھپا کر کچن کی طرف چلی گئی اور ادھر ویر اسے صرف جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔
’ آئی وِل ڈیفینیٹلی سُولوہ یُور پروبلم میم’ آپ نے اتنی میری مدد کی ہے۔ آپ کی لائف اتنی بہتر کر دونگا میں کہ آپ کو یہ دَرْد بھرے پل کبھی یاد ہی نہ آئینگے ’
ویر اور نندنی ایک ساتھ کالج پہنچے۔ تو ظاہر سی بات تھی کہ لوگوں کی نظریںں ان پر جانی ہی تھی اور باتیں بھی ہونی ہی تھی۔
ابھی وہ پارکنگ میں ہی تھے مگر ان کچھ ہی سیکنڈز میں ان دونوں کو لیکر لوگوں کی بیچ افواہیں بننا شروع ہو چکے تھے۔۔ یہی تو ہے اصل زندگی۔ افواہ بننے میں سمے نہیں لگتا ۔
چرچے چھیڑچکے تھے، اور ویر اور نندنی اِس وقت لوگوں كے بیچ ایک ہوٹ ٹاپک بن چکے تھے ۔
نندنی آخر ایک ٹف مال تھی۔ اس کی خوبصورتی كے قصے پورے کالج میں مشہور تھے۔
نندنی بنا کسی سے نظریںں ملائے ویر کو دیکھتی ہوئی بولی،
نندنی :
ان پہ فوکس مت کرو۔۔۔ لیٹ دیم ٹاک ۔ اپنی کلاس میں جاؤ ، پہلا لیکچر میرا ہی ہے۔
آلسو ، آئی ایم یور کلاس ٹیچر ۔
ویر ( اسمائیلز ) :
آئی نو میم
نندنی ( اسمائیلز ) :
گڈ ! ناؤ گو !!!
ویر کو کلاس میں جانے كے لیے بول کر نندنی اسٹاف روم میں چلی گئی۔ ادھر جب ویر نے کلاس میں انٹر کیا تو ایکدم سے سناٹا سا چھا گیا ۔
بنا کچھ بولے ، بنا کسی سے نظریںں ملائے ، ویر نے آتے ہوئے سب سے پیچھے کی سیٹ پکڑی اور اس میں اکیلے بیٹھ گیا ۔
” اوئے ! یہ تو ۔۔۔۔۔؟ “
“ابھے کیا نام تھا اس کا ؟ ؟”
” ابھے یہ تو جانا پہچانا سا لگ رہا ! “
” ویر ہے وہ مادر چودو ! ” “
ویر ؟ وہ نمونا؟ آج اتنے دنوں بَعْد اسے کالج کی یاد کیسے آ گئی ؟ “
ہی اِز چینجڈ۔۔۔ رائٹ ؟ آئی سی سیم ڈیپھرینس “
“لوڑے کا ڈیپھرینس۔۔۔ پہلے کی طرح ہی تو ہے۔ کیا چینجز آ گئے بھئیا ؟ “
” آج بھی وہی حال ہے اس کا۔۔۔ ہا ہاہا “
ایسی تمام سٹوڈنٹس کی باتیں ویر كے کانوں میں پڑ رہی تھی۔ مگر وہ چپ چاپ بس بیٹھا رہا۔
‘واٹ د ہیل ؟ان کی ہمت کیسے ہوئی آپ کو بےعزت کرنے کی؟ انہیں پتہ نہیں ہے کہ اب آپ پہلے جیسے نہیں رہے ماسٹر’
’ اٹس اوکے پری ! ڈونٹ وری ! ’
وقت بدلنے میں دیر نہ لگی اور کچھ ہی پلوں میں نندنی بھی کلاس میں داخل ہوئی ۔
اندر گھوستے ہی اس کی نظر سب سے پہلے اتنے چہروں میں سے ڈھونڈتے ہوئے ویر كے چہرے پر پڑی۔ اور اسے دیکھ کر اس نے ایک ہلکی سی حامی بھری اور پڑھانا اسٹارٹ کیا ۔
لونڈے لپاڑے سبھی اسے الگ الگ اینگل سے اس کے جسم کو تاڑنے میں لگے ہوئے تھے ، جو کہ ویر صاف دیکھ پا رہا تھا ۔ اور ہر گزرتے وقت اس کی مٹھی کستی جارہی تھی ۔
بورڈ پہ کویسچن لکھ کر وہ ایک رو سے دوسری رو میں جاتی اور دیکھتی کہ اسٹوڈنٹ حل کر رہے ہیں یا نہیں ؟
وہ آخر تک چلتی ہوئی ویر كے پاس آئی ۔ اس نے دیکھا کہ ویر کا پُورا دھیان اس کے دیئے گئے کویسچن کو حل کرنے میں تھا۔ یہ دیکھ کر اس کا من اتنا خوش ہو اٹھا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان آ گئی۔
کہا ں یہی ویر کتنا ٹوٹا ہوا سا تھا پہلے ، نہ کوئی جوش، نہ کوئی احساس نظر آتا تھا اس کے چہرے پر۔۔۔ نہ ہی اس کا من پڑھائی میں لگتا تھا۔
مگر آج وہ اس کے کہنے پہ کالج بھی آیا اور اس کے سوال کو حَل بھی کر رہا تھا ۔
اس نے دیکھا کہ ویر کافی حد تک سہی حل کر رہا تھا۔۔۔ اس کے بس ایک اسٹیپ غلط تھا جس کے چلتے آنسر سہی نہیں آ رہا تھا ۔
اگلے ہی پل وہ جھکی اور ویر كے ہاتھوں سے اس نے پین لیا ۔ اس کے نازک ہاتھوں کا سپرش یوں اچانک محسوس کرکے
ویر بھی تھوڑا جھٹک گیا۔
نندنی کی بدن سے آتی وہ محسوس خوشبو اسے پاگل سا کر رہی تھی۔
” زبردست۔۔۔” اس نے دھیرے سے بڑبڑایا۔
” ہو ؟ ؟ ”
نندنی اس کی ہلکی آواز سن کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا “
کچھ کہا ویر ! ؟”
’ فک ! ! شی از ٹُو کلوز ! ٹُو کلوز ! ’
نندنی انجانے میں ویر سے بالکل ویسا ہی بیہیو کر رہی تھی جیسا وہ گھر پر کیا کرتی تھی۔ جیسے مانو وہ بھول گئی تھی کہ وہ گھر پر نہیں بلکہ کلاس میں ہے۔
ویر : (شرمندہ)
نتھنگ میم !
نندنی :
اوکے ! ! اچھا یہاں دیکھو ! تم نے یہاں پہ غلطی کی تھی ۔
وہ اور پاس آتے ہوئے ویر کو سمجھانے لگی ۔ ہر پل اس کے ہاتھ ویر كے ہاتھ سے، تو کبھی اس کی انگلیاں ویر کی انگلیوں سے یوں ٹکرا رہی تھیں اور نندنی کو جیسے یہ سب نارمل لگ رہا تھا۔
مگر اسے کیا پتہ تھا کہ ویر كے دِل کی دھڑکن اِس وقت ٹرین كے مانندتیز ہو چکی تھی۔
’ شششٹ !!! نہیں ،،، ابھی نہیں۔۔۔ ابھی مت کھڑے ہونا بے’
[ ]
اب یہ بات ویر کس سے کہہ رہا تھا یہ تو سمجھدار کو اشارہ ہی کافی تھا۔
آس پاس كے لوگ ویر کی قسمت کو کوس رہے تھے۔۔۔نندنی جیسی ٹیچر اس کے اتنا پاس تھی یہ دیکھ کر ان کی گانڈ ہی جل رہی تھی۔
آج تک کبھی نندنی نے ان کے ساتھ ایسا نہ کیا پھر یہ کون ہوتا ہے نندنی كے ساتھ اتنا پاس رہنے والا ؟ ان کے من میں یہی سوال دوڑ رہے تھے۔
ابھی وہ ویر کو من میں گالیاں بکنے میں لگے ہوئے تھے کہ اتنے میں ہی نندنی نے کچھ ایسا کیا جس کے چلتے ان کی پہلے سے ہی جلی گانڈ پوری طرح جل كے راکھ ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
-
Perishing legend king-110-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-109-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-108-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-107-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-106-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-105-منحوس سے بادشاہ
February 17, 2025