Keeper of the house-07-گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا

گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان  کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا،  اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے  ہی اس پر ظلم وستم کیا،  اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے  پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔

گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے  اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی  غریبی کی وجہ سے ٹکرا  دیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

قسط نمبر 07

میں نے کہا۔۔۔میرا بھی کوئی دوست نہیں ہے، لگتا ہے ہماری تقدیر ایک جیسی ہے، تو آج سے ہم دوست ہیں۔

سنیل نے کہا۔۔۔بھائی، میرا اُستاد جی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اُنہوں  نے مجھے  شہر میں سڑک کنارے دیکھا تھا، تو وہ مجھے یہاں اپنے ساتھ لے کر آگئے اور  تب سے میں یہی پر ہوں۔

ہم اسی طرح بات کرتے کرتے کمرے تک پہنچ گئے۔

دوسری طرف، بڑے اُستاد جی اور اُستاد جی بات کر رہے تھے

اُستاد جی—اُستاد جی، اس بچے کے دشمن بہت ہیں۔ اشفاق کے مطابق، وہ چاہتے ہیں کہ یہ عقیل  سے بھی آگے جائے۔ اسے زیادہ طاقتور اور ذہین بنانا ہے، یہ وہ ہتھیار بنے جو برائی کو جڑ سے ختم کر سکے، جسے طاقت سے نہیں مارا جا سکے اور خاص طور پر دھوکے سے بھی نہیں۔

بڑے اُستاد جی—بیٹا ہم خود اسے تیار کریں گے۔ پہلے دماغ سے، پھر جسم سے، ہم اسے وہ بنائیں گے جس کے نام سے لوگوں کی روح کانپ جائے گی، لیکن اس کے لیے وقت درکار ہے۔ پہلے اسے تیار کرنا ہوگا۔ اب تم جاؤساقی اسے ہمارے حوالے کر دو، آج سے  یہ پانچ سال تک ہمارے پاس رہے گا۔ ہم اسے جدید اور قدیم دونوں طرح کا علم دیں گے۔

اُستاد جی—جو حکم،اُستاد جی۔ میں اشفاق کو بھی بتا دوں گا۔

اُستاد جی—خوش رہو اور انہیں بتا دو کہ پانچ سال تک کوئی نہیں آئے گا اسے ملنے، ہم خود اسے راجستھان بھیج دیں گے۔

اُستاد جی—جو حکم،اُستاد جی۔

اور گرو دیو چلے گئے۔ اب میری حالت یہ ہے  کہ 3 سے 5 سال یہاں مجھے گزارنے ہیں ۔لو جی میری تو لگ گئی  اور مجھے کچھ بھی نہیں پتاتھا  کہ یہ سب میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں تو سنیل کے ساتھ دوستی  کی خوشی میں گم تھا، اور پورے احاطے  کو  خوشی خوشی دیکھ رہا تھا اور حیرت کر رہا تھا کہ اتنی دور پہاڑوں اور جنگلوں میں یہ کیسی جگہ بنی ہوئی ہے ، جبکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پانچ سال تک میں نے یہیں پر رہنا ہے اور میرے  ساتھ کیا کیا ہونے والا ہے۔

میں آرام سے احاطے میں گھوم رہا تھا اوراس احاطے کی خوبصورتی  دیکھ کر میرا دل اور دماغ دونوں بہت سکون  میں تھے ،اور میں بہت فرحت  محسوس کر رہا تھا،  میں اپنے اندربہت پرسکون  خوشی پارہا تھا۔ یہ احاطہ  کیا ایک قدیم انداز کا مارشل  آرٹ، کشتی ، ہر قسم کے فنون حرب  کا ادارہ تھا ، جس میں قدیم سے لے کر جدید انداز  کی تقریبا ہر قسم کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔ اور ساتھ میں وہاں ٹریننگ حاصل کرنے والوں کے لیئے رہائش  کا بھی بھرپور انتظام تھا۔مجھے یہ سب دیکھ کر بہت خوشی سی محسوس ہورہی تھی کہ میں بھی یہاں پر ٹریننگ لے کر مظلوموں اور ناداروں کی مدد کرنے کے قابل ہوسکوں گا اور میرا جو خواب داداجی کو دیکھ کر کہ میں بھی اپنا نام خود کماؤں گا  پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔ پھر ہم گھومتے ہوئے احاطے کے اُس حصے میں پہنچ گئے جہاں 17 سال کی عمر کے بچے اور 21 سال کی عمر کے بچے ٹریننگ کر رہے تھے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا۔

 خالد نے کہا:بھائی، تجھے اچھا لگا یہ سب؟

 میں نے کہا:ہاں، یہ احاطے کا ماحول اور اس کے آس پاس کی جگہ، یہاں کا نیچر، سب اچھا لگا۔

 پھر سامنے کی طرف دیکھ کر میں نے کہا:یہ سب تو بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں۔

 تو خالد نے کہا:یہاں دور دور سے بڑے بڑے لوگ ٹریننگ کے لیے اپنے لڑکے اورلڑکیاں لے کرآتے ہیں، پھر یہ لوگ یہاں 5 سال ہارڈ اور سمارٹ ٹریننگ کرتے ہیں۔ لیکن صرف 100 ہی سلیکٹ ہوتے ہیں 1000 میں، اور ٹریننگ کے بعد یہ سب کہیں مقابلے کا امتحان دے کر یا اپنی قابلیت دکھا کر پرسنل باڈی گارڈ یا کسی ملٹری یا کہیں بھی اچھی پوسٹ پر چلے جاتے ہیں، ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ  ان کا بیک گراؤنڈ بڑے استاد جی خود چیک کرواتے ہیں تاکہ کوئی غلط انسان یہاں پر آکر ٹریننگ لے کر لوگوں کے لیئے اذیت کا زریعہ نہ بنے۔خیر  دھیرے دھیرےتمہیں سب پتہ لگ جائے گا، ایک ہی دن میں سب کچھ سمجھ میں بھی نہیں آئے گا۔اب  یہ سب  چھوڑو، کھانے کا  وقت ہو گیا ہے، چلو چلتے ہیں،مجھے تو  بھوک لگ گئی ہے۔

میں اور خالد دونوں چل دیئے کھانا  کھانے کے لیے، شام کے 7 بج رہے تھے، ہم نے کھانا کھایا، کھانا بھی سب کے لیے الگ الگ تھا، جو ٹریننگ اور ساتھ ہی پڑھنے والےتھے ان کا الگ قسم کا کھانا تھا  ان کی صحت کو مینٹین رکھنے کے لیئے ، اور جو صرف ٹریننگ کے لیے آئے تھے، ان کا الگ کھانا تھا  کیونکہ اُن کی جسمانی محنت بہت زیادہ ہوتی  تھی تو اسی حساب سے اُن کے جسم  کے  لیئے پروٹین وغیرہ سے مزین کھانا  ضروری ہوتا تھا۔ کھانے کے بعد ہم سونے کے لیئے چلے گئے، نیچے زمین پر چٹائی بچھی ہوئی تھی، اور ایک طرف پانی پینے کے لیئے مٹکا رکھا ہوا تھا۔

میں: خالد، کیا تم نے بھی  ٹریننگ لی ہے؟

خالد: تھوڑی بہت تو مجھے ملی ہے لیکن  زیادہ استاد جی لینے نہیں دیتے ہیں، کہتے ہیں ابھی وقت ہے تمہاری ٹریننگ کے لیے۔ میری تو سمجھ سے باہر ہے سب۔ میں تو بس صبح اسکول 8 بجے جاتا ہوں اور 3 بجے واپس آتا ہوں۔ اور احاطے کے کام کرتا ہوں۔

میں: اسکول۔ کونسے اسکول؟ یہاں تو کوئی اسکول نظر نہیں آیا مجھے۔

خالد: یہاں سے 7 کلومیٹر دور ہے اور پیدل جانا اور پیدل ہی آنا ہوتا ہے۔ استاد جی کہتے ہیں اس سے جسم  صحیح  اور فعال رہتا ہے اور ٹانگیں بھی  مضبوط ہوتی ہیں۔ لیکن  مجھے تو کچھ بھی ایسا محسوس نہیں ہورہا۔

میں: 7 کلومیٹر دور ہے۔ اور پیدل جانا اورآنا بھی ہے۔ میں تو مر جاؤں گا۔ یار، مجھ سے نہیں ہوگا آنا جانا۔

خالد: راحیل، اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ سبھی ایسے ہی جاتے ہیں۔ جتنے بھی بچے یہاں ہیں۔ اور وہ اسکول بڑے استاد جی نے ہی بنوایا ہے۔ بہت بڑی جگہ  اور بہت خوبصورت بھی ہے۔بلتستان انٹرنیشنل اسکول نام ہے۔ پورے ملک  میں اس کا نام ہے ۔ بہت بڑے بڑے امیر لوگوں کے بچے آتے ہیں۔ اوریہاں پر  ہوسٹل میں ہی رہتے ہیں زیادہ تر بچے۔ ڈسپلن یہاں کا اتنا سخت ہے کہ غلطی کی تو پہلی بار سزا اور دوسری بار اسکول سے باہر۔ اور اسکول کی سکیورٹی یہاں ٹریننگ سینٹر کے منتظمین ہی دیکھتے ہیں ۔

میں: تجھے سب پتہ ہے۔

خالد: بھائی، 7 سال سے یہیں رہ رہا ہوں۔ تو پتہ تو ہوگا ہی۔ اور استاد جی کا سارا چھوٹا موٹا کام میں ہی دیکھتا ہوں۔ اس لیے سنتا رہتا ہوں۔ اسی لیئے تو اتنا سب کچھ پتہ ہے۔ لیکن  تو یہاں کیسے آیا؟ تو تو میرے جتنا ہی ہے۔ اور تو یتیم بھی نہیں لگتا ہے۔ پھر کیسے یہاں آیا، بھائی؟

میں نے پھر اسے ساری اپنی زندگی صفحہ در صفحہ کھول کر دکھا دی۔ وہ مجھے یک ٹک دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ایسا لگ رہا تھا  جیسے کوئی اس کا اپنا بھائی یہ سارے ظلم و ستم سہہ کر اُسے واپس مل گیا ہو۔ یا اپنا ہم راز مل جوڑی دار مل گیا ہو  جسے وہ اپنی خوشی دکھ سب بتا کر بانٹ سکے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط بہت جلد

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page