رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔
ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رشتوں کی چاشنی قسط نمبر 04
ثمرین کالج کے لیے گھر سے بغیر ناشتہ کیئے ہی نکل گئی تھی جہاں دانیال اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔
دانیال پچھلے تین سال سے ثمرین کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔۔ آئے روز اس کو تنگ کرنا اور چھیڑنا اس کا معمول بن چکا تھا۔۔ اس نے اپنا ایک گروپ بنا رکھا تھا جس میں اس کے آوارہ دوست عمران۔فرمان۔ ذیشان۔ اور احسان شامل تھے۔۔
ان سب کا ایک ہی مقصد تھا جو بھی لڑکی مل جاۓ اس کو چودنا اور اب کی بار ان کا ہدف ثمرین تھی جس کا خواب وہ دیکھ رہے تھے اور جو ابھی لگ بھگ پورا ہونے والا تھا۔۔
انہوں نے ثمرین کی ننگی ویڈیو اپنے کالج کے واشروم میں کومل کی مدد سےچپکے سے بنوائی تھی جو کہ دانیال گروپ کی رنڈی تھی۔۔۔
وہ بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔۔اکثر وہ اسی طرح لڑکیوں کی ویڈیو بنا کر ان کو پیش کرتی تھی آگے ۔۔ اسی نے ٹوائلٹ جاتے ہوئے ثمرین کا پیچھا کیا تھا اور چپکے سے اس کی ویڈیوبنا کر دانیال کو دے دی تھی جو کہ ان کے پلان کا ایک حصہ تھا۔۔۔
پلان میں سب سے پہلے دانیال کا ثمرین کو چودنا شامل تھا اس کے بعد اس کے باقی سب دوست مل کر چودیں گے اور پھر سارے کالج میں ثمرین کو بدنام کریں گے کیونکہ ثمرین نے دانیال کو تھپڑ مارا تھا جب دانیال نے ثمرین کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔
دانیال کا پلان تھا کہ ثمرین کی چودتے ہوئے ویڈیو بنائی جائے گی اور پھر اس کو بلیک میل کر کے اپنی پرمنیٹ رکھیل بنائے گا ۔۔
ثمرین کالج دیر سے آئی تو دانیال غصے سے بولا بہت چربی ہے تجھ میں کیا ؟وائرل کردوں تمہاری ویڈیو۔ پورا کالج دیکھ لے گا
ثمرین ہاتھ جوڑتے ہوئے:
پلیز ایسا مت کرنا میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔۔ مجھے بدنام مت کرو پلیز مجھے چھوڑ دو میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دو میں تم سے سارے کالج کے سامنے معافی مانگ لوں گی۔۔۔ تمہارے پیر پکڑ لوں گی۔ اور اگر تم کہو گے تو اپنی ناک سے لکیریں بھی کھینچ لوں گی۔۔
دانیال سمرین کی بات سن کر طنزیہ ہنستے ہوئے بولا :
اب وہ وقت گزر گیا چپ چاپ میری بات مان لو اسی میں تمہاری بھلائی ہے ورنہ ساری دنیا تمہارا ننگا جسم دیکھے گی۔۔
دانیال کی بات ختم ہوتے ہی اس سمیت اس کے باقی سبھی دوست قہقہ لگا کر ہنسنا شروع ہو گئے ۔۔۔
ثمرین بے بسی سے روتے ہوئے بولی :
میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کیوں میری زندگی برباد کرنا چاہتے ہو۔۔۔
دانیال:
اس کا مجھے کچھ نہیں پتہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔ اب تمہارے ہاتھ میں ہے کہ میری بات مان لو یا پھر اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کا جنازہ نکلوا لو۔۔۔ میرے ساتھ میرے فارم ہاؤس چلو مجھے ایک مرتبہ خوش کردو پھر اپنی ویڈیو لےجاؤ۔۔
ثمرین روتے ہوئے بولی
۔۔۔ کےلیے مجھے برباد نہ کرو مجھ پر رحم کرو مجھے چھوڑ دو۔ ۔
دانیال غصے سے تنتاتے ہوۓ بولا :
تمہیں ایک گھنٹے کا وقت دیتا ہوں نہیں تو تم خود سمجھ دار ہو اگر تم نے کسی کو بتایا یا خودکشی کرنے کی کوشش کی پھر تمہاری ویڈیو ساری دنیا دیکھے گی اور ساتھ میں تمہارے ماں باپ کی عزت بھی وہ کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔۔ جس کی وجہ سے وہ بھی خودکشی کر لیں گے۔ تو بہتری اسی میں ہے کے چپ چاپ آجاؤ صرف ایک گھنٹہ دے رہا ہوں سوچ لو تم تسلی سے بعد میں مجھ سے گلہ مت کرنا ۔۔
یہ کہ کر دانیال ثمرین کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور انہیں بتانے لگا کہ ثمرین کو میں لے کر جاؤں گا تم لوگ بعد میں پیچھے سے آ جانا پھر اس کو مل کر رنڈی بنائیں گے۔۔۔۔
اس وقت دانیال کسی بھیڑئیے سے کم نہیں تھا جو نوچ کھسوٹ کے کھانے کی سوچ رہا تھا ۔۔وہ یہ بھول گیا تھا کے جو اس دنیا میں مکافات عمل بھی ایک چیز ہے پر طاقت کے نشے میں اندھا شخص اس سے چیز سے بے فکر رہتا ہے کے اس کا انجام کیا ہو گا ۔۔
عمران دانیال کا دوست بولا
پہلے ہم لوگ جاتے ہیں وہاں پر سیٹنگ بھی کرلیں گے اور کیمرہ بھی لگا دیں گے پھر تم جل پری کو ساتھ لے کر آ جانا۔۔
دانیال بولا :
ہاں ٹھیک ہے تم لوگ نکل جاؤ میں بلبل کو لے کر آتا ہوں۔۔۔
دانیال کے دوست اسی وقت کالج سے چلے گئے اور فارم ہاؤس پہنچ کر جلدی جلدی کیمرہ وغیرہ لگانے لگے ۔۔
ادھر دانیال کی باتیں سننے کے بعد ثمرین نے بھی ہار مان لی اور چلنے کے لیئے تیار ہوگئی کیونکہ وہ اپنے ماں باپ کا سن کر ڈر گئی تھی۔۔۔ کہ اس کی وجہ سے وہ اپنی جان گنوائیں گے۔۔
ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد دانیال گاڑی لے کر ثمرین کے پاس آیا اور بولا۔۔ ہاں تو کیا سوچا ہے تم نے
ثمرین نے ہاں میں سر ہلایا اور چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔
دانیال گاڑی چلاتا ہوا سیدھا اپنے فارم ہاؤس پر گیا جہاں اس کے دوست اور اور ان کی رکھیل کومل پہلے سے موجود تھی۔ ثمرین ان کو دیکھ کر اور زیادہ ڈر گئی۔۔
ثمرین ڈرتے ہوئے دانیال سے بولی
یہ سب یہاں کیا کر رہے ہیں؟ تم نے تو کہا تھا کہ صرف تم ہی ہو گے۔
دانیال
یہ ویسے ہی یہاں پر ہوتے ہیں تم چلو میرے ساتھ۔۔
ثمرین ایک دفعہ پھر روتی ہوئی دانیال کے پاؤں میں بیٹھ گئی اور دانیال کے پیر پکڑ کر منتیں کرنے لگی لیکن دانیال پر تو شیطان سوار تھا اور ظالم کو مظلوم کے تڑپنے پر رحم نہیں آتا بلکہ خوشی ملتی ہے اس لیے وہ نہ مانا اور ثمرین کو بازو سے پکڑ کر بیڈروم کی طرف چلنے لگا۔۔۔
۔
۔
۔
۔
۔
میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی کر رہا تھا کہ فریال چاچی میرے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھ سے بولیں۔۔
فریال چاچی۔۔
وکی یہ ثمرین کی کتاب گھر میں رہ گی ہے اج اس کا کالج میں ٹیسٹ ہے تو اس کو اس کتاب کی ضرورت ہوگی۔۔ تم جلدی سے اٹھو اور اسے یہ کتاب دے کر اؤ ویسے بھی تمہارے دو منٹ لگنے ہیں۔۔
میں فوری بیڈ سے اٹھا اپنی بک کو میں نے بیگ میں ڈالا اور پھر میں نے چاچی سے ثمرین کی بک پکڑی اور باہر صحن میں کھڑی۔ بائیک کو گھر سے باہر نکال کر دروازے کو بند کر کے میں بائیک پر بیٹھ کر ثمرین کے کالج کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔
میں اج کافی دنوں بعد بائیک پر بیٹھا تھا تو ایک الگ ہی جنون سوار تھا۔۔۔ اج تو پتہ نہیں کیسے چاچی نے مجھے بائیک پر بیٹھنے دیا تھا ورنہ گھر میں میرے بائیک پر بیٹھنے پر پابندی تھی۔ میں کبھی اپنی بائیک کو بھگانے لگ جاتا تو کبھی اہستہ اہستہ چلانے لگ جاتا میں پورا مزہ لے رہا تھا۔ میرے سر پر سیفٹی کےلیے چاچی نے ہیلمٹ بھی پہنا دیا تھا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں کالج کے قریب پہنچ گیا۔ میں تھوڑا سا آ گے گیا جہاں کالج کا گیٹ تھا ابھی میں گیٹ سے اندر داخل ہو پاتا کہ اس سے پہلے ہی سامنے کھڑی ایک گاڑی پر میری نظر پڑی جس کی فرنٹ سیٹ پر ثمرین بیٹھ رہی تھی۔ میں نے غور کیا تو ثمرین کی انکھوں میں انسو تھے۔ اور وہ بار بار اپنی آنکھیں صاف کر رہی تھی۔۔۔۔
میں نے ساتھ میں نظر دوڑائی تو وہاں ایک لڑکا بھی بیٹھا ہوا تھا پیچھے سے دیکھنے میں شیشے میں اس کا چہرہ نظر آ رہا تھا اس کے چہرے پر ایک بہت ہی خبیث سی مسکراہٹ تھی جیسے اس نے کوئی بہت بڑا خزانہ حاصل کر لیا ہو۔ یا کوئی جنگ جیت لی ہو۔
یہ سب کچھ میں نے چند سیکنڈ میں نوٹ کیا کیونکہ گاڑی سامنے سے گھوم کر میرے پاس سے گزری تھی میں نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا جس کی وجہ سے ثمرین مجھ کو پہچان نہ سکی۔۔ ۔ میں نے فوراً بائیک گھمائی اور گاڑی کے پیچھے چل دیا گاڑی بہت سپیڈ سے جارہی تھی جس کی وجہ سے مجبورا مجھے بھی بائیک کو تیز چلانا پڑ رہا تھا۔۔ حالانکہ اس حالت میں گھر میں سے مجھے کوئی بھی دیکھ لیتا تو وہ ائیندہ کبھی بھی مجھے بائیک کو ہاتھ بھی ناں لگانے دیتا۔۔
گاڑی کی سپیڈ کافی زیادہ تھی ۔۔جس وجہ سے مجھے کافی مشکل درپیش آرہی تھی میری لاکھ بائیک کو دوڑانے کے باوجود گاڑی مجھ سے اگے نکل گئی تھی۔۔۔
لیکن پھر بھی میں نے گاڑی کا پیچھا نہیں چھوڑا اور اسے نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا ۔۔۔ گاڑی مجھ سے کافی آ گے تھی لیکن وہ آ گے جا کر جب مین روڈ سے مڑ کر دوسری طرف جانے لگی تو میں نے اسے دیکھ لیا تھا۔۔
میں جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ یہ راستہ تو باہر کی طرف جانے والا ہے۔۔
لیکن مجھ کو وہ گاڑی کہیں نظر نہیں آئی ۔۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ وہ راستہ نہیں ہو سکتا لیکن دماغ نے یہ ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔۔۔کیونکہ میری انکھوں کے سامنے وہ گاڑی یہاں مڑی تھی ۔۔پر یہاں اگے تو کوئی بھی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔
دل اور دماغ کی بیچ میں چل رہی کشمکش کو جھٹکتے ہوۓ میں نے مزید ٹائم نہ ضائع کرتے ہوئے اپنی بائیک کو اسی راستے پر موڑ دیا۔۔ کافی آگے جا کر مجھے درختوں کا جهنڈ نظر آیا اور جب میں نے انھیں کراس کیا تو ان کے پیچھے ایک حویلی کی طرز کی عمارت نظر آئی۔۔
جس کے چاروں طرف باؤنڈری بنی ہوئی تھی اور اس کا ایک بڑا سا دروازہ تھا جو اس وقت کھلا ہوا تھا۔۔
میں سیدھا اس عمارت کی طرف گیا اور گیٹ کے پاس پہنچ کر میں نے اپنی بائیک روک دی کیونکہ باؤنڈری کے اندر عمارت کے پاس مجھے وہ گاڑی بھی نظر آگئی تھی جبکہ ساتھ میں ثمرین اور کچھ اور حرامی ٹائپ کے لڑکے اور ایک لڑکی بھی نظر آئی۔۔
میں نے دیکھا کہ ثمرین کو اسی لڑکے نے جس کے ساتھ وہ گاڑی میں آئی تھی۔۔ اسی لڑکے نے ثمرین کو بازو سے پکڑا ہوا تھا اور عمارت کے اندر کی طرف لے جارہا تھا اور ثمرین ہاتھ جوڑتی ہوئی رو رہی تھی۔۔
میں چلاتے ہوئے
حرامزادے تیری اتنی ہمت کہ تو میری بہن کو ہاتھ لگائے..
میں نے بائیک کو وہیں پر پھینکا اور اچھلتا ہوا ایک طرف جمپ کیا وہاں پر ایک موٹا لکڑی کا ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔۔
میں نے جھپٹ کر وہ ڈنڈا اٹھایا کیونکہ میں نے دیکھ لیا تھا کہ میرے سامنے ایک پورا گروپ حرامیوں کا موجود ہے۔۔
اس لڑکے کا ایک دوست جس کا نام فرمان تھا وہ مجھ کو دیکھتے ہوئے قہقہ لگا کر ہنستے ہوے بولا۔۔
آج تو تیری بہن کو تیرے سامنے چودیں گے۔۔
پھر دوسرا دوست احسان بولا
سالے چوتیے تو یہاں آیا کیسے؟
پھر تیسرا ذیشان بولا
رنڈی کا بچہ آ تو گیا ہے لیکن اپنے پیروں پر چل کے واپس نہیں جائے گا۔۔
چوتھا عمران بولا
ارے نہیں نہیں یہ تو لایئو شو دیکھنے آیا ہے اپنی بہن کا۔ کیوں بچے سہی کہا نا
دانیال غصے سے چلا کر بولا۔۔
باتیں بند کرو اور سالے کو پکڑ کر باندھ دو
اور ساتھ ہی ثمرین کے منہ پر ایک تھپڑ مارتے ہوے بولا سالی رنڈی تجھے بولا تھا نا کہ کسی کو کچھ نہیں بتانا اب دیکھ تیرا اور تیرے بھائی کا کیا حال کرتے ہیں ہم۔۔
اسی بیچ میں آگے بڑھا اور ڈنڈے کو مضبوطی سے پکڑتے ہوے عمران پہلے آگے آ رہا تھا تو میں نے وہ ڈنڈا اس کے سر پر دے مارا تو وہ وہیں لمبا لیٹ گیا اور بے ہوش ہو گیا۔۔
اس دوران زیشان چلاتا ہوا آگے آیا تو میں نے گھوم کر ایک لات اس کے ایک گھٹنے پر ماری جس سے اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ سیدھا زمین پر جا گرا ابھی وہ اٹھ پاتا کے اس سے پہلے ہی میں نے ڈنڈا گھما کر اس کے سر میں دے مارا۔۔ ایک چیخ کے ساتھ وہ وہیں پر لیٹ گیا۔۔
اسی بیچ پیچھے سے فرمان نے بوتل اٹھا کر میرے سر پر دے ماری جس سے میرا سر گھومنا شروع ہو گیا تھا اور میرے سر سے خون بھی بہنے لگا تھا ۔۔
فرمان کے ہاتھ میں جو بوتل تھی وہ ٹوٹ چکی تھی۔
میں نے خود کو سنبھالا اور ڈنڈا گھوما کر اس کے منہ پر دے مارا ابھی وہ اس درد سے نکل پاتا کہ میں نے اپنی لات پورے زور سے اسکی دونوں ٹانگوں کے درمیان اس کے ٹٹوں پر رسید کر دی جس سے وہ وہیں تڑپتے ہوۓ نیچے بیٹھ گیا ۔۔
پیچھے سے احسان نے مجھے میری کمر پر زور سے لات ماری ۔۔لات پڑتے ہی میں اگے کی طرف منہ کے بل گرا میرے سر سے پہلے ہی خون بہہ رہا تھا۔۔۔ میرا سر چکرانے شروع ہو گیا تھا ۔۔ میں ابھی سیدھا ہو ہی پایا تھا کے اتنے میں وہ میرے سینے پر سوار ہو کر مجھ پر مکوں کی برسات کرنے لگا ۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اس کے ہاتھوں کو روکا۔۔ اور اپنا سر زور سے اسکی ناک پر دے مارا جس سے اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ درد سے چلاتا ہوا اوپر کی جانب اٹھا ہی تھا کہ میں تیزی سے اوپر اٹھا اور ساتھ پڑے ڈنڈے کو اٹھا کر اس کے سر میں بھی زور سے دے مارا جس سے وہ وہیں پر ہی اپنے باقی دوستوں کی طرح بے ہوش ہو گیا تھا ۔۔ڈنڈا مارتے ہوۓ میں کوئی خیال نہیں کر رہا تھا بلکہ اپنی پوری جان لگا کر وار کر رہا تھا اگر میرا وار ذرا بھی ہلکا ہوتا تو میں اور سمرین بچ نہ پاتے اور جو ہوتا اس کو میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔
یہ سب کاروائی کچھ لمحوں کے اندر ہی ھوئی تھی جس کی دانیال کو امید ہی نہیں تھا وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کے اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔اس کے سارے دوست زمین پڑے پڑے تڑپ رہے ہیں
دانیال نے ابھی بھی ثمرین کو پکڑا ہوا تھا میں نے ڈنڈے کو مضبوطی سے پکڑ کر دانیال کی طرف تیزی سے بڑھا تو دانیال نے جلدی سے اپنی پستول نکال کر مجھ پر گولی چلادی۔۔
میں پستول کو دیکھتے ہی جلدی سی ایک سائیڈ پر ہوا اور ڈنڈا گھما کر دانیال کی طرف پھینکا جو سیدھا دانیال کے ہاتھ پر لگا اور۔۔۔۔۔۔۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
The essence of relationships –07– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 25, 2025 -
The essence of relationships –06– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 16, 2025 -
The essence of relationships –05– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
January 12, 2025 -
The essence of relationships –04– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 25, 2024 -
The essence of relationships –03– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 25, 2024 -
The essence of relationships –02– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر
December 16, 2024

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
