Lust–11–ہوس قسط نمبر

ہوس

ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا  پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

ہوس قسط نمبر 11

وہ تھوڑی دیر سوچتی رہی پھر بولی: یہ تو اندر نہیں ڈلوایا مگر اوپر سے کروایا ہے ، وہ بھی بس ایک دو بار

 

میں بولا : اوپر سے کیسے ؟؟

 

وہ دھیمے سے بولی: وہ اس سے شلوار اتارے بغیر ساتھ لگایا ہے اور ایک دو بار شلوار اتار کر لگوایا ہے مگر اندر نہیں ڈلوایا ہے۔

 

میں اس کی رانوں کو چھیڑ کر بولا : منزئی ! مجھے اپنی پھدی دکھاؤ گی؟

اس نے مچل کر میری طرف دیکھا اور بولی: نہیں۔۔ میں نہیں دکھاؤں گی۔ میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے مگر میں زبر دستی اس کی شلوار اتار نے لگا، وہ منع کرتی رہی مگر اس کی مزاحمت بڑی ہلکی سی تھی۔ میں نے اسے دھکیل کر بستر پر چت لٹادیا اور اس کی نہ نہ کرنے کے باوجود اس کی پھدی کو ننگا کرنے لگا۔ میں نے جھک کر اس کی شلوار رانوں تک اتار کر اس کی خشخاشی پھدی کو دیکھا۔ اس کی پھدی کے لب موٹے مگر سخت تھے۔ چوت کا دانہ بھی اندر ہی کہیں چھپا تھا۔ اس کی پھدی دیکھ کر مجھے پھر سے تناؤ

ہونے لگا۔وہ تنگ پھدی کو قمیض کے پلو سے ڈھکتے ہوئے بولی: بس تم نے دیکھ لی ہے تو چھوڑ دونا۔۔

 

میں بولا: صبر تو کرونا

 

میں نے اس کی پھدی کو چھوا تو ایک بار پھر سے مچلی، مگر میں نے اسے ہلنے نہ دیا۔ اس کی پھدی کے لبوں کو کھولا تو مجھے صاف اس کی چوت کی تنگی اور پردہ بکارت دکھائی دیا۔وہ واقعی میں کنواری تھی جیسا اس نے بتایا تھا۔ میں نے بھی پہلی بار کسی لڑکی کی پھدی کا پردہ دیکھا تھا۔ پر دو دیکھا تھا۔

 

میں نے اس کی پھدی کے دانے کو چھیٹر اتو وہ اچانک ہی بلک کر بولی: اوئی۔۔ سکندر۔۔ یہاں مت ہاتھ لگاؤ۔۔ بہت کرنٹ لگتا ہے۔

 

میں بولا : تو لگنے دونا۔۔ مزا آئے گا۔۔

 

وہ بولی: نہیں سکندر۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔

 

میں بولا : کچھ نہیں ہو گا۔۔ ڈرومت۔۔ مزا آئے گا تمہیں۔

 

میں نے اس کی پھدی کو چاٹا اور زبان سے پھدی کے لبوں کو چھیٹر نے لگا۔ وہ اچانک پیچ کر

 

بولی: ہائے سکندر۔۔ اوئی۔۔ امی۔۔۔ ہائے۔۔نہ۔۔ کرو۔۔ سکندر ۔۔ پلیز۔۔نہ کرو۔۔۔

 

اس کے منع کرنے میں ایسی شہر تھی جیسی کہہ رہی ہو کہ سکندر اور بھی کرو اور زیادہ کرو۔

 

میں نے مزید تیزی سے اس کی پھدی کے لبوں اور اس کے دانے کو چوسنا شروع کر دیا۔ وہ مسلسل چیخ چلا کر اپنا لطف بیان کرتی رہی اور میں ہر گزرتے گزرتے لمحے کےساتھ ساتھ اس کے جنسی اشتعال کو بڑھانے لگا۔ وہ پانچ سات منٹوں ہی میں اتنی مشتعل ہو گئی کہ نہ نہ ہائے ۔۔ سکندر۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔ تیز۔۔ ہائے۔۔۔ میں ۔۔ مر گئی۔۔ اوئی۔۔ میں نے اسے چومتے چومتے اپنا لن بھی نکال لیا، اس پر ابھی بھی رضیہ کی پھدی کی  چپاہٹ تھی۔

 

میں نے پھدی چومتے چومتے اچانک زبان اوپر کی طرف بڑھائی اور پھدی سے منزئی کی ناف کی طرف چلا گیا، انگلی سے اس کی پھدی کا دانہ مسلسل میری رگڑ سے اسے شدید جنسی لطف سے دو چار کر رہا تھا۔ میں اوپر جاتا گیا اور اس کی قمیض کو بناتا گیا، اس نے قطعی کوئی منفی رد عمل ظاہر نہ کیا اور جس وقت تک میں اس کی چھاتی تک پہنچا، اس کی قمیض مکمل چھاتی تک اٹھائی جا چکی تھی۔

 

میں اس کی پھدی کے دانے کو مسلتا ہوا اس کے نپل چوس رہا تھا اور میرے ہر لمس سے اس کے ہیجان اور رد عمل میں تیزی آرہی تھی۔ میں نے لن کو اس کی پھدی کے سوراخ پر رکھا تو اس نے اس کا کوئی اثر ہی نہ لیا، کیونکہ انگلی دانے کو چھیٹر رہی تھی۔ میں نے اس کی شلوار پوری اتار دی اور ٹانگیں کھول کر دانہ چھیٹر نے لگا اور لن کو بھی پھدی پر مسلنے

لگا۔ وہ ہر لحاظ سے تیار تھی، میں دونوں نپل چوستا چوستا اس کے گلے تک پہنچا اور اس کے گلے ہونٹوں تک چلا گیا۔ اس نے ایک دو بوسوں میں خاص ساتھ نہ دیا تو میں نے دانے کو ملا، وہ یکدم ہی ساتھ دینے پر جیسے رضا مند ہو گئی۔ میں نے پھدی چھیڑتے چھیڑتے الٹے ہاتھ سے لن کو اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور اچانک بنا بتائے پوری طاقت سے جھٹکا دیا۔ منزئی کی زور دار چیخ نکلی اور میرا لن اس کی کنواری پھدی کو چیر کر اندر اتر گیا۔ اس نے تیزی سے مجھے پیچھے دھکیلا مگر میں اوپر سوار ہو چکا تھا۔ میں نے اس کی ٹانگوں کو اٹھا لیا اور پھدی میں پوری طاقت سے جھٹکے لگائے۔

 

وہ درد سے دہری ہو گئی اور چیخنے لگی۔ اس کے چیخنے میں پہلی بار رونا بھی شامل تھا۔ وہ رونے لگی مگر میں نے بنار کے اس کے منہ ، گالوں اور نپل کو چوسنا اور چومنا جاری رکھا اور ساتھ ہی پھدی سے لن نکلنے نہ دیا۔ پانچ سات ہی منٹوں بعد اس کی درد بھری مزاحمت اور رونا دھونا کم ہو گیا تو لن بھی کسی قدر رواں ہو گیا۔ لن تنگ اس لیے بھی تھا کیونکہ اس نے درد کی وجہ سے پھدی تنگ کر رکھی تھی۔ میں پوری طاقت سے اس کی پھدی کو چودنے لگا اور جھٹکے لگانے لگا۔ اس کی پھدی کا لیس دار پانی خون کی آمیزش لیے میرے ٹٹوں کو بھی بھگو گیا۔ کسی کنواری لڑکی کی پھدی مارنے کا یہ میرا پہلا تجربہ

تھا۔ اس کے علاوہ کسی بھی ہم عمر لڑکی کی پھدی بھی پہلی باری تھی۔ میں پانچ سات مزید منٹوں بعد چھوٹ گیا کیونکہ پھدی میں لن بہت پھنس پھنس کر جارہا تھا۔

 

میں چھوٹ کر اس کے پہلو میں لیٹ گئی ، وہ اٹھی اور اپنی خون آلود پھدی کو چھو کر اور رونے لگی۔ وہ بولی : سکند را تم نے میری عزت خراب کر دی۔ تم نے اندر کیوں ڈالا ۔۔ ہائے اب میں کیا کروں گی۔ ۔ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔۔ میری امی کو پتا چل  جائے گا۔۔

 

میں بولا: تمہاری امی کیا تمہاری اتار کر روز دیکھتی ہیں۔ کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ بس تم روؤ مت ہوتا ہے ایسا بھی پریشان مت ہوا کرو۔

 

میں نے اسے بڑی مشکل سے چپ کر وایا اور سو روپیہ دے کر واپس بھیجا۔

 

میں نے اب تک ایک بات محسوس کی تھی۔ خوبصورت لڑکیاں اور معمولی شکل صورت کی لڑکیاں بڑی زیادہ تعداد میں چھ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوبصورت لڑکی کو چودنے کے درپے کئی بندے ہوتے ہیں۔ وہ بے چاری کس کس سے جان بچائے؟ بالاخر کسی ایک کے سامنے بار جاتی ہے اور چدوا بیٹھتی ہے۔ اسی طرح معمولی شکل و صورت والی کے پاس حسن کی کمی ہوتی ہے مگر جسم میں ایک ہی خوبی ہوتی ہے اس کی پھدی۔ اسی کو استعمال میں لاکر وہ مردوں کی نظر میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ سب سے زیادہ جو لڑکیاں چدوانے سے بچتی ہیں وہ وہ ہوتی ہیں جو زیادہ سمجھدار اور میچور ذہن کی مالک ہوتی ہیں، جن کی نا آسودہ خواہشات کم ہوں ، ماں باپ کی طرف سے توجہ اور پیار زیادہ ہو۔ قبول صورت اور خوش شکل ذہین لڑکیاں مشکل سے ہی کسی کے ہاتھوں بیوقوف بنتی ہیں، اس لیے وہ کم ہی جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔

 

منز کی ایک غریب گھرانے سے تھی جہاں کمائی محدود تھی اور کھانے والے بہت تھے۔ کسی لڑکی کے پاس ذاتی پیسے ہونا بڑی حیران کن بات ہوتی تھی۔ ایسے میں منزئی کے پاس سو پچاس کے نوٹ ہونا اس کے لیے بڑی تقویت کا باعث ہوتا تھا۔ آج اس نے سو روپے کے عوض پھدی مروائی تھی اگر میں نہ مار تا تو سال دو میں وہ مفت میں ہی کسی سے مر والیتی۔

 

شام میں بلو آگیا اور بولا : یار! کوئی پانی شانی نکلوا میرا۔

 

میں بولا : بلو بھائی ! پانی کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔

وہ بولا : تو یار کام کا کیا ہے کریں گے ، تو بتا تو یار۔ کل میں نے دفتر میں اپنے یاروں کو پھدی مارنے کی خوشی میں دعوت بھی دی۔ سب کو چائے کے ساتھ نرالہ کے سموسے کھلائے۔ بہن چود وہ اسلم بڑی باتیں  کرتا تھا کہ میں نے اپنی نوکرانی کی پھدی ماری ہوئی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے جس بچی کی پھدی ماری ہے وہ کالج کی سب سے پیاری بچی ہے۔ اس کی نوکرانی چالیس سالہ تھی ہماری بچی انیس سال کی۔۔ ہی ہی۔۔ بڑی ٹور بنی ہے میری۔

 

میں بولا : بلو بھائی! ایک دو بندے لاؤ بالکل اپنے جیسے ۔ جنہوں نے پھدی نہ ماری ہو۔

 

وہ بولا : کیوں ان کا کیا کرنا ہے ؟

 

میں بولا : بلو بھائی ! مکان کا کرایہ کہاں سے نکالو گے ؟ پھدی سے ہی نکالنا پڑے گانا۔

 

وہ سر پر ہاتھ مار کر بولا : ابے بہن چود ہم بچیاں سپلائی کریں گے ؟

 

میں بولا : بلو بھائی ! تم ساری زندگی ڈھائی ہزار کے کلرک رہو گے، میری مانو گے تو افسر بن جاؤ گے۔

 

وہ میرے جھانسے میں آتا ہوا بولا: پر وہ بچی مان جائے گی ؟

میں بولا : وہ نہ مانے کسی اور کو منالیں گے۔

 

وہ بولا : مگر ایک بار مجھے بھی اس کی لے دینا۔

 

میں بولا : فکر ہی مت کر دیار ۔ تم بس بندے لاؤ۔

 

وہ بولا: ایک تو اپنا یار ہے تاری خان بڑا جان پہچان والا بندہ ہے، کیا خیال ہے اسے نہ پھدی لے دوں ؟ جب میں نے لی تھی تو اس نے فورا کہا کہ مجھے بھی کہیں سے لے دو۔

 

میں بولا ہزار کا نوٹ دے گا بدلے میں۔

 

وہ مایوسی سے بولا : ہزار کا تو مشکل ہے پانچ سو دے دے گا۔ ویسے ہزار کی بات کریں  گے۔

 

میں بولا؛ تو ٹھیک ہے۔ تم اسے پرسوں لے آؤ۔۔ پھدی لے دوں گا۔

 

وہ نکلا اور میں بھی رضیہ کے مکان کی طرف گیا۔ وہاں مجھے وہی پینٹ شرٹ والا لڑ کا ملا جو رضیہ کو چودنے آیا کرتا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا اور بولا : کیا بھائی ارضیہ باجی کا انتظار کر رہے ہو ؟

 

وہ چونک کر بولا : ۔۔ نہیں تو۔۔

میں بے تکلفی سے بولا: میں سب جانتا ہوں مجھ سے مت چھپاؤ۔

 

وہ پریشانی سے بولا : یار ! ایسی بات نہیں بس اس کے بھائی کا کھانا لینے آتا ہوں۔

 

میں بولا : شر ماؤ مت۔۔ یہ بتاؤ۔۔ کبھی لی ہے رضیہ کی؟

 

وہ مزید کسمسا گیا اور بولا: ۔۔ نہیں۔۔ تو ۔۔

 

میں بولا: جھوٹ مت بولو۔  جب وہ اکیلی ہوتی ہے تو چھت پر کونسی پتنگ اڑاتے ہو سچ سچ بتاؤ۔

 

وہ لا جواب ہو کر بولا : ہاں۔۔ بس ایک دوبار ۔۔ ڈر لگارہتا ہے کہ کہیں پھنس نہ جاؤں۔

 

میں بولا : تو کہیں باہر لے جاؤا ہے ۔۔ باہر کہیں پھدی مار لو۔

 

وہ بول باہر کہاں۔ کسی ہوٹل ۔ ارے وہاں تو چھاپے پڑ جاتے ہیں۔

 

میں بولا : ہوٹل مت جاؤ۔ کسی دوست کا مرکان مانگ لو۔ گھنٹہ ہی تو لگے گا۔

 

وہ اب کافی پر اعتماد ہو چکا تھا، وہ بولا : میرا کوئی دوست ایسا نہیں جس کے مکان میں لے جاؤں۔

میں بولا : اگر تین سو روپے دو اور رازداری کا وعدہ کرو تو مکان کا بندوبست میں کرتا ہوں۔ رضیہ کو وہاں بلوا بھی دوں گا اور چپ چاپ چد وا بھی دوں گا۔ وہ مجھے غور سے دیکھ کر بولا : مگر تم ایسا کیوں کرو گے ؟ میں مصنوعی جذباتیات سے لبریز لہجے میں بولا بھائی ! تم بھی میرے جیسے ہو۔ میری بھی ایک محبوبہ ہے جس کی پھدی مارنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ ایک دوست نے مدد کی تو سوچا تمہارا حال میرے جیسا ہے میں تمہاری مدد کر دوں۔ وہ میری عمر اور باتوں سے حیران تھا۔ وہ بولا ؛ یعنی تم رضیہ کو وہاں بلا کر بھی لے آؤ گے؟ میں بولا : سو فیصد ۔۔ مگر یہ اسے مت بتانا کہ میں نے تم سے تین سو کی بات کی ہے۔ جس کا مکان ہے اس کا منہ بند کرنا ضروری ہے نا۔ رضیہ سے مکان کے متعلق بات مت کرنا۔

 

وہ بے تابی سے بولا: کب بلواؤ گے ؟

 

میں بولا : شام کو ہی۔۔ تم شام میں مجھے مارکیٹ کے پیچھے گوٹا کناری والی دکانوں پر

 

ملنا۔ تین سو لے آنا۔ ایک گھنٹہ تمہارا۔ دوست کو میں سمجھالوں گا۔

 

میں رضیہ کے گھر داخل ہوا تو وہ نہا کر نکلی تھی۔ مجھے دیکھ کر بولی: لے پیارے ! آج میںنے پھدی سے بال صاف کیے ہیں۔

 

میں بولا : تمہارا وہ پینٹ والا عاشق گلی میں پھر رہا تھا۔ اس کو پھدی دینے کا موڈ ہے؟ وہ مایوسی سے بولی: بے چارے کو موقع ہی نہیں مل رہا تو کیا کروں۔ کہیں بھاگ ہی نہ جائے۔

 

میں بولا : تو تم اسے اس مکان پر بلوالو۔ دوست کو میں کوئی بہانہ لگادوں گا۔

 

وہ حیرت سے بولی: وہ جہاں تو ہوتا ہے۔

 

میں بولا : ہاں وہیں ۔۔ بلوالو ۔۔ مگر یہ مت بتانا کہ اس مکان کا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔

 

وہ خوشی سے بولی: ہاں ! یہ تو ہو سکتا ہے۔ چل ٹھیک ہے۔۔ مگر اسے یہ پیغام کون دے گا؟ میں بولا : میں جا کر دے آؤں گا، تم شام میں پہنچ جانا۔ مگر ایک مسلئہ ہے ، وہ اس مکان کا جو مالک ہے روز روز مکان کی چابی دینے سے آنا کانی کرتا ہے، سوچتا ہوں اس کے منہ پر پچاس مار دیا کروں۔ یا جس وقت تم چدائی کروا سے چائے والے ہوٹل پر بٹھالوں۔ کیا  خیال ہے تمہارا؟

 

رضیہ تائید کرتے ہوئے بولی: صحیح ہے بالکل۔۔ آ میں تجھے سو روپے دیتی ہوں۔۔ اسے کہیں آگے پیچھے کرنا۔۔ مجھے اپنے عاشق سے پھدی مروانی ہے تو وہ آکر کہیں ڈسٹرب نہ کرے۔

 

میں بولا ؟ فکر نہ کرو۔۔ سو کا نوٹ لے کر سالا۔۔۔ غائب ہی ہو جائے گا۔

 

رضیہ نے مجھے سو کا نوٹ دیا اور میں اڑن چھو ہو گیا۔

 

میں کچھ سوچ کر آر۔ اے بازار گیا۔ دروازہ بجایا تو کھولنے والی شبانہ ہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تو میں نے پیر پھنسا دیا اور اسے دھکا دیا۔ وہ پیچھے کو گری، میں نے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا۔ وہ مجھے گالی دے کر بولی: بے غیرت کتے ۔۔ دفع ہو جا یہاں سے۔۔ نکل باہر ۔۔ حرامزادے۔۔

 

میں بولا: گالیاں مت دے۔۔ لوگ سنیں گے تو وجہ پوچھیں گے۔ اس سے تمہاری ہی بدنامی ہو گی

 

وہ اس بار قدرے دھیمے مگر زہر خوردہ لہجے میں بولی  : نکل جا ابھی یہاں سے۔

 

میں بولا : چلا جاؤں گا۔۔ مگر پہلے میری بات سن لو۔۔

 

وہ بولی: مجھے کچھ نہیں سنا۔۔ بس تو نکل جا۔

میں باہر کی طرف رخ کر کے بولا : اچھا! پھر مجھے مت کہنا اگر کوئی مسلئہ ہوا تو ۔ تمہاری بھابھی ہی پوچھیں گی۔ میں چلتا ہوں۔ وہ بولی: اچھا کیا کہنا ہے۔۔؟؟

 

میں بولا : دیکھو اس دن جو جو ہوا  میں نے جان بوجھ کر کیا۔ مجھے یہ لگا تھا کہ تمہیں پھدی مروانے میں مزا آتا ہے اور میں چونکہ چھوٹا ہوں تو تمہیں زیادہ مزا نہیں دے سکتا۔ اس لیے میں نے ایک دوست سے منت کی وہ تمہاری پھدی مارے۔ یہ سب میں نے

 

تمہارے مزے کے لیے کیا۔

 

وہ بولی: تم نے زبردستی میری عزت لوٹنے کے لیے ایک دوسرے آدمی کو استعمال کیا۔ میں بولا: وہ میری مجبوری تھی اگر میں تمہیں کہتا کہ کسی اور کو پھدی دے دو تو تم منع کر دیتی اور کہتی کہ بس تمہارا لن ہی کافی ہے۔ مگر مجھے احساس تھا تمہارا اس لیے تو اس بندے کو لایا۔

 

وہ کچھ کھو جتی نگاہوں سے مجھے دیکھ کر بولی: تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ایسا تھا تو مجھے اس دن کیوں نہیں کہا؟

میں بولا : میں کیسے کہتا؟ مجھے بہت شرمندگی تھی اور یہ تھا کہ واقعہ تازہ تازہ ہے تم بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرو گی۔

 

وہ بولی : تم نے ایسا کیوں سوچا کہ تمہارا۔۔ وہ ۔۔ مجھے مزا نہیں دیتا۔۔ میں بولا : بچے اور جو ان مرد میں فرق ہوتا ہے۔ یہ تو صاف کیا بات ہے۔ اس کا مجھ سے موٹا اور بڑا تھا، ظاہر ہے تمہیں زیادہ مزا آیا ہو گا؟ وہ کچھ سوچ کر بولی: مزا تو اتنا نہیں تھا مجھے برا بہت لگ رہا تھا کہ ایسے کسی انجان سے کروانا۔۔

 

میں بولا : یہی تو مزا ہے۔۔ جسے جانتے نہ ہو اس سے جم کر چد واؤ اور چپ چاپ واپس پہنچ جاؤ۔ کسی کو  کانوں کان خبر ہی نہ ہو۔ وہ بولی: کیا مطلب۔۔ میں سمجھی نہیں؟

 

میں بولا : دیکھو۔۔ ایک دوست ہے ،، اس کا ایک گھر ہے وہاں وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ جاتا

 

ہے، ایک کمرے میں اس کی محبوبہ جاتی ہے اور دوسرے میں وہ دوسرا کوئی بندہ اپنی لڑکی کو لاتا ہے اور خود اس کمرے میں جاتا ہے جہاں پہلے والے کی لڑکی ہوتی ہے۔ دونوں مردانجان لڑکیوں کی پھدیاں مار کر واپس آ جاتے ہیں۔ لڑکیوں کا راز راز رہ جاتا ہے کیونکہ مردان کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں۔ پھدیوں کی ادلہ بدلہ ہوتی ہے اور بڑا مزا آتا ہے۔

 

ایسی کھلی جنسی بات سن کر وہ لال سرخ ہو کر بولی: یہ کہاں پر ہوتا ہے ؟ میں بولا: ایک مکان تو میرے محلے میں ہے، جہاں تم میرے ساتھ جا سکتی ہو۔ تم ایک کمرے میں جانا میں دوسرے میں۔ دس منٹ بعد کوئی تمہاری مارے گا، میں اس کی بیوی یا محبوبہ کی۔

 

وہ بولی: میں نہیں جاؤں گی وہاں۔

 

میں بولا: سوچ لو۔۔ اس میں مزا بھی بہت ہے اور خطرہ بھی کوئی نہیں۔ سنا ہے کہ ایسی جم کر چدائی ہوتی ہے مزا ہی آجاتا ہے۔

 

وہ ممکنہ چدائی کے خیال سے مغلوب ہو کر بولی: اچھا۔۔۔ میں سوچوں گی۔

 

میں بولا : تم کل شام میں ہمارے محلے میں آجانا۔ وہاں بازار میں گوٹا کناری کی دکانیں ہیں میں وہاں ملوں گا۔۔ آگے تمہیں لے جاؤں گا۔ میں نے ایک بڑا معرکہ سر کر لیا تھا۔

 

شام میں رضیہ پہنچ گئی اور دس منٹ بعد اس کا عاشق بھی آن پہنچا۔ رضیہ کو میں ایک کمرے میں بٹھا آیا تھا۔ اس کے عاشق کو میں بولا : وہ سامنے والے مکان میں گھس جاؤ، پہلے کمرے میں تمہاری رانی بیٹھی ہے۔ چپ چاپ سے اپنا کام کرو اور نکل جاؤ۔ ایک گھنٹے تک کوئی نہیں آئے گا۔ ایک گھنٹے بعد میں باہر آکر کھانسوں گا۔

 

وہ بولا : بس ٹھیک ہے ایک گھنٹہ بہت ہے یار۔ یہ لو تین سو روپے۔ میں نے پیسے جیب میں رکھ لیے اور خاموش سے ہوٹل پر چائے پینے لگا۔ دس منٹ بعد بلو

 

ایک گورے سے  لمبے لڑکے کے  ساتھ آیا۔ وہ بولا: یہ اپنا دوست ہے تاری خان۔

 

میں بولا : اور تاری بھائی ! کیا نئی تازی ہیں؟ وہ بلو سے بولا : اوئے بچی یہ لائے گا؟

 

میں بولا : تاری بھائی ! بچی آئے گی تو خود ہی یقین آجائے گا، میں باتوں سے نہیں کام سے یقین دلاتا ہوں

 

وہ قدرے متاثر نظر آیا اور بولا : بچی کیسی ہے ؟

میں بولا : ایک مجبور لڑکی ہے ، بچی خاندانی اور سو فیصد گھر یلو ہو گی۔۔ اس کی ایک مجبوری ہے جس کے لیے اسے پانچ ہزار روپے چاہئیں۔ اب جو ان لڑکی کو پیسے چاہیے ہوں تو بندہ ایک ہی چیز کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہی موقع ہے یار دوستوں کی موج کرادی جائے۔ تاری بھائی ہزار پندرہ مجھے دے سکو دے دو اور بچی کا مزا اٹھا لو۔ پہلے کبھی پھدی ماری ہے ؟

 

وہ بولا : پھدی تو ماری ہے مگر کسی جوان بچی کی نہیں، بڑی عورت کی۔ پیسے بہت زیادہ ہیں۔ میں بولا بچی بھی ظالم ہے، ابھی ابھی جوان ہوئی ہے، لن اور لوڑے کے نام سے بھی کا نپتی ہے۔

 

وہ بولا: پہلے بچی دکھاؤ۔

 

میں بولا : یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اسے بہلا کر لاؤں گا کہ ایک دوست کے گھر جانا ہے، وہاں تم کمرے میں جانا اور اس کی پھدی کا مزا اٹھالینا۔ اگر اسے یہ کہا کہ پھدی مروانے کے پیسے ہیں تو کبھی نہیں مانے گی۔ اسے یہ کہیں گے کہ یہ دوست کا کوئی مہمان تھا جو موقع دیکھ کر کام دکھا گیا۔

وہ بولا : زبر دستی کرنی پڑے گی؟

 

میں بولا : شریف لڑکی سے تھوڑی بہت تو کرنی پڑتی ہے مگر یہ ہے کہ چیخنا چلانا نہیں کرے گی کیونکہ ہم نے اسے پیسوں کا وعدہ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے بالکل بھی اڑی نہ کرے۔

 

وہ بولا : چلو ٹھیک ہے۔۔ کل میں آجاؤں گا۔

 

میں بولا: پیسوں کا نہیں بتایا تم نے۔

 

وہ بولا : میں چھ سو دوں گا۔ ایک گھنٹے میں اسے فارغ کر دوں گا۔

 

میں بولا تم ہزار دینا اور دو دفعہ اس کی پھدی مار لینا ۔۔ دو گھنٹے وہ تمہاری۔۔ کیا بولتے ہو ؟

 

وہ سوچ میں پڑ گیا۔

 

میں بولا : سو چومت تاری بھائی ۔۔ ایسا شاندار ہیں اور موقع پھر نہیں ملے گا۔ اب مجبور

 

گھر یلو بچی روز روز کہاں ملتی ہے۔

 

وہ بولا: ٹھیک ہے۔۔ ہزار میں دو گھنٹے ۔۔ دو دفعہ پھدی ماروں گا اس کی۔

 

میں بولا : ایک بات اور تاری بھائی ! بچی شریف ہے پھدی مارنا مگر اسے کوئی تکلیف نہ

 

ہونے پائے، یہ نہ ہو کہ جب ہم اسے اٹھائیں تو بے چاری زخمی ہو۔

وہ بولا : نہیں نہیں۔۔ میں بڑے پیار سے کروں گا۔۔

 

 

میں بولا : میرا دوست ہے ایک، اس کا مکان ہے اس گلی میں۔ کل تم آجانا۔۔ وہیں لے چلوں گا۔

 

گھنٹہ ہونے سے پہلے رضیہ کا عاشق بڑا تھکا تھکا سا نکلا اور ہمارے سامنے سے گزرا۔ میں نے اسے آواز دے کر بلوایا تو وہ ہمارے پاس آگیا۔ اس نے بلو اور تاری سے ہاتھ ملایا، میں بولا: یہ اپنا بھائی ہے، ابھی اندر سے جم کر پھدی مار کر آرہا ہے۔ کیوں مزا آیا

 

استاد؟

 

وہ خوش ہو کر بولا : ہاں ! پہلی بار مزا آیا۔ گھر پر تو مزا ہی نہیں آتا تھا، یہاں مزا ہی آگیا۔

 

میں بولا : کبھی میری دوبارہ ضرورت ہو تو بتاتا یار ۔۔

 

وہ بولا : ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔ اب تو تم یار ہو اپنے۔ میں چلتا ہوں دکان پر جانا ہے۔

 

اس کے نکلنے کے بعد رضیہ بھی مکان سے حجاب میں نکلی اور ہوٹل کے سامنے سے

 

گزری۔ تاری بولا: یہ کون تھی ؟ یہی اپنے والی بچی ہے۔۔ ہے تو بڑی ٹائیٹ؟

 

میں بولا : او نہیں تاری بھائی۔۔ یہ اس مالک مکان کی منگیتر ہے۔۔ بڑی ظالم شے

ہے۔۔ پلان بنارہا ہوں کہ کسی دن اس کی پھدی یاروں میں بانٹ دوں۔

 

تاری رضیہ کو للچائی نظروں سے دیکھ کر بولا: ہاں۔۔ یار ۔۔ دیکھ۔۔ کمر کیسے بلاتی

 

ہے۔۔ اس کمر پکڑ کر پھدی ماروں گا۔

 

میں بولا : تم یار ہو اپنے ۔۔ اس کی بھی لے دوں گا۔

 

بلو بولا : یار ! اس کی تو مجھے بھی لے دینا۔

 

 

میں بولا : بس تم لوگ پیسوں کی طرف دھیان دو ۔۔ کئیوں کے منہ بند کرنے پڑتے ہیں، اس لیے تم سے پیسوں کا کہتا ہوں۔ اب یہ جو اپنا یار تھا، اسے کہیں دعوت پر لے جاؤں گا پیچھے تم باری باری اس کی منگیتر کی پھدی بجا دینا۔ بعد میں پیسے دے دلا کر چپ کروادوں گا۔

 

دونوں تائید میں سر بلانے لگے۔

 

اگلے دن کا پروگرام طے پا گیا۔

 

شبانہ وقت سے پہلے ہی پہنچ گئی۔ میں اسے کمرے میں بٹھا کر بولا: پریشان مت ہونا جو بھی آئے گا، اس سے شرما نامت۔۔ بس وہ جو کرے کرنے دینا۔

وہ ڈر کر بولی : بھا بھی یا بھائی کو پتا نہ چل جائے۔ مجھے گھنٹے ڈیڑھ میں جانا بھی ہے۔ میں بولا: کیسے پتا چلے گا ؟ تم کون ہو یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا۔۔ بس تم چپ چاپ کام کے بعد نکل جانا۔ زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔ کرایہ تو ہے نا۔

 

وہ بولی : ہاں بھا بھی کالج کے لیے دس روپے دیتی ہے۔ تو چالیس پچاس روپے میں میرے پاس۔

 

میں نے سو کانوٹ نکال کر دیا اور بولا : یہ لو اگر دیر ہو جائے تو واپسی پر رکشہ کر لینا۔

 

اس نے نوٹ بنا کوئی اعتراض کیسے تھام لیا۔

 

میں بولا: میں ساتھ والے کمرے میں ہی ہوں گا، یہ کھٹر کی بھی کھلی ہے تا کہ مسلئہ ہو تو میں آجاؤں۔

 

تاری پورے ٹائم پر پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ بلو بھی تھا۔ میں نے کہا: تاری بھائی لاؤ ہزار کا نوٹ اور اندر گھر میں دوسرے کمرے میں چلے جاؤ۔

 

اس نے بلو کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر ہزار کا نوٹ مجھے تھما دیا۔

 

میں بولا : اب موج کرو۔۔ دو گھنٹے بعد میں دروازہ بجاؤں گا اور کہوں گا کہ لڑکی کو جانے

دو۔ تم اسے باہر بھیج دینا۔ اسے اصل میں جلدی بھی ہے۔

 

وہ بولا: ٹھیک ہے۔۔ ویسے میں اس سے پہلے ہی فارغ ہو جاؤں گا۔

 

میں بلوے سے بولا : تم یہاں گلی میں نظر رکھو، کل پر سوں میں تمہیں بھی پھدی دلواؤں گا۔ میں عجلت میں ساتھ والے کمرے میں گیا، جہاں میں نے کھڑکی میں جھری بنارکھی تھی تا کہ کوئی سین ہو تو دیکھ سکوں۔ شبانہ بستر پر پورے جسم پر سختی سے دوپٹہ لیٹے بیٹھی تھی۔

 

تاری خان اس کے پاس جا بیٹھا۔ وہ شبانہ جتنا ہی نروس تھا۔ دونوں بیڈ پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔

 

تاری خان نے پہل کی اور بولا : کیسی ہیں آپ؟

 

شبانہ نے پہلی بار نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بولی : جی میں ٹھیک ہوں۔

 

تاری خان بولا : آپ ایزی ہو جائیں۔

 

وہ بولی: جی۔۔ میں بالکل۔۔ ایزی۔۔ ہوں۔۔

تاری بولا : آپ تو بہت پیاری ہیں۔

 

شبانہ ذرا شر ماکر بولی: شکریہ۔۔

 

تاری بولا: یہ دو پٹہ تو ہٹائیں۔۔ اتنا کس کے کیوں باندھا ہے ؟

 

وہ لفظ ” باندھا ہے“ سے اور بھی نروس دکھائی دی مگر صد شکر اس نے دوپٹہ ڈھیلا کر دیا۔ شبانہ بھاری پستان والی لڑکی تھی، اس کے ممے کپڑوں میں بھی اپنی موجودگی کا اعلان کرتے تھے۔

 

تاری خان بولا : آپ کے وہ تو بڑے پیارے ہیں۔

 

شبانہ نا سمجھی میں بولی: جی۔۔ کیا۔۔؟

 

تاری بولا: وہ ۔۔ یہ ۔۔ جو۔۔ ہیں۔۔ آپ ۔۔ کے۔۔ ممے ۔۔ مجھے۔۔ بہت پیارے لگے ہیں

 

شبانہ یکلخت سرخ پڑ گئی اور منہ نیچے کر کے بیٹھ گئی۔ تاری خان اپنے تنے لن کو دباتا ہوا

 

بولا: یہ پتا ہے کیا ہے ؟

 

شبانہ نے اس کے ہاتھوں میں تھاما لن دیکھ لیا مگر نظریں پھیر لیں۔ اس نے منہ سے کوئی

 

جواب نہ دیا۔

تاری بولا: آپ میرا لوڑا پکڑیں گی؟

 

شبانہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہ دیا۔ تاری بولا : مجھے پتا ہے کہ آپ بڑی شریف لڑکی ہیں مگر ہم دونوں یہاں اکیلے ہیں، کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ قسم ہے۔ ٹھیک ہے نا؟

 

شبانہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

 

تاری بولا : اب پکڑیں نا۔۔

 

شبانہ اب بھی بے حس و حرکت بیٹھی رہی تو تاری نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لن پر رکھا اور لن اس کی مٹھی میں تھما دیا۔ تاری نے گہری سانس لی، شبانہ کی ہتھیلی میں لن کو چودنے کے انداز میں گھنے لگا۔ ایک دو منٹوں بعد شبانہ نے بھی مٹھی کو گرپ کیا اور لن کو حسب خواہش دبانا شروع کر دیا۔ تاری نے شبانہ کو اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ شبانہ کے کولہوں کے درمیان لن رگڑ کر بولا : آپ کی گانڈ بھی بہت پیاری ہے۔

 

اس نے شبانہ کے مموں کو دبایا اور بولا : ایسا کرتے ہیں ہم دونوں کپڑے اتار دیتے ہیں، کیا خیال ہے ؟

 

شبانہ نے سر بلا دیا تو تاری خان اٹھا اور ایک ہی منٹ میں مکمل ننگا ہو گیا۔ جبکہ شبانہ محض

دو پٹہ اتار کر کھڑی تھی۔ تاری خان بولا: میں آپ کے کپڑے اتاروں ؟ شبانہ نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ تاری نے آگے بڑھ کر اس کی قمیض اتار دی اور پھر شلوار بھی جسم سے جدا کر دی۔ شبانہ محض برا میں کھڑی تھی۔ اس کا وجود قیامت ڈھار ہا تھا اور اس نے جسم سے تمام فاضل بال صاف کیے تھے اور جسم پر کوئی خوشبو دار لوشن بھی لگایا تھا کہ خوشبو مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ تاری خان آگے بڑھا اور شبانہ کو گلے سے لگالیا۔ اپنا تنا ہو الن اس کی پھدی کے لبوں سے گزار کر پیچھے گانڈ والی سائیڈ پر لے گیا۔ کولہوں کر در میان لن کو پکڑا اور چودنے کے انداز میں آگے پیچھے ہونے لگا۔ لن پھدی کے پانی

 

سے گیلا ہو چکا تھا۔

 

تاری خان بولا؟ آپ لیٹ جائیں۔۔۔ میں لن اندر ڈالتا ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے۔ شبانہ پیچھے بستر پر چت لیٹ گئی، تاری خان نے اپنا لن اس کی پھدی میں گھسا دیا۔ شبانی کے منہ سے اچانک سکاری نکلی تو تاری نے لن واپس کھینچ لیا اور بولا: کیا ہوا درد  ہوا؟ شبانہ نے پھر سے کوئی جواب نہ دیا۔ تاری نے لن کو اس کی پھدی کے پانی سے بھگویا اور اس بار صرف ٹوپی ڈالی اور بولا : اب ٹھیک ہے۔۔ آہستہ ۔۔ آہستہ ۔۔۔ پورا ڈال دوں

گا۔۔

 

اس بار شبانہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تاری کا مکمل لن شبانہ کی پھدی میں جا چکا تھا۔ تاری نے اس کی ٹانگوں کو کھولا اور نرمی سے جھٹکے لگانے لگا۔ شبانہ نے آنکھیں میچ لیں۔ تاری نہایت شائستگی سے اور احترام سے شبانہ کی پھدی میں لن کو گھستا رہا اور پانچ سات منٹوں بعد فارغ ہو گیا۔

 

چھوٹنے کے ساتھ ہی وہ گہری سانسیں لیتا اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ شبانہ نے اس کے اوپر

 

سے ہٹتے ہی جسم پر اپنا دوپٹہ اوڑھ لیا۔

 

وہ بولا: ایمان سے مجھے اتنا مزا کبھی نہیں آیا۔ آپ کی پھدی بہت گرم اور ٹائیٹ ہے۔ ایک دم مزیدار

 

وہ کافی دیر بعد اٹھا اور بولا : آپ کو میرے لوڑے کا مزا آیا۔

 

شبانہ پہلی بار کسی بات کا جواب دیتے ہوئے بولی: جی۔۔ آیا۔

 

تاری جواب سن کر نہال ہی ہو گیا۔ وہ بولا : وہ مجھے معلوم تھا آپ بھی شرمارہی ہوں

 

گی، اس لیے میں نے سوچا پہلے ہم چدائی کر لیتے ہیں، پھر ہم باقی سب کریں گے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page