کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کہانی بھی آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
گاجی خان قسط نمبر -48
اب باقی بچے دو لوگ جو اس لڑکے کو مار رہے تھے وہ بھی شیرا پر حملہ کرنے آگے بڑھے تو ان کے کچھ کرنے سے پہلے ہی شیرا نے زمین سے لاٹھی اٹھا کر انکا وار ہوا میں روکا اور جلدی سے دونوں پر اگلا وار بھی کر دیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتے شیرا نے ایک کی ٹانگوں کے بیچ ایسا زوردار لاٹھی سے وار کیا کہ وہ وہیں اپنا نازک حصہ پکڑ کر لیٹ گیا چیختا ہوا اور دوسرے نے پھر سے شیرا پر وار کیا مگر پھر سے شیرا نے اسے روک دیا اور گُم کر زوردار وار اسکی گردن پر کیا لات سے۔۔۔۔ اسی کے ساتھ وہ بھی زمین پر لیٹ گیا۔۔۔ جس کو سب سے پہلے پیٹ میں مکا پڑا تھا وہ شاید ان لوگوں کا سردار تھا جسکے پاس لاٹھی نہیں بلکہ بندوق تھی جو پاس میں کھڑی جیپ میں پڑی تھی۔۔۔ اس نے بھاگ کر وہ بندوق اٹھائی اور شیرا کی طرف جیسے ہی نشانہلگانے لگا بالی نے اسکی کَنپٹی پہ اپنی پستول لگا دی۔
اس سے پہلے کے تمہارا مغز مٹی میں پڑا ہو بندوق نیچے کرلے جونی ‘
بالی نے جونی نام لیا مطلب وہ اسے جانتا تھا۔۔۔ جونی نے بھی اپنے ہاتھ سے بندوق چھوڑ دی اور دونوں ہاتھ اوپر کر لیے۔
یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے ہو بالی ، ، ، صاحب جی کو پتہ چلا تو تم گئے ‘
جونی نے دھمکی دیتے ہوئے بالی سے کہا تو وہ ہنس دیا۔
بالی کو موت سے ڈراتے ہو ؟ موت خود بالی سے ڈرتی ہے ، ، ، تم جس جگہ کھڑے ہو ناںیہ ہمارا علاقہ ہے۔۔۔ کچھ عرصہ ہم اِس طرف نہیں آئے تو تمہارے صاحب جی نے سمجھ لیا کہ اب یہ انکا ہوگیا ؟ کہہ دینا انسے کہ اپنی حد میں رہیں ‘
بالی نے بڑی ہی سرد آواز میں یہ سب کہا تو جونی کے ساتھ ساتھ اسکے باقی ساتھی جو اب اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے ڈر گئے۔۔۔ شیرا نے اس لڑکے کو سہارا دے کر اٹھایا جو ان لوگوں کے ہاتھوں مار کھا رہا تھا۔
اب چپ چاپ اپنے کُتوں کو لیکر یہاں سے بھاگ جا اس سے پہلے کہ میں خود پر قابو کھو دوں ‘
بالی کی دھمکی سُن کر وہ سب جیپ میں سوار ہوئے اور جیپ اسٹارٹ کرکے جونیبالی کو غصے سے دیکھتا ہوا پھر سے بولا۔
اپنے دن گِننے شروع کر دے بالی ، ، ، ، ، جلدی ہی تجھے نارگ بھیج دینگے صاحب جی اور تیرے ساتھ اِس حرامزادے کو بھی، ، ، ، تو سُن لیں ( شیرا ) تو جہاں کہیں بھی مل گیا ناں تجھے زندہ نہیںچھوڑونگا ‘
بالی جونی کی بات سن کر غصے میں اسکی طرف بڑھا ہی تھا کہ وہ تیزی سے جیپ دوڑاتا ہوا وہاں سے بھاگ نکالا۔ ادھر شیرا کے آگے وہ بوڑھی عورت ہاتھ جوڑ کر اسے دعائیں دے رہی تھی۔
مسیحا تمہاری ہمیشہ حفاظت کرے،، تمہاری لمبی عمر ہو ، ، ، ، تمہاری ساری بلائیں دشمنوں پر جائیں۔ مجھ بیوہ پر تم نے بہت بڑا احسان کیا ہے ‘
احسان کیسا اماں جی ، ، ، ایک بیٹے نے اپنی امی کی حفاظت ہی تو کی ہے۔ جائیے اب آپ اپنے گھر جائیے اور اپنے بیٹے کی مرہم پٹی کیجیے ‘
شیرا کی بات سن کر اس عورت نے شیرا کا ماتھا چُوما اور اسکی بلائیں لینے کے بعد بالی کے پاس گئی۔
بالی صاحب کیا حویلی والوں نے ہمیں بھلا دیا ہے ؟ کھالو خان کے ظلم بڑھتے ہی جا رہے ہیں ، ، ، روز کسی نہ کسی کے ساتھ وہ زیادتی کرتے ہیں اور ہماری بات سُننے والا بھی کوئی نہیں۔۔۔ کیا ابگاجی خاندان میں کوئی گاجی نہیں بچا؟ ‘
اس عورت کی بات سن کر بالی شرمندہ سا ہوا اور ایک بار شیرا کی طرف دیکھا۔
گاجی خاندان کا وارث اپنےلوگوں کی حفاظت کرے گا بہن اور وہ خود ثابت کرے گا کہ وہ اصل گاجی ہے، تم حوصلہ رکھو بہت جلد پھر سے یہاں امن اور سکون نافذ ہوگا ‘
شیرا بالی کی بات سن رہا تھا اور پھر دونوں وہاں سے نکل گئے۔۔۔ وہاں جو لوگ کھڑے تھے اُن میں سے ایک شخص آگے آیا جو شاید بالی کا جاننے والا تھا۔
سلام بالی بھائی ، کون ہے یہ نوجوان جس نے اکیلے ہی ان سب کو دھول چھٹا دی ‘
سلام مٹو میاں ، یہ میرا بھتیجا ہے،،،، آج میرے ساتھ گاؤں گھومنے آیا ہے۔ لاہور میں رہتا تھا پہلے اب سے یہیں رہیگا میرے ساتھ ‘
بالی نے شیرا کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
بہت بہادر ہے آپکا بھتیجا ، ، ، مگر جونی سے دشمنی لیکر اچھا نہیں کیا اس نے۔۔۔ اب کبھی ادھر آنا ہو تو بندوبست کر کے آنا ، ، وہ لوگ بہت خطرناک ہیں آپ تو جانتے ہی ہو۔۔۔ اور ہماری ایک التجا قبول فرمائیے ، ، ، ، ہو سکے تو یہاں لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئیانتظاماتکرئیے تاکہ کھالو خان کے لوگ یہاں پر ظلم نہ کر سکیں ‘
مٹو نام کے اِس شخص نے ہاتھ جوڑے ہوئے کہا تو بالی نے اسکے ہاتھ تھام لیے۔
تقدیر پر یقین رکھو مٹو میاں ، ، ، سب اچھا ہی ہوگا ، ، ، دعا کرو کہ گاجی خاندان سلامت رہے اور پھر سے اپنےلوگوں کی حفاظت دہشتگردوں سے کرے ‘
وہ لوگ تو حویلی میں عیشو آرام میں ہیں ، ، انہیں کیا پڑی ہے ہم غریب مظلوموں کے بارے میں سوچنے کی۔۔۔ گاجی خاندان اب گاجی نہیں فقیر خاندان بن چکا ہے۔۔۔ انسے تو بس دعائیں ہی کرواسکتے ہیں حفاظت کے لیے اب وہ نہیں آنے والے ‘
یہ آدمی تھوڑا پیچھے کھڑا تھا مگر غصے سے بھرا یہ سب کہہ رہا تھا شاید اس نے بھی بہت کچھ سہا تھا جس وجہ سے وہ ناراض تھا گاجی خاندان سے۔۔۔ بالی کو یہ برا لگا مگر اس سے پہلے ہی شیرا نے جواب دیا۔
تقدیر پر یقین رکھو اور اسکے بعد خود پر ، ، ، ، تم اتنے لوگ ہو کر بھی چند لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ تب کسی کی مردانگی نہیں جاگی کہ آگے ہوکر مدد کر سکو اور اب آواز اٹھا رہے ہو کسی اور پر۔۔۔ خود کو مضبوط بناؤ اپنے اوپر ہو رہے ظلموں سے لڑنے کے لیے۔جو خود کی مدد کرے گا اُس کی غیبی مدد ہوگی. ‘
تم نئے آئے ہو اِس لیے آسانی سے یہ بات کہہ رہے ہو ، ، ، ، جب سر پر آن پڑھتی ہے تو کوئی نہیں بچانے آتا ، ، ، مسیحا بھی تب بھول جاتا ہے اپنے بندوں کو جیسے گاجی خاندان نے بھلا دیا ہے ہمیں۔ ہمارے پریوار کی حفاظت کون کرے گا اگر ہم دشمنی مول لینگے کھالوخان سے؟ ‘
یہ ہی ڈر تم لوگوں کی کمزوری ہے،،، گاجی کوئی بھی بن سکتا ہے اگر قسمت پر اور خود پر بھروسہ ہو تو۔ مگر جسے موت کا ڈر ہے وہ کسی کی کیا اپنی جان کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔ آج کے بعد تم لوگوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔۔۔ اور ہاں ، ، ، ، حویلی میں رہنے والے ضروری نہیں کہ عیشو آرام میں ہی ہو ، ، ، دکھ درد ہر انسان کو سہنا ہی پڑتا ہے‘
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
