A Dance of Sparks–40–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 40

اخبارات میں ان کے بارے میں مسلسل خبریں چھپ رہی تھیں۔ دو دن پہلے سوتر سنگھ کے بارے میں بھی خبر چھپی تھی کہ اس کی قوت گویائی اور یادداشت لوٹ رہی ہے اور وہ ایک دو روز میں پولیس کو بیان دینے کے قابل ہو جائے گا۔

وہ دوپہر کا وقت تھا۔ کھانا کھانے کے بعد روحان اونگھ رہا تھا۔

لے بھئی کا کے۔۔۔ شمشیر سنگھ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔ تم  تھوڑا آرام کر لو اور میں سو تر سنگھ کو دیکھ آؤں۔

 اسپتال کی عمارت سے باہر آکر شمشیر سنگھ ٹیکسی اسٹینڈ کی  طرف بڑھ گیا اور پھر ٹیکسی پر دوسرے اسپتال پہنچنے میں اسے پندرا  منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ راہداری میں تین چار پولیس والے کھڑے تھے۔ ان میں سے دو شمشیر سنگھ کو پہچانتے تھے۔ اس لیئے  کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ سو تر سنگھ والے کمرے سے  چند قدم دور ہی تھا کہ ایک نرس اس کمرے سے نکلی۔ اس کے ہاتھ میں کڈنی شیپ ٹرے تھی جس میں ایک سرینج ایک چھوٹی بوتل، ایک انجکشن کا خالی ایمپیول رکھا ہوا تھا۔ وہ نرس شمشیر سنگھ کو دیکھ کر مسکرا دی۔

ہیلو۔۔ شمشیر سنگھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔کیسا ہے میرا یار ؟

چھا ہے۔۔۔  نرس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔اس وقت سو رہا ہے۔ اسے  ڈسٹرب نہ کیا جائے۔

بالکل ڈسٹرب نہیں کروں گا جی۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا۔

وروازے کے سامنے کھڑے ہوئے کانسٹیبل نے بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا دیا۔ شمشیر سنگھ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ سوتر سنگھ دوسری طرف کروٹ لئے سو رہا تھا۔ شمشیر سنگھ بیڈ کے قریب کھڑا ہو گیا۔ نرس نے اگرچہ  اسے منع کیا تھا کہ مریض کو  ڈسٹرب نہ کیا جائے مگر شمشیر سنگھ اس سے بات کئے بغیر کیسے رہ  سکتا تھا۔

سوتر سنگھے۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔۔۔ سوتر سنگھ۔ اٹھ یارہ۔۔دیکھو میں آیا ہوں۔ شمشیر سنگھ۔

اس نے تین چار مرتبہ پکارا لیکن کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا۔ شمشیر سنگھ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلایا۔ اس کے ہاتھ کے دباؤ سے سوتر سنگھ سیدھا ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی شمشیر سنگھ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔

سوتر سنگھ کی ناک اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اسپتال میں ایک ہنگامہ سا مچ گیا۔ یہ انکشاف بڑا سنسنی خیز ثابت ہوا تھا کہ سوتر سنگھ کو پوائزن انجیکٹ کیا گیا تھا جس سے فوری طور پر اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس نرس کی تلاش شروع ہو گئی جسے شمشیر سنگھ نے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔ شمشیر سنگھ اور کمرے کے دروازےپر  متعین پولیس کانسٹیبل نے نرس کا جو حلیہ بتایا تھا، پورے اسپتال میں اس حلیے  کی کوئی نرس نہیں تھی۔ لمبا قد، چہرے کے نقوش میں ہندوستانی رنگ نمایاں تھا۔ ہرنی جیسی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور نچلے ہونٹ کے دائیں کونے پر سیاہ رنگ کا مسور کے دانے کے برابر تل۔

شمشیر سنگھ نے جب اسے دیکھا تھا تو اس کے ذہن میں فورا ی یہ خیال آیا تھا کہ یہ دوغلی نسل کی ہے۔ ہو سکتا ہے ماں چینی باپ ہندوستانی ہو۔

اور یہ علاقہ اگرچہ انسپکٹر چیانگ شو کا نہیں تھا لیکن چونکہ سوترسنگھ  اس کے ایک کیس کا اہم کردار تھا اس لئے اطلاع پا کر وہ بھی آگیا تھا۔  جبکہ انکوائری مقامی پولیس آفیسرہی کر رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود اسپتال کی تمام نرسوں کو جمع کر لیا گیا۔ شمشیر سنگھ اور پولیس کانسٹیبل ایک ایک نرس کو غور سے دیکھتے رہے۔  لیکن وہ نرس ان میں نہیں تھی جسے شمشیر سنگھ نے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔  پہلے یہ سوچا گیا تھا کہ شاید ڈیوٹی نرس نے سوتر سنگھ کو غلط انجکشن لگا دیا تھا۔  لیکن اس نئی صورت حال سے پولیس اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہوا تھا۔ سوتر سنگھ ایک کیس کا اہم گواہ تھا۔ جب تک اس کی یادداشت اور قوت گویائی سلب رہی وہ محفوظ رہا تھا۔  لیکن اخبارات میں یہ خبر چھپنے کے بعد کہ اس کی قوت گویائی اور یادداشت واپس لوٹ رہی ہے اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ پولیس کی موجودگی میں سوتر سنگھ پر حملہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسے راستے سے ہٹانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس کے لیے کسی ایسی لڑکی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو تربیت یافتہ نرس تھی ۔ کیونکہ انجکشن نس میں لگایا گیا تھا اور نس میں انجکشن لگانا  ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی اور یہ کام بڑے اطمینان سے کیا گیا تھا۔ اس کے لئے با قاعدہ پلاننگ کی گئی تھی۔ یہ سب کچھ پہلے ہی سے دیکھ لیا گیا تھا کہ ڈاکٹر کس وقت وزٹ پر آتا ہے اور نرس کس وقت مریض کو دیکھنے آتی ہے۔

پولیس کوشش کے باوجود اس نرس کا سراغ نہیں لگا سکی تھی۔ وہ لڑکی جو کوئی بھی تھی اسے اپنا کام کر کے اسپتال سے نکلنے کے لیے کافی وقت مل گیا تھا۔

اس روز شمشیر سنگھ کی حالت دیدنی تھی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی کی لاش اٹھائی تھی اور وہ اس کا ذمہ دار وہ صرف اور صرف رانا کو سمجھتا تھا۔ کاش وہ رانا کا سراغ پا سکتا۔  لیکن رانا بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ وہ خود پس پردہ  رہ کر یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ اس کے پاس غالباً پیسے کی کمی نہیں تھی۔ اس نے مقامی غنڈوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔  اور وہ روپیہ پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ اب تک کئی قتل ہو چکے تھے۔ دو بندے شمشیر سنگھ کے مارے جاچکے تھے اور شمشیر سنگھ جانتا تھا کہ یہ کھیل اس وقت تک ختم نہیں ہو گا،  جب تک رانا  روحان کو موت کے گھاٹ نہیں تار دیتا ۔ روحان ہی وہ واحد ہستی تھی جو رانا کو پہچانتا تھا۔ اسے ختم کرنے کے بعد رانا اطمینان سے اپنے دوسرے کام کرتا رہے گا۔  لیکن شمشیر سنگھ نے بھی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ رانا کے آدمیوں کوکبھی بھی روحان تک نہیں پہنچنے دے گا۔ اسے حیرت تو اس بات پر تھی کہ پولیس اب تک رانا کا سراغ نہیں لگا سکی تھی ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔ شمشیر سنگھ جانتا تھا کہ پولیس ملزموں کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن بد قسمتی سے اس الجھی ہوئی ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ دوسرے اسپتال میں سوتر سنگھ کے قتل کے بعد اس اسپتال میں سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی جہاں روحان زیر علاج تھا۔ روحان اگر چہ اب ٹھیک ہو چکا تھا مگر ایک منصوبے کے تحت اسے اسپتال میں رکھا گیا تھا۔ پولیس کا خیال تھا کہ وہ فی الحال یہاں زیادہ محفوظ ہے۔ پولیس کو سختی سے ہدایت کر دی گئی تھی کہ کسی غیر متعلق کو اس راہداری میں بھی داخل نہ ہونے دیں جہاں روحان والا کمرا تھا۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کے بارے میں بھی نئی حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ روحان کو دیکھنے کے لئے اب صرف ان دو ڈاکٹروں اور دو نرسوں کو آنے کی اجازت تھی جنہوں نے شروع میں روحان کو اٹینڈ کیا تھا۔ کسی دوسرے ڈاکٹریا نرس کو اس کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page