کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی سمگلر
سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
سمگلر قسط نمبر- 02
یہاں کھڑا کیا دیکھ رہا ہے چریا آگے بڑھے گا یا یہیں کھڑے کھڑے زندگی گزار دے گا۔ میرے دائیں طرف کھڑے ہوئے شخص نے مجھے دھکا دیتے ہوئے کہا۔
میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اس کا قد چھ فٹ سے بھی نکلا ہوا تھا۔ نیلے رنگ کی بڑے گھیر کی شلوار میلی سی سفید قمیض، مہرون رنگ کی نیلے پھولوں والی ایک چادر لمبائی کے رخ پر اس طرح سے کی گئی تھی کہ اس کی چوڑائی ایک بالشت سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی یہ چادر کمر پر لپیٹ کر اس کے دونوں پہلو بغلوں سے گزار کر سامنے لاتے ہوئے کندھے پر سے پیچھے کی طرف ڈال دیئے گئے تھے اس شخص کے پیروں میں براؤن جوتے تھے۔ جو تے خاصے پرانے تھے اس نے غالباً تین چار روز سے شیو نہیں کیا تھا۔ بڑی بڑی گپھے دار مونچھیں اور آنکھوں میں سرخی تھی، جیسے کئی روز کا جاگا ہوا ہو یا کسی نشے کا عادی ہو سر کے بے تحاشا بڑھے ہوئے بال گردن پر پھیلے ہوئے تھے اور سر پر مخصوص طرز کی بنی ہوئی سرخ ٹوپی تھی جس میں لا تعداد چھوٹے چھوٹے آئینے لگے ہوئے تھے۔
اس کے لباس اور انداز گفتگو سے مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ اس کا تعلق کس خطے سے ہو سکتا ہے۔ اس کے دوسرے ساتھی کا حلیہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ یہی دونوں اس وین میں مجھے اپنے ساتھ لے کر آئے تھے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور دوسرے کے ہاتھ میں کلاشنکوف ۔
سامنے عمارت کے شکستہ برآمدے میں بھی انہی کے حلیے سے ملتا جلتا ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی کلاشنکوف نظر آ رہی تھی ۔ وہ دونوں مجھے دھکے دیتے ہوئے برآمدے میں لے آئے۔
اس کو سنبھال سجاول میرے ساتھ آنے والوں میں سے ایک نے مجھے ایک اور دھکا دیتے ہوئے برآمدے میں کھڑے ہوئے شخص کو مخاطب کیا۔
سجاول چھو کرا بڑا غضب ناک ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت سے ہماری ساری محنت پر پانی پھر جائے ۔
“ کیا بات کرتے ہو سریش ۔ سجاول نامی اس شخص نے جواب دیا۔
سجاول کے ہاتھ تو آیا ہوا باز بھی چڑیا کی طرح پھڑ پھڑا کر رہ جاتا ہے یہ چھو کرا کیا ہے اسے تو میں ایسا سنبھالوں گا کہ خود اسے بھی پتہ نہیں لگے گا کہ یہ کہاں ہے اور اگر اس نے سجاول سے پنجہ لڑانے کی کوشش کی تو ایسی مار لگاؤں گا کہ مرتے دم تک میرا نام نہیں بھولے گا۔
اور پھر اس نے اپنے کہے ہوئے پر عمل بھی شروع کر دیا جس کیلئے میں تیار نہیں تھا تیار ہوتا بھی توبھلا اس کا کیا بگاڑ لیتا۔ میں ان کا قیدی تھا۔ وہ رائفلیں اور ریوالور لیے کھڑے تھے۔سجاول نامی اس شخص نے جانوروں کی طرح میری دھلائی کرکے مجھے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ میں جب تک یہاں رہوں شرافت سے رہوں اور ان کے سامنے ہاتھ تو کیا نظریں بھی اٹھانے کی کوشش نہ کروں۔
سجاول کی پٹائی سے میرے ہونٹوں سے خون بہہ نکلا جسے میں بار بار قمیض کی آستین سے پونچھ رہا تھا وہ مجھے دھکے دیتے ہوئے ایک شکستہ محراب میں داخل ہو کر ایک تنگ اور تاریک سی راہداری میں سے ایک کمرے کے سامنے سے گزارتے ہوئے۔ میں نے کھلے ہوئے دروازے سے اندر جھانک لیا تھا۔ کمرے میں کسی جگہ کیروسین لیمپ کی لالٹین جل رہی تھی فرش پر دو بستر لگے ہوئے تھے کچھ اور چیزیں بھی نظر آئی ہی تھیں۔ اس سے آگے والے دو کمروں کی دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں البتہ ان کے بعد کا کمرہ ٹھیک تھا۔ اس کا دروازہ لوہے کی موٹی موٹی سلاخوں کا تھا کنڈا بھی تقریباً دو انچ موٹا تھا جو دیوار میں گھسا ہوا تھا۔ اس دیوار میں ایک طاقچہ سا بنا ہوا تھا جہاں اس کنڈے کو بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔
سریش نامی شخص نے کلا شکوف کی نالی میری پشت سے لگا رکھی تھی۔سجاول نے قمیض کی جیب سے
ایک کی رِنگ نکالا اس میں صرف دو چابیاں تھیں۔ ایک تو عام سے سائز کی چابی تھی اور دوسری نسبتا بڑی اس نے بڑی چابی سے طاقچے میں لگا ہوا تالا کھولا اور وزنی کنڈا کھینچ لیا ۔آہنی کنڈے کی آواز سناٹے میں دور تک پھیل گئی تھی۔ دروازہ کھول کرسجاول نے اس زور سے میرے کولہوں پر لات رسید کی تھی کہ میرے منہ سے بے اختیار ہلکی سی چیخ نکل گئی اور میں لڑکھڑاتا ہوا منہ کے بل گرا۔ اگر میں فوراً ہی اپنے دونوں ہاتھ آگے نہ کر لیتا تو چہرہ فرش سے ٹکراتا اور ایک آدھ دانت ضرور اپنی جگہ چھوڑ دیتا ۔
سجاول نامی اس شخص نے بلاوجہ میری پٹائی کر کے اپنے لیے میرے دل میں نفرت پیدا کر دی تھی۔
اور میں جانتا تھا کہ مجھے اس سے پنجہ لڑانے کا موقع ضرور ملے گا جب کسی کیلئے دل میں نفرت اور کدورت ہو تو اس سے دو دو ہاتھ کرنے میں مزہ بھی آتا ہے بلاوجہ کسی پر ہاتھ اٹھانا بے مزہ کی بات تھی۔
دھڑ سے آہنی دروازہ بند ہوا پھر وزنی کنڈے کے ہلنے اور تالا لگنے کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی سجاول کی آواز بھی میری سماعت سے ٹکرائی تھی۔
اس وقت تو آرام سے سُوجا چھوکرے سویرے تم سے کچہری کریں گے۔“
آرام سے سو جانے کی بات تو اس نے ایسے کہی تھی جیسے میں اس کا وی آئی پی مہمان تھا اور بڑے آرام و احترام سے خوابگاہ میں پہنچا دیا گیا تھا جہاں نرم اور مخملی بستر میرا منتظر ہو۔
جبکہ۔۔۔ میرا بستر گرد آلود اور ناہموار فرش تھا۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی، میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے حواس بحال کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر ہاتھ پھیلا کر اپنے اطراف میں ٹٹولنے لگا۔ فرش کی اینٹیں جگہ جگہ سے ٹوٹی اور اکھڑی ہوئی تھیں اور گرد کی خاصی موٹی تہہ تھی، میں اندھوں کی طرح ٹٹولتا ہوا دیوار کے قریب پہنچ گیا پہلے میں نے سوچا کہ اٹھ کر ٹٹو لتے ہوئے پورے کمرے کا جائزہ لوں پھر یہ ارادہ ملتوی کر دیا کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیے والی کہاوت یہاں بالکل صادق آتی تھی اس کمرے کی صورتحال پتہ نہیں کیا ہو ۔
اندھیرے میں چلتے ہوئے کوئی حادثہ بھی پیش آسکتا تھا۔ میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں آگے کو پھیلا لیں اور ہونٹ ٹٹو لنے لگا۔ خون رسنا اگر چہ بند ہوگیا تھا لیکن تکلیف بدستور تھی ۔ میں اس وقت کچھ سوچنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، کم بخت سجاول نے میری پٹائی میں بڑی بے رحمی سے کام لیا تھا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

-
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –222–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –221–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –220–سمگلر قسط نمبر
March 4, 2025 -
Smuggler –219–سمگلر قسط نمبر
March 4, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
