Smuggler –148–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 148

منی لال کرشنا کرشمہ اور نرنجن میں نے یہ نام دہرائے اور کتنے آدمی ہیں اس کا ٹیج میں؟

 ایک دو اور ہوں گے زیادہ نہیں انجلی نے جواب دیا۔ منی لال یہ  بھی سمجھتا ہے کہ زیادہ بھیڑ بھاڑ اس کا راز فاش کر سکتی ہے اس لئے اس نے اپنے قریب صرف دو چار ایسے آدمی رکھے ہیں جو ضرورت کے وقت اپنی جان لڑا دیں۔

میں صحیح تعداد معلوم کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا۔

کل معلوم کر کے بتا سکوں گی۔۔۔لیکن کیسے بتاؤں گی؟  تمہارا  اس طرح آزادی سے پھرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہو گا انجلی نے کہا۔

 کل شام ٹھیک آٹھ بجے میں تمہیں اسی گیٹ اپ میں پریم نواس ریسٹورنٹ میں ملوں گا۔ میں نے اسے دیوی والے ریسٹورنٹ کا پتہ بتا دیا۔ میرے خیال میں اس کا ٹیج میں ٹیلی فون تو نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔

 کرشنا کے پاس سیلولر فون ہے میں اس کا نمبر معلوم کرلوں گی ۔ “انجلی نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا۔

ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں ۔ میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

اگر تمہارے چہرے پر یہ داڑھی مونچھیں اور گال پر مسہ نہ ہو تو تم یقینا بہت شان دار ہو گے اس نے بھی اٹھتے مسکرا کر کہا۔

مطمئن رہو وقت آنے پر میں تمہیں اپنی اصل صورت بھی دکھا دوں گا۔ میں نے بھی مسکراتے  ہوئے جواب دیا۔

ہم دونوں دوسرے کمرے میں آگئے۔ انجلی نے باہر کا دروازہ کھول کر کسی لڑکی کا نام لے کر آواز دی۔

جی ما تا رانی نیچے سے فورا ہی آواز سنائی دی اندر کوئی ہے تو نہیں ۔ مہمان جا رہا ہے ، انجلی نے کہا۔

نہیں ما تا رانی نیچے سے جواب ملا۔ میں نے انجلی کی طرف دیکھا اور پھر سیڑھیاں اتر نے لگا۔ اس اندھیری گلی سے نکل کر میں جیسے ہی سڑک پر پہنچا تین چار غنڈوں نے مجھے گھیر لیا ان میں ایک وہ بھی تھا جسے میں نے اٹھا کر پٹخ دیا تھا۔ ان کے ارادے خطرناک نظر آ رہے تھے ۔ اس وقت تو وہ  غنڈہ گرو۔ گرو کہتا ہوا بھاگ گیا تھا اور اب اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے مجھے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔

میں اس وقت لڑنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ لڑائی سے میرا کام بگڑ سکتا تھا میں نے اس غنڈے کی طرف دیکھتے ہوئے فورا ہی ہاتھ جوڑ دیئے ۔

بھائیو میں تو تم لوگوں کا مہمان ہوں آج آیا ہوں کل چلا جاؤں گا۔ ایک گھنٹہ پہلے جو بھی ہوا تھا وہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا۔ تمہیں کشٹ پہنچا ہو تو میں شما چاہتا ہوں اور میں اس کا پر اسچت کرنے کو تیار ہوں۔ میں نے آخری الفاظ اسی غنڈے کی طرف دیکھ کر کہے تھے۔ مجھے ہتھیار ڈالتے دیکھ کر وہ سب ڈھیلے پڑ گئے۔ میں نے جیب سے پانچ سو روپے کے نوٹ نکال کر اس غنڈے کے ہاتھ میں تھما دیئے۔

دھنے باد میں نے ایک بار پھر ہاتھ چوڑ دیئے اور آگے چل پڑا وہ لوگ وہیں رہ گئے تھے۔ میں تقریباً بیس گز آگے بڑھا تھا کہ ٹیجھے سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی ۔

مڑکر دیکھا تو وہ غنڈہ تھا جو میرے ہاتھوں پٹ چکا تھا میں رک گیا۔

“مجھے شما کردو گرو”۔۔۔وہ میرے قریب پہنچ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے ندامت بھرے لہجے میں بولا۔

آپ واقعی مہمان ہیں ہم سے گلتی ہوگئی۔ مہمان کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی کھدمت ہو تو ہم کو جرور بتانا اور یہ روپے واپس لے لو۔ ”

مجھے بڑی حیرت ہوئی ایک بدمعاش اس طرح

ندامت اور شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا ۔حالانکہ غنڈے اور بدمعاش قسم کے لوگ تو کسی بات پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ غلط ہونے کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں، میں سمجھ گیا کہ اس کا تعلق کسی اچھے گھرانے سے تھا اور شاید حالات نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔

مجھے خوشی ہے تم نے اپنی غلطی مان لی “ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ یہ روپے میری طرف سے دوستی کا تحفہ سمجھ کر رکھ لو ہم پھر ملیں گے مگر دوستوں کی طرح۔۔۔

“ارہ گرو۔۔۔ دوستی پر تو ہم اپنا جیون بھی دان کر دے گا۔ کبھی آزما کر دیکھ لینا۔ اس نے کہتے ہوئے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اس کا نام شکتی رام تھا۔ وہ میرے لئے کارآمد ثابت ہوسکتا تھا یہاں میرے دشمن تو لا تعداد تھے مگر میرا یار دوست کوئی نہیں تھا اور مجھے دوستوں کی ضرورت تھی۔

میں نے ایک جگہ سے کھانے پینے کی کچھ چیزیں خریدی۔۔۔ ان میں تلی ہوئی مچھلی بھی تھی اور پھر تھیلا ہاتھ میں لٹکائے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑا۔ اور بار بار ٹیجھے مڑ کر دیکھ رہا تھا کہ میرا تعاقب تو نہیں ہو رہا۔ مختلف سمتوں میں چکر کاٹتے ہوئے جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں محفوظ ہوں تو اصل راستے کی طرف مڑ گیا۔

اپنی منزل تک پہنچنے میں مجھے مزید آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ پو جا والے کاٹیج کی ساری بتیاں جل رہی تھیں جس پر مجھے حیرت بھی ہوئی پوجا کبھی بھی کاٹیچ کی تمام بتیاں نہیں جلاتی تھی۔ گیٹ کے سامنے پہنچ کر میں نے دستک دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ میرا ہاتھ خود بخود ٹیجھے ہٹ گیا میری چھٹی حس کسی گڑبڑ کا احساس دلا رہی تھی۔

میں نے گیٹ کی جھری سے اندر جھانکنے کی کوشش کی ۔ سامنے برآمد ے والا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ میں وہاں سے ہٹ کر کا ٹیج کے پہلو کی طرف آگیا اور دیوار پر چڑھ کر بڑی احتیاط سے اندر کود گیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھیلا میں نے پودوں میں رکھ دیا۔ جیب سے ریوالور نکال کر ہاتھ میں پکڑا اور محتاط انداز میں برآمدے کی طرف بڑھنے لگا۔

برآمدے میں قدم رکھتے ہی مجھے چونکنا پڑا۔ اندر سے ایک آدمی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے تمہیں پہچان لیا اور تمہارا پیچھا کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا۔ “

وہ شخص غالبا پو جا کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ اگر تمہیں پولیس یا منی لال کے آدمیوں کے حوالے کر دوں تو وہ تمہاری بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ تمہیں اس کشٹ سے بچانے کے لئے ہی کہہ رہا ہوں کہ مجھے اس آتنگ وادی کا پتہ بتا دو،  تم بھی کشٹ سے بچ جاؤگی اور میرا بھی کام ہوجائے گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ منی لال سے انعام میں ملنے والی رقم کا آدھا حصہ تمہیں دے دوں گا۔ عیش کرو گی تم بھی ۔

میں کہہ چکی ہوں کہ کسی اتنک وادی کو نہیں جانتی۔ پوجا کی آواز سنائی دی۔

تو پھر اس طرح چھپنے اور بھیس بدلنے کا کیا مطلب ہے اس آدمی نے کہا۔

منی لال کو شبہ ہے کہ میں نے کاوری کے قتل میں اس پاپی کا ساتھ دیا تھا اس لئے چھپتی پھر رہی ہوں حالانکہ میں بے گناہ ہوں جب تک اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دوں سامنے نہیں آسکتی ۔

ان باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرے بعد پوجا بھی کا ٹیج سے باہر گئی تھی اور کسی نے اسے پہچان لیا تھا اور اس کے پیچھے لگ کر یہاں تک پہنچ گیا تھا۔ میں نے یہ بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اکیلا ہی تھا۔ برآمدے والا دروازہ چند انچ کے قریب کھلا ہوا تھا۔ میں نے جھانک کر دیکھا سامنے والے دروازہ  زرہ کھلا تھا۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا میں نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے اسے پوری طرح کھول دیا اور اندر داخل ہو گیا۔

آوازیں پوجا کے بیڈ روم کی طرف سے آرہی تھیں ۔ اس کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا میں دبے قدموں آگے بڑھتا  رہا۔

سامنے ہی ایک کرسی پر پوجا بندھی ہوئی تھی اس کا لباس پھٹا ہوا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پر ایک دو خراشیں بھی نظر آرہی تھیں۔ مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ پوجا آسانی سے اس شخص کے قابو میں نہیں آئی ہوگی۔ پوجا نے مجھے دیکھ لیا تھا لیکن اس نے چہرے سے کسی تاثر کا اظہار نہیں ہونے دیا اور آدمی دروازے کی آڑ میں تھا اس لئے مجھے نظر نہیں آسکا میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور پھر چند سیکنڈ بعد وہ آدمی بھی میرے سامنے آگیا اس کی

پشت میری طرف تھی۔ میں دبے قدموں آگے بڑھا۔ میرا خیال تھا کہ قریب پہنچ کر پستول اس کی گردن سے لگا دوں گا مگر میری یہ حسرت دل میں رہ گئی وہ شخص بڑی تیزی سے مڑا اس کے پیر کی ٹھو کر میرے پستول والے ہاتھ پر لگی۔

پستول میرے ہاتھ سے نکل کر دور جاگرا میرے سنبھلنے سے پہلے ہی اس کی دوسری ٹھو کر میرے سینے پر لگی اور میں لڑکھڑاتا ہوا دیوار سے ٹکرا گیا۔

اور پھر یہ جان کر مجھے اطمینان ہوا کہ اس شخص کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں چاقو تھا جس کا بلیڈ بلب کی روشنی میں چمک رہا تھا۔۔۔ اس نے جس انداز سے چاقو پکڑ رکھا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اس کے استعمال میں بھی  ماہر تھا۔۔۔اس نے اچانک ہی حملہ کر دیا جسے میں نے ناکام بنا دیا۔

اس نے دوسرا حملہ کیا اس مرتبہ بچاؤ کی کوشش میں چاقو کی نوک میری کلائی کی کھال کاٹتی ہوئی نکل گئی۔ اس نے تیسرا  وار کیا تو میں نے جھکائی دے کر اس کی کلائی پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا۔ چاقو اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا اور پھر میں نے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں دیا اور اسے گھونسوں اور ٹھوکروں پر رکھ لیا ایک موقع پر اس نے مجھے گرفت میں لینے کی کوشش کی تھی لیکن خود اس کی گردن میری گرفت میں آگئی ۔

میں اس کی گردن کو زور دار جھٹکے دیتا رہا اور وہ بری طرح چیخ رہا تھا اور آخر کار ایک اور زور دار جھٹکے سے کڑک کی آواز ابھری اور وہ میرے ہاتھوں میں مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔

میں نے اسے فرش پر پھینک دیا وہ کچھ دیر تڑپا اور پھر بے حس و حرکت ہو گیا۔ میں چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر پوجا کی رسی کھول دی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر اپنی کلائیاں سہلانے لگی۔

تم با ہر گئی تھیں؟ میں نے پوجا کی طرف دیکھا۔

تمہارے پیچھے گئی تھی۔ پوجانے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔اتفاق سے میں نے اسے اپنےپیچھے دیکھ لیا اور واپس آگئی لیکن یہ کم بخت بھی میرے پیچھے یہاں تک پہنچ گیا اس نے اچانک ہی اندر گھس کر مجھے دبوچ لیا۔

 اچھا ہوا میں بروقت پہنچ گیا،  ورنہ یہ تمہیں مار ڈالتا ویسے یہ ہے کون؟ ” میں نے لاش کی طرف دیکھا۔

اس گروہ کا کوئی بد معاش پوجا نے جواب دیا۔ اور پھر ہم سوچنے لگے کہ لاش کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔

باہر کہیں پھینکنا مناسب نہیں تھا کیونکہ اسے کندھے پر لاد کر زیادہ دور نہیں لے جایا جا سکتا تھا اور پھر یہی طے ہوا کہ عقبی لان میں گڑھا کھود کر لاش کو دبا دیا جائے رات کو میں نے پوجا کو انجلی سے ملاقات کی تفصیل بھی بتا دی تھی اور جب میں نے بتایا کہ آج شام آٹھ بجے مجھے اس ریسٹورنٹ میں انجلی سے ملاقات کرنی ہے تو پوجا بھی میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی۔

دو سال پہلے جب کرشنا سے انجلی کا جھگڑا ہوا تھا تو انہی دنوں اس سے میری آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ پوجا نے کہا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ لاپتہ رہی۔ آج میں بھی اس سے مل لوں گی ۔

باہر نکلنے کے لئے ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ بھیس بدلنے کا تھا۔ مجھے تو خیر کل والے گیٹ اپ میں ہی جانا تھا۔۔۔لیکن پوجا کے سلسلے میں پریشانی تھی۔ جو شخص کل میرے ہاتھوں مارا گیا تھا  وہ منی لال کے گروہ کا تھا اس نے پوجا کو پہچان لیا تھا اور اپنے بڑوں کا اطلاع دینے کی بجائے اپنے اکیلے ہی پوجا کو قابو کرنے کی کوشش کی تھی تا کہ میرا پتہ معلوم کر کے پانچ لاکھ روپے کا انعام حاصل کرسکے اور یہ لالچ ہی اس کی موت کا باعث بن گیا تھا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page