Smuggler –156–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 156

میں کچھ دیر کھڑا ادھر ادھردیکھتا رہا اور پھر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ دیوی کی واپسی تقریبا پندرہ منٹ بعد ہوئی تھی۔

اسے دیکھتے ہی میرا دل اچھل کر خلق میں آگیا سانس کی رفتار ایک دم تیز ہوگئی اور سنسنی کی لہریں پورے جسم میں پھیلتی چلی گئیں۔

دیوی بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئی کہ میرے رہے سہے ہوش بھی اڑ گئے ۔”

آج میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ وہ توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے بولی ۔ ریسٹورنٹ سے نکلی تو دل چاہ رہا تھا کہ گھر جاتے ہی بستر پر گر کر سو جاؤں گی۔ مگر تمہارے منہ سے پنجابی سنی تو تمہیں انکار نہ کر سکی۔ گھر سے دور کسی کو اپنی زبان بولتے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ پنجاب میں کہاں کے رہنے والے ہو؟

میں قصور کا رہنا والا ہوں دیوی جی۔ میں نے جواب دیا۔تم بھول گئی ہو ۔ ہم چند روز پہلے مل چکے ہیں ۔ میں نے کہا۔

کیااا ؟ اس نے میرے چہرے پر نظریں جما دیں۔ شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ کئی روز پہلے مجھ ایک پنجابی نوجوان ملا تھا جو مجھے ہل لاک ہوٹل لے گیا تھا اور وہاں۔۔۔ وہ کہتے کہتے کے رک گئی۔ اس کی آنکھوں میں وحشت سی ابھر آئی تھی۔

“تت .. تم … وہی تو نہیں ۔

بالکل وہی ہوں ۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ مگر ڈرنے کی ضرورت نہیں اس کے بعد بھی میں کئی مرتبہ ریسٹورنٹ میں آچکا ہوں۔ پرسوں رات بھی آیا تھا میرے ساتھ ایک خوبصورت عورت تھی۔ تم نےہمیں چائے سرو کی تھی ۔ اس دوران ایک اور خوبصورت عورت بھی وہاں آگئی تھی ۔“

کرشمہ۔۔ ۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔

ہاں۔ میرے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ لیکن تمہیں مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔

میرا دماغ گھوم رہا ہے۔ اس نے ٹانگیں سمیٹ کر سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ ” اس رات  تم ہوٹل کے مالک شوشانت پنڈت کو قتل اور منی لال کو گھائل کر کے بھاگے تھے۔ تم تو فرار ہو گئے تھے اور منی لال کے آدمیوں نے ہوٹل میں قیامت مچادی تھی۔ میں اس رات بال بال بچی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی ۔ چند لمحوں بعد اس نے سرسے ہاتھ ہٹائے اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ گڑ بڑ کا احساس ہوتے ہی میں کچن والے دروازے سے باہر نکل گئی تھی ۔ اگر چند منٹ وہاں رکتی تو مجھے مار دیا جاتا انہیں اس عورت کی تلاش تھی جس کے ساتھ تم ہوٹل میں داخل ہوئے تھے۔ میں بڑی مشکل سے چھپتی چھپاتی یہاں تک پہنچی تھی اور پھر دو دن تک گھر سے باہر نہیں نکلی۔ میں جانتی تھی کہ اگر پہچان لی گئی تو زندہ نہیں بچوں گی ۔ اُس وقت تو بچ گئی تھی مگر اب تم پھر آگئے ہو۔ اگر ان لوگوں کو شبہ بھی ہوگیا تو تمہارے ساتھ  میرے بھی  شریر کے ٹکڑے کردیں گے۔

پریشان کیوں ہوتی ہو دیوی میں نے کہا۔ ” منی لال کے آدمی پچھلے تین مہینوں سے میری تلاش میں ہیں اور آج تک میرا سراغ نہیں لگا سکے حالانکہ میں آزادی سے گھوم پھر رہا ہوں۔ اول تو کسی نے مجھے تمہارے ساتھ آئے ہوئے نہیں دیکھا اور بالفرض کسی نے دیکھ بھی لیا ہوگا تو وہ نہیں سمجھ سکے گا کہ میں کون ہوں۔

تم کہتے ہو وہ لوگ تمہیں نہیں پہچانتے لیکن کل کرشمہ بھی تمہارے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ وہ منی لال کی رکھیل ہے اور بڑی خطرناک عورت ہے۔ کیا وہ تمہارے بارے میں منی لال کو نہیں بتا دے گی؟

اس کے بتا دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں نے جواب دیا ۔” کل میں نے جا کر اپنے آپ کو اس پر ظاہر کیا تھا۔ دراصل اس کے ذریعے میں ایک پیغام منی لال تک پہنچانا چاہتا تھا۔ میں نے جان بوجھ میں نے کرشمہ  کی ملاقات کے سلسلے میں تھوڑا سا جھوٹ بولا۔ پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا ۔

تم عرصہ سےیہاں رہ رہی ہو۔ منی لال کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہو۔ وہ انسان نہیں شیطان ہے۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کا قاتل۔۔۔ کیا ایسے شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے؟ میں ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔

میں نےدیوی پر بھی وہی ہتھکنڈا استعمال کیا جو شکتی پر بھی کامیابی سے آزما چکا تھا اور پھر قریبا ایک گھنٹے بعد میں دیوی کو بھی قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ منی لال  جیسے شخص کو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا تو وجود ہی مٹا دینا چاہئے۔

دیوی کی باتوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے کیمپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی کیمپ کی تباہی کے بعد عام شہریوں کی طرح اسے بھی صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ وہ بھارتی سیناؤں کی تربیت کا کیمپ تھا جسے ایک پاکستانی اتنگ وادی نے تباہ کر دیا تھا اور مزید خوف و ہراس پھیلانے کے لئے اس دہشت گرد نے ایک مندر کو بھی آگ لگا دی تھی جس میں سینکڑوں بے گناہ جل کر راکھ ہوگئے تھے۔

ایسا نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ بھارتی سیناؤں کی ٹریننگ کا نہیں ان دہشت گردوں کی ٹرینگ کا کیمپ تھا جن کے ذریعے پاکستان میں تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ ہزاروں بیگناہوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور تمہیں میری بات کا شاید یقین نہ آئے لیکن سچ یہ ہے کہ منی لال دہشت گردی کے اس کیمپ کا  انچارج ہے۔ اس نے دہشت گردی کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے ہیں کہ شیطان بھی کانپ کر رہ جائے ۔ بڑے بڑے سرکاری آفیسر منسٹر یہاں تک کہ راجستھان کا چیف منسٹر بھی اس کے دباؤ میں ہے۔ وہ سب اس سے خوفزدہ ہیں۔ منی لال  نے اپنے گرد طاقت کا ایک بہت مضبوط حصار قائم کر لیا تھا۔ اپنی اس طاقت اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ان اعلیٰ سرکاری افسروں کو بھی قتل کروا دیا جنہیں اس کی پالیسیوں سے اختلاف تھا لیکن اب اس کی طاقت کا یہ حصار ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے اس میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ میں چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری  رکھتے ہوئے بولا۔

اس میں شبہ نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے بیچ شروع سے اختلاف رہے ہیں اور یہیں اختلاف تین بڑی جنگوں کا باعث بن چکے ہیں لیکن ان جنگوں میں نقصان کس کا ہوا ؟ عوام کا۔۔۔ کیسی نیتا کے خاندان کا کوئی فرد کسی جنگ میں نہیں مارا گیا۔ یہ وہی حکمران ہیں جو شروع سے اب تک ہم تم پر حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔ کیا تم نےکبھی سنا ہے کہ نہرو خاندان کا کوئی فرد محاذ جنگ پر مارا گیا ہو  یا گھائل ہوا ہو نا درا شاستری، مرار جی ڈیسائی گجرال  واجپائی یا کسی بھی حکمران کا نام لے کر بتا دو کہ ان میں سے کسی کے بچے انتھ ہوئے ہوں نہیں دیوی۔ قربانی کا بکرا تو عوام کو بنایا جاتا ہے۔ توپوں کے گولے ہم پر برستے ہیں۔  گھر ہمارے اجڑتے ہیں۔ عورتیں ہماری بیوہ اور بچے ہمارے یتیم ہوتے ہیں۔ ان بدمعاشوں کے گھروں میں تو اس وقت بھی رقص وسرور کی محفلیں ہی ہوتی ہیں جب عوام جنگ کا عذاب سہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور یہ کیسی سیاست ہے کہ اپنے قدم جمائے رکھنے کے لئے دوسرے ملکوں کے بے گناہ شہریوں پر گولیاں برسائی جائیں ۔ اگر تمہارے شہروں میں سڑکوں پر چلتے پھرتے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اچانک گولیوں سے بھون دیا جائے،  روزانہ ہر گلی سے دس دس ارتھیاں اٹھنے لگیں، موت کے خوف سے بارونق گلیاں اور بازار اجڑ جائیں  تو تم کیا سو چوگی؟ نہیں  دیوی۔ یہ سیاست نہیں ۔ یہ لوگ سیاست دان نہیں  ہیں۔۔۔ یہ تو وہ جنونی ہیں جو ہر قیمت پراپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی مسند اقتدار کے نیچے کتنے بے  گناہوں کی لاشیں بچھی ہوئی ہیں ۔ میں ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔

دیوی خاموش بیٹھی تھی میری صورت دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے کے تاثرات ہر لمحہ بدل رہے تھے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

میں پاکستان کا ایجنٹ جاسوس یا  دہشت گرد نہیں ہوں۔ مجھے بھی پاکستان سے اغوا کر کے یہاں لایا جارہا تھا تاکہ میری برین واشنگ کرکے دہشت گردی کی تربیت دے کر مجھے انسانی بم بنا دیا جائے اور میں پاکستان واپس جا کر اپنے ہی لوگوں پر موت برسانے لگوں۔

یہ کرشمہ  ہی مجھے لے کر آئی تھی لیکن میں ان کے چنگل سے بھاگ نکلا  اور اگر میں ان لوگوں کو بچانے کیلے ان جنونیوں کے خلاف محاز آرا ہوگیا ہوں تو میں نے کیا غلط کیا ہے۔ اپنے دفاع کا حق سب کو ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم سے ہو۔ میں جا نتا  ہوں کہ صرف چند جنونیوں کو ختم کر کے امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کچھ عرصہ کیلئے ہی سہی ان کے قدم رو کے جاسکتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ۔ میری جگہ اگرتم ہوتیں تو کیا یہ کچھ نہ کرتیں؟ بلکہ تم تو خود اس قسم کی صورتحال کا شکار ہو۔ تمہارا تعلق یقینا ایک شریف گھرانے سے ہے مگر تمہاری زندگی برباد کر دی گئی۔ وہ کوئی بھی تھا کیا ان لوگوں سے الگ ہو سکتا ہے؟  نہیں، یہ سب ایک ہیں۔ ان کا طریقہ واردات مختلف ہے۔

منی لال اور اس کے آدمی لوگوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں اور تمہارے ساتھ زیادتی کرنے والے نے تمہاری معاشرتی زندگی کی ہتیا کردی۔۔۔ تمہاری مرضی اور ارادے کا کوئی دخل نہیں۔ تمہیں اس مقام تک پہنچایا گیا ہے جہاں تم خود اپنی نظروں سے بھی گر گئی ہو۔ کیا تمہارے سینے میں اپنی اس بر بادی کے انتقام کی آگ نہیں بھڑک رہی ۔ کیا تم خاموش رہو گی اور ساری زندگی طوائف بنی رہو گی؟ نہیں  دیوی نہیں، تم ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔ تم یقینا با عزت زندگی گزارنا چاہتی ہو۔ دوسروں کے سامنے سر جھکا کر نہیں سر اٹھا کر چلنا چاہتی ہو۔۔۔ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چلنا چاہتی ہو میں غلط تو نہیں کہہ رہا  دیوی؟

میں کرسی سے اٹھ کر اس کے قریب پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گیا۔ دیوی چند لمحے میری طرف دیکھتی رہی پھر اس نے آگے جھک کر اپنا سر میرے کندھے پر ٹکا دیا۔

میں اپنی بر بادی کو کبھی نہیں بھولی۔ وہ سسکی سی بھرتے ہوئے بولی۔ لیکن میں ایک کمزور اور مجبور عورت کیا کر سکتی تھی۔ ہمارے معاشرے میں تو عورت کیلئے جو ان اور حسین ہونا اس کیلئے زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن جاتا ہے۔ اگر وہ اکیلی اور بےسہارا بھی ہوتو بھیڑیئے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اپنے باس سے دھوکا کھانے کے بعد شاید میں سنبھل جاتی مگر میں خونخوار بھیڑیوں کے حصار میں پھنس گئی تھی۔ وہ میرے ہمدرد اور محافظ بن کر میری بوٹیاں نوچتے رہے اور میں کچھ نہ کر سکی۔ میں اب بھی اپنا انتقام لینا چاہتی ہوں مگر کس سے لوں؟ دیوی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے“

جس نے تمہیں اس راستے پر دھکیلا تھا ۔ میں نے جواب دیا ۔ اسے تو احساس بھی نہیں ہو گا کہ وہ تمہارے ساتھ کیا کر چکا ہے۔ وہ تو اب بھی عیش کر رہا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری طرح کئی اور لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر چکا ہو۔

کاش! میری یہ آشا پوری ہوسکتی۔۔۔ میں نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

دیوی کچھ اور آگے سرک گئی۔ اب ہماری گفتگو کا موضوع بھی بدل گیا تھا اس نے میری قمیض کے بٹن کھول دیئے اور میرے بالوں بھرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

میری کیفیت ایسی تھی جیسے کسی تالاب میں پانی کی پرسکون سطح پر کنکر پھینک دیا گیا ہو۔ ہیجان خیز لہریں میرے اندر چاروں طرف پھیلنے لگیں۔ دیوی کے سانسوں کی گرمی نے میرے اندر آگ سی بھڑ کا دی اور یہ آگ اس طرح پھیلی کہ میرے لئے اس پر قابو پانا اب مشکل ہو گیا اور میں شعلوں میں گھرا ہوا اس الاؤ میں جلتا  رہا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page