Smuggler –199–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 199

میں نے کونال کا ہاتھ پکڑا اور ایک بار پھر دوڑ لگا دی۔ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ وہ چھوکر یا اکیلی نہیں تھی اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا جو مسلح تھا۔ اب وہ پہلے کی طرح بے دھڑک ہو کر ہمارے پیچھے نہیں آسکیں گے۔ یہ گویا ہمارے لیے مہلت تھی اور میں اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ دور نکل جانا چاہتا تھا۔ ٹیلوں پر اتر تے چڑھتے ہوئے کونال ایک بار پھر لڑ کھڑانے لگی اس کی وجہ سے مجھے چند سیکنڈ کے

لیے رکنا پڑا۔ اب ہمارے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ آوازیں اس طرف سے آرہی تھیں جہاں اس پولیس والے کو گولی لگی تھی۔ اس کے دوسرے ساتھی محتاط ہو گئے تھے۔ یوں بھی وہ پولیس والے تھے اور جب کسی ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو پولیس والے ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں۔ اپنی زندگی داؤ پر کوئی نہیں لگاتا۔ ان کے اسی طرح محتاط ہو جانے سے ہمیں وہاں سے دور نکلنے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ ابھی تک ہم لوگ خطرے کی حدود سے نہیں نکلے تھے لیکن میرے خیال میں اب ہمیں اس طرح بھاگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کونال کی وجہ سے چند سیکنڈ ر کنا پڑا اور پھر ہم تیز تیز چلنے لگے میں نے اب بھی کونال کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ آخر کار ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں نشیب میں شہر کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ میں ان روشنیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اندازہ لگانے لگا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور آخر کار ہوٹل بلٹن کا نیون سائن دیکھ کر میں کچھ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوگیا۔

شکتی جب ہمیں لے کر روانہ ہوا تھا تو امید بھون تک پہنچنے کے لیے ہمیں شہر کے بعض بارونق علاقوں میں سے گزرنا پڑا تھا جبکہ دیوان منورتھ سنگھ کے بنگلے پر حملے اور بھانوکے پکڑے جانے کے بعد شہر میں جگہ جگہ چیکنگ شروع ہو گئی تھی۔ دیوان منورتھ سنگھ غالباً بہت زیادہ بااثر آدمی تھا اس کے فون کرتے ہی پولیس کی پوری مشینری حرکت میں آگئی تھی۔ جس کے نتیجے میں بھانو  پکڑا گیا تھا اور بھی بہت سے بے گناہ گرفت میں آئے ہوں گے۔

شکتی بھی ہمیں لینے کے بعد شہر کی طرف سے اس لیے نہیں نکلا تھا کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں وہ کار کو شہر کے نواح میں پہاڑیوں کے بیج اس سڑک پر لے آیا تھا جو آگے جا کر احمد آباد کی طرف جانے والی سڑک سے جاملتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے وہ موڑ تھا یہاں سے ایک سڑک امید بھون کی طرف جاتی تھی ۔ شکتی اس طرف سے جانا چاہتا تھا لیکن اس موڑ پر پولیس پارٹی کھڑی تھی ۔ شکستی نے عقلمندی کی تھی کہ کار کی رفتار ہلکی کر کے ہمیں اترنے کا موقع دے دیا تھا اور خود سیدھا پولیس کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ وہاں ایک گولی چلی تھی اور کسی کے چیخنےکی آواز سنائی دی تھی ۔ یہ اندازہ لگانا دشوار تھا کہ گولی کس نے چلائی تھی اور چیخا کون تھا بہر حال یہ طے شدہ بات تھی کہ اگر وہ زندہ پولس کے ہاتھ آیا تھا تو بھی اس کا نکلنا یا اسے بچانا بہت مشکل تھا۔

میرا ہاتھ چھوڑ دو۔ میں بھاگ نہیں جاؤگی۔

کونال کی آواز سن کر میرے خیال منتشر ہوگئے۔ کونال کے منہ سے پہلی بار آواز نکلی تھی اور وہ نارمل لگ رہی تھی۔ اب اس کی سانس بھی معمول کے مطابق تھی ۔

بھاگ تو نہیں جاؤ گی لیکن کہیں گر پڑوگی تمہیں لڑکھڑانے کی عادت پڑ گئی ہے۔“ میں نے اس کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔

تم جو ہو میرے ساتھ مجھے سنبھالنے والے ۔‘ اس نے جواب دیا۔

تو پھر اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہنے دو۔ میں نے کہا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔ ہلٹن ہوٹل کا نیون سائن نظر آ رہا ہے ہمیں اس ہوٹل کے دوسری طرف جانا ہے وہاں سے میں راستے کا صحیح تعین کر سکوں گا۔

میں نہیں سمجھ سکی تم پورا شہر پار کر کے کہاں جانا چاہتے ہو جبکہ دیوی کا مکان یہاں سے زیادہ قریب ہے۔ کونال نے کہا۔

اب ہم اس مکان کا رح نہیں کرسکتے ۔ میں نے کہا۔ ” پہلی بات تو یہ کہ اس کی چابیوں کا رنگ بھاگ دوڑ میں کہیں گر گیا ہے۔ اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ شکتی پولیس کی حراست میں ہے وہ پولیس کو اس مکان کے بارے میں بتا دے اس لیے وہاں جانا اب خطرے سے خالی نہیں ہے۔

شکستی بہت مضبوط ہے وہ جان دے دے گا مگر زبان نہیں کھولے گا ۔کونال نے کہا۔

”بالکل یہی الفاظ شکتی نے بھانو کے بارے میں کہے تھے۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن اس نے زبان کھول دی ۔جس کی وجہ سے ہمیں اس کھولی سے بھاگنا پڑا۔ نہیں کونال میں کوئی رسک لینے کو تیار نہیں ہوں۔

” میرے اندر چلنے کی سکت نہیں رہی لیکن ہم رات یہاں نہیں گزار سکتے ۔ چلو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کونال نے کہا۔

ہم ٹیلوں سے اتر کر نشیب میں چلنے لگے۔ تقریباً نصف میل آگے آبادی شروع ہو گئی۔ ہم محتاط انداز میں اندھیری سڑکوں پر چلتے رہے۔ آدھی رات بیت چکی تھی اس علاقے کی سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ یہاں رہتے ہوئے میں راستوں سے پوری طرح واقف ہو چکا تھا۔ ہلٹن ہوٹل سے بہت دور میں نے راستہ بدل دیا اب ہمارا رخ کرشن بھون کی طرف تھا۔ پنڈت روہن کا بنگلہ اسی علاقے میں تھا۔ اس وقت ہم کشادہ سڑک کو پار کر رہے تھے۔ بائیں طرف سے آنے والی ایک کار قریب سے گزری تو ہم پوری طرح روشنی میں نہائے میں نے  کونال کے کان میں سرگوشی کی اور اس طرح لڑکھڑا کر چلنےلگا  جیسے شراب کے نشے میں دھت ہوں ۔کونال نے مجھے سنبھال رکھا تھا۔ وہ کار ہمارے قریب سے گزر گئی چند گز آگے جا کر رکی اور پھر ریورس گیئر میں پیچھے آتی ہوئی ہمارے قریب رک گئی۔ کار میں ایک ہی آدمی تھا جو اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کھڑکی سے گردن نکال کر کونال کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

” کس شرابی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو، آؤ کار میں بیٹھو میں تمہیں پہنچا دوں گا۔”

یہ میرا پتی ہے جیادہ چڑھا گیا ہے۔ کونال نے جواب دیا۔

اسے کہیں سڑک پر ڈال دو،  ہوش آئے گا تو خود ہی گھر پہنچ جائے گا تم کار میں آ جاؤ  سندری

اس شخص نے کہا۔

اور سندری نے بڑی تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا منہ نوچ لیا ساتھ ہی اس کے منہ سے گندی گالیاں نکلنے لگیں۔ وہ شخص بدحواس ہو گیا اور پھر اسے بھاگنے ہی میں خیریت نظر آئی تھی۔ بھاگ گیا۔ سالا حرامی ۔ کونال مخصوص انداز میں بڑبڑائی۔

کار کافی دور جا چکی تھی ہم تیزی سے سڑک پار کرکے دوسری طرف پہنچ گئے اور پھر بنگلے تک پہنچےمیں ہمیں مزید ایک گھنٹہ لگ گیا تھا۔

راستے میں ہم شکتی کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔ کونال بار بار شکتی کے بارے میں اس یقین کا اظہار کر رہی تھی کہ وہ اپنی زبان نہیں کھولے گا ۔

تم شکتی کو کب سے جانتی ہو؟” میں نے پوچھا۔

ہماری دوستی زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن میں نے اسے سمجھنے میں غلطی نہیں کی۔کونال نے جواب دیا۔ ” میں چہرے ہی سے کسی کے بارے میں بہت کچھ جان لیتی ہوں اور میرے اندازے کبھی غلط نہیں ہوتے۔

میرے بارے میں تمہارا کیا اندازہ ہے؟ میں نے پوچھا۔

تم تو دنیا میں سب سے نرالے ہو۔ کونال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ہر شخص میں کہیں نہ کہیں کوئی لچک ہوتی ہے لیکن تم بے لوچ ہو ۔ عورت تمہاری سب سے بڑی کمزوری ہے اور عورت وہ ہستی ہے جو کسی بھی مرد کو ناک سے لکیریں نکلوانے پر مجبور کر سکتی ہے مگر تم ان مردوں سے مختلف ہو۔ عورت کو اپنی کمزوری بنا لینے کے باوجود تم نے اسے اپنی مجبوری نہیں بنایا کیونکہ تمہیں عورت کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں وہ خود تمہارے پیچھے آتی ہے۔ تمہارے اندر کوئی ایسی پر اسرار کشش ہے کہ کوئی بھی عورت پہلی ہی ملاقات میں تمہارے بارے میں وہ سب کچھ سوچنے لگتی ہے جو ایک جوان صورت کو سوچنا چاہئے اور تم اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہو۔ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ تم سے ملاقات کے بعد کوئی عورت اپنا دامن نہیں بچا سکی ہوگی۔“

میں دل ہی دل میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ کونال  کا تجزیہ بالکل درست تھا۔ اس نے عورت کے حوالے سے مجھے سمجھنے میں غلطی نہیں کی تھی۔ یہ حقیقت بھی تھی کہ میرے قریب آنے والی کوئی عورت اپنا دامن نہیں بچا سکی تھی۔

اور کیا جانتی ہو میرے بارے میں؟“ میں نے پوچھا۔

تم اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے انتہا تک جاسکتے ہو اور تمہیں اس بات کی پروا بھی نہیں ہوتی کہ تمہیں اپنی کامیابی کے لیے کتنے آدمیوں کی قربانی دینی پڑتی ہے اور تم دوسروں سے کام لینا بھی خوب جانتے ہو۔ کونال نے جواب دیا۔ میرے بارے میں کونال کا یہ تجزیہ بھی بالکل درست تھا۔ اس سے میری اگر چہ زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئی تھیں، لیکن اس نے میرے اندر تک جھانک لیا تھا۔ تاہم کونال ابھی تک یہ نہیں جانتی تھی کہ میں یہ لڑائی کیوں لڑ رہا ہوں اور میرا اصل مقصد کیا تھا۔ شکتی نے اسے یہی بتایا تھا کہ ہم  منی لال کے خلاف لڑ رہے ہیں  اور منی لال کے بارے میں سب ہی لوگ جانتے تھے کہ اسے موت کے گھاٹ اتارنا  عین کار ثواب ہے۔

ہم باتیں کرتے ہوئے روہن والے بنگلے کے گیٹ پر پہنچ گئے تھے میں نے انٹر کام والا بٹن دبا دیا ،اس وقت ایک بجنے والا تھا۔ دیوی کو معلوم تھا کہ میں اس کے مکان کی چابی لے گیا ہوں ہوسکتا ہے وہ یہی سمجھی ہو کہ میں وہاں چلا گیا ہوں گا اور اس وقت وہ دونوں سو رہی ہوں گی مگر جب دوسری مرتبہ بٹن دبایا توفائی ڈیوائس کے ننھے سپیکر پر اروی کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ میری آواز سن کر وہ مطمئن ہو گئی۔ اس کا اطمینان اس طرح بھی ہو گیا ہو گا کہ اس نے اندر انٹر کام کے قریب لگی ہوئی ایک چھوٹی سی سکرین پر میری صورت بھی دیکھ لی ہوگی۔ روہن نے بنگلے کی حفاظت کا عمدہ انتظام کر رکھا تھا۔ گیٹ کے تین فٹ باہر کی طرف فرش باقی حصے سے بالکل مختلف تھا۔ تین فٹ کا اس حصے پر کسی بھی جگہ قدم رکھتے ہی گیٹ پر نصب خفیہ کیمرہ آن ہو جاتا تھا اور اندر انٹر کام کے قریب سکرین پر اور روہن کے کنٹرول روم میں ٹی وی پر گیٹ کے آس پاس کا منظر ابھر آتا تھا۔ کلک کی ہلکی سی آواز ابھری اور گیٹ کھل گیا۔ میں کونال کے ساتھ اندر داخل ہو گیا اور چند گز آگےبڑھ کر  کونال نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گیٹ بند ہو چکا تھا۔

یہ کون سی جگہ ہے ؟ ” کونال نے پوچھا۔

ابھی کچھ دیر پہلے تم نے کہا تھا کہ میں لوگوں کو مسخر کر لینے کی قوت رکھتا ہوں ۔ ” میں نے مسکراتےہوئے جواب دیا ۔ یہ بنگلہ بھی ایک ایسے ہی آدمی کا ہے جسے میں اپنی اس پر اسرار قوت سے مسخر کر چکا ہوں۔پنڈت روہن نام ہے اس کا ۔

” اوہ”  کونال  کے منہ سے گہرا سانس نکل گیا۔

ظاہر ہے یہ نام اس کے لیے اجننی نہیں تھا۔ شکتی کے ساتھ رہتے ہوئے وہ روہن کے بارے میں بھی بہت کچھ جان چکی تھی ۔

“برآمدے والا دروازہ ہمیں کھلا ہوا ملا۔ اندر کی طرف اروی کھڑی تھی اس نے سکرین پر گیٹ کےسامنے کونال کو میرے ساتھ دیکھا ہوگا اور اب اسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں الجھن سی تیر گئی تھی۔

اروی نے کونال کا نام تو ضرور سنا تھا مگر اس سے ملاقات پہلی بار ہو رہی تھی ۔

یہ کونال ہے۔” میں نے تعارف کرایا تو اروی مسکرا دی تھی ۔ دیوی کہاں ہے؟ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page