جادوں کا چراغ رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان سہتا رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔
-
Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –225–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025
قسط نمبر 06
میں چپ چاپ شیرے کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔۔۔ لیکن تھوڑے ہی اگے جا کر میرے لنڈ اور میرے ارمانو دونوں پر پانی پھر گیا۔۔۔۔ کیونکہ ہم شیر کے گھر کی طرف نہیں بلکہ اس کے اڈے کی طرف جا رہے تھے اور میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔۔۔ سفر کے دوران ہمارے بیچ کوئی بات نہ ہوئی ۔۔۔
ہم اس کے اڈے پہنچے تو معمول کے مطابق وہاں پر کافی رش تھا ۔۔۔شیر کے ادمی اپنے کام میں لگے ہوئے تھے ۔۔۔کوئی کچھ تو کوئی کچھ کر رہا تھا ۔۔شیرا مجھے ساتھ لیتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گیا اور کمرے میں کرسی پر بیٹھ کر وہ مجھ سے پہلی دفعہ مخاطب ہوا
شیرا ۔: مالک میں اپ کا نوکر ہوں مجھ پر رحم کریں تھوڑا ۔۔
میں نے شیر کی بات کو بالکل نظر انداز کیا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے ایک ٹانگ پر ٹانگچڑھا کر شیر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
میں : مجھے بھوک لگی ہے میرے کھانے کا انتظام کرو جلدی یہ فالتو کی بک بک بعد میں کر لینا ۔۔
میری بات سن کر شیر نے میری طرف دیکھا اور فٹافٹ اپنی کرسی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ واپس ایا تو دوبارہ بات شروع کرنا چاہی لیکن میں نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا اور کہا
میں ۔ : جو بھی بات ہوگی وہ کھانے کے بعد ہوگی اس سے پہلے مجھے ڈسٹرب نہ کرنا
شیرا میری بات سن کر ایک طرف بیٹھ گیا اور کھانے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔کوئی 20 سے 25 منٹ کے وقفے کے دوران ہمارے بیچ کوئی بات نہ ہوئی اور پھر اچانک سے دروازہ کھٹکا اور شیرے کے دو ادمی کھانے سے بھرا ہوا تھال لے کر ٹیبل کے پاس آئے اور ٹیبلپے سارا کھانا سجانے لگے ۔۔۔کھانا سج جانے کے بعد شیرے نے مجھ سے کہا
شیرا ۔ : مالک کھانا کھا لیجیے
میں بغیر کسی بات کا جواب دے کر کھانے کی طرف پڑھا اور کھانے کے ساتھ اچھے سے انصاف کرنے لگا ۔۔پیٹ بھر کے کھانا کھایا جب میں کھانا کھا چکا تو میں نے شیرے سے کہا کہ” ہم اس بارے میں پھر کبھی بات کریں گے فی الحال مجھے گھر چھوڑ کر اؤ اور کوئی اور نہیں تم ہی مجھے گھر چھوڑ کر اؤ گے “
شیرا کسی غلام کی طرح میری بات کو رد نہ کرتے ہوئے فورا اٹھا اور موٹرسائیکل سٹارٹ کر کے مجھے ساتھ لے کر میرے گھر چھوڑ دیا میں گھر میں داخل ہوا تو گھر میں خاموشی تھی تقریبا سبھی ہی لوگ سو چکے تھے لیکن میری دونوں چھوٹی بہنیں جاگ رہی تھی جو اپس میں اپنی بڑی بہن انم کی طبیعت کو لے کر پریشان تھیں جس کا جسم ابھی تک بھی بخار میں تپ رہا تھا اج کیونکہ سارا دن میں بہت ذہنی ازمائش سے گزرا تھا یہی سوچتے ہوئے کہ کس طرح پیسے کمائے جائیں کہ دنیا کو شک بھی نہ ہو اور میں کمی ادمی بھی بن سکوں اس لیے میں سب شہوت کو ترک کیا اور سونے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے میں نے اپنے روزمرہ کے کام ختم کیے تو میں چاچا دینوں کہ چائے کے ٹھیلے پر چلا گیا
جیسے ہی میں ٹھیلے پہ پہنچا تو چاچا دنوں نے مجھے اواز دی
چاچا دینو ۔ اچھا ہوا شانی پتر تو خود ہی اگیا کیونکہ نہیں اتا تو میں ابھی تیری طرف کسی بچے کو بھیج کر بلوانے ہی والا تھا
میں چاچا کی بات سن کر حیران ہوا کہ مجھ جیسے ناکارا ادمی کے ساتھ بھی کسی کو کام پیش ا سکتا ہے میں نے چاچا سے پوچھا
میں ۔ حکم کریں چاچا کیسے یاد کیا اپ نے
دنوں چاچا ۔ ارے پتر کل تو نے خود ہی تو کہا تھا کہ میرے لیے کوئی کام ڈھونڈو اور شفیق چاچا سے بات کرو تو پتر میں نے تیرا کام کر دیا ہے
میں بے حد خوش ہوا اور میں نے چاچا سے پوچھا
میں ۔ چاچا تو میں کب سے ان کے گھر جا سکتا ہوں
چاچا دینو ۔ پتر ایسا کر کہ چائے پی اور جا چلا جا ان کو کسی ملازم کی جلدی ہے ۔۔
میں نے چاچا کی بات سنی اور خوشی میں جلدی جلدی اپنی چائے ختم کی اور سیدھا شفیق چاچا کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا
جب میں ان کے گھر پہنچا تو میں نے وہاں پہ ایک عجیب سی بوس ہوں گی یہ بو تھوڑی سی مختلف تھی ایسی بو جیسی کسی مردار گوشت کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے میرے سارے احساسات ایک دم سے جاگ اٹھے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہاں پہ کوئی نہ کوئی تو گڑبڑ ہے
میں اپنے سارے وسوسوں کو ترک کرتا ہوے شفیق چاچے کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور کچھ ہی دیر بعد دروازہ کھلا اور انہوں نے مجھے اندر انے کے لیے کہا اور مجھے سیدھا شفیق چاچے کے کمرے میں لے گئے یہ ایک نوکر تھا جس نے میری یہاں تک رہنمائی کی تھی
میں جب شفیق چاچا کے کمرے میں پہنچا تو وہ بہت ہی کمزور حالت میں اپنے بستر سے کہنی کے بل ہو کر اپنے سائڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے میں فورا اگے بڑھا اور ان کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا اور انہیں بستر پر بٹھایا اور پانی کا گلاس لے کر انہیں پانی پلایا تو وہ مجھے انجانی نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے
شفیق چاچا ۔ تم کون ہو بیٹا اور مجھ سے اس مہربانی کا کیا مطلب ہے
میں نے انہیں جواب دیا
میں ۔: چاچا میرا نام شانی ہے اور چاچا دینو نے مجھے اپ کے پاس بھیجا ہے ۔۔۔میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ میرے لیے کوئی کام ڈھونڈو اور میں اج اسی لیے اپ کے پاس حاضر ہوا ہوں ۔۔
چاچا شفیق میری بات سن کر ہلکا سا مسکرائے اور انہوں نے مجھ سے کہا
چاچا شفیق ۔: بیٹا تمہارے جیسے اور بھی بہت سے نیک لوگ میرے پاس ائے کام کرنا چاہا لیکن کوئی بھی یہاں پر ٹک نہیں پاتا نہ جانے اس گھر میں ایسی کون سی بلا ہے کہ کوئی بھی یہاں پر ٹک نہیں سکتا اور ہمیشہ مجھے تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔۔۔
چاچا یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک جنی میرے کندھے پر ا کر بیٹھ گئی اور اس نے میرے کان میں کہا
جنی ۔: میرے اقا یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اس جگہ پر بہت سے جنات کا اثر ہے جو کسی کے قابو میں ہیں اور وہ اس بوڑھے ادمی کو ٹھیک نہیں ہونے دے رہے ہمارا یہاں پر رکنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔۔
میں جننی کی بات سن کر حیران ہوا چند لمحے خاموش رہنے کے بعد میں نے اس سے کہا
میں ۔: جنی چاہے جو بھی ہو ہمیں یہاں سے اس مسئلے کو ختم کیے بغیر نہیں جانا اگر اپ کسی ایسے کی مدد کرو جس سے اپ کو بدلہ ملے تو کیا فائدہ مدد اس کی کرو جس کا صلہ اپ کو اگلے جہان میں ملے اور میں چاچا شفیق کو اکیلا چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤں گا اس مسئلے کو میں حل کروں گا اور کیا وہ جنات تم سے زیادہ طاقتور ہیں ۔۔
جنی مسکرائی اور مجھے جواب دیتے ہوۓ بولی
جنی :۔ میرے اقا جب تک اپ کا ہاتھ میرے سر پر ہے اپ میرے اقا ہیں تو مجھ سے طاقتور اس پورے عالم میں اور کوئی نہیں ہوگا۔۔۔ کیونکہ جس جن کے پاس مالک ہوتا ہے وہ دنیا کا کوئی کام بھی کر سکتا ہے اور اس وقت تو میرا مالک ایک نڈر اور ایک جوان اور ایک طاقتور انسان ہے۔۔ تو پھر ہمیں کسی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔جب تک میں اپ کے ساتھ ہوں اور اپ میرے اقا ہیں تب تک کوئی اپ کا بال بھی بانکا نہیں کر پائے گا ۔۔۔
جنی یہ بات کر ہی رہی تھی کہ دروازے سے شفیق چاچا کی بہو نے قدم اندر رکھا اور کمرے میں وہی بو جو دروازے میں مجھے محسوس ہوئی تھی وہ دوبارہ سے پورے کمرے میں پھیل گئی اور میری سوچ چاچا شفیق کی اواز نے توڑی
چاچا شفیق ۔ ان سے ملو بیٹا یہ ہے اس گھر کی مالکن اور میری بہو افشاں
ابھی میں نے گردن موڑ کے افشا کی طرف دیکھا ہی تھا کہ جنی نے پھر سے میرے کان میں بولنا شروع کیا
جنی ۔ میرے اقا یہی وہ عورت ہے کہ جس کے قبضے میں وہ سارے جن ہیں اور یہ کالے علم کی ماہر عورت ہے اور اس کا درجہ تیسرا ہے اس نے اس درجے کو پانے کے لیے ابھی تک بہت سی قربانیاں اور بلیاں چڑھائی ہیں جس کی وجہ سے یہ انتہائی طاقتور ہے اور پورا جنوں کا ایک قبیلہ اس کے قبضے میں ہے میں ابھی تک سمجھ نہیں پائی کہ وہ کون سے جن ہیں لیکن ایک قبیلہ جس میں سو سے زیادہ جن ہیں اس کے قبضے میں ہے
میری سوچ کو افشاں کی اواز نے توڑا
افشاں ۔ میں جانتی ہوں کہ تو اکیلا نہیں ہے لڑکے تیرے ساتھ جو چیز ہے وہ مجھے چاہیے اور اس کو پانے کے لیے میں کسی بھی حد تک پہنچ جاؤں گی اگر تو وہ مجھے ارام سے دے دے گا تو میں تمہاری جان بخش دوں گی نہیں تو مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ
افشا کے منہ سے یہ باتیں نکلی ہی تھی کہ چاچا شفیق نے اس سے کہا
چاچا شفیق ۔ بہو یہ کون سا طریقہ ہوا ائے ہوئے مہمان سے بات کرنے کا ابھی تک یہ ہمارا نوکر نہیں ہے کہ تم اس سے اس طرح بات کرو
افشاں ۔ بڈھے بیچ میں انے کی ضرورت نہیں اج میں وہ طاقت حاصل کر لوں گی کہ جس سے میرا درجہ تیسرے کی جگہ چھٹا ہو جائے گا اور اس پوری روئے زمین پر کوئی میرا ثانی نہ ہوگا جو مجھے مات دے سکے
یہ کہتے ہی افشاں نے اپنا علم شروع کیا اور منہ سے کچھ منتر بڑبڑانے شروع کیے جس سے کمرے میں وہ بو اس قدر پھیل گئی کہ وہاں پہ سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے شدید قے انا شروع ہو گئی تھی اور میرے کان میں دوبارہ سے میری مخلص میری محسن جنی کی اواز گونجی
جنی ۔ میرے اقا یہ کالا علم کر رہی ہے جس سے بچنے کے لیے مجھے اپ کے جسم پر کنٹرول چاہیے ہوگا تاکہ میں اس کے جنات کو قابو کر سکوں اور دیکھ سکوں کہ وہ کون ہیں جو مجھ پہ حملہ کرنا چاہ رہے ہیں یہ اپ کے نہیں بلکہ میرے پیچھے ہے اور میں ہرگز اسے اپنا اپ نہیں دینا چاہتی اس لیے مجھے اپ کا جسم چاہیے ہوگا تاکہ میں اپ کے جسم میں جا کر اس کے علم کا جواب اپنے علم سے کر کے اس حالات سے اپ کو صحیح سلامت نکال سکوں
جب میں نے چینی کی بات سنی تو میں گھبرا گیا کہ کیا واقعی وہ اس قدر تیز اور طاقتور جادوگرنی ہے
اس لیے میں نے فورا ہی جنی کو کہا
میں ۔ جنی میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ میرے جسم میں جاؤ اور اس کو اس کی اوقات دکھاؤ
میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ جنہوں نے بغیر وقت ضائع کیے ہوئے میرے جسم میں انا شروع کر دیا اور کچھ ہی سیکنڈ میں میرا جسم نیلی روشنی پھینکنے لگا جیسے میں کوئی نیلا بلب ہوں اور میرے ارد گرد نیلی روشنی پھیل گئی اور خود بخود میرے منہ سے اناف شناب نکلنے لگا میں نہیں جانتا تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں لیکن میرے منہ سے جو بھی کلمات نکل رہے تھے اس کو سن کر افشاہ کی انکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں اور اہستہ اہستہ کمرے میں وہ گندی بو کسی خوشبو میں تبدیل ہونے شروع ہو گئی اور افشا خود بخود اپنے گھٹنوں پر گری
میں سمجھا کہ میں لڑائی جیت چکا ہوں لیکن اس نے فورا سے اپنے اپ کو سنبھالا اور اپنے ہاتھ سے ایک دائرہ کھینچنا شروع کیا جو کہ سرخ رنگ کا تھا اس کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا لیکن وہ ایک سرخ رنگ کے دائرے کے بیچ میں اگئی اور اب جن کا کوئی بھی منتر اس دائرے کو پار نہیں کر پا رہا تھا جس کو دیکھتے ہوئے افشا نے ایک زوردار کہکا لگایا اور کہا
افشاں ۔ میں تو تجھے بچہ سمجھی تھی لیکن نہیں تو تو ایک بہت بڑے جن کو قابو کیے ہوئے ہیں اب ائے گا مزہ اب میں تجھے وہ روپ دکھاؤں گی جو کسی نے نہ دیکھا ہو اب تک تو میں تجھے منتروں سے قابو کرنا چاہ رہی تھی لیکن اب میں تجھے اپنے جنات دکھاؤں گی میں اس کمرے میں اپنے وہ جن بلاؤں گی جو تجھے کیا تیرے ساتھ اس بڈھے کو بھی کچا کھا جائیں گے
افشا کی بات سن کر میں ڈر گیا حقیقتا میں ڈر چکا تھا کہ کیا ابھی تک جو اس نے کیا وہ اس کا کمزور وار تھا اس کا طاقتور وار ابھی تک رہتا تھا میں ابھی انہی خیالوں میں تھا کہ کمرے میں شدید بو پھر سے پھیل گئی اور اچانک سے کمرے میں عجیب و غریب قسم کی اوازیں انا شروع ہو گئیں اور ان اوازوں کو سننا ایسا تھا جیسے کرب سے بہت سے بچے ایک ساتھ رو رہے ہوں اور ان کی تکلیف ناقابل برداشت ہو میں ابھی یہ اوازیں برداشت کر ہی پا رہا تھا کہ جنی کا میں نے ایک الگ روپ دیکھا
کیونکہ جنی میرے جسم میں تھی اس لیے میں وہی کر رہا تھا جو جنی مجھ سے کروا رہی تھی
میں زور سے دہاڑا اور میری دہاڑ ایسی تھی کہ جس سے اس کمرے کا سارا اندھیرا ایک طرف سمٹ گیا اور وہ سارا اندھیرا ایک کونے میں جمع ہو گیا اور یہ منظر دیکھ کر افشا کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور پھر میرے منہ سے جو نکلا وہ سن کر میں حیران ہو گیا
میں ۔ کیسے ہو میرے بچوں بہت ہو گیا ملے ہوئے
میں نے جب یہ سنا تو وہ کالی روشنی ایک نیلی روشنی میں بدل گئی اور کمرے میں سے وہ عجیب سی بو ایک انتہائی پیاری سی خوشبو میں تبدیل ہو گئی اور وہ نیلی روشنی میرے قریب ائی اور میرے پیروں کے ارد گرد جمع ہو گئی جیسے وہ میرے پیروں کو چوم رہی ہو اور وہ کچھ کہہ رہے تھے جو میں سمجھ گیا ان کا کہنا کچھ یوں تھا
جنات ۔ ملکہ سلامت کی جے ہو ملکہ سلامت کی جے ہو ہماری ملکہ زندہ ہیں اب ہمیں کسی کا ڈر نہیں
کیونکہ میں جنی کے زیر اثر تھا جینی میرے اندر تھی یہ جو بھی باتیں کر رہی تھی وہ میں نہیں وہ جننی کر رہی تھی اور یہ جنات جو بھی کچھ اس سے کہہ رہے تھے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اپنی ملکہ یعنی جنی سے مخاطب تھے
میں ۔ میرے بچوں اب تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب میں کمزور نہیں ہوں اور میرے ساتھ میرے مالک ہیں اور جب تک میرے مالک کا ہاتھ میرے سر پر ہے مجھے اور ہمارے قبیلے کو اب کوئی قابو نہیں کر پائے گا اب تم ازاد ہو اور تمہیں اس صورت کی غلامی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم سب اپنی ازادی اپنے قبیلے کے ساتھ جا کر منا سکتے ہو اور قبیلے کے باقی لوگوں کو بھی یہ خبر دو کہ ملکہ سلامت زندہ ہیں اور بہت جلد وہ اپنے مالک کے ساتھ تمام قبیلے سے ملنے ائیں گی
میرے منہ سے یہ باتیں نکلی ہی تھی کہ وہ نیلی روشنی ایک دم کھڑکی سے باہر جاتی ہوئینظر ائی اور اس کے ساتھ ہی کمرے میں سے وہ خوشبو بھی چلی گئی اور میں نے اپنے منہ میں کچھ پڑھا اور اس کو افشا کی طرف کر کے پھونکا اور افشا جس دائرے میں تھی وہ دائرہ ایک دم غائب ہوا اور افشا اسی جگہ پر بے ہوش ہو گئی
اور مجھے جن نہیں کی اواز ائی جو مجھ سے کہہ رہی تھی
جنی ۔ میرے اقا ہمارا کام ہو چکا ہے اگر اپ کا حکم ہو تو میں اپ کے جسم سے باہر انا چاہتی ہوں
جنہیں کی بات سن کر میں نے اس سے کہا
میں ۔: جنی میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ میرے جسم سے باہر اؤ اور میرے کندھے پر بیٹھ جاؤ کیونکہ اب میں تم سے بہت سے سوال کرنا چاہتا ہوں
جنی نے جواب دیا
جننی ۔ جو حکم میرے اقا
اور اس کے ساتھ ہی وہ میرے جسم سے باہر اگئی اور میرے جسم سے نکلتی نیلی روشنی غائب ہو گئی اور میں اپنے حواس میں واپس ایا اور میں نے افشاہ کا جائزہ لیا تو وہ اس وقت ایک لاش کی طرح پڑی ہوئی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مر چکی ہے لیکن اس کا جسم ہلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس کا مطلب تھا کہ وہ مری نہیں وہ زندہ ہے لیکن اس وقت وہ اپنی تمام تر شکتیاں یا طاقتیں کھو چکی تھی اور تب ہی چاچا شفیق کی اواز کی وجہ سے میں اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر ایا اور میں نے اپنا رخ ان کی طرف کیا جو کہہ رہے تھے
چاچا شفیق ۔ اے مالک تیرا شکر ہو میری ٹانگوں میں جان اگئی میں دوبارہ سے کھڑا ہو پا رہا ہوں میں چل پا رہا ہوں یہ کیا ہے میں سمجھ نہیں پا رہا لیکن میں بالکل ٹھیک ہو گیا میں بالکل ٹھیک ہوں میں اپ کہیں بھی جا سکتا ہوں میرا جسم پہلے کی طرح کمزور نہیں ہے میں چل سکتا ہوں میں بھاگ سکتا ہوں
جب میں نے چاچا شفیق کو دیکھا تو میں بھی حیران ہو گیا کہ وہ ایک کمزور ادمی جو ایک گلاس پانی کا نہیں اٹھا پا رہا تھا وہ ابھی اپنے بستر سے اٹھا ادھر ادھر کمرے میں بھاگ رہا تھا کیونکہ اس کی ٹانگیں جو کہ کافی عرصے سے مفلوج تھیں دوبارہ سے چلنے کے قابل ہو گئی تھی اور تبھی مجھے کان میں جینی کی اواز گونجی
جنی ۔ اپ ٹھیک سمجھ رہے ہیں میرے اقا وہ جنات کا ہی اثر تھا جس کی وجہ سے یہ انسان چلنے سے قاصر تھا لیکن اب جنات کیونکہ جا چکے ہیں جو علم اس پر پڑھا گیا تھا وہ اپنا سر کھو چکا ہے جس کی وجہ سے یہ دوبارہ سے اپنی طاقت میں ا چکا ہے اور اب یہ دنیا کا ہر وہ کام ایک تندرست ادمی کی طرح سے کر سکتا ہے جس طرح یہ پہلے کیا کرتا تھا
جنی مجھے یہ باتیں بتا ہی رہی تھی کہ میں نے افشا کو ہوش میں اتے دیکھا اور ہوش میں اتے ہی وہ تیزی سے میری طرف بڑھی اور اس نے میرے دونوں پیروں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھ سے مخاطب ہوئی
افشاں ۔ میرے حضور مجھے معاف کر دیں میں اپ کی غلام ہوں میں اپنی غلطی کی معافی چاہتی ہوں اپ مجھے سزا دیں لیکن مجھے اپنے شرن میں لے لیں اپ جو کہیں گے میں وہ کروں گی میں اپ کی داسی بن کر رہنا چاہتی ہوں مجھے اس طرح اکیلا تنہا نہ چھوڑیں میرے کرموں کی سزا مجھے مل چکی ہے لیکن مجھے اپنے حسار میں لے لیں تاکہ یہ دنیا میرے کرموں کی سزا مجھے نہ دے اور مجھے مارے پیٹے نہ بس مجھے اپنے ساتھ لے جائیں اور مجھے اپنی داسی بنا کر رکھیں
میں اس کی باتیں سن کر کافی حیران تھا اور اس سوچ میں تھا کہ کیا میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں اور اگر لے بھی جاؤں تو میں اسے کہاں رکھوں گا کیونکہ میں تو خود اس وقت بغیر کسی ٹھکانے کے تھا کبھی گھر میں جگہ مل جاتی تھی اور کبھی وہ مجھے نکال دیتے تھے لیکن میں اسے لے کے بھی جاؤں گا تو کہاں لے کر جاؤں گا میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ جن کی اواز نے مجھے میری سوچ نکالا اور اس نے کہا
جنی ۔ میرے مالک یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہوگا کہ ہم اسے اپنے ساتھ لے لیں کیونکہ یہ کالے علم کی ماہر ہے بے شک اس وقت اس کے پاس کچھ نہ بچا ہو ہم سب کچھ اس کا چھین چکے ہوں لیکن یہ مستقبل میں ہمارے کام ا سکتی ہے
جن کی بات سن کر میں نے اس سے اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اچانک ہی عجیب سا ماحول کمرے میں طاری ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.
-
Magical Lamp – 19- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 18- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 17- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 16- جادو کا چراغ
January 13, 2025 -
Magical Lamp – 15- جادو کا چراغ
January 12, 2025 -
Magical Lamp – 14- جادو کا چراغ
January 12, 2025

Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
