A Dance of Sparks–56–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 56

وین اس میدان سے گزر کر خانقاہ والے ٹیلے کی پچھلی طرف چلی گئی اور وہ بھکشو مجھے لے کر خانقاہ میں آگئے۔ خانقاہ دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصہ بارہ دری کی طرح کھلا تھا۔ کئی ستون تھے جن کا پلستر جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ دوسرا حصہ ایک بڑے ہال مشتمل تھا۔ اس میں بھی کئی ستون تھے۔ بڑی بڑی کھڑکیوں سے دوپ اندر آرہی تھی۔ اس خانقاہ کی پچھلی طرف بھی کوئی عمارت تھی۔

ہال میں پہلے ہی سے دو بھکشو موجود تھے۔ میرے ساتھ آنے والا ایک بھکشو ان سے باتیں کرنے لگا اور پھر وہ بھکشو مجھے لے کر خانقاہ کی پچھلی طرف آگئے۔ اس طرف نشیب میں چند چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے اور ان کے سامنے ایک اکھاڑا سا بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف موٹے موٹے رسے تنے ہوئے تھے۔ ایک کمرے میں دو بدھ راہبہ عورتیں کھانا تیار کر رہی تھیں۔ کمرے کی دیواریں دھوئیں سے کالی ہو رہی تھیں۔ کھانا پکانے والے برتن بھی کالے ہو چکے تھے۔ ان عورتوں میں ایک ادھیڑ عمر تھی اور دوسری جوان عورت تھی۔ میرے خیال میں اس کی عمر تیس  سے زیادہ نہیں تھی۔ ان دونوں عورتوں نے اس طرح کا لباس پہن رکھا تھا جیسا میں نے شہر والی خانقاہ میں پاتونگ کے جسم پر دیکھا تھا۔ ایک چادر لنگی کی طرح بندھی ہوئی تھی اور دوسری چادر نے جسم کا بالائی حصہ ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ دونوں بھکشو مجھے ان عورتوں کے حوالے کر کے چلے گئے۔ جوان عورت مجھے دو سرے کمرے میں لے آئی۔ یہ رہا ئشی کمرا تھا۔ فرش پر دری بچھی ہوئی تھی اور کچھ  چیزیں بھی بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں۔

تم بہت تھکے ہوئے لگتے ہو۔ یہاں آرام کرو۔ میں اپنے کام سے فارغ ہو کر آؤں گی تو تم سے باتیں کروں گی۔ ۔۔ اس عورت نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا۔

یہ کون سی جگہ ہے۔ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ میں نے پوچھا۔

ڈر نہیں۔ تم دوستوں میں ہو۔۔۔  عورت نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ تمہیں حفاظت کے خیال سے یہاں بھیجا گیا ہے اور یہاں تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تم اگر چاہو تو اِدھر اُدھر گھوم پھر بھی سکتے ہو۔ ویسے میرا نام پھی پھی ہے۔ تم بے تکلفی سے مجھے اس نام سے پکار سکتے ہو۔ اچھا۔ اب تم بیٹھو۔ میں تھوڑی دیر میں آؤں گی۔

پھی پھی مجھے کمرے میں چھوڑ کر باہر چلی گئی۔ ایک گھنٹے بعد پھی پھی مجھے آکر لے گئی۔ دھوپ بہت تیز  تھی    ہم  پیگوڈا کی بارہ دری میں آگئے جہاں ایک بہت بڑی چاور بچھی ہوئی تھی اور تمام بھکشو ایک دائرے کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے سامنے مٹی کا ایک پیالہ اور ایک پلیٹ سی رکھی ہوئی تھی۔ پلیٹ ذرا گہری تھی اور مٹی ہی کی بنی ہوئی تھی۔ پیالوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔ درمیان میں چادر پر ایک پتیلا رکھا ہوا تھا جو دھوئیں سے کالا ہو رہا تھا۔ پتیلے میں دلیے سے ملتی جلتی کوئی چیز بھری ہوئی تھی جس سے بھاپ اڑ رہی تھی۔ پھی پھی مجھے ساتھ لے کر بیٹھ گئی اور دوسری عورت بھکشوؤں کے سامنے رکھی ہوئی پلیٹوں میں دلیا ڈالنے لگی۔ میری پلیٹ بھی بھر دی گئی۔

دوسرے بھکشو بڑے مزے لے لے کر دلیا کھاتے رہے اور میں اپنی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا۔ پھی پھی نے مجھے اشارہ کیا تو میں نے انگلی سے پہلے تو اس دلیے کو چکھا۔ وہ غالباً چاول تھے جس میں مصالحے اور کچھ اور چیزیں بھی ملی ہوئی تھیں۔ ذائقہ اتنا برا نہ تھا۔ ویسے اگر بھوک لگی ہو تو ذائقے کی پروا کون کرتا ہے ۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر چیز انڈیل لی جاتی ہے۔ میں بھی وہ دلیا کھا گیا۔

کھانے کے بعد کمرے میں آکر پھی پھی نے مجھے شہربت کا گلاس پلا دیا ۔ وہ شربت اگرچہ میٹھا تھا مگر اس کا ذائقہ کچھ نہیں تھا۔ شربت پینے کے فوراہی بعد مجھ پر غنودگی سی طاری ہوگئی ۔ اور میں وہیں دری پر لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر بعد گہری نیند سوگیا تھا۔

 آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا سا تھا لیکن کھلے ہو دروازے سے باہر ہلکی سی دھوپ نظر آرہی تھی۔ سورج  اپنا سفر مکمل کر کے غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ مجھے اپنے آپ میں کچھ عجیب سی تبدیلی محسوس ہورہی تھی۔

شربت میں شاید کوئی نشہ آور چیز تھی جس سے میں اتنی گہری نیند سویا تھا اور سر میں دُکھن اور بھاری پن سا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے سر پر ہاتھ رکھا تو اچھل پڑا۔ سر پر ہاتھ رکھتے ہی مجھے سمجھ آگئی کہ  میں اپنے آپ میں کیا تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ دیوار پر ایک چھوٹا سا آئینہ ٹنگا ہوا تھا۔ میں نے لپک کر وہ آئینہ اتارا اور دروازے کے قریب جا کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے لگا۔ آئینے پر نظر پڑتے ہی میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ سوتے  میں میرا سر اور بھویں مونڈ دی گئی تھیں۔ میں اپنی جگہ پر بے حس و حرکت کھڑا آئینے میں اپنے بدہیت حلئے کو دیکھتا رہ گیا۔

اب یہ بات میری سمجھ میں آگئی تھی کہ مجھے شہرسے میلوں  دورویرانے میں واقع اس خانقاہ میں کیوں بھیجا گیا تھا۔ ایک وجہ تو یہ  تھی کہ مجھے دشمن کی نگاہوں سے اوجھل رکھا جائے اور دوسری  مجھے یہاں مارشل آرٹ کی ٹریننگ دی جانے والی تھی تاکہ میں اس قابل ہو سکوں کہ مجھے اپنی حفاظت کے لیے کسی دوسرے کی ضرورت نہ پڑے اور میں اپنے قوت بازو پر بھروسا کر کے دشمن کا مقابلہ کر سکوں۔ یوں تو مارشل آرٹس کے بہت سے اسٹائل ہیں۔  ہر اسٹائل  کسی خاص علاقے سے منسوب ہے اور ہر اسٹائل کا اپنا ایک نام  ہے۔ تھائی لینڈ میں کک باکسنگ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل اور اسے قومی کھیل کا درجہ بھی حاصل ہے۔ یہاں دوسرے اسٹائل  کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ موئے تھائی کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔ ایک روایت کےمطابق  اس کی ابتدا  پندرھویں صدی کے اختتام یا سولھویں صدی کے اوائل میں  اس وقت ہوئی جب تھائی لینڈ اور برما ایک دوسرے سےبرسرِ پیکار تھے۔ تھائی فوج کا ایک سپاہی برمی فوج کی قید میں چلا گیا۔اس  فوجی کو بارہ برمی فوجیوں کی حفاظت میں ایک ایسی جگہ قید میں قید کیا گیا ،  جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ تھائی سپاہی نے قید خانے سے فرار کا منصوبہ بنایا اور وہ خالی ہاتھ بارہ  برمی فوجیوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

نائے کھانوں ٹوم ۔۔نامی وہ تھائی سپاہی وطن واپس پہنچا تو بہت جلہ اس کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔ اسے قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا اور ۔شہنشاہ نارے سو آن ۔کے حکم سے نائے کھانوں ٹوم کے خالی ہاتھ لڑائی کے فن کو فوجی تربیت کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ حربی فن پورے ملک میں پھیل گیا اور اسے ایک با قاعدہ قومی کھیل کی حیثیت حاصل ہو گئی۔

موئے تھائی میں حریف ایک دوسرے پر آزادانہ حملہ کرتے ہیں۔ ہاتھ یا پیر سے جسم کے کسی بھی حصے پر ضرب لگائی جاسکتی۔ جبکہ کھیل کے دوران میں سر پر ضرب لگانا فاول سمجھا جاتا ہے ، لیکن عام لڑائی میں اس بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ حریف کے جسم کے کسی حصے پر ضرب لگتی ہے۔ پہلے یہ کھیل واقعی خالی ہاتھ کھیلا جاتا تھا لیکن اب اس میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ کوئی خطرناک ہتھیار اگرچہ اب بھی استعمال نہیں ہو تا،  لیکن اس قسم کے دستانے خاص طور پر تیار کرائے جاتے ہیں جن سے حریف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔

اس خانقاہ میں آنے کے دوسرے ہی دن میری ٹریننگ شروع کردی گئی۔ مجھے صبح پانچ بجے جگا دیا گیا۔ پھی پھی کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ اس خانقاہ میں صرف ان بھکشوؤں کے لیے کھانا پکانے کے لیے آئی ہوئی ہے لیکن یہ انکشاف میرے لیے خاصا دلچسپ ثابت ہوا کہ وہ بھی موئے تھائی کی ماہر تھی۔ وہ صبح سویرے مجھے اٹھا کر جو گنگ کے لیے لے گئی۔

ننگے پیر پتھریلی زمین پر دوڑنا میرے لیے عذاب بن گیا تھا۔ میں تو کبھی ننگے پیر گھر کے فرش پر بھی نہیں چلا تھا اور یہاں مجھے پتھروں پر دوڑایا جا رہا تھا۔ میں زیادہ دور تک اس کا ساتھ نہیں دے سکا اور ایک جگہ رک کر ہانپنے لگا۔ پھی پھی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر دوڑنے لگی لیکن اس مرتبہ بھی میں زیادہ دور تک نہیں جاسکا۔ ہم ایک ٹیلے کی دوسری طرف نکل گئے تھے۔ میرا سانس بری طرح پھول گیا تھا۔ میں ایک جگہ بیٹھ کر سانس پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ بھی پھی بھی میرے قریب بیٹھ گئی اور مجھے بتانے لگی کہ کسی بھی کھیل کے لیے اسٹیمنا ضروری ہوتا ہے جوگنگ، ایرو بکس اور یو گا جیسی ایکسر سائز سے اسٹیمنا کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

ہم جس جگہ بیٹھے ہوئے تھے اس سے آگے نشیب میں تاحد نگاہ دھان کے کھیت پھیلے ہوئے تھے اور فضا دھان کی مہک سے رچی ہوئی تھی۔ چند منٹ بعد بھی پھی نے ایک بار پھر میرا ہاتھ پکڑااور آہستہ آہستہ دوڑنے لگی۔

پھی پھی کے بارے میں میرا اندازه درست نکلا۔ وہ پڑھی لکھی خاتون تھی۔ اس نے اپنے کیریر کی ابتدا درس و تدریس سے کی تھی۔ اسکول میں ٹیچر کی ملازمت شروع کرنے کے ساتھ ہی اس نے موئے تھائی کی ٹریننگ بھی شروع کر دی تھی۔ پہلے اس نے ایک اور استادسے تربیت حاصل کی اور پھر مہاراج وانگ ونگ پائے کی شاگردی میں آگئی۔ اس کا شمار وانگ ونگ کے ان چند شاگردوں میں ہوتا تھا جو اس کے بہت قریب تھے۔ و انگ ونگ پائے کا بہت شہرہ تھا۔ اسے پورے ملک میں گرینڈ ماسٹر کا درجہ حاصل تھا۔ موئے تھائی سیکھنے کا شوقین ہر کوئی اس کی شاگردی میں آنا چاہتا تھا لیکن پھر یکا یک مہاراج وانگ و نگ یائے کے اطوار بدل گئے اور وہ مذہب کی طرف مائل ہو تا چلا گیا اور بالآخر وہ شہر کی ایک بڑی خانقاہ سے وابستہ ہو گیا۔ وہ خانقاہ سے بہت کم باہر نکلتا تھا لیکن شاگردوں سے اس کا رابطہ قائم تھا۔ اس نے اپنا جیم ( تربیت گاہ) اپنے چہیتے شاگر د پھوپھا نگ کو سونپ دیا تھا۔

 مہاراج وانگ ونگ پائے خانقاہ سے وابستہ ہوا تو پھی پھی اسکول کی ملازمت چھوڑ کر واٹ میں آئی اور راہیہ بن گئی۔ وہ کئی سال تک خانقاہ میں آنے والے بدھا کے زائرین کی خدمت کرتی رہی۔ ڈیڑھ دو سال تک وہ دیہی علاقوں میں گھوم  پھر کر بدھا کی تعلیمات کی تبلیغ کرتی رہی۔

ان تبلیغی دوروں کے دوران میں اسے مارشل آرٹ کی آزمائش کا موقع بھی ملا۔ تبلیغی پارٹیوں سے وابستہ بدھ بھکشو جنگلوں اور ویرانوں میں میلوں پیدل چل کر بستیوں تک پہنچتے تھے۔ کئی کئی روز تک فاقوں سے ناتا رہتا اور دوران سفر میں لٹیروں اور رہزنوں سے بھی واسطہ رہتا ۔ ان تبلیغی پارٹیوں سے وابستہ بھکشوؤں کو خاص طور پر مارشل آرٹ کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ دوران سفر میں وہ خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی شیطانی قوتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

 کچھ عرصہ بعد پھی پھی کو ویرانے میں واقع اس خانقاہ میں بھیج دیا گیا،  جہاں بھکشوؤں کو موئے تھائی کی تربیت دی جاتی تھی۔ پھی پھی کو یہاں آئے ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ اور ان دو برسوں میں صرف دو یا تین مرتبہ شہر گئی تھی۔ ان دو عورتوں کے علاوہ وہ چھ بھکشو تھے جو اس خانقاہ سے وابستہ تھے۔ وہ سب کے سب اپنے فن کے ماسٹر تھے اور یہی سب مل کر یہاں آنے والے بھکشوؤں کو موئے تھائی کی تربیت دیتے تھے۔ ایک ہفتہ پہلے ایک گروپ ٹرینگ مکمل کر کے گیا تھا اور آج کل یہ لوگ فارغ تھے۔ لیکن فارغ   اوقات میں بھی ان کا اپنا ٹریننگ کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور ان کے معمولات میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ میری ایروبکس ، یوگا اور جو گنگ کی تربیت پھی پھی کے ذمے تھی جبکہ اسٹریچنگ اور ابتدائی ٹریننگ کا زمہ سامولی نامی ایک اور بھکشو نے لے لیا تھا۔ سامولی وہی بھکشو تھا جس نے دین میں مہاراج وانگ ونگ سے بات کی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page