A Dance of Sparks–60–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 60

پولیس نے پھو کیٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے جانا چاہتے تھے لیکن ماسٹر ہو چن اڑ گیا تھا کہ مہاراج کی اجازت کے بغیر وہ مجھے لے جانے کی اجازت نہیں دے گا اور مہاراج وانگ ونگ پائے سے الجھنا پولیس کے چھوٹے افسروں کے بس کی بات نہیں تھی۔

بہر حال یہ بات مہاراج وانگ و نگ پائے تک پہنچ گئی تھی کہ مجھے جمنازیم سے اغوا یا قتل کی کوشش کی گئی تھی۔ پہلے شہر سے باہر واقع خانقاہ پر حملہ کیا گیا تھا اور اب جمنازیم میں گھس کر کوئی کارروائی کرنا گویا اس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ بہر حال پتا چل گیا تھا کہ ان حملہ آوروں کی پشت پر بلیک ٹائیگر تھا۔ بلیک ٹائیگر کو وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا۔

بلیک ٹائیگر بہت اونچا بد معاش تھا۔ اس کا ایک باقاعدہ گروہ تھا جو مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس نے یہاں امریکی مافیا سٹم اپنا رکھا تھا۔ ایک گروہ منشیات کے بزنس کو کنٹرول کرتا تھا اور دوسرا طوائفوں کے کاروبار کی نگرانی کرتا۔ اس طرح تمام شعبے بٹے ہوئے تھے۔

اس معاملے میں بلیک ٹائیگر کے ملوث ہونے پر مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ رانا نے اس سے رابطہ کر لیا تھا۔ اس کے ذریعے مجھے یا تو اغوا کرانا چاہتا تھا یا مروا  دینا چاہتا تھا۔

بلیک ٹائیگر کا گروہ اگرچہ بہت طاقت ور تھا لیکن مہاراج وانگ ونگ پائے کی طاقت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اسے عام شہریوں کی اخلاقی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس کے شاگردوں کی تعداد ان گنت تھی۔ اس کے معمولی سے اشارے پر لوگ کٹ مرنے کو بھی تیار ہو جاتے۔ لیکن مہاراج خون خرابا نہیں چاہتا تھا اس نے بلیک ٹائیگر کو پیغام بھیجوا دیا کہ وہ رانا یا شوچائی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے اور اس شہر کا امن و امان برباد نہ کرے لیکن بلیک ٹائیگر شرافت کی زبان سمجھنے والا نہیں تھا۔ جو آدمی مہاراج کا پیغام لے کر گیا تھا ، اس کی واپسی ایسولینس پر ہوئی تھی۔

 مہاراج وانگ ونگ پائے نے ماسٹر پھو کو سگنل دے دیا۔ ماسٹر پھو بھی اگرچہ مہاراج کی طرح دنگا فساد نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے بھی ایک کوشش ضرور کی تھی کہ یہ معاملہ خیر وعافیت سے طے ہو جائے لیکن پھر اسے اس بات کا یقین کرلینا پڑا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور اس طرح بلیک ٹائیگر اور ماسٹر پھو میں ایک خوف ناک جنگ چھڑ گئی اور یہ جنگ میری وجہ سے شروع ہوئی تھی۔

جمنازیم میں روزانہ سیکڑوں لوگ آتے۔ ہر سنڈے نائٹ کو اسٹیڈیم میں کک باکسنگ کے مقابلے ہوتے تھے جنہیں دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں لوگ آتے تھے، اور کسی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی تھی۔ اس واقعے کے بعد جمنازیم میرے لیے غیر محفوظ ہو گیا تھا۔ اس لیے مجھے وہاں سے فیلا فیلا چائی روڈ کے پہلو میں واقع ایک عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ گنجان آبادی والا علاقہ تھا۔ یہاں کی آبادی اگرچہ ملی جلی تھی ،لیکن اکثریت ہندو کی زیادہ تھی۔ اس علاقے میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا۔

مجھے ملہوتر مینشن نام کی جس چھ منزلہ عمارت میں لایا گیا تھا، یہ  بھی ایک ہندو کی ملکیت تھی۔ دو دو اور تین تین کمروں کے فلیٹ تھے۔ فلیٹ کیا مرغیوں کے دڑبے تھے جن میں انسان مجبور تھے۔ آمد و رفت کے لیے دو تنگ سے زینے اور ایک لفٹ تھی۔ لفٹ اکثر خراب رہتی تھی۔ زینوں پر اس قدر گندگی اور غلاظت بکھری رہتی تھی کہ آتے جاتے ابکائیاں آنے لگتی ۔

ہمارا تین کمروں پر مشتمل فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔جس کے سامنے کے رخ پر تو تنگ سی گلی تھی اور پچھلی طرف بازار جہاں صبح سے رات تک ایک ہنگامہ سا رہتا تھا۔ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ اس  پر ہنگام علاقے میں لوگ کس طرح زندگی گزارتے تھے۔

میرے ساتھ دو آدمیوں کو بھیجا گیا تھا۔ مجھے فلیٹ میں پہنچانے  کے بعد ایک آدمی واپس چلا گیا اور دوسرے کو وہیں رہنا تھا۔ فلیٹ میں دو ہندو عورتیں رہائش پذیر تھیں۔ ایک ادھیڑ عمر ا ور دوسری جوان۔ وہ دونوں بہنیں تھیں۔ جوان عورت کی عمر بیس  کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ میں اسے مہاراج کے جمنازیم پر ایک دو مرتبہ دیکھ چکا تھا۔ اس روز باتوں میں انکشاف ہوا کہ کوشلیا نام کی وہ خوب صورت عورت ماسٹر پھو کی شاگرد تھی اور اس علاقے میں ٹریننگ سینٹر چلا رہی تھی۔ اس کی بڑی بہن  شانتی ٹمپل  وٹ روڈ کے ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر ملازم تھی اور واپسی رات کو ہوتی  تھی۔ لیکن میرے آنے کے بعد وہ اپنے ایک جاننے والے کے ہاں منتقل  ہو گئی تھی۔

تین دن نہایت سکون سے گزرے۔ کو شلیا کا اب زیادہ تر وقت  گھر پر ہی گزرتا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی۔ سنگا پورسے آنے کے بعد مجھے پہلی مرتبہ یہاں انڈین کھانے کھانے کو ملے ، کوشلیا  خود گوشت نہیں کھاتی تھی لیکن اس روز اس نے میرے لیے  خاص طور پر گوشت کا سالن تیار کیا تھا جو بہت لذیذ تھا۔

دن میں دو تین مرتبہ ماسٹر پھو ٹیلی فون پر صورت حال معلوم کر لیا کرتا تھا۔ ایک روز میں نے بھی اس سے بات کی تھی میں نے اسے یہ بتایا کہ میں یہاں بور ہو رہا ہوں تو اس نے کہا تھا کہ دو چار روز میں مجھے کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں  مجھے بوریت نہیں  ہوگی۔

میرے کمرے کی کھڑ کی بازار کی طرف کھلتی تھی۔ دن کے وقت اس کھڑکی کے سامنے دبیز پردہ پڑا رہتا لیکن شام کے بعد میں کمرے کی بتی بجھا کر کھڑکی میں کھڑا ہو جا تا اور بازار میں  دیکھتا رہتا۔

مجھے اس فلیٹ میں رہتے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا اس دوران میں فلیٹ کے دروازے کی طرف بھی نہیں گیا ۔میرے ساتھ جو محافظ بھیجا گیا تھا، وہ داخلی دروازے کے ساتھ کمرے میں بیٹھا رہتا تھا۔ اس کے ایک طرف چھوٹا سا کچن تھا،  اور دو سری طرف ہاتھ روم۔ آگے دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں رات کو میں سوتا تھا اور دوسرے میں کو شلیا۔ میرے کمرے میں ایک چھوٹا سا ہاتھ روم بھی تھا۔

 رات کو سوتے وقت دونوں کمروں کے دروازے اندر سے بند کر لیے جاتے تھے۔ ان دونوں کمروں کے بیچ میں بھی ایک دروازہ تھا جو کھلا رہتا تھا۔

اس رات کو شلیا دیر تک میرے کمرے میں بیٹھی باتیں کرتی رہی اور جب نیند سے میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں بستر پر لیٹ گیا۔ فورا ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ میں شاید کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ ایک حسین اور جوان عورت مجھ سے لپٹی جارہی تھی۔ کبھی وہ  میری پیشانی پر بوسے دیتی اور کبھی گالوں پر ۔ اس کے ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے۔ میرے پورے جسم میں سنسنی کی لہریں سی دوڑ رہی تھیں۔ ایک لطیف سے احساس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ایسا احساس میں نے زندگی میں پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا اور پھر اس حسین عورت نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر جما دیے اور مجھے بھینچنے لگی۔ میرا سانس گھٹنے لگا۔ میں اپنے آپ کو اس عورت کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کے لیے کسمسانے لگا لیکن اس نے بڑی سختی سے مجھے دیوچ رکھا تھا۔

جیسے ہی میں نے کسمسا کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی ، اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاکر میرا  لن پکڑ لیا جوکے میرے ٹراؤزر  میں کڑا ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔میری تو  اب بس ہوگئی تھی اور مجھ میں برداشت نہیں رہی تھی لیکن اب بھی میں  خود کو چھڑانے کی ہلکی ہلکی کوشش کر رہاتھا۔لیکن  اُس  نے میرے  لن کو سہلانا اور آگے پیچھے کر نا شروع کر دیا ۔میری  حالت اور زیادہ خراب ہوتی جارہی تھی اور میرا جسم بھی اکڑنے لگ گیا تھا ۔

اپنے آپ کو اس عورت کے شکنجے سے چھڑانے کی جدوجہد میں میری آنکھ کھل گئی اور پھر میں کانپ کر رہ گیا۔ وہ کوئی خواب نہیں تھا۔ ایک خوف ناک حقیقت تھی۔ کو شلیا مجھ سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس کے بدن پر لباس نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میں اسے ہٹانے  کی کوشش کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

ارے آرام سے لیٹ جاؤ۔۔۔ کو شلیا نے سرگوشی کی۔

ی یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔۔ میں ہکلایا۔۔۔میری نظروں میں آپ کا بہت احترام ہے۔ میں تو۔۔۔۔

مجھے اپنی بہن یا آنٹی سمجھتے ہو۔ یہی کہنا چاہتے ہو نا۔۔۔ اس نے میری بات کاٹ دی ۔۔۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ رشتے صرف خون کے ہوتے ہیں۔ باقی سب فریب ہے۔ جس شخص نے سب سے پہلے میری عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے تیسں سال بڑا تھا اور مجھے بیٹی کہتا تھا۔ میں کسی منہ بولے رشتے کو نہیں مانتی۔ تم مجھے آنٹی کہویا دیدی لیکن میں تمہیں صرف اور صرف ایک مرد سمجھتی ہوں جو میری خواہش پوری کر سکتا ہے۔ اب تم خاموشی سے وہ کرتے رہو جو میں کہوں۔

اور یہ کہتے ساتھ ہی اُس نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ لگا کر دوبارہ سے چومنا شروع کر دیا۔

 سی نہیں ۔ ۔۔ آواز میرے حلق میں اٹک رہی تھی۔۔۔ پلیز! مجھے چھوڑ دو۔ مجھے کسی ایسے کام کے لیے مت کہو جسے میں برا سمجھتا ہوں اور جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔

تم بچے نہیں ہو۔ بھر پور نوجوان ہو۔۔۔  کو شلیا نے کہا۔ اس کی گرم گرم سانسیں میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں ۔۔۔تم کچھ نہیں جانتے۔ یہی تو میں بتانا چاہتی ہوں کہ زندگی کیا ہے۔ زندگی کی اصل رنگینیاں اب تک تمہاری نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں اور میں تمہیں ان سے متعارف کرانا چاہتی ہوں۔ آؤ۔ مجھ سے دور مت ہو۔ دیکھو۔ میری طرف دیکھو۔۔۔

اور اُس وقت میری حالت بہت پتلی ہوچکی تھی کیونکہ اُس کا ننگا جسم میرے سامنے تھا ، اور میں زندگی میں پہلی بار  کسی لڑکی کا ننگا جسم دیکھ رہا تھا ۔ میرے دل کی حالت بہت عجیب ہورہی تھی ۔ اور دماغ کی عجیب ۔۔ دل کر رہا تھا کہ اُس کو پکڑ کر خود میں جذب کر لوں ، لیکن دماغ کہہ رہا تھا کہ نہیں یہ غلط ہے ۔ میں بے حس و حرکت اپنی جگہ پر بیٹھا  رہ گیا۔ میری عجیب کیفیت تھی۔ دماغ میں دھما کے ہو رہے تھے اور پورے بدن میں سننی کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ جسم کے مسام پسینہ اگل رہے تھے اور سانس تیز ہو رہی تھی۔

میں نے اپنے بارے میں پہلے کبھی نہیں سوچا تھا لیکن اب کو شلیا کے اس طرز عمل نے میرے دماغ میں ہلچل سی مچادی تھی۔ کیا میں واقعی اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ عورتیں مجھ سے اس قسم کی توقعات وابستہ کر سکیں؟۔۔ میں تو اپنے آپ کو بچہ ہی سمجھتا تھا اور کبھی ایسی کوئی بات نہیں سوچی تھی۔ میں نے کئی عورتوں کو نیم برہنہ بھی دیکھا تھا۔ سنگا پور میں تو حارہ کاشی کے ساتھ لپٹ کر سوتا رہا تھا،  لیکن میرا ذہن کبھی پراگندہ نہیں ہوا تھا۔ حارہ کاشی کی آغوش میں مجھے ہمیشہ سکون ملا تھا۔ اس کے سینے سے لپٹ کر میں نے ہمیشہ مامتا کی گرمی محسوس کی تھی۔ کئی مہینوں تک خانقاہ میں پھی پھی کے ساتھ رہا تھا۔ وہ کوشلیا سے زیادہ جوان اور حسین تھی اور رات کو میں اکثراس کے ساتھ لپٹ کر سویا کرتا تھا لیکن میرے ذہن میں کبھی کوئی شیطانی خیال نہیں آیا تھا۔ کو شلیا کے ساتھ رہتے ہوئے بھی دل میں کبھی ایسی کوئی بات نہیں آئی تھی لیکن آج کو شالیا نے جو حرکت کی تھی، اس نے مجھے اپنے بارے میں بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور یہ سب کچھ سوچتے ہوئے میری کنپٹیاں سلگنے لگی تھیں۔

میری  حالت کا اندازہ لگاتے ہی کوشلیا  نے اپنا ہاتھ میرے  ٹراوزر  میں ڈال دیا اور ننگے لن کو پکڑ لیا اور سہلانا شروع کر دیا۔

ننگے لن پر کوشلیا    کا ہاتھ لگتے ہی میرے  جسم میں بجلیاں سی دوڑنے لگی اور میرا  جسم کانپنے لگا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page