ہوس ۔۔ نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔ کہانیوں کی دنیا پیڈ سیکشن کا نیا سیکسی سلسلہ وار ناول
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
ہوس قسط نمبر 22
اگلے دن میں نے برا پینٹی والا مال اٹھا لیا۔
اور شبانہ سے لیے گئے پیسے دکان والے کو دے دیئے۔
اس نے بھی آفر کی کہ آئندہ جب بھی مال درکار ہو مجھ سے رابطہ کرنا اور رعایت بھی کر دوں گا۔ کچھ ٹپس بھی بتائیں کہ کون کون سا مال زیادہ بکتا ہے، کس کس میں مار جن بہتر ہے۔ میرے پاس تین ہزار روپے بچے تھے۔ میں نے دو ہزار اور سنبھال کر رکھے تھے۔ اسی دکان والے کے ایک جاننے والے سے میں نے بھاری کام والا بڑا شاندار جوڑا خریدا، وہ جوڑا تھا بھی ایسا ہی کہ جو پہن لے وہ دلہن لگے۔ اس کی قیمت
ساڑھے چار ہزار تھی۔ مجھے رعایت میں وہ ساڑھے تین میں مل گیا۔ میں نے سارا مال ماسی چھیمو کو تھمایا اور کہا کہ دکان میں لگا دے۔
وہ جوڑا میں نے اس لیے رکھ چھوڑا کہ اگر کسی کو شادی یا کسی فنکشن کے لیے چاہیے ہو تو وہ ایک رات کے سو روپے کے حساب سے کرایے پر وصول کر سکتا ہے۔
میں مکان پر پہنچ گیا کیونکہ سائرہ اور اس کی سہلی آنے والی تھیں۔ وہ نجانے کس بہانے سے سکول سے ایک گھنٹہ پہلے نکل آتی تھیں۔
میں نے پچھلی بار کی طرح اس بار چکن قورمہ اور روغنی نان کا اہتمام کر لیا۔
حیرت انگیز طور پر سائرہ اکیلی ہی آئی۔
اس نے برقع اتارا اور میرے سامنے بیٹھ گئی۔ اس نے جان بوجھ کر بیٹھنے کا ایسا زاو یہ بنایا کہ اس کے خوشنما گول بریسٹ مجھے للچانے لگے۔
اس نے کانوں میں آرٹیفشل بالیاں بھی پہن رکھی تھیں اور ہونٹوں پر لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی۔
میں لڑکیوں کا دھندہ کرتا تھا اچھی طرح سمجھتا تھا کہ مرد کو ریجھانے کی ترکیب ہے۔
مگر اس کی ترکیب اس لیے کامیاب نہ تھی کہ میں کوئی عام مرد نہیں تھا، ایک شکاری اور دلال تھا۔
مجھے سرخی پاؤڈر، گول مموں سے زیادہ لڑ کی کی قیمت پسند تھی۔ جو اچھی قیمت دے جاتی وہ مجھے زیادہ مرغوب ہوتی۔ سائرہ بھی مناسب لڑکی تھی اور امید تھی کہ مجھے بھی اور میرے گاہکوں کو بھی خوش کر سکتی تھی۔ باقی اس کی پھدی کا مزا تو میرا کمیشن یا بونس تھا۔ مجھے اب پھدیوں کی کمی نہ تھی۔ میں محض پھدی مارنے کے لیے کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا۔
میں نے اسے کھانے کی دعوت دی تو اس نے رسمن انکار کیا۔
مگر پھر کھانے سے مکمل انصاف کیا۔
میں بولا : آج اکیلی ہی آگئیں؟
وہ بولی ہاں جی وہ ثوبیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔
میں بولا : اچھا اچھا۔۔ کیا ہوا اسے ؟
وہ بولی : بس۔ ۔ یونہی۔۔
میں بولا: کوئی خاص بیماری تھی یا ماہواری تھی ۔۔
وہ میرے منہ سے ماہواری کا سن کر قدرے نروس ہو گئی۔ اسے امید نہیں تھی کہ
میں ایسی بات کر سکتا ہوں۔
وہ سر جھکا کر خاموش ہو گئی تو میں نے جان بوجھ کر پوچھا: بتایا نہیں آپ نے۔۔ کیا مسلئہ تھا اسے ؟
وہ بدستور سر جھکا کر بولی : بس یہی والا ۔۔ تھا۔۔
میں بولا : اچھا اچھا۔۔ ویسے اس میں شرم والی کوئی بات نہیں۔ یہ تو عین فطری چیز ہے۔
وہ چپ ہو گئی اور کھانے میں مشغول ہو گئی۔ کھانے کے بعد بولی: آپ یہ روز تکلف کرتے ہیں۔
میں نے دانستہ اس کے سراپے کو نظروں میں تولا اور بولا : تکلف کیسا جناب ؟ آپ بھی تو دنیا سے چھپ کر ہم پر اپنا التفات نچھاور کرتی ہیں۔
یہ لائن رضیہ کے ایک ناول میں پڑھی تھی کبھی۔
وہ شرما گئی اور رخ پھیر لیا۔ میں نے بے باکی سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے اس کے صوفے سے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھالیا۔ میرا تنا ہوا لن اسے یقینا اپنے کولہوں پر ٹکراتا ہوا محسوس ہو رہا ہو گا۔ یہ سچ تھا کہ ابھی تک ہم نے کوئی پیار محبت جیسی باتیں نہیں کی تھیں۔ مگر یہ بھی سچائی تھی کہ وہ سکول سے چھپ کر تنہائی میں ملنے آئی تھی تو اسے جسمانی محبت کا اندازہ تھا کہ وہ وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔
وہ اس کے لیے یقینا تیار بھی ہو گی۔
میں نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو وہ کپکپا اٹھی۔ میرا ہاتھ اس کی کمر سے ہوتا ہوا اس کے کولہوں پر جا پہنچا، میں نے ہلکا ساد با یا تو وہ ذرا سی کسمسائی۔
میں بولا : اندر چلیں۔۔؟
وہ اٹھ کر بولی: نہیں اب میں چلتی ہوں۔
میں بولا : ایک منٹ کے لیے اندر چلیں پھر چلتے ہیں۔
میں اسے بانہوں میں پکڑ کر اندر لے آیا اور بستر پر بٹھا دیا۔ دروازے کو بند کیا حالانکہ گھر خالی تھا مگر پھر بھی بیڈ روم کا دروازہ بند کرنا اسی بات کی نشانی ہے کہ کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے جس کے لیے دروازہ بند کر ناضروری ہے۔
میں اس کی طرف بڑھا اور اسے لیتا ہو ابیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا نرم گداز جسم میرے نیچے تھا اور میں اوپر۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہ بڑی شدت سے کپکپا اٹھی اور مجھے منع کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران میں نے خوب تسلی سے لن کی ٹوپی کو اس کی پھدی کے لبوں پر رگڑ دیا۔
وہ ہونٹ چھڑا کر بولی : بس مجھے جانا ہے دیر ہو رہی ہے۔
میں اسے کچا پھل سمجھ کر اپنا منہ پکانے کے حق میں نہیں تھا۔ اس لیے ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو چوم کر اس کے اوپر سے ہٹ گیا۔
وہ کپڑے درست کرتی کھڑی ہو گئی۔ میں بولا : ویسے آپ بہت نرم و نازک ہیں۔ آج کم از کم یہ تو پتا چل ہی گیا۔
وہ بنا کچھ کہے ایک شرمیلی سی مسکان چہرے پر ڈال کر باہر نکل گئی۔ اس نے صوفے سے برقع اٹھایا، پہنا اور میری طرف ایک محبت بھری مسکراہٹ ڈال کر چلی گئی۔
اس کے جانے کے بعد میں گھر سے نکلا تو میری ہی طرف آتا مجھے وہ لڑکا دکھائی دے
گیا جسے کل میں نے نسرین کی پھدی لے کر دی تھی۔
وہ بولا : ارے سکندر یار تجھ سے ایک کام ہے۔
میں بولا : بولو بھائی ! کیا کام ہے ؟
وہ بولا: کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔
اس کا نام شان تھا۔ ہم ایک کیفے میں بیٹھ گئے اور کولڈ ڈرنکس کا آرڈر دیا۔ وہ
بولا: یار ! ایک بچی چاہیے ، رات بھر کے لیے۔ ایک فنکشن میں ساتھ لے جانے کے لیے۔
میں بولا؛ رات بھر کے لیے کیوں ؟؟؟
وہ بولا: ایسا ہے کہ اپنا ایک دوست ہے۔ اس کی ایک دو دن میں منگنی ہے۔ وہاں سب دوست آئیں گے اپنی اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ۔ ایسے میں تو تو سمجھ سکتا ہے کہ اگر میرے ساتھ بھی بچی ہو گی تو ذرا امپریشن ظالم پڑے گا۔ پھر فنکشن ہے تو ذرا دیر سویر ہو جائے گی اور ایک مسلئہ یہ بھی ہے کہ مجھے دوستوں کو دکھانے کے لیے شاید اس بچی کی پھدی وہیں پر مارنی پڑے۔
میں بولا : وہیں پر کیوں؟
وہ بولا: وہ ایسا ہے کہ پچھلی بار ایک دوست کی برتھ ڈے پارٹی تھی تو ایک لڑکا ایک لڑکی یہ کہہ کر لایا کہ اس کی گرل فرینڈ ہے۔ دوستوں کو شک ہوا اور وہ بولے کہ جا پھر اس کی پپی لے کر دکھا۔ وہ بے چارا گیا تو لڑکی نے خوب باتیں سنائیں اور گالیاں دے کر چلی گئی۔ وہ بڑا ذلیل ہوا۔ وہ اس کے دوست کی بہن تھی جسے بہانے سے لایا تھا اور یہاں کہانی سنائی کہ جم کر اس کی پھدی مارتا ہوں۔
میں اس کی بات سمجھ گیا اور بولا : تم یہ چاہتے ہو کہ بچی کو جیسا چاہو ویسا استعمال کرو۔ وہ بولا: میں نے کل ہی دوستوں کو بتایا کہ ابھی ابھی ایک پھدی کا مزا لیا ہے۔
سوله سترہ سال کی بچی کا۔۔ وہ نہیں مانے۔ اس دن ایک بچی کو آگے پیچھے سے بجایا ، وہ بھی نہیں مانے۔ اب ان کو کہا کہ اس دن فنکشن میں ان کے سامنے بچی کے منہ میں لن ڈالوں گا، اور ان کے سامنے بچی کی پھدی ماروں گا۔ یہ شرط لگائی ہے اور اب تو میری مدد کرے گا۔ بھائی کی عزت کا سوال ہے۔
میں گہری سانس لے کر بولا: اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہاں اس لڑکی کا گینگ ریپ نہیں ہو جائے گا۔ دوست سین دیکھ کر خود نہیں چڑھ دوڑیں گے۔
وہ بولا : قسم لے لو۔۔۔ میں جب اسے اپنی گرل فرینڈ بتاؤں گا تو دوستوں کو تھوڑی اس کی پھدی لے کر دوں گا۔ ویسے بھی ان میں دو تو اپنی اپنی کے ساتھ آئیں گے۔
میں بولا ؛ جاؤ شان بھائی ! ہم روز سنتے ہیں چار بندوں نے لڑکی کی عزت لوٹ لی۔ اب حقیقت یہی ہوتی ہے کہ ان چاروں میں سے ایک اس کا یار ہوتا ہے باقی مفت کے طلب گار
وہ بولا : نہیں نہیں۔۔ ایسا نہیں ہو گا۔
میں بولا : لڑ کی تو مل جائے گی۔
مگر اس قسم کے کام میں چونکہ رسک زیادہ ہوتا ہے تو فیس زیادہ ہو گی، لڑکی کے لیے کپڑے وغیرہ بھی تم ہی دو گے ۔ کیونکہ وہ لڑکیاں نہایت غریب ہوتی ہیں۔
ویسے بھی ان میں سے کوئی بھی پیشہ ور نہیں ہے۔ سب کو مجبوری کی حالت میں یہ بات ماننی پڑتی ہے
وہ بولا : اس کی تم فکر نہ کرو۔ بس بچی تلاش کرو جو سب کی رال ٹپکا دے۔ ان دو میں سے کوئی بھی ہو۔
میں بولا : سوچتا ہوں۔ ایک بات اور ۔۔ اگر تمہیں کسی دوست پر اس بات کی شیخی بگھارنی پڑے کہ تم کسی بچی کی اسے لے کر دے سکتے ہو تو وہ کام بھی ہو سکتا ہے۔ کل والی بچی اس کام کے لیے حاضر ہے۔
وہ بولا ہاں ضرور ضرور۔۔ میں آؤں گا کچھ دنوں میں کچھ دوستوں کو لے کر۔
میں بولا : بس تو ٹھیک ہے میں تمہارے لیے بچی ارینج کرتا ہوں۔
وہ بولا : یار کوشش کرنا ممے ذرا مزیدار ہوں۔ دوستوں کو بڑے بڑے ممے پسند ہیں اور سب کی گرل فرینڈز کے مے چھوٹے ہیں۔
میں ہنس کر بولا : تو کیا تم لوگ اپنی اپنی گرل فرینڈ کے مموں کا بھی میچ کرواتے ہو۔
وہ بولا: او کوئی ایسا ویسا۔ ہر کوئی بتاتا ہے کہ میری گرل فرینڈ کی پھدی کیسی ہے ؟ ممے کیسے ہیں؟ گانڈ کیسی ہے ؟ کس چیز کا مزا ہے ؟ سب۔۔ پھر ہم ایک دوسرے کو اپنی اپنی گرل فرینڈز دکھاتے ہیں کہ کیا وہ واقعی سچ کہہ رہا ہے یا نہیں۔
میں بولا: تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔ وہ بولا : ایک تھی۔۔ اب چھوڑ گئی ہے سالی۔۔ پہلے اس نے دو تین بار پھدی مروائی۔۔ پھر ناراض ہو گئی۔۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اس کا ایک کزن اسے بھا گیا ہے۔ اس سے شادی کے سپنے دیکھ رہی ہے۔۔ میں پہلے تو بڑا ناراض ہوا۔۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کے بعد میں نے بھی تو دو پھدیاں بجائی ہیں اور دونوں میں اس سے زیادہ مزا آیا ہے۔
میں بولا : مزے تو تمہیں میں اور بھی دلاؤں گا۔ بس تم میرا خیال رکھنا۔
وہ بولا: تم فکر ہی نہ کرو۔
ہم دونوں سودا طے ہونے کے بعد اٹھ گئے۔ میرے ذہن میں دو نام تھے جو ظاہر ہے کہ شبانہ اور نسرین کے ہی تھے
اگلی قسط بہت جلد
مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Lust–30–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–29–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–28–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–27–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–26–ہوس قسط نمبر
May 26, 2025 -
Lust–25–ہوس قسط نمبر
January 26, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
