گھر کا رکھوالا ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہےجس کے ماں باپ کو دھوکے سے مار دیا گیا، اس کے پورے خاندان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور۔۔۔اس کے بچپن میں ہی، اس کے اپنے خاندان کے افراد نے ہی اس پر ظلم وستم کیا، اور بہت رلایا۔۔۔اورچھوڑ دیا اسے بچپن میں ہی ماں باپ کے پیار کو ترسنے کےلئے۔۔۔
گھر کا رکھوالا ۔ جب اس کے دادا جی نے اس کی انگلی پکڑی اپنے درد کو چھپا کر اسے اس لائق بنانے کےلئے خود سے سالوں دور کر دیا جہاں اسے اِس کا پیار ملتا ہے اور اُس پیار نے بھی اسے اس کی غریبی کی وجہ سے ٹکرا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
قسط نمبر 04
راحیل(دل میں):-
مجھے پتہ ہے یہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں میں نے ناشتہ کیا اور باہر آگیا۔ باہر گاڑی کھڑی تھی جس پہ لکھا تھا چٹان جو دادا جی کبھی کبھی بڑے فنکشن میں لے کر جاتے تھے اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا خانی چاچا۔۔۔
ہم بیٹھ کر نکل گئے سکول۔۔۔
سکول بہت ہی شاندار تھا سب سے پہلے پلے گراؤنڈ دو منزلہ عمارت غضب کا سکول تھا۔ مجھے تو پسند آگیا۔
پرنسپل کے آفس میں:-
پرنسپل:-
پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ رانا صاحب آپ۔۔۔
دادا جی:-
آپ آرام سے بیٹھ جائیں ان سے ملیں۔ یہ ہیں رانا راحیل۔ بیٹا ہے رانا عقیل اور شمائلہ کا۔
اتنا تعارف سنتے ہی پرنسپل جیب سے رومال نکال کے پسینہ صاف کرنے لگا اس کو اپنی موت دکھنے لگی وہ تھر تھر کانپ رہا تھا جیسے اس نے کسی ایسے آدمی کے نام سن لیے ہیں جو اس نے نہیں سننے تھے۔
راحیل:-
انہیں کیا ہوا دادا جی یہ کانپ کیوں رہے ہیں؟
دادا جی:-
کچھ نہیں ہوا انہیں۔ پرنسپل کی طرف دیکھ کر پرنسپل سے کہا یہ اب آپ کے سکول میں پڑھے گا۔
پرنسپل(حیرانی سے) :-
جی جی
دادا جی:-
خانی راحیل کو باہر سکول دکھاؤ اور راحیل کے جانے کے بعد۔۔۔
ہم آپ سے جو کہہ رہے ہیں ایک بار کہیں گے آپ دھیان سے سنیے۔۔۔ ہمارے پوتے کے بارے میں کوئی بھی جان کر اس سکول کے باہر گیا تو تمہیں پہچاننے والا اس زمین پہ نہیں ملے گا تمہارے جسم کو چیل اور کتوں کے لیے چھوڑ دوں گا اور یہ بات دھیان میں رکھنا یہ عام بچوں کی طرح پڑھے گا کوئی سپیشل سہولت نہیں اور ہاں ہمیشہ یاد رکھنا یہ الفاظ رانا اشفاق خان کے الفاظ ہیں۔
پرنسپل:-
جو کانپ رہا تھا وہ اور ڈر گیا اور اتنا ہی بولا جی رانا صاحب یاد رکھوں گا کسی کو نہیں پتہ لگے گا
اب دادا جی کیوں نہیں چاہتے تھے کسی کو پتہ نہ لگے۔ میں کون ہوں میرے ماں باپ کون ہیں؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
اگلی صبح دادا جی ساڑھے پانچ بجے راحیل سے۔۔۔۔۔راحیل بیٹا
میں نیچے آتے ہوئے جی جی داد جی
دادا جی:-
ہمارے ساتھ آؤ
جی دادا جی اور میں ان کے ساتھ چل دیا.
باہر بھوکے غریب اور فقیر بیٹھے تھے۔ میں پہلی بار ہی آیا تھا آج کیونکہ دادا جی نے بچوں کو منع کر رکھا تھا وہاں آنے سے۔
جب میں وہاں پہنچا تو سب کھانا کھا رہے تھے صبح ہمارے روز کا ایسے ہی تھا فقیر اور غریب لوگ جلدی کھانا کھاتے ہیں اس لیے صبح جلدی ہی کھانا شروع ہو جاتا تھا جو نو بجے تک چلتا تھا میں دادا جی کے ساتھ آگے چلا گیا مجھے خود ہی کچھ چیزیں کھینچ رہی تھی میں پھلوں کی چھوٹی ٹوکری اٹھائی اور فقیروں کے پاس جا کے ان کے تھیلے میں رکھنے لگا جو سب کے لیے ہی حیرانگی کی بات تھی ایک فقیر جو مجھے دھیان سے دیکھ رہا تھا انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پل چپ رہا اور پھر اس کی آنکھیں چمکنے لگی وہ بڑے دھیان سے کچھ پڑھنے لگا انہیں جیسے کچھ مل گیا ہو اور ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔
بزرگ فقیر:-
بیٹا کیا نام ہے آپکا؟
جی میرا نام راحیل ہے
بزرگ فقیر:-
تو راج کرنے کے لیے ہے بیٹا کبھی ڈرنا نہیں اوپر والا خود تیری تقدیر بدلے گا اور جب وہ بدلے گا تب تو بدلے گا اور بدلے گی تیری قسمت جو تیرے ہیں وہ تیرے رہیں گے تیرے انتظار میں ان کے دکھوں میں تو ان کا مسیحا بنے گا اور سارے لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھے پیار دینے لگے۔
صبح کا وقت:-
آج یہ میری اب تک کی سب سے اچھی صبح ہے میں ساڑھے پانچ پہ اٹھا ہوں اور کسی کو جگانے نہیں گیا ہوں بس تازہ دم ہوا اور پہنچ گیا فقیروں کو پھل دینے۔۔۔ میں جیسے ہی پہنچا وہاں سبھی کھانا کھا رہے تھے۔
دادا جی:-
آؤ راحیل
میں نےجاکر دادا جی سے پیار لیا اور پھر خانزدہ چاچا سے پیار لیا تو انہوں نے گلے لگا لیا اور بولے.
خانزدہ:-
آپ میرے دل میں ہو جیسے ہم آپ کے پاپا کے دل میں تھے۔
دادا جی:
خانزدہ ؟؟؟
خانزدہ:-
سمجھ گیا کہ غلطی کردی ہے تو وہ بولے اچھا راحیل بیٹا تیار ہو جائیں پہلے پھل بانٹ دیں اور پھر ہم سکول چلیں گے۔
راحیل:-
جی خانزدہ چاچا اور میں چلا گیا میں سکول سوٹ پہنتے ہی گانا گاتے ہوئے نیچے آگیا۔
سکول چلے ہم اوہوں اوہوں
بادل سے گرجے ہم
بجلی سے چمکے ہم
سکول چلے ہم اوہوں اوہوں
بڑی چاچی(مشتاق چاچا سے):-
لو چل دیا سکول کچھ کرنا ہے یا نہیں یا لوڑا ہلاتے رہنا ہےاپنا ،،،خیر وہ بھی آپ کی طرح ہے ناکارہ۔
بڑے چاچا:-
پروین تمہارا کچھ زیادہ ہورہا ہے بس اب بناتا ہوں منصوبہ۔۔۔ کچھ دیر سوچنے لگے اور پھر ہنسنے لگے ہاہاہاہا مرے گا اب مرے گا۔
بڑی چاچی:-
اس مسکان کا مطلب جان گئی تونے سوچ لیا ہے کچھ نہ کچھ اس نے کہا اور چھوٹی چاچی وہ صرف شطرنج کا مہرہ تھی ان دونوں کا یا یہ دونوں بھی مہرے تھے کسی اور کے۔
دادا جی مجھے چھوڑنے نہیں گئے کیونکہ سکول شہر کے پاس تھا جو بیس کلومیٹر دور ہے اور دادا جی نے دوسرے شہر جانا تھا۔ یہاں شاید اس لیے کہ گھر سے باہر کوئی بھی آدمی مجھے اور دادا جی کو ایک ساتھ نہ دیکھ لیں۔ اس لیے خانزدہ چاچا سکول بس تک چھوڑنے آتے تھےجہاں سے سکول کی چھوٹی بس آئی اور میں بیٹھ گیا اس بس میں۔
اس شہر کے یہ مشہور سکول ہےتو بچے بھی بہترین آتے ہیں پورے شہر سے۔۔۔ اس لیے میری بس میں 10 ہی بچے جاتے ہیں۔آج میں بہت خوش تھا سکول جانے سے کیونکہ میرے دکھ کچھ تو کم ہوئے تھے اور دل سے دادا جی کو اور اوپر والے کا شکریہ اداکر رہا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد بس سکول پہنچ گئی راحیل بس سے نیچے اترا اور دھیرے سے بولا۔
واؤ اتنے سارے بچے۔ یہ ہوتا ہے سکول آج سے تو یہاں پڑھے گا۔ یہ تو سچ میں بہت اچھی لگ رہی ہیں اور پھر اس کو نگران جو چھوٹے بچوں کا دھیان رکھتا ہے اس نے کہا۔ بچے ادھر چلنا ہے اور میں اس کے پیچھے چلا گیا ہر کلاس روم میں 50 کی تعداد ہے کلاس کی، جو مکمل تھی سب امیر گھر کے لگ رہے تھے، کچھ سفارش سے آئے تھے اور کچھ ٹیسٹ پاس کر کے آئے ہیں کچھ دیر میں کلاس ٹیچر آئی اور وہ بولی۔
ٹیچر:-
میرا نام صبین (Sabeen) ہے آپ سب بچے اپنا اپنا تعارف کروائیں۔ پہلےاپنا نام بتائیں اور پھر پاپا کا۔
پھر سب بچوں نے نام بتائے جب میری باری آئی۔۔۔ میں بھی کھڑا ہوگیا۔
اگر بولنا ہی تھا تو مطلب مینرز/اخلاق سے بولنا چاہیئے۔تو مجھ میں احترام تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہے دادا جی نے۔
میں ادب سے کھڑا ہوکرپہلے ٹیچر کو سلام کیا اور کہا گڈ مارننگ ایوری ون مائی نیم اِز راحیل خان اینڈ مائی فادرز نیم۔۔۔۔
اتنے میں ٹیچر بولی۔
اٹس اوکے، اٹس اوکے،،، راحیل ڈونٹ ٹیل یور فادرز نیم آئی نو دی نیم اف یور فادر پلیزسیٹ ڈاؤن۔(ٹھیک ہے ٹھیک ہے،آپ اپنے پاپا کا نام مت بتائیں میں جانتی ہوں آپ کے والد کا نام مہربانی کرکےبیٹھ جائیں)
ایکچلی دادا جی نے منع کیا ہے کسی کو بھی کچھ نہیں بتانا نہ ہی پاپا کا نام اور نہ ہی دادا کا نام کوئی کچھ پوچھے یا ڈانٹے یا زبردستی کریں۔تو صرف سن لینا اور بعد میں مجھے بتانا پر اپنی تفصیل مت دینا۔ پرنسپل کو سخت ہدایت تھی ٹیچر کو بتا دے کہ راحیل کی تفصیل کوئی بھی نہیں لے گا نہ وہ دے گا۔
تو آج میں نے خوب پڑھائی کی میں خوب کھیلا، نئے دوست بنائے۔
یہ تھا راحیل کا پہلا دن ادھر بڑے چاچا چاچی اور چھوٹی چاچی منصوبہ بنا رہے تھے مجھ سے نجات کا۔۔۔۔
بڑے چاچا:-
دیکھ اروی میں نے سری نگر کے ایک گینگ سے بات کی ہے ایک کروڑ لگے گا ایکسیڈنٹ دکھا کر مار دیں گے اور کسی کو شک بھی نہیں ہوگا کہ ہم نے کیا ہے پر وہ بول رہا ہے ابھی اس کا بندہ جو بہترین ہے وہ بیرونِ ملک ہے دو سال چاہیئے.
چھوٹی چاچی:-
بھائی صاحب پھنس نہ جائیں کہیں۔
بڑی چاچی:-
کچھ نہیں ہوگا آپ اوکے کر دو باقی میں سنبھال لوں گی اور دو سال کیوں لگیں گے وہ۔۔۔ چلو کوئی نہیں اتنا جھیلا ہے تو دو سال اور صحیح۔
بڑے چاچا(دل میں):-
تجھے پھنساوں گا میری جان اس ایکسیڈنٹ میں اور پھر اس کی یعنی چھوٹی چاچی کی چدائی کے مزے لوں گا گھر میں اسے اپنی رنڈی بنا کر۔۔۔۔
اور ان کی منصوبہ بندی چلتی رہی پر قسمت میں کس کی کیا لکھا ہے کسے پتہ ہے کب کچھ ہو جائے۔
راحیل کی روٹین اب سیٹ تھی روز اٹھنا تیار ہونا اور سکول جانا.. ایک منحوس دن بھی ہے جو آگیا ہے۔
دن—— اتوار کا
راحیل:-
وقت سے اٹھا اور گیا دونوں کو اٹھانے اور ملی ایک لات مجھے اور میں گرا زور سے بہت تیز لگی تھی مجھے۔۔۔ میں درد سے کراہتے ہوئے اٹھا اور پھر گیا سُنبل کو اٹھانے پر وہ بھی تیار تھی۔ آواز تڑاپ تڑاپ تڑاپ تڑاپ چار تھپڑ پڑے مجھے۔
سُنبل:-
حرام خور آج اتوار ہے تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے اٹھانے کی۔
راحیل:-
میں وہ دادی نے بولا تھا کہ آج باہر جانا ہے
سُنبل:-
بھاگ کتے یہاں سے۔۔۔
میں اپنے کمرے میں آگیا اورباتھ روم میں گھس گیا اور فریش ہونے لگا۔ گال لال ہو گئے تھے اور سینے میں درد ہو رہی تھی شکیل کی لات سے یہ آج ان دونوں نے زیادہ ہی کیا تھا جان بوجھ کے۔ میں بس غصے سے اپنے آنکھ ملتا رہا آنسو پونچھتا رہا جو گرے میری آنکھ سے اور پھر نہا کے تیار ہو کے آگیا نیچے جانے کے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کھالی تیری خبر پکی ہے نا کہ رانا اشفاق خان آج آئے گا اپنے پریوار کے ساتھ کیونکہ اکیلا تو وہ ڈرنے سے رہا بہن چود غلط خبر ہوئی نا تو بہن چود تیری گانڈ کے اندر بندوق کا صندوق کھول دوں گا سمجھ گیا نا۔۔۔
کھالی:-
ہاں آئے گا استاد آئے گا آج کام تمام کرتے جائیں گے اس کا اور دونوں ہنسنے لگے۔
50 آدمی جو تھے ساتھ مل کر انہیں کیا پتہ ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے آپ کو شیر کا شکار ایسے نہیں کیا جاتا جس میں ان کے ساتھ چیتا بھی ہوگا مطلب خانزدہ بھی آنے والا ساتھ میں۔
داداجی:
خانزدہ تو بھی چل ہمارے ساتھ۔۔۔
خانزدہ:-
نہیں بابو جی میری کسی سے اتنی نہیں بنتی بس اوپر والے کا کرم ہے جو یتیم ہونے کے باوجود آپ کا سایہ مجھ پر ڈال دیا ورنہ تو سب چھین ہی لیا تھا نا اوپر والے نے مجھ سے میرا سب کچھ ۔
دادا جی:-
بیٹا خانزدہ بھول جا جو ہو گیا اسے بدلہ نہیں جا سکتا اور ویسے بھی راحیل بھی جائے گا اب بھی نہیں چلے گا ۔
خانزدہ:-
چلوں گا بابو جی میں آتا ہوں ابھی اور خانزدہ اندر گیا اور گاڑی نکال کے لایا دادا جی کی چٹان کو ہم سب بھی دو گاڑیوں میں بیٹھ گئے اور چل دیئے اور آنے والے خطرے سے انجان سب مستی میں جا رہے تھے.
راستے میں—–
دادا جی:-
بیٹا راحیل اوپر والے سے جو چاہتے ہیں اس کی درخواست کرنا مطلب جو آپ چاہتے ہوں وہ مانگنا وہ آپ کو ضرور ملے گا.
راحیل:-
جی دادا جی مجھے بہت کچھ مانگنا ہے میں ضرور مانگونگا۔
خانزدہ:-
بابو جی آگے پیڑ کٹا ہوا ہے راستے میں کچھ گڑبڑ ہے
دادا جی:-
کتے آگئے ہیں لگتا ہے چلتے رہو اور راحیل بیٹا کچھ بھی ہو جائے بالکل بھی باہر مت نکلنا سمجھے
راحیل :-
جی دادا جان
کھالی:-
استاد وہ آ رہے ہیں تیار ہو جائیں آج کام تمام کرنا ہے ورنہ ہم نہیں بچیں گے اگر رانا بچ گیا تو رانا اشفاق کے ساتھ اس کا ڈرائیور اور اس کا پریوار ہی ہوگا
استاد:-
ارے کھالی میں تو پچھلے دو سال سے موقع ڈھونڈ رہا ہوں پر آج ملا ہے اور زور سے تیار ہو جاؤ سب مجھے برباد کیا تھا نا آج تو نہیں بچے گا رانا
کھالی:-
استاد دو گاڑیاں آرہی ہیں ہر سال تو ایک ہی آتی ہے کچھ گڑبڑ ہے۔ رہنے دیتے ہیں استاد کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں وہ کہتے ہیں نا دن میں ایک بار منہ سے سچ نکلتا ہے آج ہوا تھا کھالی کے ساتھ۔۔۔
استاد:-
نہیں کھالی آج تو میں یا وہ ایک ہی زندہ بچے گا پھر ایک سال اور انتظار نہیں ہوتا ہے، پچھلے سال بھی کچھ نہیں کیا تھا گاڑیاں آ رہی ہیں تیار ہوجاؤ گھیر لو سب
گاڑیاں پیڑ کے پاس آ کر رکیں اور گاڑی سے نیچے اترے دادا جی۔۔۔
دادا جی:-
سامنے دیکھ کے بولے چھپنے سے کیا مجھے پتہ نہیں ہے کہ لکڑ بگے شیر کا شکار کرنے آئے ہیں آجاؤ باہر اور دیکھو کہ شیر کے پاس صرف موت ہے صرف دینے کو۔۔۔۔ اس کی جان تمہارے بس کی نہیں ہے اور اپنے مونچھوں پہ تاؤ دیتے ہوئے بولے۔۔۔
آج پہلی بار کسی کو زندہ چھوڑوں گا پر اسے دیکھ کے کوئی نہیں کہے گا کہ وہ زندہ ہے وہ کہیں گے “زندہ مردہ پہلی بار دیکھ رہا ہے جو بولتا نہیں ہے” اس کے بعد جھاڑیوں سے سارے غنڈے باہر آنے لگے کسی کے ہاتھ میں تلوار تو کسی کے پاس لاٹھی تو کسی کے پاس راڈ اور سریے تھے۔
استاد:-
رانا آج تک کا پتہ نہیں پر آج لکڑ بھگے ضرور کریں گے شکار تیری موت ہوگی اور ہماری آج دعوت ہوگی تیرا کلیجہ کھاؤں گا میں آج رات۔۔۔ پر افسوس تو نہیں ہوگا دیکھنے کے لیے۔۔۔
دادا جی:-
زبیر رانا تیرا باپ بہت نیک انسان ہے اس کی ہی وجہ سے پچھلی بار عورت کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی وجہ سے صرف ڈانٹ دے کے چھوڑ دیا تھا پر آج ایک سبق ہوگا سب کے لیے مشتاق فون لگا اس کے باپ کو ڈاکٹر لانے کو بول دے۔
مشتاق رانا کے باہر نکلنے سے زبیر بھی سوچ میں پڑ گیا کہ رانا اکیلا نہیں ہے پر اسے ڈر نہ لگا اس نے سوچا دونوں کو ہی مار دوں گا آج کیونکہ اس کے پاس اتنے آدمی جو تھے ساتھ دادا جی پھر بولیں میرا خون یا ماس پہچاننا تیرے بس کی بات نہیں برابر شیر کا شکار کرنے آیا ہے پہلے کسی اور سے ہو کر گزرنا ہوگا اور دادا جی چلائے
‘خانی’۔۔۔۔۔
کار کا دروازہ کھلا اور ایک نوکیلی جوتی پہنے خانزدہ نکلا گاڑی سے۔۔۔ جسے دیکھ کے 20 غنڈوں کی حالت خراب ہو گئی تھیں وہ اچھے سے جانتے تھے کہ خانزدہ جو موت دیتا ہے وہ کیسی ہوتی ہے باقی جو غنڈے تھے وہ نئے تھے خانزدہ بھی لڑائی کم کرتا تھا تو وہ اس سے شکل سے اتنا نہیں جانتے تھے پر خانزدہ کے کارنامے جس نے دیکھے ہیں اسے اس رات میں نیند نہیں آئی ہے۔
زبیر:-
اوہہہ تو رانا کا کتا بھی ہے ساتھ آج سب کو مار دوں گا اور چلا کے بولا اگر ان کو مار دیا تو ایک کروڑ نہیں پانچ کروڑ تم سب کے اور پیچھے جو بیٹھی ہے دونوں وہ بھی تمہاری زبیر کی بات سن کرجو غونڈے ڈر رہے تھے پیسوں کے نام سن کے خوش ہوگئے اور حملہ کر دیا۔ پہلے دس غونڈے دادا جی کی طرف آئے دادا جی نے ایک ہاتھ کار میں ڈالا اور کار میں سے اپنی تلوار نکالی جس کا وزن 10 سے 15 کلو گرام کے درمیان تھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے باری باری گھمانے لگے چاروں طرف اور بولے بہت دن ہو گئے کسرت کر کے خانزدہ انتظار کرنا دیکھنا ذرا کتنا دم ہے ان میں۔۔۔
خانزدہ:-
بابو جی آپ کو بہانہ چاہیے لڑنے کا آپ آرام کریں میں اور چھوٹے مالک دیکھ لیں گے۔
دادا جی:-
چپ کر لڑنے دیں مجھے اچھا ٹھیک ہے زبیر اور دس میرے۔۔۔ باقی تم دونوں کے۔ اب آگے کہانی راحیل کے نظر سے۔
اور آگئے 10 غونڈے دادا جی کے پاس
پہلے نے لاٹھی گھما کے سر پر مارنی چاہی دادا جی نے جھک کر اس کا پیر ہی کاٹ دیا یہ دیکھ کر پچھلے والا ایک بار تورک گیا پر ہمت کر کے پھر بھی آگے آگیا۔۔۔
آگے دو بڑھے اور ایک ساتھ آئے دونوں کے ہاتھ میں راڈ تھیں جو سیدھی کرکے دادا جی کے سر پر ماری مگر دادا جی نے آگے تلوار کر کے روک لی اور پیچھے دھکا دے کر تلوار گھمائی اب تلوار بھی اتنی بھاری تھی سیدھی گلے پہ لگی اور گردن دھڑ سے الگ ہو گئیں دونوں کی۔۔۔۔
ادھر مشتاق چاچا نے بھی لاٹھی نکال لی لاٹھی سے پورے لاٹھی یار بن کر غونڈوں پہ ٹوٹ پڑے اور سر پر مار کر پھوڑنے لگے۔
سر جیسے کوئی مٹکی پھوڑ رہا ہے پر ادھر خانزدہ چاچا تو الگ ہی کلہاڑی چلا رہے تھے اوروہ بھی دو طرف والی لے کے چلے تھے غونڈوں کی طرف پہلے جیسے ہی آئے تیزی سے مارا سر کے بیچ۔۔۔ یہ کیا ایک وار نہیں دو نہیں پانچ وار سر پھاڑ دیا بیچ میں سے پیچھے والوں کی تو گانڈ ہی پھٹ گئی تھی کہ یہ بہن چود ہے کیا؟
غونڈے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کے بول رہے تھے عجیب ہے یہ تو۔
ادھر دادا جی نے سات لوگوں کو مار دیا تھا باقی کے تین کے ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کاٹ دی اور چل دیئے زبیر کے پاس زبیر بھی تلوار پکڑے تیار تھا اور ٹکرائی آپس میں تلواریں۔
زبیر بھی تلوار باز تھا تلوار ٹکرانے سے دن میں بھی چنگاری دکھ رہی تھی پردادا جی بھاری پڑے زبیر پر دوسری طرف مشتاق چاچا جنہیں لاٹھیوں سے سر پھاڑ رہے تھے وہیں خانزدہ چاچا غونڈوں کو چیر پھاڑ رہے تھے۔
20 غونڈوں کو پھاڑ دیا تھا بیچ میں سے اور خانزدہ چاچا غصے میں سے چلائے بابو جی پر آنکھ اٹھائی ہے تم لوگوں نے آج کوئی زندہ نہیں بچے گا سب کو کھول دوں گا اور ایسے کھولوں گا کہ ڈاکٹر بھی جوڑ نہیں پائے گا تمہاری روح بھی دوبارہ نہیں جڑے گی حرام زادوں اور اتنا کہتے ہی ٹوٹ پڑے پھر سے۔
پانچ کی مشتاق چاچا نے مٹکی مطلب سر ہی پھاڑ دیےتھے وہیں چاچی نے پاس کے گاؤں کے سرپنچ کے پاس فون لگا دیا تھا ہزاروں کی بھیڑ بھاگی آ رہی تھی لاٹھیاں لے کر۔۔۔۔
غونڈے جو بچے ہوئے تھے انہوں نے خانزدہ کی مار اور دادا جی کی تلوار سے گردن کاٹتی ہوئی دیکھی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے چاروں طرف خون ہی خون تھا 15 غنڈے بچ کر بھاگ گئے وہ بھی گھائل تھے ایسے لگا جیسے لال رنگ کی ہولی کھیلی گئی ہو یہاں.
دادا جی:-
خانزدہ رک جاؤ جانے دو انہیں بس بہت ہوا پرسکون ہو جاؤ کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اس کا غصہ بہت برا ہے اور انہوں نے کہا مشتاق لوگوں کو بلاؤ راستہ صاف کرنے کے لیئے۔
مشتاق چاچا:-
ضرورت نہیں ہے وہ دیکھیے بابو جی چاروں طرف سے لوگ آرہے ہیں ٹریکٹر اور گاڑیاں اور بھاگ کر گاؤں والے 15 منٹ میں پہنچے انہیں 10 لوگوں کو ٹریکٹر کی ٹرالی میں سے نکال کے پھینک دیئے اور بولے رانا صاحب یہ لوگ ہمیں بھاگتے ہوئے دکھے ہم پکڑ کے لے آئیں اور باقی تین کو لوگ گھسیٹ کر دوسری طرف سے لا رہے تھے اور دو کو دوسری طرف سے۔۔۔
دادا جی:-
ہمممم انہیں واپس ڈال دو گاڑیوں میں
گاؤں والے ایک ساتھ چلانے لگے بدلہ بدلہ بدلہ چاہیے تھا رانا صاحب انہوں نے ہمارے رانا پہ حملہ کیا ہے ہم زندہ نہیں چھوڑیں گے اور خانزدہ بھی بولا بابو جی بدلہ لینے دیں ان کو یا ہم چھیڑ پھاڑ کریں گے ان کی۔
دادا جی:-
کچھ پل سوچ کر ٹھیک ہے پر اس زبیر کو زندہ چھوڑ دیں گے چلوآگے گاؤں کے پاس میں قربانی کا میدان ہے جہاں بکروں کی قربانی دی جاتی ہےدادا جی ہائے اوپر والے ہماری ایسے ہی حفاظت کرنا اور طاقت دینا تاکہ دھرتی پاک کرتے رہے۔
رانا صاحب پر حملے کی خبر سے آس پاس کے گاؤں سے ہزاروں لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور زور زور سے نعرہ لگا رہے تھے اور سب غنڈوں کو ایک ایک کرکے سزا دی گئی زبیر یہ سب دیکھ کر دو دفعہ پیشاب نکال چکا تھا اور مرے ہوئے غنڈوں کے جسم کو چھوڑ دیا چیل اور کتوں کے لیے۔۔۔
زبیر کے دونوں ہاتھ پاؤں کی انگلیاں اور زبان کاٹ دی گئی سب کے سامنے تاکہ سب کو یہ یاد رہے کہ انجام کیا ہوتا ہے رانا اشفاق خان پر حملہ کرنے پر۔۔۔زبیر زندہ تو ہے پر مردہ کی طرح مطلب وہ زندہ مردہ جو بولتا ہے پر مرے ہوئے سے بھی بدتر حالت میں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گھر کا رکھوالا کی اگلی قسط میں راحیل بڑا ہوکر 11 سال کا ہوجائے گا۔
اگلی قسط بہت جلد

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
