Reflection–14–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 14

میرے اعتراف میں موجود سب ٹیچرز پہ جنسی ہیجان طاری ہو رہا تھا۔ ان میں سے کچھ اپنے جسموں کو مل رہے تھے کچھ ایک دوسرے کے۔  مجھے مس چندہ،  سسٹر کوناز کے ہونٹوں پہ جھکی نظر آئیں۔

میں ابھی یہی دیکھ رہا تھا کہ مس فریال اور کُنایہ ، سسٹر شیتل کے برابر آکر کھڑی ہوئی اور انہوں نے سسٹر شیتل کے پیچھے اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ سسٹر شیتل نے اپنا وزن چھوڑا تو وہ جیسے مس فریال اور کُنایہ کے بازوں میں آگئیں۔

ان دونوں نے سسٹر شیتل کو اٹھایا اور میری جانب بڑھایا ۔ میں اپنی جگہ پہ کھڑا رہا اور میرے منہ کے عین سامنے سسٹر شیتل کی پھدی آگئی۔

 بالوں سے پاک ، ہموار اور موٹے خوبصورت  ہونٹ۔۔۔ اس کے پھدی کےآپس میں ملے پنکڑیاں مجھے دعوت دے رہے تھے۔۔۔ سسٹر شیتل نے اپنی  چمکتی ٹانگیں اُوپر کر دیں اور اس کی پھدی سمٹ کر ایک لکیر بن گئی۔ میرے ہونٹ خود بخود کھلے اور سسٹر شیتل کی پھدی کی لکیر پہ چپک گئے۔ میں اس کی مہکتی پھدی پہ منہ کھول کھول کر کس کر رہا تھا اور میری زبان، لکیر کو پار کرنے کا راستہ تلاش کر رہی تھی۔سسٹر شیتل کی ایک زوردار سرور میں ڈوبی ‘آااااااہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ  ! ”نکلی اور ہال میں موجود دیگر ننگے جسموں کی آہوں سے جا ملی۔ میں نے اپنے ہاتھ
سسٹر شیتل کی چمکتی رانوں پہ رکھے اور تھوڑا سا  زور ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی زبان ان کی پھدی میں گھسا دی۔۔۔ ایک عجب ذائقہ منہ میں آیا ۔  یہ ذائقہ کچھ ان کے مموں سے نکلنے والے رس جیسا تھا، لیکن اس سے شاید کچھ زیادہ تیز۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ کھلے اور سسٹر شیتل کی پوری پھدی اپنے منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی مزے میں ڈوبی آوازیں اور تیز ہوگئیں۔ ایک  مدہوشی کے الم میں اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے سَر پہ رکھ کر اسے دبایا ، اور اپنی پھدی دھیرے دھیرے میرے منہ پہ مارنے لگی۔۔۔ میں کبھی اس کے دانے کو زبان سے چھیڑتا، کبھی اپنے ہونٹ  سکیڑ کر اس کی پھدی کے پھنکڑیاں منہ میں لے لیتا۔۔۔پتہ نہیں کب تک میں ایسے ہی شڑاپ شڑاپ کرکے سسٹر شیتل کی پھدی چاٹتا رہا ۔ میرے اردگرد مزے میں ڈوبی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور میرا لن نیچے تنے  جا  رہا تھا۔

اچانک مجھے اپنے لن پہ کسی کے ہاتھ محسوس ہوئے۔۔۔ ایک بار پِھر ایسا لگا جیسے میرے لن پہ کوئی کچھ مل رہا ہو۔
میں نیچے نہیں دیکھ پایا کیونکہ میرا منہ سسٹر شیتل نے اپنی ہی پھدی پہ دبایا ہوا تھا، اور وہ خود ، مستی میں ڈوبی ، قدرے زور زور سے اپنی پھدی میرے منہ پہ مار رہی تھیں ۔

نیچے میرے لن پہ جو کوئی بھی کچھ مَل رہا تھا، اس کا ہاتھ تیز چلنے لگا۔
سسٹر شیتل نے مجھے کافی شدت اور جوش کے ساتھ اپنی پھدی پہ دبایا اور اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ میں نے کس کے اس کی پھدی اپنے منہ میں دبا لی۔
میرے اعتراف مزے میں ڈوبی آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ سسٹر شیتل نے ایک دم سے میرے سَر سے ہاتھ ہٹایا اور وہ کچھ پرسکون ہونے لگی۔ میں نے  اس کی پھدی کا پانی اپنے ہونٹوں پہ محسوس کیا اور اپنا منہ پیچھے کر لیا۔

مس فریال اور کُنایہ نے سسٹر شیتل کو بڑے احترام سےدوبارہ نیچے زمین پہ اُتار دیا۔ اب میری نظر نیچے پڑی تو میرے لن کے پاس مس سرینا گھٹنوں کے بل بیٹھی تھیں اور ان کے دونوں ہاتھ میرے پھولے ہوئے لن کےگرد لپٹے ہوئے اسے آگے پیچھے کر رہے تھے ۔

مس سرینا کا قد چھوٹا تھا اور وہ کسے ہوئے جسم کی مالک تھیں۔ ان کی ننگی ، چوٹی سی بُنڈ ، گھٹنوں پہ بیٹھنے کی وجہ سے بڑی واضح ہو رہی تھی۔ میں ابھی یہیں گمُ تھا کہ مس کُنایہ اور فریال نے مجھے دائیں بائیں سے جکڑ لیا۔ ان کے ننگے جسموں کا احساس اور گرمی پا کر میں اور گرم ہونے لگا۔ وہ دونوں میری گردن اور کندھوں پہ اپنے ہونٹ لگا لگا کر مجھے ہلکی ہلکی چُمیاں دے رہیں تھیں۔۔۔ مجھے ایسی راحت کا احساس کبھی نہ ہوا تھا ، اور میری آنکھیں بند ہونےلگیں۔۔۔ اسی اَثْنا میں مس سرینا  نے میرا لن اپنے ہاتھوں سے آزاد کر دیا۔ میں نےآنکھیں کھول کے دیکھا تو وہ گھٹنوں کےبل چلتی باقی ٹیچرز کی جانب جا رہی تھیں۔۔۔ ان کی بُنڈ پیچھے سے ہلتے بہت بھلی  لگ رہی تھی۔۔۔ وہ گھٹنوں كے بل چلتی ٹیچرز کے ہجوم میں گھایا  ہوجایین . ساری ٹیچرز ایک دوسرے کے ساتھ یا اپنے آپ کے ساتھ مستیوں میں مگن تھیں۔۔۔ میرا سامنے فرش پہ لیٹی سسٹر شیتل اچانک اٹھ کھڑی ہوئی ۔ میری نظر مس سرینا کی بُنڈ سے ہٹی اور سسٹر شیتل کی دلفریب مسکراہٹ میں قید ہوگئی ۔۔۔ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھیں اورمیرے سینے پہ دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ ان کا سَر جھکا اور وہ بھی مس فریال اور مس کُنایہ کی طرح میرے جسم پہ ہلکی ہلکی پپیاں لینے لگیں۔۔۔ ان کے ہاتھ میرے سینے سے سرکتے ہوئے میری رانوں تک آگئے اور پِھر ساتھ ہی انکے ہونٹ میرے سینے کو چومتے چومتےمیرے لن کی طرف روانہ ہوئے۔

سسٹرشیتل نے میرے لن کی پھولی ہوئی ٹوپی پہ اپنے ہونٹ رکھ کر ایک پپی کی ۔مجھے مزے کا ایک جھٹکا سا لگا ۔ ادھر مس فریال اورمس کُنایہ میری گردن چومتے چومتے میرے گالوں اور ہونٹوں پہ آگئیں تھیں۔ وہ زبان پھر پھر کر میرے  ہونٹوں پہ لگا سسٹر شیتل کی پھدی کا پانی چاٹ رہی تھیں۔ میرے لن پہ ایکدم کیسی گیلی چیز کا احساس ہوا۔ سسٹر شیتل نے میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا تھا۔ ان کا ایک ہاتھ میرے ٹٹوں کو ٹٹولتے ہوئے سہلا رہا تھا اور دوسرا ہاتھ پیچھے سے ہوکر میرےچوتڑوں کو ۔  

سسٹر شیتل میرا لن اپنے منہ میں آگے پیچھے کرنےلگیں۔ میرے ہاتھ خود بخود اُٹھے اور میں نے کس کے ان کے سرکو پکڑ لیا۔۔۔ میری مٹھیوں میں ان کے بال آئے۔۔۔اور میں نے گانڈ ہلا کر اپنا لن ان کےمنہ میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ۔
مس فریال اورکُنایہ میرے ہونٹ چوس رہے تھے اورمیں سسٹر شیتل کا منہ چود  رہا تھا ۔

میرا لن حلق تک سسٹر شیتل کے منہ میں جاتا اور پِھر میں اپنے ہاتھوں سے ان کا سر دبا کر کچھ سیکنڈز اپنا لن ان کے حلق میں رکھتا۔ مجھے اس کھیل میں ایک عجیب قسم کا مزہ مل رہا تھا کچھ ہی دیر بعد مجھے اب اپنےجسم  پہ  اور  ہاتھ محسوس ہو رہے تھے۔

میں نے دیکھا تو اعتراف میں لوگوں کا دائرہ اب تنگ ہو گیا تھا۔۔۔ اور اِس ہجوم میں ناچتی ، مچلتی ننگی ٹیچرز میرے جسم کو چھو رہی تھیں اور اپنے جسم کے پرائیویٹ حصے مجھ سے ٹچ کر رہی تھیں۔۔۔ بڑے بڑے ممے  میرے جسم سےرگڑکھاتے ہوئے ایک الگ مزہ دے رہا تھا۔۔۔ میں سرور میں ڈوبا، نیم مدہوشی میں سسٹر شیتل کا منہ چودتے ہوئے مزے سے کراہ رہا تھا۔

آگے کیا ہونا تھا ، مجھے سب علم تھا۔ اچانک میرے ہونٹوں پہ جھکی مس فریال اور مس کُنایہ مجھ سے الگ ہوگئیں۔ شادیانے ایک بار زور سے بجے ، ہجوم میں موجود تمام عورتیں ایک دوسرے سے بغلگیرہونے لگیں۔

سسٹر شیتل نے اپنا منہ کُھل کے میرے لن پہ گرفت ڈھیلی کی  تو میں نے بھی اپنے ہاتھ ان کے سرسے اٹھا لیا۔

شادیانو ں كے ساتھ ایک تھاپ سی بجنے لگی۔۔۔سسٹر شیتل اپنا خوابوں جیسا  بدن اسی تھاپ پہ ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور مستی بھرے انداز میں کسی بیلی ڈانسر کی طرح اپنے جسم کو تھرکانے لگیں۔۔۔ ان کی کمراور ہموار پیٹ لچکتے ہوئے بہت سیکسی لگ  رہے تھے۔

 اعتراف میں کھڑی تمام ٹیچرز ایک دوسرے میں ضم ہو رہی تھیں ۔ کوئی کسی کے ہونٹ چوس رہا تھا تو کوئی  کسی کی پھدی۔۔۔ کوئی انگلیاں کسی کے پُھدی میں چلا رہا تھا اور کسی کی گانڈ میں گھسی تھیں۔۔۔ بہت گرم ماحول تھا۔

سسٹر شیتل ایسے ہی تھاپ پہ رقصاں آہستہ آہستہ نیچے بیٹھنے لگی اور پِھر وہ فرش پہ لیٹ گئی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page