Reflection–27–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 27

میری آنکھوں میں آنسو آتے آتے رہ گئے۔  مجھے ماضی میں تصور میں، باغیچوں کے اطراف حَسین بھائی اور میں بھاگتے ہوئے دِکھ رہے تھے۔ امی اور ابو لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے اور ہنس ہنس کر باتیں کرتے ہوئے دِکھ رہے تھے۔ اور پِھر ایک دم سے وہ تینوں
غائب ہوگئے۔میں اکیلا باغیچے میں رہ گیا۔ میرا تصور ابھی انہی تک پہنچا تھا کہ مجھے مرزا انکل اور کمال چیمہ باہر کھڑے نظر آئے۔ وہ ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اور اکرم چاچا پہ میری واپسی کا بم گرا چکے تھے۔

لو جی، آگئیں ساری بارات۔ اندرچلیں جی ؟ ” کمال چیمہ نے ایک بار پِھر اپنی فنی سی آواز میں مس کُنایہ کو تاڑتے ہوئے کہا۔

میری بات ہوگئی ہے۔انفارم کر دیا تھا میں نے انہیں” مرزا انکل میرے پاس آکر بولے۔ پِھر انہوں نےکمال کو دیکھتے ہوئے سرگوشی کی “

یہ بہت ہوشیار ہے، مجھے ایسا لگا جیسے انہیں پہلے سے بتا دیا گیا ہو۔
شاید یہ کمال ان کو اس دن ہی سب کچھ بتا چکا ہے جب تم اِس سے ملے تھے۔

اِس علاقے کی پولیس ان لوگوں کی جیب میں ہے۔۔۔ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ مین گیٹ کھلا اور  اندر سے ایک درمیانے قد کا، جاندار آدمی باہر آیا ، اس کے چہرے پہ گرے اور سفید سی چھوٹی داڑھی تھی۔ ایک گندی سی ٹی شرٹ اور میلی سی شارٹ میں ملبوس، اس کے چہرے سے عیاری ٹپک رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے۔۔۔ میں یہ چہرہ کبھی نہیں بھول سکتا۔

یہ اکرم چاچا تھے۔

7 سال بَعْد یہ چہرہ دوبارہ دیکھا تھا۔

سارے غم ، سارے گھاؤ تازہ ہوگئے۔ دِل میں ایک چبھن سی ہوئی۔۔۔ وہ زیادہ نہیں بدلے  تھے۔ بس تھوڑا پیٹ نکل آیا تھا
شاید، اور تھوڑی سی داڑھی۔ اِس وقت ان کی عمر کوئی 45/ 46 سال کی ہوگی۔

 صاحب ، کیا حال ہے ؟ 

کمال چیمہ نے اکرم چاچاسے  چاپلوسی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
اکرم چاچا نے بس ہاتھ ملایا اور نظریں ادھر اُدھر دوڑانے لگے۔ وہ کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔
موسم کچھ اَبْر آلود سا تھا ، لیکن پِھراچانک جیسے بادلوں میں سے سورج نےجھانکا ۔اور ساتھ ہی میرا پیر بڑھا ، اورمیں سورج کی روشنی کی طرح لوگوں کے جھرمٹ سے ابھر کے ان کے سامنے آگیا۔

میں یہ مومنٹ اپنے ذہن میں پچھلے سات سال سے دیکھ رہا تھا اور آج فائنلی یہ حقیقت بن رہی تھی۔ میرے اندر جنم لیتے تمام جذبات ایک دم سے سرد پڑگئے اور صرف انتقام کا جذبہ رہ گیا۔

میرے اندر کا شیطان ایک دم  سےبھڑکنے لگا۔میں سَر اٹھا کے اکرم چاچا کے روبرو کھڑا ہونا چاہتا تھا۔لیکن پِھر ، ذہن کے کسی کونے میں چندر مکی کی ہدایات ابھریں۔ اکرم چاچاکے خلاف میرا سب سے بڑا ہتھیار ،سرپرائز کا انسر تھا۔ وہ نہیں جانتے تھےکہ میں کیا سے کیا ہو گیا ہوں۔ جیسے ہی یہ خیال میرے ذہن میں آیا ، میں نے اپنے کندھے گرا لیے۔ اپنا سَر تھوڑا جھکا لیا اور ہچکچاہٹ  سے چلتا ان کےپاس پہنچ گیا۔ میں نے سَر اٹھا کےان کو دیکھا اور ایک مسکین سی سمائل دی۔

سلام۔۔۔ اکرم چاچا
اتنا کہہ کر میں نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ وہ آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ ان کو بالکل بھی یقین نہیں آرہاتھا۔

میرا ہاتھ ابھی بھی بڑھا ہوا تھا اور وہ حیرت سے بت بنے مجھے دیکھ رہےتھے۔ پِھر مرزا انکل نے آگے بڑھ کے ایک ہنکارہ  بھرا تو اکرم چاچا کو جیسےہوش سا آگیا اور انہوں نے ایک پھیکی سی سمائل دیتے ہوئے  میرے سے ہاتھ ملالیا۔

ااارررے شششانی بیٹا۔یہ تم ہو؟؟ ” ان کی پھنسی پھنسی آواز نکلی”اتنے سالوں بعد، تم کیسے ہو ؟”

مجھے صاف لگ رہا تھا کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں ۔ لیکن اُوپر سے ایسا ظاہر نہیں کر رہے تھے۔

جججی اکرم چاچا۔ ” میں نے پِھر کندھے گرا کر کمزور نظر آنےکی ایکٹنگ کرتے ہوئے جواب دیا۔

ہم نے تمہارے بارے میں جب بھی مینٹل وارڈ فون کیا۔تو وہ یہی کہتے تھے کہ تم انٹینسوکیئر میں ہو۔اور ا بھی تم اچانک یہاں ؟ مجھےیقین نہیں ہو رہا۔ ” اکرم چاچا نےمیرے ہاتھ کو گرمجوشی سے دباتے ہوئے کہا۔

اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، مرزا انکل بول پڑے۔

“ارےپیپراز ولی۔۔۔”

اکرم چاچا ان کی طرف مڑے اور منہ بناتے ہوئے بولے
جججی ؟

جی ہاں ، ” مرزا انکل نے کہا ،
ارےپیپرازولی ، ایک نئی ڈرگ ہے جو ذہنی اور نفسیات کمزوری کے لیے دی جاتی ہے۔

آپ کے بھتیجے پہ اِس نئی ٹریٹمنٹ کا تجربہ کیا گیا۔۔۔ اور دیکھیں ، اب یہ آپ کے سامنے ہے ۔ ” مرزا انکل اتنا کہہ کرمسکراتے ہوئے میرا کندھے دبا کرپیچھے ہوگئے۔

لیکن کیا یہ تجربہ لیگل ہے ؟ کیا مینٹل اسپتال والوں کو مجھ سے پوچھنا نہیں چاہیئے تھا  پہلے؟ ” اکرم چاچا نے عجیب سی آواز میں کہا۔ لگ نہیں رہاتھا کہ ان کو میرے ٹھیک ہونے کی کوئی خوشی تھی۔

اس کے لیے آپ اسپتال سے رابطہ کریں ، کیونکہ اس کے اسکول سرٹیفیکیٹ پہ وہیں کی  مہر ہے۔ اور آپ جانتے ہیں یہ کوئی عام اسپتال نہیں، شہر کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔

مرزا انکل پِھر ایک زیر لب مسکراہٹ كے ساتھ بولے۔

اکرم چاچا کے پاس اور بھی کئی سوال تھے۔ بیٹھے بٹھائے عیش کر رہے تھے وہ۔۔۔میرے حق پہ ڈاکہ مار کے۔ شاید وہ تھوڑے غافل ہوگئے تھے اِس دولت اور عیاشیوں میں۔ ایک دم سے میری واپسی،گویا  ان کی دُنیا میں بہت بڑی ہلچل لے آئی تھی۔

اسکول میں ، مس چندہ ، میری میوزک ٹیچر تھیں، اور انہوں نے مجھےمیکسیکو کے ایک مشہور میوزیکل گروپ کاایک گانا ایک بار سنایا تھا۔ گروپ کا نام بڑا مشکل اور لمبا تھا لیکن گانے کا نام “نو یور انیمی” تھا۔
اپنے دشمن کو جانو۔۔۔ جب تک نہ جانو گے ، تو اسے تباہ کیسےکروگے ؟ بس ، وہی گانا میرے ذہن میں بجا اور میں نے دشمن کو گلے لگانےکا  فیصلہ کر لیا۔

 

اکرم چاچا ابھی شیش و پنج میں مرزاانکل سے ہی کچھ سوال کرنے لگے تھےکہ میں نے آگے بڑھ کران کو گلے لگالیا۔ بہت قربناک ایکسپیرینس تھا یہ۔مجھے ان کے بدن سے جیسے اپنے ماں باپ اور بھائی کے خون کی بو آرہی تھی۔ لیکن میرا یہ گُر کام کر گیا۔ میں اِس ادا سے اکرم چاچا سے لپٹا تھا کہ اعتراف میں کھڑے سب لوگوں کو میری یہ حرکت بڑی معصومانہ لگی۔ سب کی آنکھیں بھر سی گئیں۔

آاج آپ کا بھتیجا دوبارہ گھر آگیا ہے اور اِس کو آپ ہلکا نہ لیں،  بارویں کےامتحان بڑی کامیابی سے پاس کیے ہیں اِس
نے ، اور۔۔۔۔مرزا انکل شاید اِس تعریفوں کی روانی میں کوئی نہ کوئی بھانڈہ پھوڑدیتے ، اِس لیے میں نے ان کی بات کاٹ کر اور
اکرم چاچا سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔

میرزا انکل ، میں کب یہاں واپس آسکتا ہوں ؟ ” میں نے کمال کی ایکٹنگ کی۔

مجھے منہ بسورتے دیکھ کر اکرم چاچا نے میرے سَر پہ ہچکچاتے ہوئےہاتھ پھیرا۔۔۔ مرزا انکل نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کہا “ بیٹا ، کچھ کسٹڈی کےپیپرز ہیں  جو اپنے چاچا نے سائن کرنے ہیں۔ ایک دن کی بات ہے ، اس کے بَعْد آپ آرام سے واپس آسکتے ہو۔

ویسے بھی آپ کو اپنے چاچا کو گھر پہ انفارم کرنے اور اپنے لیے انتظام کرنے کا وقت تو دینا چاہیئے ، رائٹ ؟
وک انکلی۔۔۔” میں نے جواب دیا۔پِھر اکرم چاچا کی طرف مڑا  “آئی ول سی یو ٹومارو اکرم چاچا۔ ”  یہ کہہ کر میں نے پِھر سےانہیں ہگ کیا اور ہم واپس گاڑی میں بیٹھ گئے ، میں نے جاتے جاتے اکرم چاچا کو ہاتھ ہلایا۔  وہ چھپ چھاپ سناٹے میں کھڑے تھے اور مجھے ہلکا سا ہاتھ ہلا کر دوبارہ واپس گیٹ پہ مڑ گئے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page