The Game of Power-60-طاقت کا کھیل

طاقت کا کھیل

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 60

میں نے فورن کال اٹھا لی تو آگے سے نازش بولی۔۔۔ کہاں مصروف ہو میں کب سے کالیں کر رہی ہوں ۔۔

میں بولا۔۔۔ کچھ نہیں یار سو رہا تھا

نازش بولی۔۔۔ سو رہے کہ بچے ابھی کچھ ہی دیر میں تمہارا کمپٹیشن شروع ہونے والا ہے۔۔

میں بولا۔۔۔ ہاں مجھے پتہ ہے 12 بجے شروع ہونا ہے ابھی صبح ہی ہوئی ہے۔۔

نازش بولی۔۔۔۔ ہاں اسی غلط فہمی میں سوتے رہو 10 بجے سے اوپر کا ٹائم ہو چکا ہے۔۔

میں بولا۔۔۔ ناں کرو یار

اس کی بات سن کر میں نے فورا گھڑی کی جانب دیکھا تو واقع ہی اس وقت 10 کے اوپر کا ٹائم ہو رہا تھا میں نے جلدی سے اس سے پوچھا تو تم بتاؤ تم کیوں کال کر رہی تھی

وہ بولی۔۔۔ میں تو تمہیں بیسٹ آف لک کہنے کے لیے کال کر رہی تھی لیکن جب تم کال نہیں اٹھا رہے تھے تو مجھے پریشانی ہونے لگی اور میں تمہیں لگاتار کال کرنے لگی۔۔

میں بولا۔۔۔ شکریہ تمہاری کال کا ایک تو تم نے مجھے جگا دیا اور دوسرا بیسٹ آف لک کہنے کے لیے بھی۔

اس کے بعد میں فورا اپنے بستر سے اٹھا اور ایک دفعہ فریش ہونے کے بعد میں نے ناشتہ کیا ناشتہ کرنے کے ساتھ ہی میں نے عاشی کو بھی اٹھا دیا اور جب میں نے ناشتہ ختم کیا تب تک عاشی واش روم سے فریش ہو کر باہر نکلی اور اس نے بھی بیٹھ کر ناشتہ کیا۔۔

 کچھ دیر بعد پھر ہم دونوں تیار ہو کر باہر مقابلے والی جگہ پر پہنچ گئے۔۔ جہاں کاشف جتوئی بھی موجود تھا۔۔

ہم دونوں جب اس کے پاس سے گزر کر جانے لگے تو وہ مجھے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ آنکھیں ابھی بھی بتا رہی ہیں کہ رات بہت رنگین تھی۔۔

ہم دونوں نے اس کی بات کا کوئی بھی جواب نہیں دیا لیکن عاشی کے چہرے پر غصہ صاف نظر آرہا تھا وہ میری جانب صرف گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔۔

ہم دونوں جیسے ہی وہاں سے آگے گئے تو پیچھے سے کافی لوگوں کے ہنسنے کی آواز آئی جنہیں ہم نے اگنور کیا۔۔

ہمارے دونوں شیف وہاں اندر موجود تھے اور كمپٹیشن شروع ہونے والا تھا۔۔ تھوڑی دیر میں انوسمنٹ ہونا شروع ہوگی اور اس کے کچھ ہی دیر بعد کمپٹیشن شروع ہو گیا کمپٹیشن میں ہم تینوں ارد گرد خوب نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ کوئی بھی ہمارے ساتھ کچھ بھی غلط نہ کر دے۔۔

ہم تینوں کو ہی معلوم تھا کہ کاشف جتوئی کوئی عام انسان نہیں ہے وہ ضرور پلٹ وار کرے گا اور اس کے لیے میڈم نے بھی ہمیں آگاہ کیا تھا لیکن وہاں پر کیمرے اور سیکیورٹی ہونے کی وجہ سے وہ ہم سے اس طرح سامنے آ کر اپنا وار نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کی ہنسی بتا رہی تھی کہ اس نے کوئی ضرور ٹریپ بنا رکھا ہے۔۔

کمپٹیشن کے دوران ایسی کوئی بھی پرابلم پیش نہیں آئی۔ ہم نے خوب محنت کی تھی اور ہمیں سیکنڈ پرائس ملا فاسٹ ایک اور چین کو ملا اور کاشف جتوئی جو بہت زیادہ اچھل رہا تھا اسے تیسرا نمبر دیا گیا۔۔

ہم سب کچھ سمیٹ کر ہوٹل سے باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھے اور ہماری گاڑی واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔۔ ابھی ہم اس شہر سے تھوڑا ہی دور گئے تھے کہ سامنے دو گاڑیوں کھڑی ہوئی نظر آئی لیکن انہوں نے ہمارا راستہ نہیں روکا۔۔

ہم ان کے پاس سے گزر کر سیدھا آگے راستے پر روانہ ہو گئے کہ تھوڑی ہی دیر بعد ان میں سے ایک گاڑی نے ہمیں اوور ٹیک کیا اور تھوڑا آگے جا کر ہماری گاڑی کا راستہ روک لیا۔۔۔

مجبوری میں میڈم کو بھی بریک لگانا پڑ گی۔ میں گاڑی سے اترنے لگا تو میڈم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکتے ہوۓ میری جانب دیکھ کر بولی “یاسر آرام سے کہیں ایسا ناں ہو کہ کوئی آفت آ جاۓ۔

ان کی بات سن کر میں تسلی دیتے ہوۓ بولا :۔ کچھ نہیں  ہوتا میڈم آپ حوصلہ رکھیں ۔

ابھی ہم مزید کچھ بات کر پاتے کے اتنے میں پیچھے سے ذیشان اور عامر باہر نکلنے لگے۔۔ان کو باہر نکلتا دیکھ کر میں ہاتھ کے  اشارے سے انہیں وہیں روکتے ہوۓ بولا : تم لوگ اندر سکون سے بیٹھے رہو میں انہیں دیکھ لیتا ہوں ۔۔

ان کو ہدایت دیتے ہوۓ میں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔اس دوران  میرا موبائل گاڑی میں ہی رہ گیا تھا ۔۔

سامنے والی گاڑی میں سے تین بندے باہر نکلے میں ان کی طرف متوجہ تھا کے اتنے میں ایک اور گاڑی میرے پیچھے آکر رکی جس میں سے مزید تین بندے باہر نکلے جبکہ  ان کے ساتھ ان کا سرغنہ کاشف جتوئی بھی موجود تھا ۔۔ کاشف تکبرانہ چال چلتے ہوۓ میرے جانب آیا تو اس کے مسٹنڈے بھی اس کے پیچھے آنے لگے ۔۔

وہ میرے پاس آ کر رکا اور میری جانب دیکھتے ہوئے بولا: ہاں تو مسٹر کل رات تم کچھ زیادہ ہی اچھل رہے تھے۔۔اسی لئے  میں نے سوچا تمہاری اکڑ وہاں نکالنے کی بجائے یہاں نکال دیتا ہوں۔۔۔ویسے بھی تم کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جان گئے ہو میرے بارے میں جو کے خطرناک ہے ۔۔۔

کاشف کی بات سن کر میں پرسکون انداز میں  بولا۔: تم غلط آدمی کا راستہ روک کر کھڑے ہو ۔۔بہتری اسی میں ہے کے یہاں سے دفع ہو جاؤ اگر میں نے مارنا شروع کیا تو تمہیں بھاگنے کا بھی موقع نہیں ملے گا ۔۔

میری دھمکی سن کر وہ قہقہ لگا کر ہنستے ہوئے بولا۔: لگتا ہے تمہارے دماغ کو کوئی صدمہ پہنچا ہے ۔۔ دیکھ بھی رہے ہو کہ تم اکیلے کھڑے ہو اور ہم اتنے سارے ہیں خیر میں ویسے بھی لڑائی جھگڑے سے دور رہتا ہوں ۔۔میں تو  صرف تم سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں میرے بارے میں یہ سب کیسے پتہ چلا ۔۔

میں بولا : یہ سب چھوڑو کہ مجھے کیسے پتہ چلا ہے ۔۔ تم جو کام کرنے آئے ہو وہ نپٹاؤ اور چلتے بنو میرے پاس بھی اتنا ٹائم نہیں ہے کے تمہاری بک بک سنو ۔۔

وہ بولا :  لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گے کچھ زیادہ ہی چربی تمھارے دماغ کو چڑھی ہے ۔۔

 اتنے میں اس کے سائیڈ میں کھڑے ہوئے دو آدمی مجھے مارنے کے لئے آگے بڑھ آئے ۔۔

وہ دونوں جیسے ہی میری نزدیک پہنچے میں نے بنا کوئی ٹائم ضائع کئے اپنا دایاں ہاتھ تیزی سے گھوماتے ہوۓ دونوں پر ایک ساتھ وار کر دیا ۔۔میری رفتار اتنی تیز تھی کے کسی کو سمجھ ہی نہ آئی کے وہاں ہوا کیا ہے اور وہ دونوں زمین پر لیٹے بے ہوش ہو چکے تھے  ۔۔ہوا یوں تھا کے ان کے نزدیک آتے ہی میں نے تیزی سے ہاتھ گھوماتے ہوۓ ایک کے گلے پر مکا مارا اور وہیں سے دوسرے کے گلے پر اپنی کوہنی رسید کر دی تھی ۔۔

یہ سب دیکھ کر کاشف کا گلہ خشک ہو گیا تھا پر اس وقت اس کی حالت وہ تھی مرتا کیا نہ کرتا لڑنا ضروری بن گیا تھا اس کے لئے ۔۔

اب کی بار میں تھوڑا زور سے بولا۔: میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میرا راستہ چھوڑ دو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔۔ ایک بار میں اگر شروع ہو گیا تو پھر تمہارا  بچنا مشکل ہو جائے گا ٹریلر تم دیکھ ہی چکے ہو اگر پوری فلم دیکھنی ہے مار کٹائی کی تو آجاؤ ۔۔

وہ ہکلاتے ہوۓ بولا :  ککککون ہو تم ؟ اور یہ سب کیا تھا؟ تتتتم ۔۔۔۔ تم جانتے ہو میں کس کے لیے کام کرتا ہوں؟

میں بے پروائی سے  بولا : تم جس کے لئے مرضی کام کرتے ہو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو یہاں سے دفع ہو جاؤ یہی تمہارے لیے بہتر ہوگا۔۔

وہ بولا۔:  روشن بھائی تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔۔

میں اس کا مذاق اڑاتے ہوۓ  بولا۔:  بتا دینا اپنے روشن بھائی کو کہ اگر میرے راستے میں کبھی بھی  آیا تو میں اس کے فیوز اڑا کر اس کی  روشنی بجھا دو گا پھر جا کر ٹھیک کرواتا پھرے گا ۔۔

اتنا بول کر میں سکون سے واپس گھوم کر اپنی گاڑی کے پاس چلا آیا ۔۔ابھی میں اپنی گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہا تھا کے اتنے میں اس کا ایک اور  آدمی تیزی سے میری طرف بڑھا۔۔وہ شائد مجھے خود سے لاپرواہ سمجھ رہے تھے ۔۔اس کے قریب آتے ہی میں تیزی سے ایک طرف ہو کر اپنا ہاتھ اٹھا کر اس کے سینے میں مکا رسید کر کے کھڑا ہو گیا ۔رفتار کی تیزی اور مکا لگنے کی وجہ سے وہ اپنی چھاتی پکڑ کر وہیں گھٹنوں کے بل ہوا تو میں اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں کستے ہوۓ اسے جھٹکا دیتے ہوۓ اس کے منہ پر اپنا گھٹنا رسید کر دیا جس سے اس کی ناک کی ہڈی چٹخ گئی اور وہ اپنی ناک پکڑ کر وہیں بلبلانا شروع ہو گیا ۔۔

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page