کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ
منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 26
کون تھی ایسی وہ لڑکی جو اس کی رگ رگ سے واقف تھی ؟
وہ سوچنے لگا کہ آخر کون ہو سکتی ہے یہ لڑکی پر اتنا سوچنے كے بعد بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔
بس ایک ہی جان تھا جو اس کی رگ رگ سے واقف تھا کالج میں اور وہ لڑکی تھی پراگیا۔
پراگیا كے بارے میں سوچتے ہی اس کے دماغ میں ایک گھنٹی سی بجی۔ پراگیا ہی تو ایک لڑکی تھی جو اس کی بیسٹ فرینڈ تھی ایکدم۔
وہی تو اسے بخوبی جانتی تھی اور وہی تو ایسے بات کرتی تھی اس سے ؟
جیسے ہی اجے نے اوپر كے سارے میسجز پڑھے ، اسے 70 % لگنے لگا کہ یہ بندی پراگیا ہی تھی۔
مگر اس کے پاس پراگیا کا نمبر تو پہلے سے ہی تھا پھر وہ بھلا ان ناؤن نمبر سے اسے میسیج کیوں بھیجی ؟
اور یہی سوچ کر اس نے ایک اور میسیج بھیجا۔
اجے :
تم پراگیا ؟؟؟ ٹیل می ! آئی نو میں نے سہی کہا ہے۔۔۔ اب جھوٹ مت بولنا ۔
ان ناون :
ارے یار ! سہی میں۔۔۔میں نے سوچا کہ تھوڑا تو مزے لوں تمہارے ۔ اتنی جلدی گیس کرنے کی کیا ضرورت تھی پاگل ۔
اور اگلے ہی پل اجے كے چہرے پہ مسکان آگئی ۔اس کی مسکان الگ ہی بیان کر رہی تھی کہ وہ پوری طرح سے اِس شخص کو پہچان گیا ہے۔
اجے :
یہ ان ناون نمبر سے میسیج کیوں کر رہی ہو ؟
پراگیا :
ارے یار ۔ میں نے تمہیں کیا بتایا تھا کل ؟
اجے :
یہی کہ تمہیں کل چچا كے گھر جانا ہے ؟
پراگیا :
ہاں ! تو وہیں ہوں۔۔۔ وہ چچا آج نیو سم لائے تھے تو میں نے سوچا کیوں نا تمہارے ساتھ مستی کی جائے نیو سم سے ہا ہا ہا
اجے :
تو بھی ناا یار ! ??
پراگیا :
مجھے پتہ تھا تم بور ہو رہے ہونگے۔ میں تو گئی نہیں آج۔ تمہارے وہی دو چار فرینڈز تمہیں پکا رہے ہونگے اور تم مجھے مس کر رہے ہونگے
اجے :
یہ بات تو ہے ۔مس تو بڑا کر رہا ہوں تمہیں اور یہ بات تم بھی جانتی ہی ہو ?
پراگیا :
فلرٹ کر رہے ہو ؟ پاگل کہیں كے ۔۔۔۔
اجے :
ہا ہا ہا تمہارا پلان فیل ہو گیا مگر۔۔۔۔۔
پراگیا :
آئی نو ! ! ! تم اور تمہاری عادت ۔۔۔ اچھا سنو ۔
اجے :
؟ ؟
پراگیا :
اس دن میں نے تم سے اس لڑکے كے بارے میں بات کی تھی نا ؟
اجے :
کون ؟
پراگیا :
ارے پاگل جسے تم مارنے والے تھے ۔
اجے :
اوہ ! ہاہاہا وہ چوزا ؟ اس کے بارے میں کیا؟
پراگیا :
وہ میرے پاس آیا تھا۔
اجے :
واٹ ؟
پراگیا :
یس ! اور وہی باتیں تم سے کرنی ہے اور ایک اور سرپرائز ہے تمھارے لیے ۔
اجے :
سرپرائز ؟ سرپرائز چھوڑو اور اس چوتیے کی ہمت کیسے ہوئی تمہارے پاس آنے کی ؟
پراگیا :
واٹ د ہیل ؟ اسے کیا اپائنٹمنٹ لینا پڑیگا میرے پاس آنے كے لیے ؟ ہی جسٹ کم۔
اجے :
مگر کیوو ں؟ ؟ ؟ ؟ ؟
پراگیا :
تم سے ریلیٹڈ ہی بات تھی ۔
اجے :
کیاااا ؟ ؟
پراگیا :
وہ بعد میں بتاونگی نا ۔۔۔ ابھی سنو ! اِس نمبر پہ کال مت کرنا اوکے ؟ یہ چچا کا نمبر ہے۔
اجے :
اوکے ! مگر۔۔۔۔ بتاوگی کب ؟
پراگیا :
کہا نا اا! سرپرائز بھی دینا ہے ۔ جب میں خود اِس نمبر سے میسیج کروں گی بس پڑھتی جانا اور بالکل ویسا ہی کرنا اوکے ؟ نو سوال! ورنہ پنشمنٹ ملے گی۔
اجے :
اچھا جی ! جیسا آپ کہوگی بالکل ویسا ہی ہو گا۔
پراگیا :
گڈ ! شام میں بات کرتی ہو۔ ابھی چچا کو فون چاہیے ہوگی ۔۔تب تک کالج بھی چھوٹ جائیگا ۔
اور اتنا بول کر پراگیا نے دوبارہ کوئی میسیج نہ بھیجا ۔
اجے مسکراتے ہوئے کالج كے لیکچرز تو کہیں اپنے دوستوں كے ساتھ بات چیت میں مصروف ہو گیا ۔
آج بھلے ہی پراگیا نہیں آئی تھی کالج مگر اس کے ساتھ یوں اِس طرح سے باتیں کر كے وہ خوشی سے پھولا نہیں سماں رہا تھا۔
آج یہ پہلی بار تھا جب پراگیا نے ایسا کچھ اس کے ساتھ کیا تھا۔ آج تو وہ جیسے ساتویں آسْمان پر تھا ۔
آج اس کا دِل گارڈن گارڈن ہو چلا تھا۔ اور بس اندر ایک ہی گانے کی سُر گونج رہی تھی،
اُڑتا ہی پھیرو ۔۔۔ ان ہواؤں میں کہیں۔
یا میں جھول جاؤ ۔ان گھٹاؤں میں کہیں۔
پہلا نشہ ۔۔۔ پہلا خمار۔۔۔
نیا پیار ہے ۔۔۔ نیا انتظار ۔۔۔
اجے یو ں اس سُر کو گنگناتےہوئے اپنے لفنگے دوستوں كے سرپر ہلکے ہاتھ کا تھپڑبھی بجا رہا تھا ، ۔ وہ جیسے بالکل کھو سا گیا تھا آج۔
کالج کا ٹائم ختم ہو چکا تھا اور وہ پارکنگ میں سے اپنی بائیک نکال رہا تھا۔ شروع سے آخر تک اس کے چہرے پر مسکان تھی۔ یہاں تک کہ آج اس کے دوست بھی اسے ’ پیار میں پاگل ہو گیا ہے ’ کہہ کہہ كر اسے چھیڑ رہے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اجے بس شرم كے مارے شرماتا جا رہا تھا ۔
نجانے کیا ہی سرپرائز پلان کیا ہوا تھا اس کی پراگیا نے ۔ اسے سوچتے سوچتے وہ بائیک پارکنگ سے باہر لایا اور سائڈ میں گاڑی روکتے ہوئے اس نے ایک بار اپنا فون چیک کیا کیونکہ ایک پل كے لیے وہ وائیبریٹ ہوا تھا۔
اور اسکرین پر نوٹیفیکشن دیکھتے ہی اس کے چہرے پر پھرسے ایک مسکان آ گئی۔پراگیا کا میسیج آیا ہوا تھا ۔
پراگیا :
اوئے ! سنو ! اب سرپرائز کی بات کرلے ؟ ہاں تو وہ زززززز چوراہے پر گفٹ شاپ دیکھی ہے نا ؟ کافی فیمس ہے یار وہ تو ۔۔۔ اب نا مت کہہ دینا ۔
میسیج پڑھتے ہی نہ چاہتے ہوئے بھی اجے کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اپنے سركے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے بائیک پر بیٹھے بیٹھے ہی رپلائی کیا ،
اجے :
جی ! ٹیچر جی ! جی ! مجھے پتہ ہے ۔
پراگیا :
تھینک گاڈ ! اوکے ! اب جاؤ وہاں پہ ۔۔۔
اجے :
وہاں پہ ؟ مگر کیوں ؟
پراگیا :
کہا ناا جاؤ ! میں نے کہا تھا نا بابا ۔۔نو سوال اینڈ آل ۔
اجے :
جی ! جی ! جو حکم آپ کا دیوی ! ! اور مسکراتے ہوئے اجے اپنے خیالوں میں ڈوبے گانا گاتے ہوئے بائیک سے چل دیا پراگیا کی بتائےہوئے ڈیسٹنیشن کی طرف۔
سوال تو کئی سارے تھے اس کے من میں مگر اب اسے بھی جیسے یہ کھیل کھیلنے میں مزہ سا آنے لگا تھا ۔ اور تو اور وہ کافی ایکسائیٹڈ بھی تھا یہ سرپرائز لے کے ۔۔۔۔
کچھ ہی منٹ بعد وہ پہنچ چکا تھا اس گفٹ شاپ پر جو پراگیا نے بتایا تھا۔
تبھی اس کا فون پھرسے وائیبریٹ ہوا ۔۔
پراگیا :
پہنچ گئے ؟ ؟ ؟
اجے :
یس ! ! ! اگلا حکم دیجیئے دیوی جی !
پراگیا :
ہممم ! اب اگلا حکم ہے کہ۔۔۔کہ وہاں سے پھول لےلو۔۔۔۔
یہ پڑھتے ہی اجے كے دِل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی ۔
اجے ( من میں ) :
کیا وہ مجھے ۔۔۔۔ ! ؟
اس نے پوچھنا چاہا کہ یہ کس لیے مگر دوسری سائڈ سے بس ایک ہی جواب آیا ۔
’ جیسا بول رہی ہوں ویسا کرو ’
اور بس ! پھر کیا تھا ۔ پھر تو جیسےجیسے پراگیا نے بولا اجے نے ٹھیک ویسا ہی کیا ۔
ایک پیارا سا روز کا پھول لیتے ہوئے وہ باہر آیا اور پراگیا کو میسیج بھیجا کہ اس نے فلاور لے لیا ہے ۔
اور اگلے ہی پل اسے ایک اور میسیج آیا ،
پراگیا :
لے لیا نا اا۔۔۔ اب جاؤ زززززززز شاپ پہ۔۔۔ وہاں سے زززززز چاکلیٹ خریدو۔
اور پراگیا کا اگلا حکم پاکے اجے چل دیا دوسری دکان کی طرف۔۔۔ مگر جیسے جیسے کام پراگیا اس سے کروا رہی تھی، ویسے ویسے ہی اس کی دِل کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھی۔
کہیں یہ وہی پل تو نہیں تھا ؟ جس کا اسے بےصبری سے انتظار تھا ؟ کہیں پراگیا اس کے پروپوزل کو اکسیپٹ تو نہیں کرنے والی تھی ؟ کہیں اسلئے تو نہیں وہ اس سے یہ سب کروا رہی تھی ؟ کیا وہ پھرسے چاہتی تھی کہ اجے اسے پروپوز کرے اور اِس بار وہ اس کا پروپوزل اکسیپٹ کریں ؟
نجانے کتنے سوالوں سے اجے کا دماغ گھرا ہوا تھا مگر ان سب کا جواب تو صرف پراگیا ہی دے سکتی تھی۔
دوسری دکان میں پہنچ کر ، اجے نے بتائی گئی چاکلیٹ خریدی اور اتنا خریدتے ہی اسے ایک اور میسیج آ گیا ،
پراگیا :
اب زززززززز ط شاپ جاؤ اور وہاں سے ایک پنک ٹیڈی خریدو ۔۔۔
اس کی بات پڑھ کر اب تو جیسے اجے کو پُورا کنفرم سا ہو گیا تھا کہ جو وہ سوچ رہا تھا شاید وہی ہونے والا تھا اور یہ سوچتے ہی اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
-
Perishing legend king-110-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-109-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-108-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-107-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-106-منحوس سے بادشاہ
February 21, 2025 -
Perishing legend king-105-منحوس سے بادشاہ
February 17, 2025