Perishing legend king-32-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 32

کچھ منٹ کی دوری طے کرنے كے بعد ، جیسے ہی وہ کمپنی پہنچی۔۔۔ تو اس کی ملاقات ریسیپشن سے ہوتی ہے ۔

اور کچھ ہی پلوں كے انتظار كے بعد وہ فائنلی اپنے ہسبینڈ ویویک سے ملتی ہے۔ جیسےجیسے باتیں اسے پتہ چلی دنیش سے وہ سب کچھ ویسے ہی ویویک کو بتا دیتی ہے ، جسے سن کر ویویک بھی کافی ٹینشن میں آجاتا ہے۔

ویویک :

یہ تو بہت ہی سیریس معاملہ ہے۔ اتنا سب کچھ ہو گیا اور یہ بات اب بتا  رہے ہیں  وہ ؟

راگنی :

میں نے ان سے یہی بات بولی تھی ڈیئر ۔ مگرتب شاید حالات ہی کچھ ایسے تھے ۔  شاید وہ ہمیں ٹینشن میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔۔۔میں جانتی ہوں پاپا کو اچھے سے ۔

ویویک :

ٹھیک ہے ! تم ٹینشن مت لو۔ میں بات کرتا ہوں۔

راگنی :

تھینک یو  ڈیئر !

راگنی اپنی آنکھوں میں آنسوؤں لاتے ہوئے بولی۔ اور اس نے فون لگا كے اپنے پاپا کو آگاہ کر دیا کہ جلد ہی ویویک کچھ نہ کچھ حَل ضرور نکال لے گا ان کی پریشانی کا۔

اب ایسا کیا ہو گیا تھا اچانک کہ۔۔۔ دنیش كی وجہ سےراگنی کے ساتھ ویویک بھی بھاری ٹینشن میں آ پڑے۔

تو آئیے نظر ڈالتے ہیں،  پچھلی  رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسم ہلکا ٹھنڈا تھا ۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں فضاؤں میں پھیلی ہوئی تھی اور رات كے 11:30  بج رہے تھے ۔

دنیش ،  راگنی كے پاپا اِس وقت اپنی کمپنی کے ایک شوروم سے باہر نکل رہے  تھے۔

آج  دفتری کام اور ڈیلنگ وغیرہ کچھ زیادہ  ہی ہوئی تھی جس وجہ سے انہیں آج رکنا پڑگیا۔۔۔ گارڈز تو تھے ہی شوروم كے لیے اور ساتھ ہی کچھ ورکرز بھی ، جن کو وہ شوروم بند کرنے کا بول كے شوروم سے باہر نکل آیا۔

اپنی کار میں بیٹھنےكے بعد دنیش اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا۔

آج وہ بے حد خوش تھا ۔۔ کئی سارے لوگوں نے آج گاڑیاں خریدی تھیں ساتھ ہی ساتھ اس کی آج کئی لوگوں سے اچھی خاصی ڈیلنگ بھی ہوئی۔ آج كے اچھے دن كے بارے میں سوچ كے وہ من ہی من خوش ہو  اٹھا ۔

وہ ایسی اچھی خاصی  کمائی والے دن  ہی صرف آتے تھے ورنہ صرف تہوار والے دن یا نئے سال میں ہی اکثر آتے  رہے۔

دنیش خوش ہوتے ہوئے گاڑی چلا رہا ۔ اس کا گھر تھوڑا دور پڑتا تھا اور وہ ڈرائیور کوپسندنہیں کرتا تھا۔ وہ خود ہی ڈرائیو کرنا پسند کرتا تھا ہمیشہ۔۔۔ اس کا ماننا تھا کہ ڈرائیونگ كے معاملے میں آپ صرف اپنی خود کی ہی  ڈرائیونگ پر بھروسہ کر سکتے ہو ، کسی دوسرے کی نہیں۔

گھر کی طرف آنے جانے والا راستہ تھوڑا  سا سنسان جگہ سے ہوکے بھی گزرتا تھا۔ سنسان تو نہیں کہیں گے مگر ہاں یہ کہنا  ٹھیک رہے گاکہ وہ ایریاتھوڑا آؤٹر ایریا لگتا تھا۔

آدھی رات ہونے کو آ رہی تھی اور دنیش نے تبھی گاڑی روکی ، اپنے جیب سے فون نکالا اور کالر کا نام دیکھ کر وہ سَر ہلاتے ہوئے مسکرایا۔ اس کی بیوی روہنی کا کال تھا۔ شادی كے اتنے سال گزر گئے پھر بھی روہنی کو ہمیشہ دنیش کی بہت فکر لگی رہتی تھی۔ 11 بجے نہیں  تھےکہ کال آنا  شروع ۔

مسکراتے ہوئے دنیش نے وہیں سائڈ میں گاڑی روک کرفون اٹھایا ،

” کہیے میڈم جی ! کیا ہوا ؟ “

روہنی :

کیا ہوا ؟ ارے کیابج رہےہیں ؟ وقت بھی تو دیکھنا چاہیے ! نجانے کب سے راہ دیکھ رہی ہو آپ کی۔۔۔ مگر آپ ہو کہ کوئی فون ہی نہیں اٹھاتے۔ ایک بار کال کرکے بتا تو دینا چاہیے نا کہ آنے میں دیر ہو جائیگی۔

دنیش :

ارے ! ہو جاتا ہے کبھی کبھی لیٹ۔ آج کمائی اچھی ہوئی  نا ، اور ڈیلنگ بھی ہوئی کئی اس لئے وہاں بھی تھوڑا  ٹائم لگ گیا۔

روہنی :

ہممم ! چلو اچھا آ جاؤ ابھی۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں۔

دنیش :

ہاں ہاں ! بس آ رہا  ہوں۔

اور کال کٹ کرکے وہ ابھی گاڑی چالو ہی کرنے والا تھا کہ تبھی ڈرائیور سیٹ کی ونڈو سے ایک ہاتھ آیا اور سیدھا اس کا  گلا  دبوچ لیا۔

سٹپٹاتے ہوئے دنیش اپنے گلے پر ہاتھ کی پکڑ کو ہٹانے کا کوشش کرنے لگا۔ ڈر كا  احساس اس کے چہرے پر صاف جھلک رہا تھا۔۔۔ اس نے تو بس کچھ پل كے لیے ونڈو کھولی تھی جب وہ روہنی سے بات کر رہا تھا ۔ اسے کیا پتہ تھا کہ ایسا کچھ ہو جائیگا۔

مگر اگلے ہی پل اس کی ساری جدوجہد ایک دم ختم ہوگئی ۔

وجہ تھی اس کی کانپتی پر رکھا  ریوالور۔ اسے دیکھنے كے بعد تو اچھے اچھو كے پسینے چوٹنے لگتے ہیں اور پھر دنیش تو ایک سیدھے سادہ سا شوروم کا مالک تھا۔ لڑائی جھگڑے سے کوسوں  دور۔

اس کے کنپٹی سے لگائی گئی ریوالور  نے اس کی مزاحمت  کو چور چور کر دیا۔ بولتی بند اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ بس آنکھ ٹیڑھی کرکے آدمی کو دیکھ رہا تھا  جو دکھنے میں ایک نارمل 28  سال کے آس پاس کا  لڑکا  لگ رہا تھا۔

” بہت اچھے ! اگر زیادہ اور ہلتا  نا ، تو تیرا یہ بھیجا ابھی لمحوں میں باہرہوتا۔ سمجھا !؟ “

اس لڑکے کی اٹیٹیوڈ سے بھرپور آواز دنیش كے کانوں میں پڑی۔ اور اس نے اپنی مُنڈی  ہاں میں ہلائی۔

لڑکے نے اگلے ہی پل گیٹ کھولا ، اسے باہر نکالا ، اس کا موبائل ضبط کرکے ، اسے بند کرکے اپنے جیب میں ڈالا اور واپس سے دنیش کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا  دیا۔

یہاں کیا ہو رہا تھا کوئی دور دور تک دیکھنے والا نہیں تھا۔ پہلی وجہ تھی اتنی رات کا  وقت اور دوسری وجہ کہ وہ ایک آؤٹر  ایریا تھا۔ مطلب وہاں نزدیک آبادی نہیں تھی۔

اس لڑکے نے دنیش کو بیٹھا كر بغل کا ڈور کھولا اور اس کی بغل کی سیٹ سے بیٹھ گیا۔

دنیش نے دیکھا کہ یہ لڑکا اکیلا ہی تھا ،  اگر جیسے تیسے کرکے وہ اس کا ریوالور چھین لے تو بازی پلٹ سکتی تھی۔

مگر اگلے ہی پل اس نے اپنا یہ خیال من سے نکال دیا۔ کیونکہ  اگلے ہی سیکنڈ ایک گاڑی  اس کے بغل میں آکے کھڑی ہوئی جس میں 4 سے 5 لونڈے اور آدمی اندر موجود تھے۔ اور سب کے ہاتھوں میں ایک ایک ریوالور تھا۔

اور یہاں دنیش اس آدمی سے ریوالور چیننےكے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے اپنا تھوک نگلا اور بھگوان کو یاد کرنے لگا کہ اے بھگوان تم نے مجھے لمحے بھر میں اس غلط حرکت کرنے سے بچا لیا۔ ورنہ اب تک تو میرا بھیجا  اُڑ چکا  ہوتا۔

دنیش :

دے . . . دیکھو ! دیکھو ! تمہیں جو بھی چاہیے وہ میں دونگا ۔ مجھے چھوڑ دو۔ جو بھی چاہیے وہ  بتاؤ ، میں سب دے دونگا ۔ بس۔۔ بس مجھے چھوڑ دو۔

اپنی جان کس کو پیاری نہیں ہوتی بھلا ؟

اور جب اپنی جان پہ آتی ہے تو بڑے سا بڑا آدمی صرف منتیں ہی لگا سکتا ہے ایسی پوزیشن میں۔

یہی کام دنیش نے بھی کیا۔

لڑکا :

بالکل بالکل ! وہ بھی لینگے۔۔۔ اسی كے لیے تو ہم ہے یہاں۔ چل ! فٹافٹ ! گاڑی بڑھا آگے۔۔۔ اور گھر چل اپنے۔

دنیش :

گگگھ ۔۔۔ گھر ! ؟  گھر کیوں جانا ہے ؟ ؟  میں۔۔۔ جو ۔۔۔ جو تم بولوگے وہ دے دونگا۔۔۔ مگر گھر ۔۔۔۔۔

لڑکا :

سالے! جتنا میں بول رہا ہو اتنا کر۔ سمجھا؟

دنیش :

بیٹا ! دیکھو ! کیا ملے گا تمہیں مجھ جیسے بوڑھے آدمی کو لوٹ كے ؟ میں کوئی بڑا  آدمی نہیں ہوں صرف شوروم کا مالک ہوں اور ۔۔۔۔۔۔۔

لڑکا :

ابےےے   شششش ! !

اس لڑکے نے اتنی زور سے چلااایا کہ دنیش کی شریر کانپ  اٹھا ۔

لڑکا :

اب بات کو دھیان سے سن ! سمجھا ؟ چُپ چاپ جیسا جیسا میں کہوں ، ویسا  ویسا کر۔ ورنہ تو تو جائیگا ہی ، مگر شاید تیرے ساتھ تیری بیوی کا ٹکٹ بھی کٹے گا ، لگتا ہے ۔

دنیش :

نہیں ! ! نہیں ! ! ! میری  بیوی نہیں۔۔۔ اسے کچھ مت کرنا۔ میں۔میں۔ جیسا جیسا کہوگے ویسا ہی کرونگا۔

لڑکا :

ہممم ! اب چُپ چاپ اپنے گھر کی طرف گاڑی لے۔۔۔ اور ہاں ! ! ! زیادہ سمارٹ نہیں بننا،،،  ٹھیک ؟  گھر بولا ہے تو گھر کی طرف ہی لینا۔ اگر تونے ایک بھی موڑ غلط لیا ، تو تیرا گیم بج جائیگا  میرے ہاتھوںسمجھا؟

دنیش :

ہاا ہاں ں ں ! !

کانپتے ہوئے دنیش نے اپنا سَر ہلایا۔ اب اسے یہ بات ستائی جا رہی تھی کہ کہیں۔۔۔کہیں۔۔۔ روہنی کو کچھ نہ ہوجائے۔

روہنی اس کا  بےصبری سے گھر پر انتظار کر رہی تھی۔۔۔ اور نجانے آگے کیا  ہونے والا تھا۔۔۔ یہ سوچتے ہی دنیش کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔

گاڑی اسٹارٹ ہوئی ، اور دنیش نے ٹھیک ویسا ہی کیا جیسا اسے بتایا گیا تھا۔

کچھ منٹ کی دوری طے کرنے كے بعد ہی وہ اپنے گھر كے باہر پہنچ چکا تھا اور اس کا دِل زور زور  سے دھڑک  رہا  تھا ۔

حالات ہی ایسے تھے کہ وہ چاہ كر بھی کچھ نہیں کر پا  رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page