Perishing legend king-40-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 40

ویر ٹوٹ پڑا اس پہ۔۔۔ اِدھر ان کے لڑنے سے جو آوازیں بیسمنٹ میں گونج رہی تھیں وہ راگنی ویوک اور دانش سمیت سبھی سن پا رہے تھے پر انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ انہیں بچانے والا ویر ہے۔

رنگا نے سنبھلتے ہوئے ویر کے اگلے واروں کا بخوبی سامنا کیا اور بدلے میں ڈھیر سارے وار کیے کہیں پسلی میں تو کہیں پیٹ میں کہیں چہرے میں تو کہیں سینے میں۔۔۔

دونوں ایک دوسرے پر ایسے جھٹپٹائے ہوئے لڑ رہے تھے اور لڑتے جارہے تھے تو کہیں گرتے پڑتے جا رہے تھے۔

کچھ ہی پلوں میں جگہ جگہ ان کے جسم میں چھیلنے کے گھاؤ آچکے تھے اور خون نکلنا شروع ہو گیا تھا۔

وہ لڑتے ہوئے نجانے کب اندر کی طرف آگئے جس کی وجہ سے راگنی سمیت باقی سبھی ان دونوں کو دیکھ سکتے تھے۔

اور جیسے ہی اِدھر راگنی کی آنکھیں ویر پر پڑی وہ پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔ زوردار جھٹکا۔۔۔

یہ اس نے اپنے پورے جیون میں کبھی امید نہ کی ہوگی کہ ویر یہاں اسے بچانے آئے گا۔

اور اگلے ہی پل۔۔۔

جو آنسوؤں کا بندھ ابھی کچھ سیکنڈ سے تھما ہوا تھا وہ ویر کو رنگا کے ساتھ لڑتے دیکھ کر ہی ٹوٹ پڑا اور اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔۔۔

ویوک بھی یہ دیکھ کے ایک دم حیران تھا۔

اسے بھی خود یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ویر یہاں انہیں بچانے آئے گا۔ من میں اتنے سارے سوال امنڈ رہے تھے دونوں ہی راگنی اور ویوک کےکہ پوچھو مت۔۔۔

مگر اس وقت دونوں کی نظریں اور دھیان ویر اور رنگا کی لڑائی پر تھا۔

دانش بھی خود بس لڑائی کو دیکھ رہا تھا اور امید کر رہا تھا کہ ویر کو کچھ نہ ہو۔

پر کچھ ہی پلوں میں جیسے اس کی امید جیسے مٹی میں ملنے جا رہی تھی۔

کیونکہ رنگا اس وقت ویر کے اوپر بیٹھا اپنے دونوں ہاتھوں سے اسی کی راڈ اس کے گلے میں گاڑے اس کا گلا بند کر رہا تھا۔

‘ساااالےےےے۔۔۔ آج تو مرے گا میرے ہاتھوں۔۔۔ میں نہیں۔۔۔

اوغ۔۔۔

نہیں جانتا تو کون ہے۔۔۔ پر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تو انہیں بچانے آیا ہے اور یہ بھی کہ تو مرے گا میرے ہی ہاتھوں سے ۔۔۔مر جاااا سااااالےےےے۔۔۔‘‘

وہ چلایا۔۔۔

‘غوں ںںںں ۔۔۔‘‘

ویر کو اپنے گلے میں اب بہت زیادہ دباؤ محسوس ہو رہا تھا کسی بھی وقت اس کا گلا بند ہو سکتا تھا۔ کہ تبھی پری کی آوازگونجی۔۔۔

ماسٹر !!!! آپ کی جیب۔۔۔

 اور اگلے ہی پل ویر نے ایک ہاتھ چھوڑ کر اپنی پاکٹ ٹٹولی پر یہ حرکت جان لیوا تھا۔

رنگا کے دباؤ اور بڑھا اور اس کے گلے پہ بالکل وہ راڈ جیسے پورا گڑھ چکا تھا۔۔۔

بس دیرہی تھی تو کچھ سیکنڈز کی اور ویر اس دنیا سے اٹھ چکا  ہوتا  اگر۔۔۔

اگر اس کے دوسرے ہاتھ میں وہ پاکٹ نائف نہ آئی ہوتی۔۔۔

اس کے کھولتے ہی ویر نے سیدھی وہ نائف رنگا کی پسلی میں گھسیڑ دی۔

‘ آآآآآآآآررررر  غغغ ہہہہہہ۔۔۔‘‘

ایک زوردار چیخ گونجی۔۔۔ جسے سن کر آدمی کی روح کانپ جائے۔ اور یہ آواز پورے بیسمنٹ میں پھیل گئی۔

رنگا اپنی پسلی پکڑ کر جیسے ہی سیدھا ہوا۔

تھڑ۔۔۔

سر پہ ایک وار آیا اور اگلے ہی پل اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

’’آہااااا۔۔۔ہاااااا ۔۔۔آہ ہ ہ ‘‘زور زور سے لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے ویر وہیں نیچے بیٹھ کر رنگا کو دیکھ رہا تھا  جو کہ اس وقت سر پر وار کھانے کے بعد بےہوش ہو چکا تھا۔

اور اگلے ہی لمحے ویر اپنے ہاتھ سے راڈ کو زمین پر گراتے ہوئے اپنی پیٹھ کے بل دھڑام سے فلور پر گر پڑا۔۔۔  وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا یہاں تک کہ کافی کھانسی بھی آرہی تھی اسے۔۔۔

اس کے بعد پیچھے سے راگنی سمیت باقی سب کرسی پر بندھے ہوئے سائیڈ پر منہ کرکے اسے ہی گھور  رہے تھے۔ راگنی کی آنکھوں میں ایک فکر تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ڈر اور نجانے کتنے ایموشنز اس کی آنکھیں بیان کر رہی تھیں اور وہ آنسوؤں جو لگاتار اس کے چہرے کو بھگوئے جا رہے تھے اس کی حالت کو بخوبی دکھا  رہے تھے۔

‘وائے ؟ جسٹ۔۔۔ جسٹ وائے ؟؟؟‘ اس کے من میں یہی سوال بار بار آ رہا تھا آخر کیوں ویر یہاں پہ تھا ۔یہ بات تو صاف تھی کہ وہ یہاں اسے اور باقی سبھی کو ان غنڈوں کے چنگل سے بچانے کے لیے ہی آیا تھا مگر سوال تھا کہ کیوں؟؟؟

جو رویہ اس کے گھر والوں نے اس کے ساتھ رکھا تھا ، اس حساب سے تو اسے یہاں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا ۔الٹا  اسے تو خوش ہونا چاہیے تھا مگر اس سب کے باوجود وہ یہاں پر تھا۔

جس حساب سے وہ سانسیں لے رہا تھا اور اس کے شریر پر آئے وہ چھلے ہوئے گھاؤ جن سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ دیکھ کے ہی راگنی کو ایک فکر سی ستا رہی تھی۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔۔۔ کیونکہ ویر سے وہ کبھی باتیں ہی نہیں کرتی تھی الٹا  اپنے شوہر کے پلان میں جانے یا انجانے میں شامل رہتی تھی۔جس کے ذریعے ویر کو ہر بار پھنسایا جاتا تھا۔۔۔مگر آج ویر نے اسے بچایا۔ آج وہ اس کا ایک محافظ تھا ، وہ تب آیا جب اس نے پوری امید چھوڑ دی تھی۔ شاید اس لیے آج راگنی کو اس کی ایسی حالت دیکھ کر تھوڑی فکر ہو رہی تھی۔ ابھی تو اس نے خود کو ہی پرسکون نہیں کیا تھا کہ اس کا من ویر کی ایسی حالت دیکھ کر فکر میں  ہوچکی تھی۔

ویوک بھی ویر کو دیکھ کر خود حیران تھا۔

‘یہ ؟  یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟  اسے کیسے پتہ چلا ؟؟  جو بھی ہو اس کی وجہ سےآج میں بچ گیا ،اچھا ہوا  اسے نہیں پتہ ہے کہ پرانجل کے ساتھ میں بھی ملا ہوا ہوں۔ شاید اسے یہ بھی نہیں پتہ ابھی کہ پرانجل ہی اس کی اس حالت کی وجہ ہے۔

ہاہاہا۔۔۔گڈ! گڈ! یہ صحیح ہے۔  مجھے صرف راگنی کو تسلی دینی ہے!۔

وہ اپنے من میں سوچ کر اپنے آگے کے پلان کی تیاری کرنے میں ابھی سے بزی ہوچکا تھا۔

دانش بھی ویر کو دیکھ کر اسے من ہی من میں شاباش دے رہا تھا۔ اس کے من میں ویر کے لیے عزت بڑھ چکی تھی۔۔۔ وہیں دوسری طرف ویوک کی عزت اس کے من میں پوری طرح سے نیچے گرچکی تھی۔ آج جو اصلی رنگ ویوک نے اپنا دکھایا تھا ، اسے دیکھ کر وہ محسوس کرسکتا تھا کہ اس کی بیٹی پر ابھی کیا بیت رہی ہوگی۔

ادھر ویر ان سبھی کی نظروں سے انجان اپنے گلے میں دونوں ہاتھوں کو پھر رہا تھا، اسے محسوس ہوا کہ کتنا  قریب تھا وہ اپنی موت کے ۔۔۔اگر اس نے وہ پاکٹ نائف نہ اٹھائی ہوتی  تو  رنگا آج پکا  اس کا گلا  راڈ سے بند کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار چکا  ہوتا۔

اور موت کے بارے میں سوچ کر ہی اس کے اندر ایک خوف کی لہر سی دوڑ گئی۔

اگر پری نے اسے اس آدمی کی جیب چیک کرنے کا نہ کہا ہوتا تو وہ پاکٹ نائف اسے ملتی ہی نہیں اگر پری نے اسے ایک سیکرٹ ویپن کھوجنے کے لیے نہ کہا ہوتا تو اس کے پاس وہ راڈ ہوتی ہی نہیں یہ سب سوچ کے ہی ویر کے من میں پری کے لیے عزت بڑھ گئی۔

ماسٹر؟ آپ ٹھیک ہیں ؟

‘میں۔۔۔میں ٹھیک ہوں پری ! شکریہ! بہت شکریہ! اگر تم نہ ہوتی تو۔۔۔

کوئی بات نہیں ماسٹر۔اس طرح سے مت کہو۔کوئی بات نہیں۔

ویر خود کی سانسیں کنٹرول کرکے نیچے زمین سے اٹھا  اور اس کی نظر جیسے ہی رنگا  پہ گئی۔

چیک!‘

نام۔۔۔۔۔ رنگا

عمر۔۔۔۔  29

بائیو۔۔۔۔ رنگا اپنے مالک کے لیے کام کرتا ہے پہلے سے ہی وہ  اناتھ تھا اور اس کے مالک نے اسے سہارا دیا  اپنے مالک کے لئے پورا  وفادار  ہے۔

وفاداری:۔2

رشتہ: اجنبی۔

‘مالک ؟ اس  کا  باس  ماسٹر۔

‘تو کیا نام نہیں جان سکتا میں ؟

اٹس بی کاز آئی ایم لیول ٹو ماسٹر۔ لیول می اپ دین سی دَ میجک۔  ( کیونکہ میرا لیول 2 ہے۔۔۔میرا لیول بڑھاؤ پھر جادو دیکھو)

‘یاہ! یاہ!‘

‘ٹھہرو!!! کیا میری وفاداری پر آپ کو شک ہے؟؟؟

یس ماسٹر بی کاز آپ نے اس پہ حملہ کیا تو وفاداری تو نیچےجانی ہی تھی جب وہ پہلے سے ہی زیرو  پہ تھی اجنبی کی وفاداری زیرو رہتی ہے نا  ماسٹر۔ یو  رممبر!!!

‘آہ! یس! آئی  ڈو!‘

اس کے بعد تھوڑا کراہتے ہوئے ویر اٹھا  اور دھیرے دھیرے آگے بڑھا وہ سب سے پہلے دانش کے پاس پہنچا۔

دانش کے منہ سے ٹیپ ہٹاتے ہوئے اس نے اس کے ارد گرد بندھی رسیاں کھولیں۔

دانش:

بیٹا۔۔۔ بیٹا آج تم نہ آتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔

ویر نے صرف اپنا سر ہاں’  میں ہلایا اور اس کے بغل میں بیٹھی راگنی کی رسیاں کھولنے کے لیے وہ نیچے اپنے ایک گھٹنے پہ بیٹھا  اور  رسیاں کھولنے لگا۔

راگنی روتے ہوئے اسے ہی دیکھتی جارہی تھی ۔وہ دیکھ پا رہی تھی کہ کیسے جگہ جگہ اسے چوٹ آئی تھی مگر ویر کی نظریں ایک بار بھی راگنی کی نظروں سے نہ ٹکرائیں وہ جیسے بس بنا کوئی تاثر کے اپنے ہاتھوں سے رسیوں کو کھولنے میں لگا ہوا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page