Perishing legend king-45-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 45

لڑکی:

تم ٹھیک ہو!؟

اور اس لڑکی کی سریلی آواز ویر کے کانوں میں پڑی۔۔۔ اتنی پیاری آواز جو کسی بھی کٹھور سے کٹھور آدمی کو یوں پگھلا دے۔ اس  انوکھی آواز کا نظارہ ویر ایک دم سامنے سے کر پا رہا تھا اور سب سے بڑی بات وہ لڑکی اس سے اس کی حالت کے بارے میں پوچھ رہی تھی کتنا لکی ہونا پڑے گا لوگوں کا ایسا نظارہ پانے کے لیے؟؟ ویر من میں خود سےپوچھ رہا تھا۔

ویر :

ہممم؟ مممیں۔۔۔؟  یس۔۔۔

لڑکی:

یہ چوٹ۔۔۔

اچانک ہی اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے ویر کے گال پہ رکھ دیا جہاں بینڈج لگی ہوئی تھی اور ان نازک ہاتھوں کا لمس پاتے ہی جیسے ویر مانو جنت میں پہنچ گیا تھا۔

’فککککک! ہر ہینڈ۔۔۔ اتنا۔۔۔ اتنا سوفٹ؟؟؟‘

ویر (شرماتے ہوئے):

اوہ؟  یہ؟

یہ۔۔۔ کل۔۔۔ وہ۔۔۔ فائٹ میں۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔

لڑکی:

او وہ ہ!!

ویر (شرمایا):

یاہ۔۔۔

ادھر نندنی انہیں فالو کر کے نیچے آ چکی تھی اور وہیں بلڈنگ کے پاس سے سامنے چل رہے سین کو صاف  دیکھ پا رہی تھی۔

اس نے دیکھا کہ ایک بے حد ہی خوبصورت لڑکی ویر کے گالوں کو تھامے اسے نہار رہی تھی ساتھ ہی ساتھ ایک اور خوبصورت لڑکی بغل میں کھڑی ہوئی تھی اور یہاں تک کہ اتنی پرتعیش گاڑی ان کی سائیڈ  میں کھڑی تھی جو صاف بتلا رہی تھی کہ وہ کسی بڑے گھرانے سے تھیں۔

مگر۔۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔۔

ویر کو ایسے یوں اس لڑکی کے ساتھ دیکھ کر۔۔۔ نندنی کو اندر ہی اندر کچھ تو ہو رہا تھا جسے وہ یا تو سمجھنا نہیں چاہتی تھی یا اس فیلنگ سے انجان تھی۔

کون ہیں یہ سبھی ؟ویر کے گھر سے؟ ریلیٹوز؟ ہاں وہی ہونے چاہیئں اتنے پیار سے تو گھر والے ہی پیش آتے ہیں۔ شاید یہ اچھے لوگ ہیں جو ویر سے پیار کرتے ہیں؟ یا نہیں؟   ایک منٹ!!! کہیں یہ ویر کی گرل فرینڈ۔۔۔؟؟ ہممم؟؟؟ از شی ریلی۔۔۔

اور نندنی بےچاری نہ جانے کیا کیا سوچنے لگی تھی مگر اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی سین ہی ایسا تھا۔

ادھر ویر شرم کے مارے اس لڑکی سے نظریں نہیں ملا  پا  رہا تھا۔

’فککککک!وہ مجھے اس طرح کیوں گھور رہی ہے؟؟؟یہ مجھے بے چین کر رہا ہے۔ مجھے شرم آرہی ہے۔۔۔‘

رکو ماسٹر!

لڑکی:

 کیا تم مجھے جانتے ہو؟

ویر:

ہممم؟ او ہاں! میں یہی پوچھنے والا تھا ۔کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں؟

لڑکی (مسکراتے ہوئے):

ہممم۔۔۔

ویر:

مگر میں تو آپ کو نہیں جانتا اور آئی ڈونٹ تِھنک کہ آپ بھی مجھے جانتی ہو ہم ایک دوسرے سے پہلے کبھی نہیں ملے ہیں۔

لڑکی (مسکراتے ہوئے):

ملے ہیں۔۔۔

ویر( حیران ہوتے ہوئے):

ہیں۔۔۔؟

لڑکی:

میرا مطلب ایک طرح سے۔ ہی ہی ۔۔۔

ویر:

میں۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔۔

تبھی اس لڑکی نے اپنا ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھایا  اور بولی۔

’’ آئی ایم سونیا!!‘‘

ویر (ہاتھ ملاتے ہوئے):

اینڈ ۔۔۔آئی  ایم۔۔۔

سونیا( مسکراتے ہوئے):

ویر۔۔۔ آئی نو۔۔۔

ویر( حیران ہوتے ہوئے):

ہممم؟؟؟آپ کو۔۔۔  کیسے۔۔۔!؟

سونیا:

کیوں نہ ہم کہیں اور جا کر اس بارے میں بات کریں۔۔۔؟

اس سے پہلے کہ ویر کچھ کہہ پاتا پیچھے سے وہ دوسری لڑکی جس نے ساڑھی پہنی ہوئی تھی وہ ویر کے پاس آئی اور اسے گھور کے دیکھنے لگی۔

ویر:

ام۔۔۔؟؟

سونیا (مسکراتے ہوئے):

آہ ٹھیک ہے۔۔۔وہ سہانا ہے ۔۔۔میری بڑی بہن۔۔۔ سہانا

ویر:

امم۔۔۔ ہیلو!؟

مگر سہانا نہ تو کچھ بولی اور نہ ہی کچھ کیا اس نے۔۔۔

وہ بس اپنی آنکھیں سکیڑتے ہوئے ویر کو گھور گھور کے دیکھ رہی تھی اور اگلے ہی پل وہ پلٹی اور کار کی طرف جاتے ہوئے بولی۔۔۔

’’سونو! تم شرط ہار جاؤگی۔ اپنا وعدہ یاد رکھنا۔‘‘

ویر: 

ہیں؟؟

تھڑ۔۔۔

اور کار کا دروازہ بند کرکے وہ اندر بیٹھ گئی۔۔۔

ادھر سونیا نےاپنی بڑی بہن کی یہ حرکت دیکھ کر اپنی آنکھیں گھماتے ہوئے ‘ناں’  میں سر ہلایا۔۔۔

سونیا :

اچھا۔۔۔تو؟

 ویر

کیا ہم۔۔۔۔؟

ویر اس سے پہلے کہ کوئی جواب دے پاتا سونیا نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے کھینچتے ہوئے کار کے اندر لے گئی۔

ادھر سہانا  اور پرکاش سونیا کی اس حرکت پر تھوڑا ششدر رہ گئے۔۔۔

سہانا (من میں )سونو؟؟؟ سونو نے۔۔۔ اس کا ہاتھ پکڑا ؟کچھ دیر پہلے بھی اور اس کے گال پہ۔۔۔ وہ کیسے کر سکتی ہے۔۔۔!؟

سونیا نے کار میں گھستے ہی ویر کو اپنی سائیڈ میں بٹھایا۔

اس کے جسم سے آتی خوشبو ویر کو پاگل کیے جا رہی تھی۔

’کیا لگاتی ہے یار یہ لڑکی؟ کون سے تالاب میں ڈوب کے آئی ہے؟ اتنی خوشبو کیوں آتی ہے ان سے؟  فککککک! مجھے کچھ کچھ ہو رہا ہے پری۔۔۔‘

[               ]

کار میں سہانا ونڈو کے پاس تھی بیچ میں سونیا خود تھی اور اس کے بغل میں ویر تھا۔

کار ڈرائیو تو پرکاش ہی کرنے والا تھا اس کی ڈرائیونگ سکلز پر سونیا بے حد بھروسہ جو کرتی تھی۔

شوووووم۔۔۔

اور اگلے ہی پل کار جتنی جلدی وہاں آئی تھی اتنی ہی جلدی وہاں سے نکل گئی۔

پیچھے کھڑی نندنی بس حیرانی اور تھوڑی پریشانی میں سب کچھ چل  رہے سین کو دیکھ رہی تھی من میں ڈھیروں سوال تھے جنہیں وہ ویر سے پوچھنا چاہتی تھی مگر ابھی صحیح وقت نہیں تھا۔ اسے خود کچھ دیر میں اپنے کام کے لیے نکلنا تھا اور اس لیے اپنے سوالیہ من کو تھوڑی دیر پرسکون کر کے وہ اندر واپس چلی گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ادھر ویر جہاں کالج سے نکلا تو وہ اب شہر کی سب سے مہنگی فائو سٹار ہوٹل میں سے ایک ہوٹل میں بیٹھا  ہوا  تھا۔

وہ بس ایک کنفیوز فیس  بنائے ایک ہی جگہ دیکھتا  جا رہا  تھا ۔۔۔کچھ ہی منٹس کے اندر اس نے اتنی ساری عیاشی والی چیزیں دیکھ لی تھیں کہ ان سب کو ہضم کرنے میں اس کا ٹائم تو لگنے ہی والا تھا۔

رولز  روئس کی اندر کی وہ پر تعیش اور آرام دہ اس کے بعد اتنی بڑی عالی شان ہوٹل میں لگے وہ بڑے بڑے جھومر ایسا لگ رہا تھا  مانو وہ کسی پیلس میں آگیا  ہو۔

وہیں سہانا اور سونیا اتنی پرسکون بیٹھی ہوئی تھیں مانو  جیسے یہ ان کا  روز کا روٹین تھا۔

سونیا:

کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں؟؟

ویر:

دراصل ابھی آپ کے نام کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔

سونیا (ہنسی):

فوفو۔۔۔یو  نو  ٭٭٭٭موٹرز؟

ویر:

ہیں؟  سارے دیش میں مشہور ہے یہ کمپنی اس کے بارے میں کون نہیں جانتا؟

سونیا :(مسکراتے ہوئے)

او تھینک یو سو مچ! میرے گریٹ گرینڈ فادر فونڈر تھے۔۔۔ اس کے ابھی ڈیڈ  اونر ہیں اور میں سی ای اوتھی۔۔۔ بٹ ابھی میں نے وہ پوزیشن کسی اور کو دے دی ہے اب میں سی او او  ہوں۔

مانو ایک بم سا پھوڑ دیا تھا سونیا نے ویر کے اوپر۔

 کیا کہا؟  ***موٹرز کی سی ای او تھی یہ لڑکی  پہلے؟

گریٹ گرینڈ فادر فاؤنڈر تھے؟ باپ اونر ہے ؟سوچ کے ہی ویر کو پہلے ہی عجیب محسوس کر رہا تھا ۔ اس کا جسم یہ سنتے ہی  سکت گیا۔

ویر:

کیاااااااا!؟ آپ مذاق کر رہی ہو۔۔۔ ہے نا۔۔۔؟

سونیا: (ہنسی)

میں نہیں کر رہی۔۔۔

ویر :

واؤ! آئی مِین ۔۔۔واؤوووو!

سونیا :(مسکراتے ہوئے)

تھینک یو!  تو شروع کریں!؟

ویر :

ہممم ؟آہ ۔۔۔شور۔۔۔ شور۔۔۔ تھینکس!

’ہممم؟تھینکس؟

 فککککک۔۔۔ کون لل کہتا ہے تھینکس؟ تھینکس کے بدلے میں ہی تھینکس بول دیا میں نے ؟پری۔۔۔ ہیلپ می۔۔۔ میرے منہ سے اوٹ پٹانگ الفاظ نکل رہے ہیں۔۔۔ میں شرمندہ ہورہا ہوں۔‘

[      ]

سونیا (حیرانی سے):

تھینکس؟ کس لیے!؟

ویر( شرمایا):

امممم۔۔۔ وہ۔۔۔

سونیا:

ان فیکٹ تھینکس ٹو  یو  ویر!

سونیا نے بولتے ہوئے اچانک ہی اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس کی وجہ سے ایک بار پھر یہ حرکت سہانا اور پرکاش کی نظروں سے نہ  چوکی۔

اچانک ہی سونیا کی آواز دھیمی ہو گئی اور وہ بڑے ہی پیار سے ویر کو دیکھ رہی تھی، ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسا تھا  جو اس کی آنکھیں بیان کر رہی تھیں۔ گلٹ؟؟

ویر: (حیرنی سے)

تھینکس؟؟مم۔۔۔ مجھے!؟ وہ کس لیے بھلا؟

سونیا: (مسکراتے ہوئے)

تمہیں یاد نہیں؟

ویر:

ہممم؟

سونیا:

آپ نے مجھے بچایا۔۔۔

ویر:

ہیں ؟

سونیا:

اس دن۔۔۔یاد ہے۔۔۔آپ کا      کارحادثہ ہوا تھا؟

ایکسیڈنٹ لفظ سنتے ہی ویر کو دوبارہ سے وہی منظر یاد آنے لگا ،وہ پل ،وہ دن۔۔۔

اجے کے ساتھ لڑائی۔ وہ بارش۔۔۔جسم میں جگہ جگہ وہ زخم۔۔۔ اس کے ہاتھوں سے گلدان کا  ٹوٹنا ۔۔۔بریجش کا اسے گھر سے نکالنا۔۔۔ اس کے گھر والوں کی وہ پریشان آنکھیں۔۔۔ در بدر بھٹکنا۔۔۔ اور۔۔۔

اور وہ راستے میں کار سے ایکسیڈنٹ۔۔۔

اگلے ہی پل ویر کا سر ان سب باتوں کو یاد کرکے جھک گیا۔ زخم گہرے تھے۔ بھرنے میں سمے تو لگنا  ہی تھا۔ مگر کیا  پتہ۔۔۔

وہ زخم بھر بھی رہے تھے یا اور گہرے ہو رہے تھے؟

ویر:

ہممم۔۔۔ مجھے یاد آیا۔۔۔

سونیا ابھی آگے بولنے ہی والی تھی کہ تبھی بغل میں کھڑے پرکاش نےاچانک ہی سر جھکا لیا  اور ویر سے بولا۔۔۔

’’وہ ہماری میڈم کی ہی کار تھی۔ اور میں ہی اسے ڈرائیو کر رہا تھا۔ جو کچھ بھی ہوا  اس میں میری غلطی تھی۔۔۔ اس کے لیے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔‘‘

پرکاش کی بات سن کر ایک بڑا جھٹکا سا لگا ویر کو۔ اور اسے جیسے ریالائز ہوا۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page