Perishing legend king-49-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 49

ادھر شریا اور جوہی ٹیکسی میں بیٹھے نکل چکے تھے تبھی شریا کچھ سوچ کے ویر کو کال لگا دیتی ہے۔

ویر :

ہیلو؟

شریا:

تم کالج میں ہو اس وقت؟

ویر :

کالج گیا تھا تو کالج میں ہی رہونگا  نا؟

شریا:

بکواس مت کرو اور یہ بتاؤ کہ دیدی نکل چکی ہے ناا ؟  کالج میں نہیں ہے نا  وہ ابھی؟

ویر :

وہ تو بریک میں ہی نکل گئی تھی۔ بریک اوور ہوچکا ہے۔

شریا:

اوکے!

ویر:

کچھ بات ہے کیا؟اگر کوئی پریشانی ہو تو میں ہیلپ کر دوں گا۔

شریا( من میں) کیا کروں اسے بتاؤں یا نہیں یہ ہمارے گھر کا نجی معاملہ ہے۔ دیدی کہیں چلائے نہ مجھ پر بعد میں ۔مگر وہاں دیدی۔۔۔ میں اکیلی پڑ جاؤں گی، بُلا ہی لیتی ہوں ایک سے بھلے دو سہی۔ دیدی کو بعد میں سمجھا دوں گی۔

شریا:

ہاں ذرا سنو۔۔۔

ویر :

ہممم؟

شریا:

میں تمہیں ایڈریس بھیج رہی ہوں اس ایڈریس پہ جتنی جلدی پہنچ سکتے ہو پہنچو۔

ویر:

او۔۔۔ اوکے! ویسے سب کچھ ٹھیک تو ہے نا؟

مگر ویر کی بات سنے بنا ہی شریا بیچ میں ہی فون کاٹ دیتی ہے۔

’لعنت اس لڑکی پہ‘

ماسٹر۔۔۔ ’مجھے پتہ ہے ! چلو!‘

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شریا کچھ ہی منٹ کی دوری طے کرنے کے بعد راجت کے گھر پہنچتی ہے اور اندر جوہی کو لے کے وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتی ہے اسے نندنی کی ساسو ماں چھایا دکھائی دے جاتی ہے جو بستر پہ بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہی بغل میں نندنی کا بچہ دھروو سو رہا تھا۔

جوہی:

چھوٹو بھااااااائی ی ی!!

جوہی دوڑتے ہوئے اپنے چھوٹے سے بھائی کے پاس جا کے اس کے گال ٹٹولنے لگتی ہے تو چھایا اسے ڈانٹ کے پیچھے کر دیتی ہے۔

چھایا:

ارے! دیکھ نہیں رہی کیا ؟سو رہا ہے وہ۔۔۔ جیسی ماں، ویسی لڑکی۔۔۔

اودھمی ایک دم۔۔۔

شریا:

جوہی ی ی ! ادھر آؤ۔۔۔

شریا جوہی کو لے کے پیچھے ہوگئی اور اِدھر اُدھر نظر پھیری مگر کہیں پر بھی اسے نندنی نظر نہیں آرہی تھی۔

شریا:

میری دیدی کہاں ہے؟

چھایا:

ہممم؟ اندر بات کر رہی ہے۔

اور شریا ہاں میں سر ہلا کے وہیں صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔

مگر ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی اسے بیٹھے ہوئے کے تبھی اسے۔۔۔

’’آآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ‘‘

ایک دبی سی چیخ سنائی دیتی ہے۔

اور یہ سنتے ہی شریا ہڑبڑا کے کھڑی ہو گئی۔

شریا:

یہ۔۔۔یہ آواز۔۔۔؟ دیدی کہاں ہے ؟ اندر سے ائی ہے نہ یہ آواز؟ کیا چل رہا ہے؟

چھایا:

تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو؟ دونوں میاں بیوی ہیں۔ آپس میں بات کر رہے ہیں بھولو مت کہ ابھی پیپر پر نہ ہی نندنی نے سائن کیے ہیں اور نہ ہی میرے بیٹے نے۔۔۔ دونوں ابھی بھی میاں بیوی ہیں۔ اور سائن بھی تب ہی ہوں گے جب نندنی ہماری مانگ کو پورا کرکے دکھا پائے گی۔

شریا:

مجھے نہیں پرواہ۔۔۔ میری دیدی کہاں ہے اتنا بتائیں مجھے۔

چھایا :

کیوں؟

شریا:

بتائیں جلدی۔۔۔

چھایا:

کیوں بتاؤں؟ تم کون ہوتی ہو یہاں میاں بیوی کے بیچ ہو رہی باتوں میں آنے والی؟ ہیں؟

شریا

وہ میری بڑی بہن ہے۔ اس سے پہلے کہ میں پولیس کو بلاؤں۔۔۔

چھایا:

ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔بلا لو پھر۔ میں بھی دیکھتی ہوں۔ کیا کرتی ہے پولیس۔ تمہاری یاداشت صحیح ہے یا نہیں میرا بیٹا شہر کے مشہور لائیرز میں سے ایک ہے اور اسی کے گھر پہ تم پولیس بلانے کی دھمکی دے رہی ہو۔

چھایا کے بول سنتے ہی اس بار شریا کی بولتی ہی بند ہوگئی۔۔۔بات ایک دم صحیح تھی پولیس بلانے کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا اور اوپر سے یہ گھر کا معاملہ تھا مگر وہ اتنی بڑی پریشانی میں پڑ چکی تھی کہ اس کا دماغ کام کرنا بند ہوچکا تھا وہ اتنی زیادہ بےچین ہوچکی تھی کہ اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا کچھ۔۔۔

وہ جوہی کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھی اور اندر ایک کمرے کے پاس گئی جہاں سے آواز آئی تھی۔

اور اگلے ہی سیکنڈ ایک بار پھر وہی دبی سی آواز آئی جسے سن کر شریا کو کنفرم ہوگیا کہ اندر پکے سے اس کی دیدی تھی۔

اندر کیا ہو رہا تھا یہ سوچ کے ہی اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ اور وہ دروازہ پیٹنے لگی۔

 شریا:

کھولوووووو۔۔۔

دیدییییی؟ کیا آپ اندر ہو؟؟؟

دی ی ی دی؟؟

ادھر ارام سے بیٹھی چھایا سارے نظارے کو بڑے ہی لطف لے کے دیکھ رہی تھی جیسے اسے پتہ تھا کہ شریا کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔۔۔

شریا:

میں کہتی ہوں کھولو۔۔۔ کھولو دروازہ۔۔۔

جوہی:

ممی ی ی ۔۔۔ممی ی ی۔۔۔

بیچاری جوہی بھی شریا کو دیکھ کر اور اس کے چہرے کی ٹینشن کو دیکھ کر دروازہ پیٹنے لگی۔ بچے من کے سچے ہوتے ہی ہیں جوہی کو اتنا سمجھ آگیا تھا کہ اس کی ماسی بہت ہی بےچین ہے اور پریشانی میں ہے اس لیے وہ بھی دروازہ پیٹنے لگی۔

اور اگلے ہی پل۔۔۔

* کلک*

اچانک سے دروازہ کھلا۔۔۔

اور اندر کا نظارہ دیکھ کر شریا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

راجت( مسکرایا ):

اوہ ہ ! تو سالی صاحبہ بھی آئی ہے؟

آئیے آئیے۔۔۔ اور یہ کیا ؟میری مونگ پھلی بھی آئی ہے؟

راجت جھکتے ہوئے جوہی کو تھامنے ہی والا تھا کہ جوہی بھاگتی ہوئی اندر جاتی ہے اور نندنی سے جا کے چپک جاتی ہے۔۔۔ ننھے ہاتھوں کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ نندنی کے آنسو پونچنے لگتی ہے اور خود بھی آنسو بہانے لگتی ہے۔

پھر وہ بڑے ہی غصے میں راجت کو دیکھتی ہے۔

جوہی:

آپ گندے ہو۔۔۔

راجت :

ہاہاہا ہا ۔۔۔ایسے بات نہیں کرتے بیٹا۔۔۔

جوہی( چلاتے ہوئے):

آپ گندے ہوووووو۔۔۔

اور اس بار جوہی کی تیز آواز سن کر راجت کے چہرے سے مسکان غائب ہوجاتی ہے۔

راجت:

ابھی سے تم نے اپنے تربیت دے دیے لگتا ہےاسے ہاں؟

شریا:

دور رہو ۔۔۔دور رہو میری دیدی سے۔۔۔ دیدی چلیے۔۔۔

 راجت:

ابھی بھی موقع ہے نندنی۔ جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کرو اور اپنا جیون جیو۔ سکھی رہو گی۔

نندنی( چلاتے ہوئے) :

میں کبھی نہیں کروں گی۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔

راجت (جذباتی ہوکر) :

تمم۔۔۔

وہ آگے بڑھ کر اس بار نندنی کے بالوں کو زور سے بھینچ  لیتا ہے۔

’’آآہ ہ ہ ہ  ہ ہ ہ ہ  ہ‘‘

اور ننھی جوہی یہ دیکھتے ہی راجت کے دوسرے ہاتھ کو تھامتے ہوئے اپنے دانتوں سے کاٹنے لگتی ہے۔

راجت:

یہ ۔۔۔بچی ی۔۔۔

وہ کھینچتے ہوئے جوہی کا ہاتھ زور سے تھام لیتا ہے جس سے بیچاری جوہی رونے لگتی ہے۔ شریا سب کچھ اچانک سے تشدد کو دیکھ کر اگلے ہی پل راجت کا ہاتھ پکڑ کر اس کی گرپ کو لوز کرنے لگتی ہے تاکہ جوہی کو چھڑا سکے۔۔۔

سبھی آپس میں بھڑے راجت سے چھوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کہ تبھی ان کے کانوں میں ایک آواز پڑی۔۔۔ایک جانی مانی آواز۔۔۔

’’ میم؟‘‘

یہ سنتے ہی نندنی، شریا ،جوہی اور راجت کی نظریں فوراً ہی دروازے پر گئیں۔

اور وہاں ویر انہیں حیران نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ ایک دم سے بھاگتے ہوئے ویر کے پیچھے ہی چھایا آئی اور وہ بھی سب کچھ ہو رہے جھگڑے کو دیکھنے لگی۔

پر اگلے ہی پل۔۔۔

ویر کی نظریں نندنی پر گئیں۔

اس نے دیکھا کہ نندنی کا ایک گال لال تھا اس کے ہاتھوں اور پیٹ پہ موم بتی کی ویکس لگی ہوئی تھی۔

 ان نازک آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسوؤں۔۔۔

وہ خوبصورت زلفیں کسی کی پکڑ میں تھیں۔

اس نے دیکھا جوہی کو جو نیچے ہی کھڑی ہوئی تھی۔

جوہی کے گلابی گالوں سے آنسوؤں کی بوندیں بہتے ہوئے گر رہی تھیں۔

اس کا ننھا سا ہاتھ کسی کی پکڑ میں تھا۔

اس نے دیکھا شریا کو جس کے چہرے پر بھیانک ڈر تھا۔

 دونوں ہاتھ اس کے جوہی کو چھڑانے کے لیے لگے ہوئے تھے۔

تبھی اس کے کانوں میں آواز پڑی۔

’’ویررررر  ماموں ں ں ں۔۔۔‘‘

اور بس۔۔۔

ویر کا اتنا سننا تھا کہ۔۔۔ اس کے اندر غصے کا شعلہ بن کر ابل گیا۔

اور اس کے ہونٹوں سے ایک دم دھیمی آواز میں بس کچھ الفاظ نکلے۔

تمہارا اسے چھونے کی ہمت کیسے ہوئی اور اگلے ہی پل پھر وہ ہوا جسے دیکھ کے وہاں موجود سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

بنا  ایک پل گنوائے ویر اتنی سپیڈ میں آگے بڑھا اور اس نے سب سے پہلے راجت کا ہاتھ جو جوہی کو پکڑے ہوئے تھا اسے زور سے تھام کے اس کی مٹھی اپنے  زورِبازو سے کھول کر جوہی کو چھڑایا ۔جوہی کے چھوٹتے ہی شریا نے جوہی کو پکڑ کے پیچھے کھینچ لیا۔۔۔

ویر نے راجت کا پھر دوسرا ہاتھ جو نندنی کے سندر کالے بالوں کو بھینچے ہوئے تھا  اسے پکڑ کے ایک دم سے مروڑ  دیا۔

“آآآآآآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ”

ہاتھ مروڑ جانے پر اگلے ہی پل راجت درد سے کراہ  اٹھا۔۔۔ اور اس کی پکڑ نندنی کے بالوں سے چھوٹ گئی۔

پھر اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا اور اپنے دوسرے ہاتھ کا  استعمال کر  پاتا۔۔۔

“پواؤوووو”

ایک زوردار گھونسا اس کے نچلے جبڑے میں آکے پڑا  اور وہ اس گھونسے کے اثر سے ہی پیچھے کی طرف جا کے دھڑام سے گر پڑا۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page