Perishing legend king-50-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 50

یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ وہاں کھڑے لوگ بس حیرت سے دیکھتے رہ گئے جیسے انہیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ ایک دم سے کیا ہوگیا۔

پل بھر میں ویر آیا  انہیں چھڑایا  اور اگلے ہی پل  راجت  زمین پہ تھا۔۔۔سب کچھ اتنی جلدی ہوا تھا کہ وہ سب ہی سامنے ہو رہے ایکشن کو پروسیس صحیح نہیں کر پائے

اپنے جبڑے کو ملَتے ہوئے جیسے ہی راجت زمین سے اٹھا تبھی ویر نے آگے بڑھ کر اس کی کالر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اسے ہوا میں اٹھاتے ہوئے پیچھے دیوار سے رگڑا  کر اوپر اٹھا  دیا۔۔۔

اب سین کچھ ایسا تھا کہ ویر کے دونوں ہاتھ راجت کے کالر پر تھے اور راجت ہوا میں دیوار سے چپکے ویر کی گرفت میں لٹکا ہوا تھا۔۔۔

“تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے چھونے کی۔۔۔؟”

ویر نے واپس سے اپنے الفاظ دہرائے اس کی آنکھوں میں اتنا غصہ تھا اور اتنی لال تھیں آنکھیں۔۔۔ مانو ابھی کے ابھی وہ راجت کا  یہیں خون کر دے گا۔

“غوو غوو غووو غوں۔۔۔ چچچھوڑڑڑڑ۔۔۔ سالےےے۔۔۔”

راجت کراہتے ہوئے چھوٹنے کی کوشش کرنے لگا مگر کوشش بےکار تھی۔ ویر کی طاقت  راجت سے زیادہ جو تھی۔

ایک عام آدمی کی طاقت 30 سے 50 کے بیچ ہی رہتی ہے اکثر۔۔۔ زیادہ سے زیادہ راجت کی 40 کے قریب ہوگی اور پیچھے سے ویسے ہی وہ ایک وکیل تھا کوئی غنڈا موالی نہیں جس کا  لڑنا  روزکا  کام ہو۔۔۔

ظاہر سی بات تھی کہ ویر کی پکڑ سے چھوٹنے میں وہ  نا کامیاب تھا۔ اور پیچھے کھڑی اس کی ماں چھایا نے جیسے ہی یہ سب دیکھا وہ چلاتے ہوئے آگے بڑھی۔

“ررررراجتت”

گھبراتے ہوئے وہ آگے تیز قدموں کے ساتھ آئی اور ویر کے ہاتھوں کو زور سے پکڑ کے کھینچنے کی کوشش کرنے لگی۔

نندنی بیچاری آنکھیں پھاڑے سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی مانو جیسے یہ سب کچھ بہت زیادہ تھا اس کے لیے۔۔۔ راجت کا اسے ہراساں کرنا اور پھر اچانک سے اس کی بہن اور بیٹی کا آجانا، ساتھ ہی ساتھ ویر کا یوں راجت کو پکڑ کے مارنا ،نندنی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ بس حیران سی کھڑی ہوئی تھی۔

جیسے ہی شریا نے دیکھا کہ چھایا ویر کے ہاتھوں کو پکڑ کے کھینچ رہی ہے مگر کھینچ نہیں پا رہی شریا جوہی کو وہیں پر چھوڑ کر آگے بڑھی اور اس نے پیچھے سے زور سے ویر کو ہگ کر لیا۔۔۔

“ویر چھوڑو۔۔۔ ویر چھوڑو  اسے پلیز۔ پلیز ٹھہرو ۔۔۔۔ اسے جانے دو۔۔۔

 شریا اسے پیچھے سے جکڑے ہوئے گڑگڑاتے ہوئے بولی۔ اور کچھ ہی لمحوں میں جیسے شریا کی منت سماجت نے ویر کو فائنلی کنٹرول کر لیا۔۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی ویر کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔

کرش

اور راجت جو دیوار سے لگا ہوا تھا وہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔

کف۔۔۔  کف ۔۔۔کھانستے ہوئے اس نے اپنے گلے کو مَلا اور پھر اچانک ہی ہنسنے لگا۔۔۔

راجت:

ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔

بغل میں کھڑی ہوئی اس کی ماں چھایا نے اسے سنبھالا اور اسے نیچے بیٹھ کے پکڑے رہی اور ادھر شریا بھی ویر کو پکڑے پیچھے کی طرف کھینچتے ہوئے لے آئی۔

راجت کی ہنسی کچھ دیر میں رکی اور پھر اس نے اپنا سر اوپر کر کے نندنی سمیت سبھی کو دیکھا اس کے چہرے پہ ایک گندی مسکان تھی۔۔۔جیسے وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اب تم لوگوں کا کھیل ختم ہے۔

راجت:

ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔ ماں تو نے دیکھا۔ یہ دیکھو اپنے ہسبینڈسے ابھی طلاق لیا نہیں اس نے کہ یہاں  اگلا  بوائے فرینڈ حاضر ہے۔

اس کی بات سن کر نندنی نے اس بار لال اٹھی اور آگے بولنے کے لیے اپنا منہ کھولا مگر اس سے پہلے کہ۔۔۔ وہ کچھ کہہ پاتی ویر بول پڑا۔۔۔

ویر:

کمینے میں اس کا بوائے فرینڈ نہیں ہوں۔ میں‌ اس  کا  سٹوڈنٹ ہوں۔

اس نے غراتے ہوئے بولا اور آگے ایک بار پھر وہ بڑھنے والا تھا کہ شریا نے اسے اور کَس کے تھام لیا۔

راجت:

ہاہاہاہاہا۔۔۔ تجھ سے یہی امید تھی نندنی۔  یہی امید تھی اپنی بچی کو بھی یہی سنسکار دوگی ہے  نا۔۔۔

“یووووووو” زور سے چلاتے ہوئے ویر ایک بار پھر تیزی سے آگے بڑھا  اس بار بھی شریانے ویر کو روکنے کے لیے اسے جکڑا  مگر ویر کی طاقت کے ساتھ وہ اس بار ہار گئی۔

وہ خود اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی اور جب اس نے دیکھا کہ ویر راجت کو واقعی پھر سے مارنے والا ہے  وہ زور سے چلائی۔۔۔

“نووووووووو۔۔۔ ویررررررررر۔۔۔”

اس کی چیخ سے جیسے ویر کو دھیان آیا اور اس کے قدم وہیں ٹھہر گئے۔۔۔

شریا (گڑگڑاتے ہوئے):

پلیز چلو یہاں سے۔۔۔ چھوڑو اسے۔۔۔ اور چلو ویر پلیز۔۔۔ میں تم سے بھیک مانگتی ہوں۔

شریا جو اب تک اپنے آنسوں کے بندھ کو روکے ہوئے تھی وہ آخر کھل ہی گیا اور تیزی کے ساتھ اس کے آنسوؤ اس کے گالوں سے ہوتے ہوئے بہنے لگے اور اس نے اپنے ہاتھوں سے ویر کے سینے میں شرٹ کو بھینچ  لیا۔۔۔

وہ اس سے ایک فریاد کر رہی تھی جیسے۔ اس نے بہت کچھ دیکھ لیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی اب اور کچھ ہو اور بات آگے بڑھے۔

وہ کھینچتے ہوئے ویر اور نندنی سمیت جوہی کو باہر لے جانے لگی۔

راجت:

دیکھ لوں گا سالے تجھے۔۔۔ ویر ہے نا تیرا نام؟  بتاتا ہوں تجھے بھی۔۔۔ ایک ایک کو دیکھ لوں گا خاص کر نندنی تمہیں میری جان۔۔۔

وہ اندر ہی کمرے سے چلاتا رہا مگر اس کی باتیں سنے بغیر ہی شریا سبھی کو باہر لے آئی۔۔۔

شریا:

دیدی گھر چلیے جلد سے جلد۔۔۔ ویر تم دیدی کو گاڑی میں بٹھا کے لے جاؤ میں جوہی کو لے کے آجاؤں گی۔

ویر:

نہیں بلکہ آپ تینوں جاؤ گاڑی میں، میں آجاؤں گا۔۔۔

یہ دونوں آپس میں ہی لگے ہوئے تھے کہ اچانک نندنی دکھی ہوتے ہوئے رونے لگی۔۔۔

نندنی:

ہیے بھگوان۔۔۔

وہ نیچے گرتے ہوئے رونے لگی تو ویر اور شریا نے فوراََ  ہی اسے اٹھایا۔۔۔

نندنی:

شریا۔۔۔

شریا:

دیدی۔۔۔

نندنی:

شریا یہ سب کیا ہو گیا یہ بالکل بھی اچھا نہیں ہوا شریا۔۔۔ شریا وہ پکا کچھ نہ کچھ کرے گا  اب نوووووو!

ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا شریا۔۔۔ میں۔۔۔میں۔۔۔

اپنی بہن کی حالت دیکھ کر شریا کو اس پہ اتنا ترس آرہا تھا کہ وہ بیان نہیں کر سکتی تھی اس نے نندنی کو کاندھے سے پکڑتے ہوئے جھنجھوڑا  اور اسے ہوش میں لائی۔۔۔

شریا:

دی۔۔۔ دیدی۔۔۔ میری طرف دیکھو۔ کچھ نہیں ہوا۔۔۔ ٹھیک ہے سب!! کچھ نہیں ہوا!

نندنی:

نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔

شریا:

وہ۔۔۔ وہ۔۔۔

شریا:

میری طرف دیکھو دیدی۔۔۔ آپ صحیح سلامت ہو جوہی صحیح سلامت ہے کسی کو کچھ نہیں ہوا  اور وہ کچھ نہیں کرے گا۔ ہممم؟  اوکے؟  وہ کچھ نہیں کرسکتا جب تک ٹائم پیریڈ ختم نہیں ہو جاتا وہ کچھ نہیں کر سکتا۔۔ ہممم اور آپ دیکھنا جلد سے جلد دھروو  آپ کے اور ہمارے پاس ہوگا۔

یہ کہتے ہوئے اس نے نندنی کو زور سے اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور نندنی بیچاری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

سسکی لیتے ہوئے نندنی اپنی بہن کے سینے سے لگ کر بلکتے ہوئے رو رہی تھی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور اسے پچکارتے ہوئے شریا نے اسے سمجھایا اور اسے چپ کرانے لگی۔

“ممی ی ی”

ادھر جوہی اپنی ماں کو ایسے روتے دیکھ کر خود بھی زور زور سے رونے لگی۔ بچے اپنی ماں کو جب روتا دیکھتے ہیں تو بھلا خود کیسے شانت رہ سکتے ہیں اس نے بھی رونا شروع کر دیا بےچاری شریا کو اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پہلے کس کو چپ کرائے وہ خود رونے کی حالت پہ آگئی تھی۔

تبھی۔۔۔

اس نے دیکھا۔۔۔

ویر نے آگے بڑھتے ہوئے جوہی کو اپنی گود میں اٹھایا اور اس کے پیارے گالوں سے آنسوؤں پونچھتے ہوئے۔ اس نے جوہی کے دونوں گالوں پہ پپی لی اور ٹہلتے ہوئے اسے چپ کرانے لگا۔

“وووویر  ماموں” روتے روتے جوہی اپنے آنسو  ویر کی شرٹ میں اس کے کاندھے پر رگڑ رہی تھی اور ویر اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے چپ کروا رہا تھا۔

جوہی:

وووویر  ماموں۔۔۔!

ویر:

ہممم۔۔۔!

جوہی:

پاپا  دندے  ہیں۔۔۔!

ویر:

کیا  ہیں۔۔۔؟

جوہی (روتے ہوئے) جی۔۔۔ گندے۔۔۔

ویر:

ہممم! اچھا انہیں چھوڑو۔۔۔ جوہی چاکلیٹ کھائے گی۔۔۔؟ ہممم؟  چلو ویر  ماموں آپ کو مست والی  چاکلیٹ دلائیں گے۔

جوہی:

مممم۔۔۔

ویر:

جوہی کھائے گی  نا۔۔۔؟

جوہی (روتے ہوئے)

ہممم!

ویر:

مگر اس کے لیے پہلے رونا بند کرنا پڑے گا۔۔۔

جوہی:

مممم۔۔۔

دھیرے دھیرے سسک کر جوہی جیسے تیسے چپ ہوئی تو ویر نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر اس کے گال چوم لیے بدلے میں جوہی  نے بھی اس کے گال چوم لیے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page