Perishing legend king-69-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 69

اس نے دیکھا کہ ایک اس کے ہی جتنی عمر کا لڑکا کھڑا ہوا تھا۔۔۔ دکھنے میں کوئی امیر یا مڈل کلاس فیملی کا نہیں لگ رہا تھا۔ بہت ہی سمپل سے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔

ویر :

وہ ۔۔۔۔

لڑکا :

میں نے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ لڑکا تمہیں دھکا دیکر گیا ۔۔۔ مادرچود سالا ۔۔۔ کوئی دشمنی ہے کیا اس سے ؟ جان لینے جا رہا تھا وہ تمہاری ۔

ویر :

میں اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ اینی وی! تھینکس فور سیونگ می۔

لڑکا :

اتنی انگریزی نہیں آتی  بھائی۔ اتنی انگریزی آتی تو میں بنا ٹکٹ سفر نہیں کر رہا ہوتا۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔

وہ ہنستے ہوئے ویر کو اس کا ہاتھ پکڑکر  اٹھایا۔

لڑکا :

کیا نام ہے ویسے ؟

ویر :

میں ویر۔۔۔۔اور تم ؟

لڑکا

دانش بلا سکتے ہو ۔

تو ؟ وہ سب کیا تھا ؟

ویر :

کچھ نہیں ! بس ۔۔۔۔

دانش :

پرانی  دشمنی ؟

ویر :

ہو ! ؟ شیٹٹٹٹ ! کہا ں گیا وہ۔۔۔۔! مجھے جانا ہوگا۔

بنا پیچھے مُڑے ویر آگے بھاگتے ہوئے کوچ میں گھس گیا۔

ارے ۔۔۔ سنو تو۔۔۔۔

دانش کی آواز آئی پیچھے سے پر ویر نہ رکا۔ اِس وقت سب سے زیادہ ضروری کام تھا اس کھالی کو پکڑنا۔

’ لعنت ہے۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔ ’ 

لعنت ہے۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔!

شیٹٹٹٹ ! ! ! ہی واز رائٹ دیئر ۔۔۔( وہ وہیں تھا)۔ آسانی سے دبوچ لیا تھا میں نے اسے۔۔۔ شیٹٹٹ ! فکککککک ! ویئر ڈڈ  ہی  وینٹ ؟ ؟ (وہ کہاں گیا؟؟’)

پری:

اٹس اوکے ! کم سے کم وی نو ہس نام اینڈ ہیز اپیرنس ناؤ اینڈ (ہم اب اس کا نام اور اس کی شکل جانتے ہیں۔ اور)۔۔۔آپ۔ فور آ سیکنڈ آئی گوٹ سکیئرڈ دیئر  بٹ تھینکس ٹو ہِم (ایک لمحے کے لیے میں وہاں ڈر گئی۔ لیکن اس کا شکریہ)۔۔۔ اس نے آپ کو پکڑ لیا سہی وقت پہ پیچھے سے۔

 “یا-یاااا ! !

 ویر نے زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے اپنے قدم بڑھائے۔ اس کا دِل اتنی زور سے  دھڑک  رہا تھا   مانو جیسے باہر ہی آ جائیگا۔

پل بھر كے لیے اس کے من میں ایک سوال آیا کہ۔۔۔

اگر آج اس کی یہاں موت ہو جاتی تو ؟
نندنی کا کیا ہوتا ! ؟ جوہی ! ؟ ؟ کاویہ؟ شریا ؟ کیا ہوتا  ان سب کا ؟

ویر تو ان سبھی کو پھرسے کبھی  نہ  ہی دیکھ پاتا یہ خیال آتے ہی اس کے ڈر كے مارے  رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔

شاید اب اسے اِس بات کا  Aاندازہ ہو گیا تھا کہ آخر کیوں آدمی موت سے اتنا  ڈرتا ہے۔

حوف * * حوف *

پری:
کَم ڈاؤن ! کام ڈاؤن ماسٹر !

ویر:
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
پری:

لمبی سانسیں لیجیے۔۔۔ ڈونٹ وری ! وی ’ ول  فائنڈ  ہم ۔۔۔ 6 ڈیز۔۔۔ یو-یوو ہیو  6 ڈیز۔( فکر نہ کرو! ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔  6 دن آ۔ آپ کے پاس  6 دن ہیں)

’ ہمممم ’ !

خود کو قابو میں کرکے وہ آگے بڑھا ۔ ٹرین ایک اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی ۔

نجانے وہ کھالی کدھر پہ چھپا ہوا تھا مگر اتنا تو پکا تھا کہ اس کی منزل بھی جے پور ہی تھی۔
اگر وہ یہاں سے بھاگ گیا ہوتا  تو پکے سے مشن اپ ڈیٹ ہوچکا ہوتا اور
ویر کو نئی لوکیشن مل گئی ہوتی۔

مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔اس کا مطلب صاف تھا۔

کہ کھالی ادھر ہی کہی  پہ تھا ۔

ٹرین سے اُترتے ہوئے ویر اسٹیشن میں ادھر اُدھر نظریں مارتے ہوئے پورے ایریا  کو اسکین کرنے لگا ۔ اِس وقت کھالی کو ڈھونڈنا، اس کے لیے کسی کھیت میں سوئی ڈھونڈنے جتنا کٹھن کام تھا۔  لعنت ہو  ! ! !

رات كے 3 بج رہے تھے اور ویر کو اب نیند آنا شروع ہوچکی تھی ۔

پری كے کہنے پر اس نے تھوڑی دیر آرام کرنا  ہی بہتر سمجھا ۔ ایک خالی جگہ ملتے ہی ویر وہاں بیٹھ گیا۔

منزل اگر اس کھالی کی بھی وہیں تھی تو آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔

آخر وہ کھالی بھی اِس وقت کہیں نا کہیں چھپ كے آرام ہی فرما رہا ہوگا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات بھر كے سمے پتہ نہیں کیسے نکل گیا ،  ویر کی جب نیند کھلی تو آل ریڈی  7:30  بج چکے تھے۔

مشن میں کوئی چینجز نہیں آئے تھے اس کا مطلب ، کھالی اب بھی ٹرین میں ہی کہی موجود تھا۔

ایک بارپھر وہ اپنے مشن کو انجام دینے كے لیے ریڈی ہوا مگر۔۔۔۔

مگر یا  تو اسے اب بدقسمتی کہے یا  ایک اتفاق مگر ویر کو کھالی کہیں پر بھی نہ ملا۔

شاید کھالی جیسے سمجھ چکا تھا کہ ویر اس کے پیچھے ہے اور وہ موقع دیکھ كے ہر اسٹیشن پر اُتَر اُتَر كے جیسے اپنی پوزیشن بَدَل رہا تھا۔ ایک بات اور تھی ، وہ یہ کہ اس کے پاس کیپ اور چشمہ تھا۔

وہ بَدَل بَدَل كے اپنا  انہیں پہنتا اور ایک کوچ سے دوسرے کوچ میں جاتا رہتا۔
دیکھتے ہی دیکھتے ویر کی ٹرین اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی۔

ویر کی آنکھیں کم سونے کی وجہ سے ایکدم لال ہو چکی تھی ۔۔۔ساتھ ہی ساتھ اس نے راگنی كے طرف بھیجا گیا ٹفن تک نہیں کھایا تھا ۔۔۔بھوک بھی زورو کی لگی تھی اسے ۔

آئی ’ وِل کیِل ہِم ۔۔۔ دیٹ باسٹرڈ۔ ہی واز گوئنگ فور د کِیل (‘میں اسے مار ڈالوں گا۔ وہ کمینہ۔ وہ قتل کے لیے جا رہا تھا)۔اس نے ذرا بھی نہیں سوچا مجھے دھکا دینے سے پہلے
ویر ٹرین سے باہر آیا اور پھرسے۔۔۔
اس نے دیکھا۔۔۔

ایکدم نہایت بھیڑ تھی اسٹیشن میں۔۔۔ پُورا بھرا ہوا تھا۔۔۔ ایسے میں اسے اس کھالی کو ڈھونڈنا تھا جو اب نا  صرف ٹرین میں رہنے والا تھا بلکہ پورے جے پور میں کہیں بھی جاسکتا تھا۔

’ لعنت ہو اس پہ ! ! جسٹ ویئر  ڈڈ ہی وینٹ؟ ؟ ؟ (بس وہ گیا کہاں ؟؟؟’)
اس نے جلتے ہوئے من میں چلایا ۔

لگتا ہے ۔۔۔یہ سفر ویر کا ۔۔۔ لمبا  ہونے والا  تھا کیونکہ ویر کا جس سے ٹکر ہونے والا تھا وہ چور بھی شاطر تھا۔  تو  انتظار کرتے ہیں  اگلے آپڈیٹ کا آج کیلئے اتنا  ہی۔

جس رات ویر ٹرین میں بیٹھ كر جے پور جا رہا تھا ، اسی ہی دن کاویہ اور آروحی کالج سے فارغ  ہو کر گھر جا رہی تھی ۔مگر اس دن ان کے ساتھ کچھ اس طرح  واقعہ ہوا۔ کچھ ایسا  جو  پریشانی میں ڈالنے والا تھا۔

کاویہ کلاسز ختم کرکے ہی نیچے آئی اور اسکوٹی كے پاس کھڑی، اپنی بڑی بہن  اروحی کا ویٹ کرنے لگی۔

ویسے تو انہیں کار سے ڈرائیور چھوڑنے آتا تھا ۔مگر آج  کار کسی جگہ بزی تھی۔ اور اس کے چلتے وہ دونوں ہی اسکوٹی سے آئی تھی۔ اروحی اسے اپنے ساتھ بٹھا كے لائی تھی۔

جب اروحی کی بھی کلاسز ختم ہوئی تو وہ  بھی نیچے آئی اور کاویہ کو اسکوٹی كے پاس کھڑا دیکھ کر مسکرائی۔ 

اروحی :

چلے  ؟؟؟

کاویہ :

ہممم ؟ اوہ ! ہمممم !

اروحی نے نوٹس کیا کہ کاویہ کچھ فکرمند سی لگ  رہی تھی

اروحی :

کیا بات ہے  ؟

کاویہ :

ہو ؟ نن۔نہیں تو ؟ کچھ نہیں۔۔۔۔۔

اروحی ( فرونز ) :

ڈونٹ ٹیل آ لائی۔۔۔ٹیل می ! کیا ہوا ؟
کاویہ:

 و،و،  وہ۔۔۔۔۔۔۔

اروحی :

؟ ؟؟

کاویہ :

ویر بھئیا آج کالج نہیں آئے۔ نہ  ہی انہوں نے میرے بھیجے گئے میسجز کا  رپلائی کیا۔
کاویہ کی بات سن کر اروحی اسے  ناک چڑھاتے ہوئے گھوری۔ ویر کا ذکر آتے ہی نجانے کیوں اس کی زبان  پہ تالا  لگ  جاتا تھا۔

اور اسے اس دن کا سین یاد آنے لگتا جس دن ویر کاویہ کو اس کی کلاس میں  چھوڑنے گیا تھا۔

ویر کی بات آتے ہی اروحی نے ٹاپک وہی پہ کلوز کر دیا۔

اروحی :

چلو !
کاویہ :

ہممم !
وہ دونوں  اسکوٹی پہ بیٹھ کر اپنے راستے نکل گئی مگر بیچ راستے تک آتے آتے ہی اروحی کو جیسے کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اور وہ تیز تیز اپنی گاڑی ٹریفک میں لہراتی ہوئے چلانے لگی۔

کاویہ :

دیدی ؟ ؟ ؟  آپ اتنی تیز کیوں چلا رہی ہو ۔ ہم ایکسیڈنٹ کر جائینگے۔

اروحی :

(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

کاویہ : 

دیدی؟ ؟ ؟

اروحی :

سم ون  اِز  فالوونگ آس۔ ( کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے)

کاویہ ( شوکڈ ) :

ہو ؟ ؟

اروحی کی بات سنتے ہی کاویہ ایکدم  شوکڈ رہ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ كے دیکھا تو ایک آدمی پُورا  ہیلمنٹ لگائے بائیک پہ ان کے پیچھے آ رہا تھا۔

 اروحی :

ڈونٹ لُک بی ہائینڈ۔۔۔ (پیچھے مت دیکھو)

اس نے خبردار کیا۔ 

اروحی مرر میں کافی ٹائم سے اس بندے کو اپنے پیچھے آتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ جہاں جہاں وہ ٹرن لے رہی تھی وہیں وہیں وہ بھی ٹرن لے رہا تھا۔۔۔ اور جیسے ہی اسے اِس بات کااحساس ہوا  ،  اس کی دھڑکنیں تیز ہو گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page