Perishing legend king-73-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 73

آنیسہ :

نہیں میں ۔۔۔۔ ویر جی ! شادی كے وقت ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ۔۔۔ جس دن اس نے میرے ساتھ زبردستی کی ، اسی دن میں اپنی جان   دے   دونگی۔ اسے ایک عورت چاہیے تھی  گھر چلانے كے لیے۔

ویر :

اوہ !
آنیسہ

خیر ! بہت ہوگئی باتیں۔۔۔آئی میں۔۔۔ویر جی !میں آپ کو ہاتھ منہ  دھولوا دیتی  ہوں۔

اور آنیسہ كے ساتھ آنگن كے پاس ہی لگے باتھ روم میں جاکے ویر نے اپنے ہاتھ پیر دھوئے۔ ہم اسے باتھ روم نہیں کہہ سکتے، یہ صرف ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا جس میں ٹوائلٹ سیٹ تھی۔

ویر دن سے شام تک آنیسہ كے گھر ہی تھا۔ شام کو وہ کچھ بہانہ کرکے جیسے تیسے گھر سے نکلا  اور گاؤںمیں ہی کھالی کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔

ایک گیسنگ (اندازہ) تھی اس کی کہ شاید۔۔۔۔۔
شاید مشن اپ ڈیٹ ہو جائے اور کوئی نئی لوکیشن مل جائے اسے۔۔۔ اور ٹھیک ویسا ہی ہوا ۔

جب وہ رات كے قریب 10 : 30  بجے بازار كے علاقے سے تھوڑا  دور کہیں چلا  جا رہا تھا  تو اس کی نظر دو شال اوڑھے آدمیوں پر گئی  جو روڈ سے سائڈ میں کھڑے بڑا  ہی خاموشی سے باتیں کر رہے تھے۔

اور جیسے ہی ویر نے انہیں چیک کیا۔
اس کے چہرے پہ ایک مسکان پھیلتی   گئی کیونکہ۔۔۔۔۔۔

کیونکہ اُن میں سے ایک اس کا مشن ٹارگٹ تھا۔

فاؤنڈ  ہِم ! ’

مٹھی کستے ہوئے وہ وہیں اس کھالی کو دبوچنا چاہتا تھا مگر جیسے تیسے خود کو کنٹرول کرکے وہ  وہی  رکا  رہا۔

خالی ایک پیلے رنگ کی اسٹریٹ لائٹ جل رہی تھی جس کے چلتے نظارہ اتنا صاف نہیں دِکھ رہا تھا۔

جیسے ہی کھالی اس آدمی سے بات کرکے الگ ڈائیریکشن میں جانے كے لیے ہوا۔ویر نے اس کا پیچھا شروع کرنا شروع دیا۔

مگر جیسے کھالی کو اگلے ہی پل اِس بات کا احساس ہوا اور وہ بنا پیچھے مُڑے ہی تیز قدموں كے ساتھ آگے بھاگا۔

ویر کہاں  اِس بار پیچھے رہنے والا تھا ؟ جتنی بھی طاقت تھی اس کی ، اس کا پُورا  استعمال کرکے وہ بھی تیز تیز بھاگتے ہوئے اس کا پیچھا کیا۔

اور کسی ایک جگہ پہ آکے وہ رک گیا۔

سامنے بھینسوں کا ایک پرانا طویلہ (اصطبل) تھا جو شاید اب استعمال نہیں کیا جاتا تھا ،

ہر جگہ اتنا اندھیرا تھا کہ ویر کو کچھ دکھائی تک نہیں دے رہا تھا ۔اور نہ ہی کھالی کو۔
کھالی چھپا  تو طویلے میں ہی تھا مگر روشنی جیسے ان کی پریشانی بن کے کھڑی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا اور ویر بس آہستہ آہستہ اپنے قدم طویلے کی طرف بڑھا  رہا تھا۔

مگر اسے  ڈر تھا ۔۔۔۔

کہ کہیں کھالی کوئی سرپرائز اٹیک نہ کردے اُس  پہ کسی ہتھیار سے۔

اسلئے ۔۔۔۔۔۔۔

چیک’ !

جیسے ہی ویر نے چیک کہا۔

اسے طویلے كے اندر چھپےکھالی كے سر كے اوپر اس کی اسٹیٹس ونڈو نظر آ گئی۔

اور اب اسے اندھیرے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ اسٹیٹس ونڈو اپنے آپ میں نیلے رنگ سے چمکتی تھی۔

ایک ہلکی سی مسکان لیے ویر طویلے كے پیچھے جا پہنچا۔

کدھر گیا  سالا ؟ ’

کھالی من میں سوچتے ہوئے دبک كے چھپا ہوا تھا جب اچانک اسے اپنے کاندھے پہ ایک ہاتھ محسوس ہوا۔

جیسے ہی اس نے پیچھے مڑ كے دیکھا۔

سرپرائز مدرفک۔۔۔۔شڑااااک !!!
ایک مکا  اس کے گالوں پہ کسی ٹرین کی رفتار جتنی تیز آکے پڑا۔ وہ حملے سے گر پاتا مگر اس سے پہلے ہی کسی نے اس کی کالر کو پکڑ كے کھینچا اور پھرسے۔۔۔۔۔۔۔

 شڑااااک !!!

 ایک دوسرا مکا  بھی اس کے اسی گالو پہ جاڑ دیا۔  دو مکے كے بعد ہی کھالی كے منہ سے خون نکلنا شروع ہو چکا تھا۔

 فل 50 طاقت کے مکے تھے ویر كے یہ۔

وہ چارو کھانے چت ہو چکا تھا۔

صرف بھاگنے میں تیز تھا  وہ باقی ایک بار پکڑ میں آ جائے اس کے بعد کھالی جیسے کسی چوہے کی طرح تھا ۔ جسے ویر نے روند دیا تھا۔

’ ہممم ! ٹُو ایزی ! ’

ویر نے جیسے ہی اس کا جیب ٹٹولا ، تو اسے جس چیز کی تلاش تھی ۔ وہ آخر مل ہی گئی۔

کھالی كے اوپر ویر نے پھر ایسا غصہ نکالا کہ اس کی حالت خراب کر دی۔

بےچاری پری تک کچھ نہ بول پائی۔

اور اسے اس حال میں ہی چھوڑ کرویر آنیسہ كے گھر کی طرف نکل پڑا۔

گھر کا راستہ اسے یاد نہیں تھا مگر یہیں پہ پری نے اس کی مدد کی۔ سسٹم کا فیچر ٹریکر جو تھا  وہ  راستے کو میمورائز کر لیتا تھا۔

یہ ایک ان بُلٹ فنکشن تھا، جسے ویر نے استعمال کیا اور فائنلی وہ آنیسہ كے گھر لوٹ آیا ۔

اندر آتے ہی اسے ماحول کچھ الگ سا لگا۔
شایدسبھی سو رہے تھے اورصرف ایک ہی پیلے رنگ کا بلب جل رہا تھا۔

دروازے کھلے ہوئے تھے جیسے شاید ویر كے لیے کوئی جاگا ہوا تھا۔

ویر اندر آیا  اور آنگن میں اس نے ہاتھ منہ دھوئے اور اپنی شرٹ اُتار کر سائڈ میں ٹانگ دی ۔

بدن سے پسینے کو گیلی کپڑے سے پونچھا اور وہ کمرے کی طرف بڑھا ۔

 بیگ میں سے وہ ابھی اپنے لیے نئی ٹی شرٹ ڈھونڈ ہی رہا تھا جب اسے اپنے پیچھے سے ایک آواز آئی۔

* کِلک *

دروازے کی کنڈی بند ہوئی۔ اور دروازے كے سامنے آنیسہ کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ اس کے پیچھے تھے جو کنڈی کو بند کر چکے تھے۔

ہو ؟

* چھم چھم *

وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھی ، اس کی پائل کی آواز ہی صرف اس سناٹے میں سنائی دے رہی تھی۔

پاس آتے ہوئے جیسے ہی اس نے ویر کی ننگی چھاتی کو دیکھا تو اس کے گال سرخ لال پڑگئے ۔

ویر اسے صرف پیلے بلب کی روشنی میں ہی دیکھ سکتا تھا۔۔۔ اس نے بھوری رنگ کا بلاؤز پہنا ہوا تھا ، ساڑھی کا پلو پہلے سے ہی اس کی چھاتی سے الگ تھا جس کے چلتے آنیسہ کا آدھا کلیویج وہ دیکھ پا رہا تھا۔

آپ پریشان ہو۔۔۔ ہے نا ؟

 وہ بولتے ہوئے اس کےقریب آئی اور اس کے بغل میں آکے بیٹھ گئی۔

ہلکی روشنی میں وہ الگ ہی قیامت لگ رہی تھی۔

واٹ  د ہیل ؟

 (سسٹم اِز گوئنگ اِن ٹو سلیپ موڈ ) (سسٹم سلیپ موڈ میں جا رہا ہے۔)

ہو ؟ ؟ ؟ واٹ د فک ؟ ؟ ؟ پری ؟ ؟ ؟ واٹ سلیپ موڈ ؟ ؟ ؟ کم بیک  ’
( انجوائے د  نائٹ ! ) [رات کا لطف اٹھائیں!]

ہو ؟ ؟ ؟ کم بیک ہیئر یو ایڈیٹ پیس آف شٹ۔۔۔۔پری ی ی ! ! ؟ پری؟؟؟؟
فوککککککککک ! ! ! ’ ( یہاں واپس آؤ تم بیوقوف گندگی کا ٹکڑا)

Fuccccccckkkkkk!!!’

 اگلے ہی پل آنیسہ نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھاما  اور اٹھاتے ہوئے اپنے چہرے كے پاس لائی اور اپنے کومل نرم ہونٹوں سے انہیں چوم  لیے۔

؟ ؟ ؟ ؟

پھر وہ بڑی ہی عجیب سی نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی اور اس کے سینے کو۔۔۔اور پھر اس کے ہاتھوں کو نیچے لے جاتے ہوئے اس نے ویر كے دونوں ہاتھ اپنے دونوں دودھ کی تھیلیوں پر رکھ دیئے۔ دودھ تھے یا خربوزے۔

’ شٹٹٹٹٹٹ ! ! ! ’

 خربوزے جتنے دودھ ہاتھوں میں  آتے ہی  اور یہ احساس پاتے ہی ویر کی آنکھیں اپنے آپ بند ہو چلی۔

اس کے ہاتھ خود بخود ان دو خربوزوں پر زور سے کسے ہوئےتھے۔

آنیسہ خود زور زور سے سانسیں لے رہی تھی جس کے چلتے اس کی چھاتی اوپر نیچے ہو رہی تھی اور ویر كے ہاتھ بھی اسی تال میں اوپر نیچے ہو رہے تھے۔

یہ ۔۔۔ یہ آپ کیا۔۔۔۔۔۔ ! ؟

 ویر نے بولنا چاہا مگر اگلے ہی پل اس کا منہ بند کا بند رہ گیا ۔۔۔جب آنیسہ نے آگے بڑھ كے اس کے ہونٹ اپنے منہ میں بھر لئے۔

” امممم مممم؟ ؟ ؟ ؟

 اور دونوں بستر پر گر پڑے ۔۔۔۔

سلورپ *
” 
مممم ” ” سسس “

ناجانے کیسی کیسی آوازیں آ رہی تھی جب دونوں كے منہ آپس میں جکڑے ہوئے تھے۔

ویر کو لاسٹ ٹائم سکس کیے کافی سمے ہو چکا تھا۔۔۔ تب سے اب تک اس کے اندر اتنا فریسٹیشن بھرا ہوا تھا ،جسے ریلیز اسے کرنا ہی تھا۔ آج شاید اس کا ڈھیر سارا  اسٹریس ریلیز ہونے والا تھا ۔

اسٹریس كے علاوہ بھی کچھ اور ریلیز ہونے والا تھا۔

جب دونوں کی سانسیں پھول جانے پر الگ ہوئے تو دونوں كے ہونٹوں سے لگا ہوا ایک تھوک کا بریج بن گیا۔

آنیسہ کی آنکھوں میں شہوت صاف صاف جھلک رہی تھی۔

وہیں  ویر کی خود کی آنکھیں کہیں جیسے کھو سی گئی تھی۔

اپنے ہاتھوں کو پیچھے لے جاتے ہوئے آنیسہ نے بلاؤز کھولا اور جھٹکے سے اپنے سینے سے گرا  دیا ۔ اس کے بعد کا نظارہ جو دکھا ، اسے دیکھ كر ویر مانو پاگل سا ہو گیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page