Perishing legend king-84-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 84

” ای پنٹو ۔۔۔۔ جا  زرا چائے کا بول كے آرے بغل والے دادا كے یہاں

 کہتے ہوئے رنگا  اپنے اڈے میں انٹر ہوا ۔ مگر اس کے قدم وہی تھم گئے جب اس نے اپنے بھاؤ کو اپنی کرسی پر دیکھا۔

رنگا

ببھ،،،بھاؤ ! ؟ آپ ؟ ادھر ؟
آتَش :

آؤ  رنگا۔

تمہارا ہی انتظار تھا۔

آج اپنے بھاؤ   کا الگ انداز دیکھ کر رنگا كے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

رنگا :

کیا ہوا بھاؤ ؟ آپ اچانک آج یہاں ؟
تبھی آتَش نے اپنے چہرے سے ٹوپی ہٹائی  اور  نظریں اٹھاکر  رنگا کو دیکھا۔

کھڑے ہوتے ہوئے وہ اس کے پاس آیا اور اس کے ارد گرد گھومنے لگا۔

آتَش :

تمہیں پتہ ہے کیا ہوا ہے ؟

رنگا:

 کککیا ہوا ہے بھاؤ ؟

آتَش :

وہ  ڈائمنڈ رنگ ! کیا ہوا  اس کا ؟ کچھ پتہ ہے ؟

رنگا :

بھاؤ۔۔۔ کککھالی ! کھالی لے کے گیا تھا۔ اور وہ بتایا تھا کہ۔۔۔ کہ اس نے ڈیلر كے آدمی سے ملنے جانا تھا۔

آتَش :

ہم ! اور ؟

رنگا :

اور ؟ ؟ تب سے ۔۔۔  تب سے اس کی کوئی جانکاری نہیں آئی ہے بھاؤ۔

آتَش :

اوہو ! تو تم نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی؟
رنگا :

بھاو ! میں نے اسے کئی بار کال کیا مگر وہ اٹھا ہی نہیں رہا ہے۔

آتَش نے تبھی اپنا فون کھولا اور اس میں ایک فوٹو دکھائی ۔

فوٹو میں ایک لڑکا تھا ۔۔۔ جو کہ ٹرین میں موجود تھا۔

اور اس لڑکے کو دیکھتے ہی رنگا کی آنکھیں  کھلی کے کھلی  رہ گئی۔

رنگا :

یہ ۔۔۔ یہ تو وہی ہے ۔۔۔ وہ جو ۔۔ وہ جو اس رات اس راگنی اور پریوار کو بچا كے لے گیا تھا۔ وییرر ! ! ! !

آتَش ( اسمائیلز ) :

اوہ ! رائٹ !بالکل سہی۔۔۔

رنگا :

مگر یہ . . .

آتَش ( اسمائیلز ) :

یہ امیج مجھے کھالی نے ہی بھیجی تھی۔
یہ بتاتے ہوئے کہ یہ لڑکا اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ کل ہی مجھے فون آیا تھا کہ یہ ویر اس سے  ڈائمنڈ رنگ چھڑا كے لے گیا ہے۔ تم اس کا مطلب سمجھ رہے ہو  نا ! ؟
رنگا: ( گھبراتے ہوئے )

 ننہیں ! ایسا ۔۔۔۔۔

آتَش تبھی اس کے کان كے پاس جھکا اور دھیرے سے بولا۔

اس رات بھی وہی تھا۔ جو تمہیں چکمہ دےکر انہیں بھگا كے لے گیا تھا۔ اور ایک بات اور بتاؤں ؟

رنگا

ہو-ہوہ ؟
آتَش :

کلب سے اس لڑکی کو اس رات بھی وہی بھگا كے لے گیا تھا۔

مانو ایک بم سا پھوڑا تھا آتَش نے اسے یہ بتا کر۔

رنگا :

یہ۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔

آتَش :

تِین غلطیاں تمہاری طرف سے ۔ جانتے ہو نا ؟  تِین غلطیوں کی سزا ؟

رنگا: (خوفزدہ ہوتے ہوئے)

 بھاؤ !۔۔۔بھاؤ۔۔۔۔ سنیے ۔۔۔

آتَش بنا کچھ کہے اپنا  ماؤتھ آرگن جیب سے نکال کر بجاتا ہوا ٹیبل كے پاس گیا۔

اس کے ماؤتھ آرگن کی دھن وہاں موجود سبھی لوگوں كے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی۔

رنگا

بببھ ، بھاؤ۔۔۔ معاف کر دیجیئے ۔۔۔ آگے سے۔۔۔ آگے سے ایسا ۔۔۔۔

اس کے پہلے کہ وہ مزید کچھ بول پاتا۔۔۔۔
ڈکشیاااااں *
اچانک ہی گولی چلنے کی آواز آئی اور ۔۔۔۔

تھوڑ *
ایک شریر نیچے زمین پر گر گیا ۔

گولی رنگا كے سر کو چیرتی ہوئی اندر گھسی اور اس کا ایک ہی بار میں کام تمام کر دیا۔

چہرے پہ گھبراہٹ لیے ہی مر گیا  وہ۔ وہاں موجود سبھی لوگوں كے بدن کانپ اٹھے۔ پینٹ میں پیشاب جیسی حالت ہو چکی تھی۔ کیونکہ ان کے بھاؤ نے اپنے خاص آدمی کو اڑایا تھا ،  رنگاکو!

جُلسے میں تیاریاں کرو۔ اِس چوہے کو اب میں وہ سبق سکھاؤنگا کہ یہ افسوس کرےگا   کہ کاش یہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا  “
اور اتنا کہہ كے آتَش وہاں سے چلا گیا۔

کیا کہا تھا  اس نے ؟ جُججلسے؟ جُلسے میں؟ وہاں موجود لوگوں نے جیسے ہی یہ سنا  ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

جُلسے ان کے آتَش بھاؤ کی پسندیدعمارت کا نام تھا۔ اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے صرف اس سے متعلق تاریخ کو یاد کر کے۔

ایک بڑے سے بنگلے میں ایک بڑے سے کمرے میں اِس وقت ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

اور دو شخص اِس وقت ایک دوسرے کو حیرانی سے گھور  رہے تھے۔

یہ اور کوئی نہیں ، بلکہ ویر اور سہانا  ہی تھے۔
سہانا گم سم سی سامنے ایکدم سے اندر آئے ویر کو دیکھے جا رہی تھی۔

تو وہیں ویر اِس وقت اِس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے ؟

اور تبھی۔۔۔۔۔

*ووف ووف *
ایک بار پھر۔۔۔۔

سائڈ میں باندھے اس کُتے کی آواز سے دونوں کو جیسے ہوش آیا  اور اگلے ہی پل ۔” آہ ! ! ! ! ! ! ! ! ! ” سہانا زور سے چلائی اور ۔۔۔۔۔

ہووووشششش *
ایک تکیہ تیز رفتاری سے ویر کی کھوپڑی پر گرا اور اضطراب کی وجہ سے اس نے اپنا سر ایک طرف کر لیا۔ اس کے کانوں کے پیچھے سے تکیہ نکلا  اور۔۔۔۔۔۔۔.

* بام *
پیچھے بڑے سے دروازے میں جاکے نیچے گر گیا۔

 واٹ د فککک ؟ ؟ ؟ وائے اِز شی ہیٹنگ می؟  فکککککک ! مجھے نکلنا چاہیے یہاں سے”

ویر

ہاہاہا ! آئی گیس۔۔۔ رونگ روم !
(میرا اندازہ ہے۔۔۔غلط کمرہ!)

وہ پلٹتے كے لیے ہوا  مگر تبھی پیچھے سے سہانا چلا پڑی ۔

سہانا

یو یووو ۔۔۔یوکککم۔۔۔ بیک ۔۔ کم بیک ہیئر ۔۔۔ کم بیک ۔۔۔

نہ چاہتے ہوئے بھی اسے مڑنا  ہی پڑا ۔

سہانا  کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ ایسا ری ایکٹ کر رہی ہے۔ جیسے وہ اب ویر کو مار ڈالے گی۔

’ ویٹ ! شی۔۔۔ فکککک۔۔۔ وہ ناراض لگ رہی ہے۔  واقعی ! وہ واقعی بہت غصے میں لگ رہی ہے

سی  اٹ ! ؟

ویر كے کانوں میں کچھ بول پڑے۔ مگر وہ اتنی دھیمی آواز میں بولے گئے تھے کہ اس کو گھنٹہ کچھ سنائی دیا۔

ویر :

ہو ! ؟ ؟

سہانا: ( بڑبڑاتی ہوئی)  

یوو ۔۔۔ ڈڈ  یو سی  اٹ ؟ (تم نے اسے دیکھا تھا؟)

ویر :

ہو ؟ و،واٹ ؟ ؟

سہانا

یوووووو ! ! ! ! ڈونٹ میک می رپیٹ۔(مجھے دہرانے پر مجبور نہ کریں۔) میں نے پوچھا ۔۔۔ڈڈ یو سی دیٹ ؟کیا تم نے وہ سب دیکھا ؟

اینڈ ڈونٹ یو ڈیئر لائی ٹو می(اور تم مجھ سے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ کرو۔)
نہیں تو۔۔۔ نہیں تو۔۔۔میں ٹومی کو  تمہارے  پیچھے چھوڑ  دونگی ۔

ویر :

ٹومی ؟

سہانا نے اشارہ کرتے ہوئے سائڈ میں باندھے کتے کی طرف اپنی نظریں کی۔ اس کا کہنا تھا ، کہ سچ بتاؤ ، ورنہ وہ اپنے ڈوگی ٹومی کو اس کی گانڈ كے پیچھے لگا دے گی۔

’ واٹ د فککک ؟  دیٹ ڈوگ وانٹ بائٹ می رائٹ ؟  ہا ہا ~ آئی مِین سی ’ (وہ کتا مجھے نہیں کاٹے گا؟ ہاہا ~ میرا مطلب ہے)۔ دیکھو یہ بہت پیارا ہے.’

وووووووففف *
’ 
فککککککک ’! ! !

 (ہا ہاہا )

سہانا

بببولو جلدی۔۔۔۔۔

ویر ( آہ بھرتے ہوئے ) :

آئی ۔۔۔ یا۔۔۔میں نے دیکھا۔ اینڈ سوری۔
ایسے ایکدم سے اندر آنے كے لیے۔

آخر میں اس نے سچ کہنا ہی سہی سمجھا۔ آفٹر آل ،  ہی ڈڈ سا  اٹ تھو(اس نے اسے دیکھا)۔۔۔ اب وہ جھوٹ نہیں کہہ سکتا تھا۔

مگر جیسے ہی اس نے یہ بات قبول کی ۔

اگلے ہی پل سہانا  کا چہرہ اتنا  سرخ  پڑ گیا اور وہ ٹیڈی کو اٹھا كے اپنی گود میں رکھ کراس کے پیچھے چھپ گئی۔

” ہووووو “.

ہو ؟ ؟ ؟ فک ؟ اِز شی کرائینگ ؟ (کیا وہ رو رہی ہے؟)

اپنے قدم اس نے دھیرے دھیرے سہانا کی طرف بڑھائے اور ہولے سے اس نے ٹیڈی كے کان پکڑکر اسے ہٹایا تاکہ وہ اس کا چہرہ دیکھ سکے۔

اور واقعی ۔۔۔

’ ابے . . . یہ . . . یہ تو رَو رہی ہے

 (۔۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔)

ڈونٹ لاف پری ! ! ’ ’’(ہنسو مت پری) فکک۔۔۔۔ 

ویر :

امم۔۔۔۔ ویر کی آہٹ پاتے ہی سہانا نے اسے ایسی آنکھیں دکھائی جیسے ایک بلی دکھاتی ہے جب کوئی اس کے بچوں كے نزدیک جاتا ہے تو ۔

مگر۔۔۔۔

وہ اپنی گلابی گال پھولائے،  اور اس بار اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ڈراؤنی کم ۔ اور کیوٹ زیادہ لگ رہی تھی۔

ویٹ ! ہا ہا ہا۔۔۔ شٹ ! شی از ایکچولی کیوٹ ۔۔۔ ہو ؟ یہ میں کیا سوچنے لگا ؟ نو وے ! یہ عورت کہیں سے کیوٹ نہیں ہوسکتی۔
وہ سوچنا  تو یہی چاہتا تھا مگر۔۔۔۔

سہانا اپنے ٹیڈی کو کھینچ كے اپنا منہ جیسے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اسے دیکھ كے ویر كے خیالات ڈگمگانےلگے۔
’ 
فکککک ! شی از کیوٹ ۔۔۔ آئی ایگری ! ’
(۔۔۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔۔)

میں نے تمہیں ہنسنے كے لیے منع کیا ہے ۔ پری ! ! !فک ! ! ’

پری:

ماسٹر ! لوکس لائک سہانا  ہیز دیٹ اسپلٹ پرسنیلیٹی۔(ایسا لگتا ہے کہ سہانا میں وہ الگ الگ شخصیت ہے)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page